کیا عمران خان وزیراعظم بن کر پی ٹی آئی قیادت چھوڑ دیں
گے۔یہ سوال ہے جس کے دوران ایک بار پھر اقتدار کی پر امن منتقلی ہونے جا
رہی ہے۔ یہ مثبت پیش رفت ہے۔ یہ شعور اور بالغ نظری کا اظہارہے۔ نئی نسل
بھی با شعور ہے۔ گو کہ مادیت کے فروغ پر ہم کم ہی غور کرتے ہیں کہ اس کی
وجوہات کیا ہیں۔ خاندانوں میں ٹوٹ پھوٹ ہو رہی ہے۔ جب کہ دین اسلام اپنے
ماننے والوں سے توڑنے کے بجائے جوڑنے اور اجتماعیت کا تقاضا کر رہا ہے۔
خاندانی منتشری کے بجائے معاشرتی قربت کی ہدایت دیتا ہے۔ اس کی ضرورت بھی
ہے۔ کئی معاشرے ایسے ہیں کہ ان میں معاشرتی زندگی کے بندھن جیسے کہ نا پید
ہو رہے ہیں۔ قریبی عزیز و اقارب مہینوں یا برسوں بعد آپس میں ملاقات کرتے
ہیں۔ رشتے ناتے ختم ہو رہے ہیں۔ زندگی کی بھاگم دوڑ نے انسان کو اپنا مقصد
حیات اپنی زات کے محور بنا دیا ہے۔ یہی وجہ ہے ہے کہ لوگ اپنے مفاد میں
انسانوں کو استعمال کرتے ہیں کہ جیسے وہ ان کے مہرے ہوں۔ انسان ہی انسان کو
آلہ اور اوزار بنا رہا ہے۔
آج کی جمہوریت میں بھی بعض اوقات کچھ ایسا ہی ہے۔ کرسی اور اقتدار کے لئے
لوگ سب کچھ نظر انداز کر دیتے ہیں۔ جو لوگ اسولی سیاست کا دعویٰ کر رہے تھے،
وہ بھی اصولوں اور کسی قاعدے قانون کو اپنی زات یا اپنی سیاست کے لئے
استعمال کرتے ہیں۔ جو لوگ میرٹ کی بالا دستی کی بات کر رہے تھے وہی آج
اقتدار اور کرسی کے لئے اس کی پامالی کر رہے ہیں۔ جس طرح لوگوں نے کرسی کے
لئے چھوٹی پارٹیوں اور آزاد امیدواروں کی منت سماجت کی اور تمام اصول پس
پشت ڈال دیئے ، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس کے باوجود یہ خوش آئیند بات ہے کہ
لولی لنگڑی جمہوریت چل پڑی ہے۔ جو لوگ فوجی آمریت کی بات کرتے تھا۔ اس کا
ہی رونا روتے تھے۔ وہ بھی سیاسی آمریت کے علمبردار بن رہے ہیں۔ کون ہے جس
میں انا پرستی یا ’’میں‘‘ نہیں۔ شاید اس سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ مگر جو کوئی
لیڈر ہونے کا دعویٰ کرے، وہ ایسا کر سکتا ہے۔ اگر نہ کرے تو اس پر سوال
اٹھیں گے۔ متوقع وزیراعظم عمران خان صاحب بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ جب فرد
واحد ہی تمام فیصلے کرے ۔ اسے ہی آمریت کہا جاتا ہے۔ یا ایک شخص چند مٹھی
بھر افراد کو اپنے ساتھ ملا کر فیصلے کرے، یہ بھی آمریت ہے۔ یا چند لوگ
اپنے مفاد میں کسی ایک فرد کو استعمال کریں اور ہاں میں ہاں ملاتے رہیں، یہ
بھی اس کی ہی کڑی ہے۔ اسی لئے کہتے ہیں ہر فرد میں ایک آمر چھپا ہو اہے۔ یہ
آمر خواہش نفس ہے یا خود کو ہی عقل کل سمجھنے کی سوچ ہے۔ یہ سب ہر گھر میں
ہوسکتا ہے۔ گھر کا سربراہ اگر مشاورت سے نظام چلائے تو یہ آمریت نہ ہو گی۔
مگر چونکہ تما مالی اختیارات، کسی کو کم یا زیادہ نوازنے کا فیصلہ وہی کر
سکتا ہے۔ اس لئے سب اس کے محتاج ہو کر رہ جاتے ہیں۔ یہی بات اسے آمر بناتی
ہے۔ گھر کی یہ آمریت کسی محلے، شہر، ریاست کی آمریت کی مثال ہے۔ جس کے پاس
طاقت اور اختیار ہے، وہ آمر بن سکتا ہے۔
کچھ عظیم اور بلند مرتبہ لوگ ہیں جو طاقت اور اختیار کے باوجود فرعون اور
نمرود نہیں بنتے۔ اﷲ تعالیٰ نے انہیں عقل سلیم سے نوازاہوتا ہے۔ ان کی
بصارت اور سیرت بھی لا جواب ہوتی ہے۔ ہم میں بھی یہ لوگ موجود ہیں۔ مگر
چونکہ ہماری سیاست فرد واحد کے گرد گھومتی ہے ، اس لئے ان کو مواقع کم ہی
ملتے ہیں۔ جیسے کہ مسلم لیگ ن کو میاں محمد نواز شریف اپنی جاگیر سمجھتے
ہیں۔ کیوں کہ اس کی بنیاد انھوں نے ہی رکھی ہے۔ اس پر سرمایہ کاری کی ہے۔
یہ پارٹی بھی ایک کمپنی ہے۔ جسے کمپنی کے طور پر چلایا جا رہا ہے۔ پیپلز
پارٹی پر آصف علی زرداری کا اختیار کل ہے۔ جسے چاہیں رکھیں اور جسے چاہیں
نکال باہر کر دیں۔ وہ اور ان کے فرزند کہتے ہیں کہ اس پارٹی کو ان کے ہی
نانا نے بنایا ۔ اس کے لئے انھوں نے قربانی دی ، خون دیا، اس لئے کوئی بھی
اس پارٹی میں ان کی ہی مرضی سے مستفید ہو سکتا ہے۔ یہ بھی بھٹوز کی ہی
جاگیر ہے۔ اس میں صداقت بھی ہے۔ اس میں سرمایہ کاری بھی ان کی ہے۔ یہ بھی
ایک فرم ہے۔ ایم کیو ایم الظاف حسین کی جاگیر رہی۔ مسلم لیگ ق چودھری شجاعت
حسین کی جاگیر ہے۔ تحریک انصاف بھی اسی طرح عمران خان کی جاگیر ہے۔ 22سال
خان صاحب نے اس پارٹی کے کام کیا۔ کون ہمت کر سکتا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کی
بات کرے اور اس میں خان صاحب کا نام نہ لے۔ جے یو آئی ف مولانا فضل الرحمان
کی سیاسی جاگیر ہے۔ بلکہ یہ جاگیرٰیں سیاسی ہی نہیں بلکہ مالی اور معاشرتی
بھی ہیں۔ جس جاگیردارانہ نظام سے ٹکرانے کی بات کی جاتی ہے، اس میں بات کی
حد تک کوئی سچائی تو ہو سکتی ہے مگر اس میں عمل کی حد تک زرا بھر بھی سچائی
نہیں۔ جو لوگ خود آمرانہ سوچ رکھیں، جاگیرداری کو فروغ دیں، من مانیاں
کرٰیں، جسے وہ اچھا سمجھیں وہ ہی اچھا ہو ، ان کی طرف سے جسے خراب تصور کیا
جائے، وہی برائی ہو تو پھر آمریت اور کیا ہو گی۔جماعت اسلامی پر کسی ایک کا
تسلط نہیں۔ شاید یہ ہی ملک کی واحد پارٹی ہے جو کسی کی جاگیر نہیں۔ مگر یہ
جماعت پتہ نہیں کیوں سیاسی فروغ کی جانب گامزن کیوں نہ ہو سکی۔ یا عوام نے
اسے کیوں قبول نہ کیا۔اسے ہمہ گیر جماعت بنانے میں اس کے ذمہ داروں نے
شایدکچھ کوتاہی کی ہو گی۔ ایسے میں ہم جمہوریت کے ایک نئے دور میں داخل ہو
گئے ہیں۔ 2008کے بعد2013اور اب 2018میں جمہوریت کا تسلسل ہوا۔ پر امن
انتقال اقتدار ہو رہا ہے۔ جوڑ توڑ مکمل ہو رہی ہے۔ ہارس ٹریڈنگ بھی ہو چکی۔
اب جمہوریت کی بات ہو گی۔ اچھی حکمرانی اور میرٹ کی بالا دستی کی منزلیں طے
ہوں گے۔ جو نظام جاگیرداری اور آمریت پر قائم ہو ، وہ ہی اس کے خاتمے کی
بات کرر ہا ہے۔ یہ دلچسپ بات ہے۔ سیاسی آمریت کے اس ظالمانہ نظام کا کب
خاتمہ ہو گا اور یہ نیک کام کس سے سرزد ہو گا۔ یہ ابھی دیکھنا باقی ہے۔
سیاسی آمرہت کا نظام بدلنے کے لئے پارٹیوں کے اندر جمہوریت ، سالانہ پارٹی
الیکشن، پارٹی کی سیاسی سر پرستی اور تا حیات قیادت، بیک وقت دو عہدے رکھنے
کے رواج کا خاتمہ ضروری ہے۔ یہ بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے والی بات ہے۔
عمران خان اگر وزیراعظم بننے کے بعد پی ٹی آئی کی قیادت چھوڑ دیں تو کچھ
بہتری کے امکانات روشن ہو سکتے ہیں۔
|