موہے عشق نچایا کر تھیا تھیا ( آخری قسط *)

بی جان کے اس اعلان نے صرف تین افراد پر بجلی گرائی تھی جبکہ دیگر حاضرین محفل بڑے زور و شور سے تالیاں پیٹنے میں مصروف تھے۔ تارا کو اچانک دنیا گھومتی ہوئی محسوس ہوئی اور وہ گرتی گئی ۔اس کی نیم وا آنکھوں نے دیکھا کہ اس کو گرنے سے بچانے کے لئے بے اختیار ہی دو لوگ آگے لپکے تھے ۔ایک خاور تھا تو دوسرا وہ اجنبی ڈاکٹر عمران تھا۔ مگر شاید ان کو دیر ہوگئی تھی۔ تارا کا سر سٹیج پر پڑی منقش ٹیبل کے کونے سے ٹکرایا اور خون کی دھار نکل پڑی ۔
ہلکی ہلکی تلاوت کی آواز سے صبا کی آنکھ کھلی۔ اس نے بی جان کو اپنے سرہانے تلاوت کرتے دیکھا۔ اس کو ہوش میں آتا دیکھ کر بی جان خوشی سے جھوم اٹھیں ۔ انھوں نے بے اختیار ہی اس کو اٹھنے سے منع کیا۔ صبا نے ان کے ہاتھ پکڑ کر چومے اور کہنے لگی :
بی جان میں آپ کی قصور وار ہوں ۔میں آپ کی بہو تارا نہیں ہوں بلکہ صبا ہوں ۔ مجھے سب یاد آگیا ہے۔یقین کریں کہ میری یادداشت کھونے کے باعث یہ غلط فہمی ہوئی ہے ۔میں تو درحقیقت آپ کو آپ کی بہو کی موت کی خبر دینے آرہی تھی۔
صبا نے بی جان کو اپنے تمام حالات زندگی اول سے آخر تک سنا دیئے ۔
بی بی جان سارے حالات جان کر بولیں ۔
میں نے تمھیں منہ سے بیٹی نہیں کہا بلکہ دل سے مانا ہے۔ انشاءاللہ میں اپنا قول نبھاؤں گی ۔
انھوں نے نوکر سے ڈاکٹر عمران کو بلا کر لانے کو کہا ۔
ڈاکٹر عمران تھوڑی دیر بعد خاور کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا ۔ ۔بی اماں نے کڑے تیوروں سے اس سے استفسار کیا کہ
صبا کو ایک صاف ستھری زندگی کا خواب دکھا کر اس کو بیچ منجدھار کے اکیلے کیوں چھوڑ دیا؟
صبا نے روتے ہوئے اس سے پوچھا
آپ نے طلاق کا داغ میرے ماتھے پر کیوں لگایا ؟
ان بچوں کا کیا قصور ہے جو میری کوکھ میں پل رہے ہیں؟
خاور بے چینی سے بولا
یہ کیا ماجرا ہے؟
تو بی بی جان نے صبا کی پوری کہانی اس کو سنا ڈالی ۔خاور فرط جذبات میں آکر بولا
ڈاکٹر عمران اگر آپ اس مظلوم سے وعدہ ایفا نہیں کرسکتے ، تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنا کر صبا اور اس کے بچوں کو اپنانے کے لئے راضی ہوں ۔"
ڈاکٹر عمران بے اختیار بولا
اللہ گواہ ہے کہ میں نے صبا کو طلاق نہیں دی ۔اس دن ہسپتال سے واپسی پر میرا ایکسیڈینٹ ہوگیا تھا۔ میری بے ہوشی کے دوران میرے والدین نے صبا سے پیچھا چھڑانے کا ارادہ کرکے ساری پلاننگ کرلی تھی۔ جب میں دو ماہ بعد اپنے پیروں پر چلنے کے قابل ہوا تو مجھے بتایا گیا کہ صبا مجھے چھوڑ کر کسی اور آدمی کے ساتھ بھاگ گئی ہے اور میرا سارا اکاؤنٹ صاف کر گئی ہے۔ انھوں نے مجھے صبا کے ہاتھ کا لکھا ہوا خط بھی دکھایا جس میں اس نے اپنے بھاگ جانے کی ذمہ داری قبول کی تھی ۔ مگر میں دن رات صبا تم کو دیوانہ وار ڈھونڈتا رہا اور آخر کار آج تم مجھے مل ہی گئی ۔
صبا نے بے اختیار ہی عمران کا ہاتھ پکڑ کر کہا
مجھے اللہ تعالی کی ذات پر پورا یقین تھا کہ وہ مجھے اندھی کھائی میں گرنے نہیں دینگے ۔للہ اب میری نظروں سے اوجھل مت ہوئیے گا۔
عمران نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر کہا
انشاءاللہ اب آپ کبھی بھی اکیلی نہیں ہونگی ۔
خاور اور بی جان نے ہنکورا بھر کر ان دونوں کو اپنی موجودگی کا احساس دلایا ۔
صبا اور عمران کھل کر ہنس پڑے اور فضا میں ہر طرف شادمانی کے رنگ بکھر گئے۔
(ختم شد)۔

Mona Shehzad
About the Author: Mona Shehzad Read More Articles by Mona Shehzad: 168 Articles with 263452 views I used to write with my maiden name during my student life. After marriage we came to Canada, I got occupied in making and bringing up of my family. .. View More