دنیا میں اللہ تعالی کی بے شمار نعمتیں ہیں،ان نعمتوں میں
سے ایک نعمت اولاد کا ہونا بھی ہے،اولاد کا ہونا اللہ کی ایک ایسی نعمت ہے
جسکے مقابلے میں دنیا بھر کی اشیاء بے وقعت ہیں،اس نعمت کے قدردان وہی لوگ
ہیں جو اس نعمت سے محروم ہیں،دنیا کا تمام مال خرچ کرکے بھی اولاد جیسی
نعمت حاصل نہیں کی جاسکتی۔
اولاد کا ہونا اللہ کی نعمت کے ساتھ ساتھ اللہ کی امانت بھی ہے۔ ہر امانت
کی ذمہ داری کے متعلق بروئے حدیث قیامت کے روز پوچھا جائے گا کہ کیسے ذمہ
داری پوری کی؟کیا اپنی ذمہ داری کو بخوبی سرانجام دیا یا نہیں؟رسول اکرم نے
فرمایا! تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں
باز پرس ہو گی، حاکم ذمہ دار ہے اور اپنی رعایا کے بارے میں اس سے پوچھا
جائے گا۔ مرد اپنے گھر کا ذمہ دار ہے اس سے اس کی رعایا کے بارے میں یعنی
بیوی بچوں کے بارے میں سوال ہو گا۔
گذشتہ چند سالوں سے ملک "پاکستان"میں بچوں اور بچیوں کے ساتھ جنسی واقعات
کا بڑھنا اس بات کی علامت ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں میں کوتاہ ہیں۔اپنی ذمہ
داریاں نبھانے سے قاصر ہیں۔کسی کو اپنی ذمہ داری کا علم تک نہیں ہوتا اگر
کسی کو علم ہو تو اسکو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اسکی کونسی ذمہ داری سب پر
مقدم ہے؟۔قوم کو یہ شعور دیا جائے کہ ذمہ داری کا ادراک کرکے اس پر
عملدرآمد سے وہ خوش گوار زندگی جی سکتی ہے۔
غیر سرکاری ادارے "ساحل"کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر روز 9 سے زائد
بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی ہوتی ہے۔اگر ہر روز 9 سے زائد بچیاں جنسی زیادتی
کا شکار ہوتی ہیں تو سالانہ 3000 سے زیادہ بچیاں جنسی زیادتی کا شکار ہورہی
ہیں۔یہ ایک اسلامی ملک کی رپورٹ ہے جہاں اس فعل کو ازروئے اسلام بدترین
گناہ سمجھا جاتا ہے،غیر اسلامی ممالک جہاں اس فعل کو گناہ نہیں سمجھا جاتا
انکی حالت ناقابل قلمبند ہے۔بچوں اور بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے بڑھتے
ہوئے واقعات میں جہاں مجھے ملکی اداروں کی خامیاں نظر آتی ہیں وہیں مجھے
بچوں کے والدین،رشتہ دار اور اس معاشرہ کے ہر فرد کی خامی بھی نظر آتی ہے۔
بچوں کے ساتھ بڑھتے جنسی واقعات کا سدباب:
والدین بچوں کو حفاظتی اقدامات سے روشناس کرائیں،والدین بچوں کے ساتھ
دوستانہ تعلق بنائیں تاکہ بچے ہر کام میں والدین سے مشاورت کریں،بچوں کی
تربیت اسلامی ماحول میں کریں تاکہ بچوں کو اسلام کے احکامات سے شد بد حاصل
ہو،والدین بچوں کی حرکات و سکنات پر کڑی نظر رکھیں،بچوں کو انٹرنیٹ کے فحش
مواد سے باز رہنے کی کسی بھی طریقے سے ترغیب دیں اور نقصانات سے آگاہ
کریں۔اسی طرح بچپن کے زمانے میں جو کردار بنائے جاتے ہیں وہ تا عمر بچے کے
ساتھ رہتے ہیں، اللہ والدین کو حقیقی طور پر باکردار شخصیات کے ساتھ بچوں
کی تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ملکی ادارے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی روک تھام
کیلئے سخت اقدامات کریں،بچوں کو انکی ذمہ داری سے متعلق آگاہی فراہم کرنے
کیلئے اساتذہ اکرام سے مشاورت کرکے کوئی نظام تشکیل دیں جو ایسے واقعات کو
روکنے میں اہم کردار ادا کرے،ایسے افراد کی ٹیم تیار کی جائے جو ایسے
واقعات کی جانچ پڑتال کے بعد مجرم کو کڑی سزا دے اور ایسے واقعات کی میڈیا
میں بحث پر پابندی عائد کریں۔سزائیں نہ صرف بڑھائی جائیں بلکہ سزائیں جلد
سے جلد مجرم کو دلوائی جائیں۔
معاشرہ کے ہر ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کے ساتھ حسن سلوک کریں،بچوں
کی حفاظت کو اپنی حفاظت سمجھیں اور بچوں کو غلط حرکات سے روکیں۔
یہ بچے ہی ہیں جو مستقبل میں کسی قوم کے معمار بنتے ہیں۔بچوں کو تسلی دیں
تاکہ وہ اپنے آپ پر انحصار کرنا سیکھیں۔ماں باپ دونوں بچوں سے پیار
کریں،ایک معمول بنائیں اور نظم و ضبط کا ایک سا مثبت طریقہ اپنائیں تاکہ
بچے خود کو محفوظ محسوس کریں۔ |