اس سال یوم آزادی کی خصوصیت یہ ہے کہ وزیراعظم کے حفاظتی
دستے میں پہلی بار خواتین شامل ہوں گی۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ جو شخص خواتین
کے تحفظ کا نعرہ لگا کر اقتدار سنبھالنے کے بعد مظفر پور اور دیوریا کی
سرکاری پناہ گاہوں میں بنت حوا کو ظلم و جور سے نہیں بچا سکا تھا اس نے
خواتین کو اپنا محافظ بنالیا۔ جس کی سرکار میں چندی گڑھ کی عدالت کے اندر
ایک لڑکی کو اس کے محافظ حوالدار سمیت اس لیے گولیوں سے بھون دیا گیا کہ اس
نے ایک دلت نوجوان سے شادی کرلی تھی وہ اس کی مدد کرنے کے بجائےطلاق ثلاثہ
پر قانون کو کمزور کرکے اسے منظور کرانے میں مصروف رہا تاکہ بیٹی بچاو بیٹی
پڑھاو کے نام پر کم از کم مسلم خواتین پر احسان جتا دیا جاتالیکن اس دوران
رافیل بدعنوانی پر ذرائع ابلاغ کا جس طرح گلا گھونٹا گیا اس سے آزادی کا
جشن بے جان ہوکر رہ گیا۔ اس پابندی پر خاموش رہنا آزادی کی توہین ہے ۔
بقول حفیظ میرٹھی ؎
ستم کی تیغ یہ کہتی ہے سر نہ اونچا کر
پکارتی ہے بلندی کہ زندگی ہے ادھر
میڈیا پر تعذیب و آزمائش کے سلسلہ ویسے تو کبھی بند ہی نہیں ہوا مگر اس
میں شدت اے بی پی کے ماسٹر اسٹرائیکر پونیہ پرسون واجپائی کے استعفیٰ
سےآگئی ۔ ان کے ساتھ چینل کے مدیر اعلیٰ ملند کھانڈیکر سے بھی استعفیٰ لیا
گیا نیز حکومت پر تنقید کرنے والے ایک اور دلیر صحافی ابھیسار شرما کو
دوہفتوں کی زبردستی تعطیل پر روانہ کردیا گیا۔ یعنی اوپر نیچے دائیں بائیں
ہر طرف سے ہلہ بول دیا گیا۔ ملک کے باضمیر صحافیوں کے لیے یہ ایک پیغام سے
زیادہ دھمکی ہے۔ اس کا اثر یہ دیکھنے میں آیا کہ رافیل گھوٹالے پر سابق
وزرائے بی جے پی یشونت سنہا، ارون شوری اور معمر وکیل پرشانت بھوشن کی دہلی
کے اندرہونے والی پریس کانفرنس ذرائع ابلاغ سے غائب ہوگئی جس میں حقائق اور
اعدادوشمار کی روشنی میں ثابت کیا گیا تھا کہ کس بڑے پیمانے پر کھلے عام
دھاندلی ہوئی ہے۔اس خبر سارے بڑے اخبارات اور ٹی وی چینلس پر بلیک آوٹ کیا
گیا ۔ انڈین ایکسپریس جیسا جری اخبار بھی خاموش کردیا گیا ۔ ٹائمز آف
انڈیا نے اسے اکانامک ٹائمز میں جگہ دی جس کو عام لوگ نہیں پڑھتے گویا اس
سال پھریوم آزادی کے موقع پر فیض کی نظم زندہ ہوگئی؎
نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے جسم و جاں بچا کے چلے
اہل ہوس جب اپنی ترکش کے سارے تیر چلا چکے تو انہوں نے دیکھا کہ کئی نشانے
خطا ہوگئے ۔ ان کے سامنے ونود دوا جن گن من کی بات میں مودی جی کے من کی
بات یا من پسند بات کہنے کے بجائے حکومت کے چیتھڑے اڑا رہے تھے ۔ انہوں نے
رافیل بدعنوانی کو نہ صرف بوفورس کے تناظرمیں بیباکی سے پیش کیا بلکہ اس کے
ساتھ حکومت کی جانب سے کالے دھن کی معلومات کو چھپانے کی کوشش کا پردہ فاش
کرکے اسے اور بھی معنی خیز بنا دیا۔ ونود تو خیر دی وائر نامی پورٹل اور یو
ٹیوب کے ذریعہ محدود عوام تک پہنچتے ہیں لیکن رویش کمار نے این ڈی ٹی وی پر
رافیل معاملے کو زور و شور سے چلا دیا ۔ انہوں نے پرائم ٹائم میں کمال
دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئےنہ صرف پریس ریلیز کی روشنی میں حقائق کی تفصیل
پیش کردی بلکہ پرشانت بھوشن کا انٹرویو بھی ببانگ دہل دکھا دیا۔ پرسون جوشی
کے سفر کو رویش کمار نے جس طرح آگے بڑھایا اسے دیکھ کر احمد فراز کی یہ
نظم یاد آگئی؎
میں کٹ گروں کہ سلامت رہوں یقیں ہے مجھے
کہ یہ حصار ستم کوئی تو گرائے گا
تمام عمر کی ایذا نصیبیوں کی قسم
مرے قلم کا سفر رائیگاں نہ جائے گا
اس طرح گویاپرسون کے ارد گرد جو حصارِ ستم اٹھائی گئی اس کو رویش کمار نے
گرا دیا اورعزیمت کی راہوں کو روشن کردیا۔ یہ اس دھمکی کے باوجود ہوا جو
پونیہ پرسون واجپئی کو دی گئی تھی کہ تمہارے ساتھ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ ویسے
تو یہ معمولی بات ہے لیکن اگر مودی جی یا شاہ جی کے دفتر سے کہی جائے تو اس
کامطلب خطرناک ہوجاتا ۔ جو لوگ اپنے ساتھی ہرین پنڈیا پر رحم نہیں کھاتے ۔
جن پر ان کے اپنے پریوار کا شعلہ بیان ڈاکٹر پروین توگڑیا قتل کا الزام
لگاتا ہے۔ جن کے تئیں شری رام سینا کا بانی پرمود مطلق موت کے اندیشے کا
اظہار کرتا ہے ان کے سامنے کسی عام صحافی کی کیا حیثیت؟ لیکن رویش جیسے خاص
لوگ جانتے ہیں کہ ان کی ملازمت چھن سکتی ہے ۔ان پر گوری لنکیش کی طرح جان
لیوا حملہ بھی ہوسکتا ہے لیکن ان سارے اندیشوں کو باوجود اپنا فرض منصبی
ادا کرنے میں پس پیش نہیں کرتے۔ علامہ اقبال نے ایسے ہی بہادر صحافیوں کی
بابت کہا ہے؎
آئین جوانمرداں حق گوئی و بیباکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
رویش کمار نے نہ صرف رافیل گھوٹالے کا پردہ فاش کیا بلکہ ۱۸ جون کو گئو کشی
کے شبہ میں ہاپوڑ کے اندر ہجومی تشدد کا شکار ہونے والے سمیرالدین اور قاسم
قریشی پر جان لیوا حملہ کا ایک اسٹنگ آپریشن بھی پیش کردیا۔اس میں قاسم کی
موت واقع ہوگئی تھی۔ پولس نےاس معاملہ کو موٹر سائیکل کی پارکنگ کا معمولی
جھگڑا بنا کر ملزمین کو ضمانت پر رہا کروا دیا ، لیکن خفیہ کیمرے کے سامنے
ایک ملزم راکیش سسودیہ نے فخریہ اعتراف کرلیا کہ ”ہاں میں نے جیلر کے سامنے
بولا کہ وہ گائے کاٹ رہا تھا ، میں نے اسے کاٹ دیا۔ “ اس پر نہ اس کو ندامت
تھی نہ خوف تھا ۔ انتظامیہ کو بھی مقتول یا اس کے اہل خانہ سے کوئی ہمدردی
نہیں ہوئی ۔ سسودیا کا دعویٰ ہے کہ ”جب میں ضمانت پر چھوٹ کر جیل سے باہر
آیا تو لوگوں نے میرا ہیرو کی طرح گرم جوشی کے ساتھ استقبال کیااور راکیش
سسودیا زندہ باد کے نعرے لگائے۔ اس سے پتہ چلتا ہے یوگی کے جنگل راج میں
وحشی درندوں کے حوصلے کس قدر بلند ہوچکے ہیں ۔ ورنہ یہ بدمعاش نہ کہتا کہ
’’لوگوں نے اپنا بازو پھیلا کر میرا استقبال کیا ، مجھے اس بات پر بڑا فخر
محسوس ہوا۔ “ یہ اس لیے ہوا کہ مجرمین کو سرکاری پشت پناہی مل گئی اور
مظلوم کی فریاد رسی کرنے والا کوئی نہیں رہا ؎
بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
این ڈی ٹی وی نے ہاپوڑکے علاوہ اپریل ۲۰۱۷ میں الور ضلع کے اندر پہلو خان
کے قاتل وپین یادو سے بھی گفتگو کی اور اس نے بھی بلا جھجک اپنے جرم کا
اعتراف کرلیا۔ ویپن بڑے فخر سے کہتا ہے کہ ”ہاں ہم لوگ ڈیڑھ گھنٹے تک پہلو
خان کو مسلسل پیٹتے رہے۔ متاثرین کی گاڑی کو اس نے ہی اوور ٹیک کرکے روکا
تھا اور بعد میں زبردستی گاڑی کی چابی نکال لی تھی‘‘۔یہ سربستہ راز جب فاش
ہوگئے تو ان شواہد کے ساتھ عدالت عظمیٰ کے دروازے پر دستک دی گئی ۔جسٹس
دیپک مشرا کی بنچ نے اس کی فوری سماعت کے لیے ۱۳ اگست کی تاریخ مقرر کردی ۔
ہاپوڑ کے اندر ہجومی تشدد میں زخمی ہونے والے سمیع الدین کی عرضی میں معروف
و ممتاز قانون داں ورندا گرور نے مطالبہ کیا کہ مذکورہ مقدمہ کی تفتیش
عدالت کی نگرانی میں ایس آئی ٹی سے کرائی جائےاور اس مقدمہ کو یوپی سے
باہر منتقل کردیا جائے ۔ عدالت سے یہ درخواست بھی کی گئی کہ یودشٹھر اور
سسودیا سمیت سارے ملزمین کی ضمانت رد کی جائے۔ اس سے گھبرا کر اترپردیش اور
راجستھان پولس نے بھی ویڈیو کو شاہد مان کر ضمانت مسترد کرنے کامطالبہ
کردیا۔ حکومت کے خلاف تنہا ڈٹ جانے والے رویش کمار جیسے جانباز صحافی پرفیض
کا یہ شعر صادق آتاہے کہ ؎
بہت ہے ظلم کے دست بہانہ جو کے لیے
جو چند اہل جنوں تیرے نام لیوا ہیں
رافیل کو لے کر حکومت اس قدر خوفزدہ اور بوکھلائی ہوئی ہے کہ نہ صرف اس سے
متعلق پریس کانفرنس کودفن کروا دیا گیا بلکہ جب ایوان پارلیمان میں کانگریس
نے اس مسئلہ کو اٹھایا تو انڈین ایکسپریس نے اسے اندر کے صفحہ میں جگہ دے
دی ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اس دن میرے اپنے گھر میں انڈین ایکسپریس کے بجائے
ٹائمز آف انڈیا آگیایعنی ایکسپریس کی کاپیاں درمیان سے غائب کر دی گئیں۔
مجھے وہ خبر دیکھنے کے لیے نیٹ پر جانا پڑا مگر واپس آکر جب میں نے رافیل
کو ٹائمز میں تلاش کرنے کی کوشش کی تو مایوسی ہوئی۔ ٹائمز میں قومی خبروں
کے لیے ۷ صفحات مختص ہوتے ہیں اس کے باوجود ان میں رافیل کی پارلیمانی بحث
کو جگہ نہیں ملی حالانکہ دلتوں کے متعلق راہل کا بیان موجود تھا ۔ اس سے
زیادہ تعجب کی بات یہ تھی کہ ادارتی صفحہ پر معروف صحافی گوتم ادھیکاری کا
گودی میڈیا سے متعلق طویل مضمون شائع ہوا جس میں ہندوستانی نہیں بلکہ
امریکی میڈیا کی حالتِ زار پر گفتگو کی گئی تھی۔ مودی جی کے بجائے ٹرمپ کو
آگ اگلتی تصویر بناکر نشانہ بنایا گیا۔ یہ شرمناک صورتحال ایمرجنسی کے
دوران کہی گئی حفیظ میرٹھی کے شعر کا شاخسانہ ہے ؎
آج کچھ ایسا طے پایا ہے حق کے اجارہ داروں میں
جو اہم پر ایمان نہ لائے چنوا دو دیواروں میں
رافیل کی بابت بی جے پی کے بہت زیادہ محتاط ہونے کی دو بنیادی وجوہات ہیں
اول تو اس میں جو گھپلے بازی ہوئی ہے اس کو چھپایا نہیں جاسکتا۔ طیاروں کی
قیمت ۶۷۰ کروڈ فی طیارہ سے بڑھ کر ۱۶۶۰کروڈ تک پہنچ گئی جس سے سرکاری خزانے
کو ۳۵ہزار کروڈ کا نقصان ہوا ۔ دوسرے انہیں ہندوستان میں بنانے کی شرط ختم
کرکے ’میک ان انڈیا ‘ کا خواب چکنا چور کردیا گیا۔ تیسرے اس میں سے ۶۰ سال
کا تجربہ رکھنے والی سرکاری کمپنی ایچ اے ایل کو ہٹا کر ۱۶ دن قبل بننے
والی ناتجربہ کار ریلائنس ڈیفنس کو شامل کردیا گیا جبکہ اس کے مالک انل
امبانی کئی ہزار کروڈ کا خسارہ کرکے مقروض چل رہے تھے۔ یہ سارا معاملہ وزیر
دفاع کے توسط سے ہوتا تب بھی مودی جی اپنا ہاتھ جھٹک کر الگ ہوجاتے اور
بعید نہیں کہ وزیر موصوف کو بلی کا بکرا بنا جیل بھیج دیتے لیکن یہ کام
مودی جی نے خود اپنی نگرانی میں کیا ۔ اس لیے راہل گاندھی کا الزام کہ وہ
بدعنوانی کے معاملے میں چوکیدار نہیں بلکہ بھاگیدار ہیں پوری طرح صادق آ
گیا۔ دراصل مودی جی کو بچانے کے لیے رافیل سودے کو دبایا جارہا ہے۔
ہندوستان کا ایک قدیم مذہب سناتن دھرم ہے جسے ہندو مت بھی کہتے ہیں۔ اس میں
قوم پرستی کی کڑواہٹ ملا کرسنگھ پریوار نے اسے ہندوتوا بنادیا اور بی جے پی
نے مودی جی کی شخصیت پرستی کا زہر گھول کر اسےمودیتوا میں تبدیل کردیا۔ اب
مودیتوا سے پنگا لینے والوں کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی جارہی پونیہ پرسون
جوشی کے بارے میں یہی ہوا انہوں نے ایک ایسے جھوٹ کا پردہ فاش کیا جس میں
مودی جی ملوث تھے۔ جھارکھنڈ کی ایک عورت سے مودی جی نے ٹیلی ویژن پر پوچھا
تمہاری آمدنی کتنی بڑھی تو اس نے جواب دیا دوگنی ہوگئی۔ جوشی نے اپنے
ذرائع سےتصدیق کرنے کی کوشش کی تو اس عورت نے کہہ دیا مجھ سے زبردستی یہ
بات کہلوائی گئی تھی۔ اس خبر کے نشر ہوتے ہی ہنگامہ کھڑا ہوگیاکیونکہ ایک
زمانے میں ذرائع ابلاغ حکومت کی کارکردگی پر نظر رکھتا تھا اور اس کی
کوتاہی سے عوام کو سرکار کو آگاہ کرتا تھا لیکن اب زمانہ بدل گیا ۔ میڈیا
پر سرکار نظر رکھتی ہے اور اس کی غلطی سے چینل یا اخبار کے مالک کونہ صرف
آگاہ کرتی ہے بلکہ دھمکاتی بھی ہے کہ اپنی دوکان چلانا چاہتے ہو تو صرف
ہمارا مال بیچو ایسے شرفاء کی زبان پر یہ شعر ہے؎
کچھ کمایا نہیں بازار خبر میں رہ کر
بند دکان کریں بے خبری پیشہ کریں
وزیراعظم کے جھوٹ کا پول کھولنے کے بعد ماسٹر اسٹروک کی نشریات کے وقت سگنل
خراب ہونے لگا۔ اشتہار دینے والوں کو ڈرا دھمکا کر روک دیا گیا یہاں تک ۲۰
منٹ کے اشتہار گھٹ کر ۳ منٹ تک آگئے۔ اس کے علاوہ وزیراعظم کے دفتر سے فون
پر تفتیش کے نام پر دھمکی موصول ہونے لگی ۔ کہا گیا دوسرے وزراء کی بات
کریں لیکن مودی جی کا نام نہ لیں لیکن جب جواب ملا کہ مودی جی ہر کام کا
کریڈیٹ لیتے ہیں تو ان کا نام کیوں نہ لیا جائے اس پرجبری استعفیٰ تک بات
پہنچ گئی۔ یہ سانحہ اس کا ثبوت ہے کہ مودی سرکار ڈر گئی ہے اس لیے اس نے
ڈرانا دھمکانا شروع کردیا ہےلیکن پونیہ پرسون جوشی جیسے لوگوں کو خوفزدہ
کرنا آسان نہیں ہے ۔ معروف شاعراحمد فراز کے قبیلےوالوں کا تو یہ شعار
ہوتا ہے کہ ؎
سو یہ جواب ہے میرا مرے عدو کے لیے
کہ مجھ کو حرص کرم ہے نہ خوف خمیازہ
اسے ہے سطوت شمشیر پر گھمنڈ بہت
اسے شکوہ قلم کا نہیں ہے اندازہ
|