تحریر تھوڑی لمبی ہے پر پڑھیے گا ضرور بہت محنت سے لکھی
ہے
سلجھا ہوا انسان ہوں
الجھے ہوئے مزاج کا
عید کا دن یہاں کئی لوگوں کے لیے اداسی لاتا ہے۔۔۔ آج صبح مسجد میں نمازِ
عید کے بعد کئی ایسے چہرے دیکھے ، جو بے رنگ اور بے تاثر تھے.ان کو شاید
امید اور آس تھی کہ کوئی اپنا آئے اور انہیں عید مبارک کہہ کر گلے لگا
لے.اور وہ گھر جائیں تو اپنے والدین، بیوی بچوں کے ساتھ عید کا مزہ
لیں.لیکن، مجبوریِ روزگار انہیں اپنوں سے بہت دور لے آیا. جہاں تنہائی میں
یہ لوگ انہیں یاد کر کے رو سکتے ہیں، سسکیاں بھر سکتے ہیں.چھٹی نا ملنے یا
ٹکٹ کہ پیسے نا ہونے کی وجہ سے یا اور بہت سی مجبوریوں کی وجہ سے اپنے
لوگوں کہ ساتھ عید نہیں منا سکتے.فون پیکچز یا انٹرنیٹ جن کو میسر وہ اپنوں
سے باتیں کر کہ تھوڑا دل بہلا سکتے.پر فون بند ہونے کے بعد پھر وہی حالت
میں ایک عام سا پردیسی ہوں جو کئی سال پہلے ہی وطن بدر ہوا تھا جس کہ سبھی
اپنے وطن پاکستان اور آزاد کشمیر میں بستے ہیں اور آج اُن سب کی عید ہے.
پردیس میں گزرنے والا تیسواں یوم عید پردیس کی عیدوں کی اکثر چاند راتیں
کام سے آتے ہوے رستے میں ہی گزرتی کام سے واپسی پر آتے جاتے رستوں میں ہی
اپنے پیاروں کو عید کی مبارکباد دی اور وصول کر لی اگر موقع ملا تو کسی
دوست کی طرف چلے گئے اس سے کسی من پسند کھانے کی فرمائش کر لی یا اس کی
فرمائش پوری کر دی یا عید کا پورا دن سو کہ گزار دیا۔۔ بس ایسی دکھی بے رنگ
اور بے جان ہوتیں ہیں پردیس کی عیدیں. نا کسی کہ کپڑے زرق برق نا گلیوں میں
بچوں کا شور نا کسی نے گلی میں ٹھیلا لگایا نا کوئی اجنبی گلے ملا. میں نے
آج عید پڑھنے کہ بعد واپسی پہ نوٹ کیا اسی فیصد لوگوں نے وہی پہلے والے
کپڑے پہنے ہوئے تھے. جو وہ عام دنوں میں جمعہ کے دن پہنتے. نارمل عام سی
گھر میں پہننے والی چپلیں پہنی ہوئی. بس ایک عام سا دن تھا جو آیا اور مذید
اداس کر کہ جا رہا ہے. مجھے خبر نہیں کہ عید کا اداسی سے کیا چکر ہے. عید
آتی ہے تو لاکھوں پردیسی تڑپ جاتے ہیں. لاکھوں وطن سے دور اس دن گھٹ گھٹ کر
سوچ رہے ہوتے کیسا ہو گا میرے دیس کا حال اپنوں کو دھڑا دھڑ رقوم بھجوانے
والا خود ایک کپڑے اور بنیان تک نا خرید پایا ہو اپنی خوشیوں آرزوں کو قتل
کر کہ گھر والوں کو خوشی خوشی کہہ رہا ہو گا فلاں کو یہ لے کہ دینا فلاں کو
یہ اس کو اتنی عیدی دینا اس کو اتنی جن کی ماں ہو گی ماں اپنے لعل کو کہہ
رہی ہو گی اللہ خیر کرے پتر پردیس میں تو ہے کلیجہ میرا جل رہا ہے۔۔کئی
بیٹیاں باپ کو دیکھنے ان کہ ساتھ گھومنے پھرنے کیلئے اپنا آدھا خون جلا رہی
ہوں گی. ہر بار سوچتا ہوں کہ پردیس کی یہ آخری عید ہو گی لو جی پھر عید آ
گئی مگر آخری نا ہوئی.بس پھر یہ ہی دعا نکلتی دل سے جن کیلئے یہ عید ہمیں
جلاتی وہ اپنے گھروں میں خوش وخرم رہیں ان کہ دل کی ہر جائز خواہیش پوری
ہو.اور انکو خوش دیکھ کہ دل کو کچھ حوصلہ بھی ہو جاتا چلو میں تکلیف میں
ہوں پر اتنے لوگ خوش بھی تو ہیں پردیس میں رہ کہ شدت سے احساس ہوتا گھر
والےکیا ہیں دوست یار کیا ہوتے محلے والے کیا ہوتے میری التجا ہے ان لوگوں
سے جن کو یہ سب میسر ہے ابھی قدر کر لیں ورنہ بہت پچھتانا پڑے گا ہم تو اب
خود سے بھی روٹھ چلے ہیں دوریاں عادت بن گئی ہیں جذبات کی ٹھاٹھیں مارتی
لہریں ماند پڑ گئی ہیں جیسے دل سے اٹھنے والے آتش فشاں پر برف کی سیلیں جم
گئی ہوں خیالوں کے پرندے اڑ اڑ کر تھک گئے ہوں مگر جب جب عیدیں آتی دوریاں
ستاتی احساس جاگتے دل کہ آتش فشاں سے برف پگھلنے لگتی جذبات مچلنے لگتے ہم
پردیسی دکھی دلوں کے ساتھ گھروں کو کال ملاتے فیملی کہ ساتھ باتیں کرتے ہوے
دل روتے مگر ہنس ہنس کر باتیں کرتے ہر چیز مقدر ٹھہری اور ہم مقدروں کہ اس
کھیل میں مطمئن ٹھہرے.آپ نے کبھی سوچا ہے ممتا کیا ہوتی ہے باپ کی شفقت کیا
ہوتی ہے بہن کا پیار کیا ہوتا بھائی کی چاہت کیا ہوتی آج عید کہ دن بہت سے
دوست بھائی بہنیں اپنوں سے دور ہوں گے اپنے وطن سے دور ہوں گے ایسا نہیں کہ
وہ تنہا ہوں گے انکے ساتھ بہت سے دوست ہوں گے محفل ہو گی لیکن ماں کی ممتا
نہیں ہو گی باپ کی شفقت نہیں ہو گی بہن کا پیار بھائی کی چاہت نہیں ہوگی ہو
سکتا ہے ایک فون آئے ہو سکتا ہے نا بھی ائے بس سب سے بات ہو گی جب تک بات
ہو گی دل کو ڈھارس رہے گی جب کال بند ہو گی تو ہو سکتا بہت سی آنکھوں سے
آنسو آ جائیں وہ بچپن کی عیدیں یاد آ جائیں نئے کپڑے سلوانا نیا جوتا لینا
گھر والوں سے عیدی لینی ماں جی کہ ہاتھوں کی بنی سویاں کھانی بھائیوں بہنوں
کو تنگ کرنا دوستوں کا رشتے داروں کا آنا جانا سب ایک خواب بن گیا ہے سب
ختم ہو گیا سب دور ایک ماضی کے سانچے میں ڈھل گیا. اب تو عید کے نام پہ زمے
داریوں کی فہرست ہوتی ہے اسے پیسے اسے موبائل اسے کپڑے اسے لیپ ٹاپ بھیج دو
لیکن بہت کم لوگ سوچتے ہیں پردیس میں گھر والوں سے وطن سے دور عید کیسی
ہوتی ہے کیسے پردیسی آنسووں کو دبا کر خوشیوں کا دکھاوا کر رہے ہوتے لکھنے
کو بہت کچھ باقی پر پہلے ہی تحریر بہت لمبی ہو گئی آخر میں یہ ہی کہوں گا
کہ بس جیسے دکھ ہی دکھ ہیں پردیسیوں کہ آس پاس سچ پوچھیے تو ہمارا بہت دل
کرتا عید منانے کو ایسی عید جو فکروں سے آزاد ہو ایسی عید جس میں زیادہ سے
زیادہ آپکے اپنے آپکے ساتھ ہوں اور اگر آپ کہیں اپنے اپنوں کہ درمیان موجود
ہیں دیس کی گلیوں میں بستے ہیں دوستوں کی محفلیں میسر ہیں والدین کا سایہ
سر پہ سلامت ہے اگر بہن بھائی ابھی زندگی سے جوڑے ہوئے ہیں تو آپ بہت خوش
قسمت ہیں آپ یہ بات زہن میں رکھ لیں کہ عید منانے والا اس سے اچھا دن نہیں
آنے والا اگر کوئی روٹھا ہے تو اس کو منا لیجئے اگر کوئی دور ہے تو اس کو
بل لیجئے زندگی خرابی در خرابی کہ راستے پر چل رہی ہے ان نعمتوں کی قدر
کیجئے جو آپکے آس پاس ہیں ورنہ عیدیں اداس در اداس ہوتی جائیں گی
نوٹ پردیس خواہشات کا ایسا کنواں ہے جو سوکھنے کا نام ہی نہیں لے رہا
کاش |