انسانی زندگی میں پانی کی اہمیت روز روشن کی طرح عیاں ہے،
پانی صرف جسم اور روح کا رشتہ قائم کرنے کے لیے ہی ضروری نہیں، بلکہ کرہ
ارض پر چہار سو رنگ بکھیرتی زندگی، زراعت، صنعت اور معیشت کے تمام شعبہ جات
کی زندگی کا دارو مدار بھی ’’پانی‘‘ کا ہی مرہون منت ہے، لیکن ہم اس عظیم
نعمت کو دن بد ن کھوتے جا رہے ہیں۔ ہمیں اس بات کا ادراک بھی نہیں کہ ہمیں
پانی کی قلت سے بچنے کے لیے دور رس پالیسیاں بنانی چاہیں۔ ایک ایسے وقت میں
جب پاکستان میں سیاستدانوں کی توجہ آنے والے انتخابات اور سیاسی مسائل پر
مر کوز ہے، ایسے میں ملک کے آبی ماہرین پانی کی قلت پر پریشان ہیں۔ کئی بین
الاقوامی اداروں کے مطابق پاکستان تیزی سے ایسی صورتِ حال کی طرف بڑھ رہا
ہے، جہاں آنے والے وقتوں میں اسے پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اس مسئلے پر مستقبل میں جنگیں ہونے کا بھی امکان ہے۔
ماہرین کے مطابق 2025ء میں پینے کے پانی کا بحران پاکستان کا سب سے بڑا
مسئلہ ہوگا۔ بارشوں کا دن بہ دن کم ہوتے جانا، زیر زمین آبی سطح مسلسل کم
ہوتے جانا، ندیوں کا خشک ہونا جس کی وجہ سے پوری دنیا پانی کے شدید بحران
کا شکار ہے اور یہ بحران خاص کر ہمارے ملک میں گزرتے وقت کے ساتھ شدید ترین
ہوتا جا رہا ہے۔ گزشتہ دنوں ارسا کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ آبپاشی کے لیے
پانی کی قلت میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے۔ ارسا اعداد وشمارکیمطابق
دریاؤں میں پانی کی آمد ایک لاکھ 12ہزار 9 سو اور اخراج ایک لاکھ 19 ہزار 3
سو کیوسک ہے۔ آبی ذخائر میں پانی کا ذخیرہ بھی صرف 2 لاکھ 20 ہزار ایکڑ فٹ
ہے۔ مجموعی طور پر پانی کی قلت 49 فیصد سے تجاوز کر گئی ہے، اگر نہروں میں
پانی کے نقصانات کو شامل کیا جائے تو پانی کی قلت 65 سے 70فیصد تک ہے۔
1950ء میں ملک میں پانی کی فی کس دستیابی 5 ہزارکیوبک میٹر تھی، جو 2015ء
میں کم ہو کر ایک ہزارکیوبک میٹر ہوگئی، جب کہ 2009ء کے دوران پاکستان میں
فی کس 1500 کیوبک میٹر پانی دستیاب تھا۔ آبادی کی شرح میں ہونیوالے موجودہ
اضافے کے تناظر اور اگر آبی ذخائر تعمیر نہ کیے گئے تو سال 2025ء تک
پاکستان کو 33 ملین ایکڑ فٹ پانی کی قلت کا سامنا ہوگا۔ پانی کا بحران ملک
کو زرعی پیداوار کے کڑے امتحان میں ڈال سکتا ہے۔کپاس، چاول اور گنا سمیت
ملک کی کئی فصلیں بری طرح متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
حالات یہ بتا رہے ہیں کہ پاکستان آنیوالے چند برسوں میں پانی کی شدید قلت
کا شکار ہو سکتا ہے، جب کہ حکومت کی طرف سے اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں
لیا جا رہا۔ پانی کو ذخیرہ کرنیوالے ڈیموں کی استعداد کم ہوتی جا رہی ہے،
لیکن ہم نئے ڈیموں کے بارے میں نہیں سوچ رہے۔ کالا باغ ڈیم کو ہم نے سیاست
کی نظر کردیا، جب کہ بھاشا ڈیم میں کوئی سیاسی مسئلہ نہیں ہے، اس کے باوجود
بھی ہم اس ڈیم کو نہیں بنا رہے ہیں۔ دیا مر بھاشا ڈیم اس لیے بنایا نہیں جا
رہا کیونکہ اس میں ممکنہ طور پر بارہ برس لگیں گے، جب کہ کوئی بھی حکومت
پانچ سال سے آگے سوچنا نہیں چاہتی۔ ہر حکومت ایسے اقدامات کرتی ہے جس سے
صرف آیندہ الیکشن کے لیے ووٹ مل سکیں، ملک کے مستقبل کا سوچنا شاید ان کی
ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے۔ پینے کے صاف پانی کی دستیابی کا معاملہ
بحرانی شکل اختیار کرچکا ہے، لیکن اس کے باوجود ہمارے ارباب اختیارکے کانوں
پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ حکومت شہرکی تمام آبادیوں کو پانی فراہم کرنے میں
بری طرح ناکام ہوچکی ہے اور زیادہ ترلوگ پینے کا پانی خریدنے پر مجبور ہیں۔
تاہم بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور غربت کے باعث بڑی تعداد میں لوگ پانی
خریدنے کے استطاعت نہیں رکھتے۔
پانی کی قلت کے معاملے میں ہمیں قومی مفادات کو پیش نظر رکھ کر سوچنا ہوگا،
اگر ہم نے فوری اقدامات نہ کیے تو مستقبل میں ہم تباہی سے دو چار ہوسکتے
ہیں۔ پاکستان کی 20 فیصد شرح ترقی پانی پر منحصر ہے، 48 سال ہوگئے ملک میں
کوئی ڈیم نہیں بنا۔ کسی پارٹی کی ترجیحات میں پانی کے مسئلے کا حل نہیں ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے ملک بھر میں پانی کی قلت کا ازخود
نوٹس لیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ آج سے ہماری
ترجیحات میں سب سے اہم پانی ہے اور ہم پانی کے معاملے کو بہت سنجیدگی سے
دیکھ رہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے بھارت کی جانب سے نئے ڈیم کی تعمیر پر تشویش
کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے دنوں بھارت نے کشن گنگا ڈیم بنایا جس سے
نیلم جہلم خشک ہوگیا، ہم نے اگر اپنے بچوں کو پانی نہ دیا تو کیا دیا۔ پانی
کی قلت کے معاملے پر چیف جسٹس کا نوٹس لینا اہم اقدام ہے، لیکن اب ضرورت اس
بات کی ہے کہ اس معاملے کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔ حکومتوں کو اس بات
کا پابند بنایا جائے کہ وہ جنگی بنیادوں پر آبی ذخائرکی تعمیر کرے اور پانی
کی قلت کی تمام وجوہات سے نجات حاصل کریں۔
ہمارے پانی کے ذخائر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم ہوتے جا رہے ہیں، جن کے لیے
جنگی بنیادوں پرکام کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں بارش کا پیٹرن بہت مختلف
ہے۔ ہمارے ہاں مختصر مدت کے لیے زیادہ بارش ہوتی ہے، جو صحیح طرح زیر زمین
جذب نہیں ہوتی اور چونکہ ہمارے پانی جمع کرنے کے ذخائر بھی کم ہیں، اس لیے
ہم اس پانی کا ذخیرہ بھی نہیں کر پاتے جس کی وجہ سے یہ پانی ضایع ہو جاتا
ہے۔ یہ صورتحال تقاضا کرتی ہے کہ حکومت بڑے اورچھوٹے ڈیمز بنائے، تاکہ
گلیشیر پگھلنے اور بارش کی صورت میں پانی ذخیرہ کیا جاسکے۔ جہاں ایک طرف
حکومت کو پانی ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیمز بنانے چاہیے، وہیں سرکاری سرپرستی
میں مختلف علاقوں میں چھوٹے اسٹوریج ٹینک بھی بنانے چاہیے، جس سے نہ صرف
پانی جمع ہوگا، بلکہ زیرِ زمین پانی کی سطح بھی بلند ہوگی۔
ہمیں سیلابی نہریں بھی بنانی چاہیے اور اگر مون سون کے دور میں بارش بہت
زیادہ ہو اور سیلابی شکل اختیار کر لے تو ان سیلابی نہروں کے ذریعے ایک طرف
ہم اپنی فصلوں کو تباہ ہونے سے بچا سکتے ہیں اور دوسری طرف ان نہروں کی
بدولت بھی زیرِ زمین پانی کی سطح کو بلند کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ پورے
ملک میں درخت ایک قومی فریضہ کے طور پر لگائے جائیں تاکہ موسمیاتی تبدیلیوں
کے اثرات سے بچا جاسکے۔ اس لیے ہم سب کو کوشش کرنی چاہیے کہ اپنی زندگی میں
کم از کم ایک پودا ضرور لگائیں،اس کا فائدہ نہ صرف ہم اٹھائیں گے، بلکہ آنے
والی نسلیں اٹھاتی رہیں گی، اگر پاکستان کے حکمران طبقے اور سیاسی جماعتوں
نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے تو پانی کی قلت سے صنعت، زراعت سمیت متعدد
شعبے تباہ ہو جائیں گے جس سے ملک میں قحط اور سول وارکا خطرہ پیدا ہو سکتا
ہے۔
|