گزشتہ ماہ کی 25تاریخ کو مُلک میں ہونے والے عا م
انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف واضح اکثریت سے کا میابی حاصل کرنے والی
جماعت بن کر اُبھری ہے؛ اِسی کے ساتھ اِن دِنوں تیزی سے اقتدار کی چوٹی سر
کرتی پی ٹی آئی وفاق کی زنجیراورملی یکجہتی کی نشا نی بن کر نمودار ہوچکی
ہے۔
پاکستا نیوں سمیت ساری دنیا نے بھی17 اگست 2018کودیکھ لیا کہ اسمبلی میں
وزیراعظم کے انتخاب کے دوران اراکین اسمبلی نے مشترکہ اپوزیشن کے وزیراعظم
کے لئے نامزدکردہ زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنے اور زرداری کا پیٹ چاک کرکے
قومی دولت نکلنے والے شہباز شریف کو مسترد کردیا؛اور مُکک کا نیا وزیراعظم
عمران خان کو منتخب کرلیا ہے ۔
یوں آج18اگست 2018ء کو پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نومنتخب وزیراعظم کی
حیثیت سے حلف اُٹھا رہے ہیں، جن کی پُر کشش شخصیت پر قوم کومکمل اعتبار ہے
کہ عمران خان مُلک کو درپیش معاشی و اقتصادی بحرانوں سمیت دیگر اندرونی اور
بیرونی مسائل کے حل کے حوالوں سے بھی مسیحا ثابت ہوں گے۔آج قوم اپنے
نومنتخب وزیراعظم محترم المقام عزت مآب عمران خان کو مبارکباد پیش کرتی ہے۔
اور اُمید رکھتی ہے کہ آپ قوم کی اُمنگوں اورآرزووں پورا اُتریں گے اور
اپنی صلاحیتوں سے اپنے وعدووں اور دعووں کے مطابق کرپشن سے پاک مُلک بنا
کرمُلک اور قوم کو اُوجِ ثُریاسے بھی آگے لے جا ئیں گے۔
تاہم آج جہاں نومنتخب وزیراعظم عمران خان بھی قوم کی اُمنگوں پر پورا
اُترنے کے لئے پُرعزم ہیں۔اور اِن کے سامنے اقتدار کا وسیع ہوم گراونڈبھی
ہے؛ تووہیں اِن کی مرضی کی پچ بھی موجود ہے ۔اِس لئے لازم ہے کہ اَب عمران
خان اقتدار کے میدان کی پچ پر نئے فارمولے آزمانے کے بجائے ۔اگردھیرے دھیرے
نئے اور پرا نے دونوں فارمولوں کا مکسچرمرکب آزما ئیں گے؛ تواُمید افزا
نتائج سا منے آئیں گے ۔یوں عمران خان بہتر طریقے سے اپنے اقتدار کی اننگز
بھی کھیل سکیں گے ورنہ ؟سب کچھ مرضی کا ہونے کے باوجود بھی سوالیہ نشان
موجود رہے گا ۔اِس لئے کہ طاقتورترین اپوزیشن کی تلوار ہر وقت سر پر لٹکی
رہے گی۔ اِس سے بچ کر اور اِسے چمکار کر کام چلا ئیں گے؛ تووزیراعظم عمران
خان کے لئے اقتدار حلوہ ثابت ہوگا اور اگریہ اپنی ہی مرضی اور اپنی ہی ضد
پر قائم رہ کر اپنی ہی چلانے میں لگے رہیں گے۔ تو اپوزیشن کی تلوار اتنے
زخم لگا ئے گی کہ یہ سب بھول جا ئیں گے۔
بہر کیف ، اِس سے اِنکار نہیں کہ پچھلے دِنوں جس طرح دنیا کی باشعور قوم
ہونے کا ثبوت پاکستانی ووٹرز نے’’ ووٹ کو عزت دے کراور تبدیلی کا نعرہ لگا
کر‘‘ پی ٹی آئی کو مسندِ اقتدار کی کنجی سونپ کر دے دیا ہے؛ یہ سب اپنی
جگہہ تو ہے۔ مگراِس کے ساتھ ہی قومی اور چاروں صوبا ئی اسمبلیوں میں دس
سالہ جمہوری تسلسل کو مزید آگے بڑھانے کے لئے نومنتخب اراکین اسمبلی نے بھی
پُرامن انداز سے حلف اُٹھاکرمُلکی تاریخ میں ایک نئے اور تاریخی باب کا
اضافہ کردیا جبکہ حسبِ روایات قومی اسمبلی میں اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے
انتخاب کے دوران اپوزیشن نے سابق نااہل وزیراعظم نوازشریف کی تصاویر اُٹھا
کر احتجاج کیا اور چیخ چلا کر اپنے وجود کا بھر پور احساس دلا کر ایوان کو
مچھلی بازاربنانے کے لئے بھی کو ئی کسر نہیں رکھ چھوڑی تھی یہ بھی جمہوریت
کا حُسن ہے ، اپوزیشن احتجاج ضرور کرے مگر قا نونی حدود میں رہتے ہوئے ضرور
کرے۔
جبکہ اِس میں شک نہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت اور نومولود وزیراعظم عمران
خان کے سامنے مُلک کو معاشی بحران سے نکالنے ، جنوبی پنجاب صوبہ بنانے اور
عوام کو دورِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق بنیادی حقوق دِلانے جیسے صاف و شفاف
پینے کے پا نی ، ملاوٹ سے پاک خوراک ، جدید وسستی تعلیم، جدیدو سستے
مراکزِصحت اور بلا رنگ و نسل اِنسا نی ضروریات زندگی کے حصول وجدید سہولیات
زندگی کی فراہمی سے متعلق قانون سازی کرنے سمیت کئی بے شمار ایسے گھمبیر
چیلنجز موجود ہیں۔ جو سابقہ دو بڑی حکمران جماعتیں ن لیگ اور پی پی پی اپنے
دس سالہ جمہوری دور میں عوام کے لئے کچھ نہ کرکے چھوڑ گئیں ہیں۔
آج جب قومی احتساب کے ادارے نواز شریف اور آصف زرداری اور اِن کے چیلے
چانٹوں کی کرپشن کی فائلیں کھول رہے ہیں۔ تو اندازہ ہورہاہے کہ ماضی کی
دونوں بڑی حکمران جماعتوں ن لیگ اور پی پی پی کی ساری ترقی خبروں اور
اشتہارات تک ہی محدود تھی ،دونوں نے قومی خزا نے کو مُلکی ترقی اور عوا می
فلاح وبہبود کے منصوبوں میں لگا نے کے بجائے۔ ساراقو می خزا نہ اپنے اللے
تللے اور آف شور کمپنیاں اور اقا مے بنا نے اور سِوائے سوئیس بینکوں میں
اپنے ذاتی کھاتوں میں جمع کرانے کے کچھ نہیں کیا ہے۔
آج تب ہی قومی احتساب کے ادارے اِن کے گرد گھیرا تنگ کررہے ہیں۔ جبکہ اُس
وقت پاکستانی قوم کا اپنے قومی اور انصاف فراہم کرنے والے اداروں کی
کارکردگی پر اعتماد اور اعتبار بحال ہوگا۔جب قومی اِنصاف اور احتساب کے
ادارے نواز شریف اور آصف زرداری اور دیگر قومی لیٹروں سے قوم کی لوٹی ہوئی
دولت واپس لیں گے اور اِنہیں حقیقی قومی چور گردان کر بڑے قومی مجرموں جیسی
کڑی سزا ئیں بھی دیں گے۔تو کہیں اِس طرح پاکستانیوں کا اپنے قومی احتساب
اور اِنصاف فراہم کرنے والے اداروں پر مکمل اعتماد بحال ہوگا ورنہ ؟ اِن کے
بھی قول و فعل پر قوم سوالیہ نشان لگا دے گی اور اِن پر سے بھی اپنا بھروسہ
ختم کردی گی۔(ختم شُد)
|