بسم اﷲ الرحمن الرحیم
مسجد نبویﷺ کے امام اور مدینہ منوری کے قاضی الشیخ حسین بن عبدالعزیز آل
الشیخ نے خطبہ حج دیتے ہوئے کہا ہے کہ مسلمان کا مال، خون اورعزت دوسرے
مسلمان پر حرام ہے۔ اسلام ظلم و زیادتی کو پسند نہیں کرتا۔ مسلمان کو چاہیے
کہ کسی کے ساتھ زیادتی نہ کرے۔ نبی اکرم ﷺ کی پیش کردہ اخلاقیات کسی بھی بے
گناہ کو نقصان پہنچانے سے روکتی ہیں۔ معاشرے کے امن کیلئے ہرمسلمان کو کوشش
کرنی چاہیے۔ اخلاق حسنہ معاشرے کو کامیابی کی طرف لے جاتا ہے۔ پوری دنیا
کوقرآن پاک کے مطالعہ کی دعوت دیتے ہیں۔ یہ قرآن سیدھے راستے کی طرف لے کر
جاتا ہے۔انہوں نے کہاکہ اسلام کی اصل تصویر احسن اعمال پرہے جب کہ سیاست
اور معیشت کودین کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کو حکمرانوں کی
فرمانبرداری اوراطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔ حکمران ایسا ہونا چاہیے کہ اﷲ کی
اطاعت کرے اورہرطرح کی برائی کو روکے۔ حکمرانی ایسی ہو جس میں اﷲ اور اس کے
رسول ﷺ کے احکامات کی پیروی ہو اور شریعت کے مطابق زندگی بسر کی جائے۔ اﷲ
کا حکم ہے فیصلہ سازی عدل کی بنیاد پر کی جائے۔ خطبہ حج میں الشیخ حسن بن
عبدالعزیزنے کہاکہ اﷲ توبہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ والدین اورپڑوسیوں
کے ساتھ احسن سلوک کیا کرو۔ اﷲ نے جاسوسی اور غیبت سے منع فرمایا ہے۔ وقت
پر نماز ادا کرو، اسلام ایک دوسرے کے ساتھ اچھے طریقے سے ہم کلام ہونے کی
تعلیمات دیتا ہے۔ اسلامی معاشرہ باہمی محبت کی تعلیمات دیتا ہے اور سیدھا
رستہ دکھاتا ہے۔
امام مسجد نبوی ﷺ الشیخ حسن بن عبدالعزیزکا خطبہ حج انتہائی اہمیت کا حامل
اورصحیح معنوں میں مسلم امہ کے جذبات کی ترجمانی ہے۔ اپنے پر مغز خطبہ میں
انہوں نے امت مسلمہ کو درپیش مسائل اور کفار کی سازشوں کا تفصیل سے تذکرہ
کیا ہے۔ خاص طور پرکسی مسلمان کیلئے دوسرے مسلمان کا خون، مال اور عزت حرام
ہونے کی بات کر کے فتنہ تکفیر اور خارجیت کا شکار گمراہ گروہوں کے باطل
نظریات کی جس طرح بیخ کنی کی گئی ہے آج کے حالات میں یہ بہت ضروری ہے۔
مسلمانوں بالخصوص نوجوان نسل کو دشمنان اسلام کی سازشوں کے آلہ کار گروہوں
اور ان کے گمراہ کن نظریات سے آگاہ کرنا بہت ضروری ہے تاکہ انہیں عصر حاضر
کے سب سے بڑے فتنہ سے مکمل آگاہی ہو اور وہ دشمن کی سازشوں کا شکار ہونے سے
بچ سکیں لیکن افسوسناک امر ہے کہ چند علماء اور مذہبی قائدین کے علاوہ کوئی
اپنا یہ فریضہ ادا نہیں کر رہا اور مصلحتوں کا شکار ہو کر خاموشی اختیا رکی
جاتی ہے جس سے مسلم ملکوں و عوام کو سخت نقصانات اٹھانا پڑ رہے ہیں۔تاریخ
گواہ ہے کہ مسلمانوں کو جب کبھی میدانوں میں کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں
دشمنان اسلام نے ہمیشہ مسلمانوں کے اندر تکفیر اور خارجیت کا فتنہ کھڑ
اکرنے کی کوشش کی ہے تاکہ انہیں باہم دست و گریباں کر کے مذموم ایجنڈے پورے
کئے جاسکیں۔ آج بھی جب مسلمانوں کے ہاتھوں روس کوشکست ہوئی‘امریکہ و
نیٹوفورسز کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑااور مسلمان دنیا کے نقشے پر مضبوط قوت
بن کر ابھرنے لگے تو عرب ملکوں میں داعش کو کھڑ اکیاگیا‘پاکستان میں خودکش
حملے کرنے والوں کو پروان چڑھایا گیا اور امت مسلمہ کے روحانی مرکز سعودی
عرب کے خلاف حوثی باغیوں کی پشت پناہی کی گئی۔ یہ سب کچھ طے شدہ منصوبہ
بندی اور کفار کی مسلمانوں پر مسلط کردہ جنگوں کا حصہ ہے۔مسلم ملکوں میں
حکمرانوں اور افواج کے خلاف حملوں کو جائز قراردینے والے جتنے گروہ کھڑے
کئے گئے وہ کشمیر، فلسطین، افغانستان و دنیا کے دیگر خطے جہاں مسلمانوں پر
بے پناہ مظالم ڈھائے جارہے ہیں وہاں جا کر جہاد کرنا درست نہیں سمجھتے لیکن
اپنے ہی کلمہ گو بھائیوں پر کفرے کے فتوے لگا کر ان کا خون بہانا افضل جہاد
سمجھتے ہیں۔ یہ گمراہی کی بدترین شکل ہے اور ایسے لوگوں کے متعلق شریعت میں
واضح احادیث موجود ہیں جن میں فتنہ تکفیر اور خارجیت کا شکار گمراہ لوگوں
کی واضح نشانیاں بیان کی گئی ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف خودکش حملے کرنے والوں
کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ فلسطین میں یہودی کس طرح مسلمانوں کی نسل
کشی کر رہے ہیں؟۔ قبلہ اول مسجد اقصیٰ کی جگہ ہیکل سلیمانی تعمیر کر نے
کیلئے کیا کھیل کھیلے جارہے ہیں ؟یا مقبوضہ کشمیر میں ہر روز نت نئے مظالم
ڈھاتے ہوئے کس طرح ماؤں، بہنوں و بیٹیوں کی عزتیں پامال اور ان کی املاک
برباد کی جارہی ہیں۔ان کی ساری توجہ مسلم ملکوں و خطوں میں مسجدوں، بازاروں
اور مارکیٹوں میں بم دھماکوں اور افواج کو نشانہ بنانے کیلئے حملوں پر
مرکوز ہے۔ اس کیلئے وہ دشمنان اسلام سے مدد لینے کوبھی اپنے لئے حلا ل
سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے پاس وسائل کی کوئی کمی نہیں اور افغانستان
میں دشمن کے کیمپوں میں ٹریننگ لینا بھی وہ اپنے لئے باعث عار نہیں سمجھتے۔
ہم پاکستان میں ہی دیکھ لیں تو سانحہ پشاور ہو‘جی ایچ کیواور نیول
ہیڈکوارٹرہو یا فضائیہ کا ایئر بیس‘ حملہ آوروں کے پاس حساس مقامات کے نقشے،
جدید اسلحہ اور مکمل معلومات موجود ہوتی ہیں اس لئے حملے کرتے وقت جہاں وہ
پاک فوج، فضائیہ اور دیگر اداروں کے افسران و سپاہیوں کو شہید کرتے ہیں
وہاں ان قیمتی اثاثہ جات کو بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔جو دشمن کی
آنکھوں میں کھٹکتے ہیں اور وہ نہیں چاہتا کہ وطن عزیز پاکستان کے پاس یہ سب
کچھ ہو۔مسلم حکمرانوں کو ان حقائق کو بخوبی سمجھنا اوراس فتنہ کے خاتمہ
کیلئے صحابہ کرام رضوان اﷲ علیھم اجمعین اور امام ابن تیمیہ رحمۃ اﷲ علیہ
کی سیرت کا مطالعہ کرکے قرآن وسنت کی روشنی میں پالیسیاں ترتیب دینی چاہئیں۔
جب تک ہم باطل گروہوں کے نظریات کا علمی بنیادوں پر رد نہیں کریں گے نوجوان
نسل کو مکمل طور پر گمراہیوں سے بچانا ممکن نہیں ہے۔ امام مسجد نبوی ﷺ
الشیخ حسن بن عبدالعزیز نے بالکل درست فرمایا ہے کہ معاشرے کے امن کیلئے
ہرمسلمان کو کوشش کرنی چاہیے۔مسلمان کو چاہیے کہ کسی کے ساتھ زیادتی نہ کرے۔
نبی اکرم ﷺ کی پیش کردہ اخلاقیات کسی بھی بے گناہ کو نقصان پہنچانے سے
روکتی ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے باہمی اختلافات ، فرقہ وارانہ قتل و
غارت گری اور پارٹی بازی نے امت مسلمہ کو بہت نقصان پہنچایا ہے تاہم مسلمان
اب بیرونی سازشوں کو سمجھ کر متحد ہو رہے ہیں۔یہ صورتحال بہت زیادہ حوصلہ
افزا ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ وہ وقت قریب ہے جب دشمن کی جانب سے پروان چڑھائے
گئے فرقہ وارانہ قتل و غارت گری اور دہشت گردی کے سب سلسلے ان شاء اﷲ دم
توڑ جائیں گے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ سیاسی جماعتیں بھی کھل کر عسکری قیادت
کا ساتھ دیں اور سب کو ایک پیج پر نظر آنا چاہیے۔ اتحادویکجہتی کا مظاہرہ
کئے بغیر دشمنان اسلام کی سازشوں پر قابو پانا ممکن نہیں ہے۔ جماعۃالدعوۃ
کے سربراہ حافظ محمد سعید نے درست کہا ہے کہ خطبہ حج پوری مسلم امہ کے
جذبات کی ترجمانی ہے۔ حکومت پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ بی جے پی جیسی
انتہاپسند تنظیموں کی جانب سے کی جانے والی سازشوں سے باخبر رہیں اوربین
الاقوامی سطح پر سید علی گیلانی، سیدہ آسیہ اندرابی اور دیگر حریت قیادت کی
نظربندیوں و گرفتاریوں کا مسئلہ بھرپور انداز میں اٹھایا جائے۔ بھارتی
ریاستی دہشت گردی کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرنا بہت ضروری ہے۔ مظلوم
کشمیری اگر الحاق پاکستان کا نعرہ بلند کرتے ہوئے اپنے سینوں پر گولیاں کھا
رہے ہیں تو ہمیں بھی ان کی مدد وحمایت سے کسی صورت پیچھے نہیں
رہناچاہیے۔آخر میں سعودی حکام کو خراج تحسین پیش کرنا ضروری سمجھتاہوں کہ
ان کی زیر نگرانی کئے جانے والے حج انتظامات کی پوری دنیا میں تحسین کی
جارہی ہے۔ شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے حجاج کرام کیلئے نیک جذبات کا اظہار
کرتے ہوئے کہا کہ ہم اﷲ کے محترم گھر میں حاجیوں کا خیر مقدم کرتے ہیں ، اﷲ
تعالیٰ ان کا حج قبول فرمائے کیونکہ مقبول حج کا بدلہ جنت ہے۔ میں
سمجھتاہوں کہ جس طرح سعودی حکام حجاج کرام کیلئے نیک جذبات رکھتے ہیں اسی
طرح دنیا بھر کے مسلمان بھی ان کیلئے دعا گوہیں۔ اﷲ تعالیٰ ان سے سرزمین
حرمین شریفین کے تحفظ اور خدمت کا زیادہ سے زیادہ کام لے۔ آمین۔ |