حج اسلام کا ایک بنیادی رکن ہے جس کی اہمیت کا اندازہ
قرآن مجید کی اس آیت کریمہ سے بخوبی ہوتا ہے۔ ’’ لوگوں پر اﷲ کا یہ حق ہے
کہ جو اس کے گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو ، وہ ا س کا حج کرے اور
کوئی اس حکم کی پیروی سے انکار کرے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اﷲ تمام
دنیا والوں سے بے نیاز ہے ‘‘۔(سورۃ ال عمران : 97 )۔فریضہ حج کی ادائیگی کا
مقصد اﷲ تعالیٰ کی برگزیدہ ہستیوں حضرت ابراہیم علیہ السلام ، حضرت اسماعیل
علیہ السلام اور حضرت بی بی ہاجرہ کے خلوص و عزم کی بے مثال داستان کو زندہ
کرنا ہے اور اُن کی پیروی کرتے ہوئے اﷲ تعالیٰ کے سامنے اطاعت و فرماں
برداری کا اظہار کرنا ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلا م کو بڑھاپے میں ایک بیٹا عطا کیا جس
کا نام حضرت اسماعیل علیہ السلام رکھا، کچھ عرصہ کے بعد اس لخت جگر کو اس
کی ماں کے ساتھ ایک ویران وادی میں چھوڑآنے کا حکم ملا۔ جس پر انہوں نے خود
بڑے صبر و حوصلہ سے عمل کیا اور حضرت بی بی ہاجرہ نے بھی اس سلسلے میں بڑی
عزیمت کا مظاہرہ کیا۔ جب یہ بچہ کچھ بڑا ہوا تو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اسے
قربان کرنے کا حکم ملا۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے۔ ’’ابراہیم
علیہ السلام نے کہا، بیٹا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا
ہوں۔ اب تو بتا تیرا کیا خیال ہے؟ اس نے کہا ، ابا جان ! جو کچھ آپ کو حکم
دیا جارہا ہے ، اسے کر ڈالیے۔ آپ انشاء اﷲ مجھے صابروں میں سے پائیں گے‘‘۔
( سورۃ الصافات : 102)۔جب دونوں باپ بیٹا حکم خداوندی پر راضی ہوگئے اور
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے لخت جگر کو زمین پر ماتھے کے بَل لٹایا
تا کہ بیٹے کا منہ سامنے نظر نہ آئے اور گلے پر زور سے چھری چلائی تو اﷲ
تعالیٰ کے حکم سے گلا نہ کٹا۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے حضرت اسماعیل
علیہ السلام کو اس جگہ سے ہٹا دیا اور ایک دنبہ ، جو بہشت سے لائے تھے ،
اُن کی جگہ پر رکھ دیا۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آنکھیں کھول کر
دیکھا تو ان کے بیٹے کے بدلے ایک دنبہ ذبح پڑا تھا۔ قربانی کی یہ سنت آنے
والی نسلوں کے لئے تا قیامت قائم ہوئی۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو قربانی سے فارغ ہوئے ابھی چند روز گزرے تھے کہ
حضرت جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے اور فرمایا۔ ’’ اے ابراہیم علیہ
السلام ! تم پر خداوند تعالیٰ نے سلام بھیجا ہے اور ساتھ فرمایا ہے کہ زمین
پر اﷲ کا گھر بناؤ۔ پس آپ علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے
ہمراہ بیت اﷲ کی تعمیر شروع کی۔ جب تعمیر مکمل ہوئی تو اﷲ تعالیٰ کا حکم
نازل ہوا۔ ’’لوگوں میں حج کا اعلان کر دو۔ لوگ تمہارے پاس چلے آئیں گے۔
پاؤں چل کر بھی اور ایسی اونٹنیوں پر بھی ، جو دور دراز راستوں سے چل کر
آئی ہوں اور سفر کی وجہ سے دبلی ہوگئی ہوں تا کہ یہ آنے والے اپنا منافع
حاصل کریں ‘‘۔ ( سورۃ الحج )۔پس آپ علیہ السلام نے اعلان فرمایا جسے ہر شخص
نے سُنا، خواہ وہ پیدا ہوچکا تھا یا عالم ارواح میں تھا اور چاروں طرف سے
صدا آئی۔ ’’ میں حاضر ہوں، یااﷲ ! میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں ، میں
حاضر ہوں، بے شک تمام تعریفیں اور نعمتیں تیرے لئے ہیں اور ملک بھی ، تیرا
کوئی شریک نہیں ‘‘۔ یہی جاجیوں کا ترانہ ہے جو حج کا احرام باندھنے اور نیت
کرنے کے بعد شروع ہوتا ہے اور رمی ( شیطان کو کنکریاں مارنا ) شروع کرنے سے
پہلے بند کیا جاتا ہے۔
حج گناہوں سے بخشش کا ذریعہ ہے۔ جیسا کہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے ۔ ’’ جو کوئی
خالص اﷲ کے حکم کی تعمیل کے لئے حج کرتا ہے اور حج کے دوران میں فحش کلامی
اور فسق سے باز رہتا ہے ۔ وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو کر لوٹتا ہے گویا
ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے ‘‘۔
حج ایک مکمل اور جامع عبادت ہے کیوں کہ اس میں تمام عبادتوں کی روح شامل
ہے۔ حج کے لئے روانگی سے واپسی تک سفر کے دوران میں نماز کے ذریعے قرب
الہٰی میسر آتا ہے۔ حج کے لئے مال خرچ کرنا ، زکوٰۃ سے مشابہت رکھتا ہے۔
نفسانی خواہشات سے اجتناب اور بُرائیوں سے بچاؤ روزے کی سی کیفیت پیدا کرتا
ہے۔ گھر سے دوری ، جسمانی مشقت اور سفر کی تکالیف میں جہاد کا رنگ پایا
جاتا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ ’’ سب سے افضل
جہاد حج مبرور (مقبول ) ہے ‘‘۔ |