عرفہ کے روزہ سے متعلق پہلے کبھی اس قدر شدیداختلاف نہیں
رہا جس قدرآج ٹکنالوجی کے ترقی یافتہ دور میں اس نئی ایجاد سے متاثر ہوکر
بعض لوگوں نے اختلاف کرنا شروع کردیا ہے۔ یہ اختلاف بعض لوگوں میں اس قدر
شدید ہے کہ ایک دوسرے پر لعن طعن ، گالی گلوج اور زبان درازی تک کی جاتی ہے
۔ ایسا کرنے والے جہال نہیں اکثر علماء کہے جانے والے ہوتے ہیں۔ اس ماحول
کو دیکھ کر دل پر چوٹ لگتی ہے کہ لوگوں نے اختلاف کو طعن وتشنیع کا ذریعہ
بنا لیا ۔ اسی ماحول سے چوٹ کھاکرمیں نے یوم عرفہ کی حقیقت دلائل کی روشنی
میں واضح کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ لوگوں کو اس دن اوراس دن کےروزہ کے متعلق
غلط فہمی نہ ہو،اس التماس کے ساتھ کہ جسے اس موقف سے اختلاف کرنا ہے وہ ادب
واحترام کے دامن کو اپنے ہاتھ سے نہ جانے دے، خالص علمی انداز میں مسئلہ
کوواضح کرنے کی کوشش کرے ،مقصد حق تک پہنچنا ہو نہ کہ کسی سے زبردستی
اختلاف کرنا ۔
یوم عرفہ کے روزہ والی حدیث:
حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
صيامُ يومِ عرفةَ ، أَحتسبُ على اللهِ أن يُكفِّرَ السنةَ التي قبلَه .
والسنةَ التي بعده . وصيامُ يومِ عاشوراءَ ، أَحتسبُ على اللهِ أن يُكفِّرَ
السنةَ التي قبلَه.(صحيح مسلم:1162)
ترجمہ: عرفہ کے دن کا روزہ میں اللہ سے امید رکھتاہوں کہ پچھلے سال کے
گناہوں کاکفارہ بن جائے گا اور اگلے سال کے گناہوں کا بھی اور یوم عاشورہ
کاروزہ،میں اللہ سے امید رکھتاہوں کہ پچھلے سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے
گا۔
یہ حدیث صحیح مسلم سمیت سنن اربعہ اور کئی کتب حدیث میں مروی ہے، اس حدیث
میں "صیام یوم عرفہ" کا لفظ آیا ہے اس سے استدلال کرتے ہوئے بعض اہل علم نے
کہا ہے کہ عرفہ کے دن کا روزہ اس دن ہے جب حجاج کرام میدان عرفات میں ہوتے
ہیں جبکہ اکثر اہل علم کا ماننا ہے کہ یوم عرفہ کا روزہ اپنے اپنے علاقے کے
حساب سے رکھا جائے گا،یہی دوسرا موقف قوی ہے کہ لوگ اپنے اپنے علاقہ کے
اعتبار سے نوذوالحجہ کا روزہ رکھیں ۔
یوم عرفہ سے مرادصرف اور صرف ذوالحجہ کی نو تاریخ ہے:
یوم عرفہ سے مراد ذو الحجہ کی نویں تاریخ ہے، اس بات کو مختلف طریقے سے
استدلال کرکے بتلاؤں گا ۔
(1)قرآن سے استدلال :
اللہ تعالی کا فرمان ہے : وَالْفَجْرِ. وَلَيَالٍ عَشْرٍ. وَالشَّفْعِ
وَالْوَتْرِ(الفجر:1-3)
ترجمہ: قسم ہے فجر کی، اور دس راتوں کی ، اور جفت اور طاق کی۔
یہاں محل شاہد وتر کا لفظ ہے تفسیر ابن کثیر میں ہے وتر سے مراد عرفے کا دن
ہے اوریہ نویں تاریخ ہوتی ہے تو شفع سے مراد دسویں تاریخ یعنی بقرعید کا دن
ہے ،وہ طاق ہے یہ جفت ہے۔ (تفسیر ابن کثیر)
وتر سے مراد یوم عرفہ ہے اس بابت بہت سارے اقوال ہیں جو تفاسیر میں دیکھے
جاسکتے ہیں ، اس بابت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ایک قول جسے حافظ ابن حجر
رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے ۔ وہ اس طرح ہے ۔
عن ابنِ عباسٍ أنه قالَ : الوترُ يومُ عرفةَ والشفعُ يومُ الذبحِ(فتح
الباري لابن حجر:421/6 )
ترجمہ: ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ وتر سے مراد
عرفہ کا دن اور شفع سے مراد قربانی کا دن ہے ۔
برصغیرہندوپاک میں عرفہ کا دن اپنے حساب سے نو ذوالحجہ کا ہوگا تبھی قرآن
کے لفظ وتر(طاق) کا صحیح اطلاق ہوگا ورنہ سعودی کے حساب سے عرفہ کا روزہ
رکھنے پر ہندوپاک میں عموما آٹھ تاریخ ہوگی اور یہ جفت ہے طاق نہیں ہے اس
لئے جن کا مطلع سعودی سے مختلف ہے انہیں لازمی طور پر یوم عرفہ کے لئے اپنے
علاقے کی نویں تاریخ کا اعتبار کرنا ہوگا۔
(2)حدیث سے استدلال :
مذکورہ بالاحدیث میں وارد الفاظ " صیام یوم عرفہ "سے ہی دلیل ملتی ہے کہ اس
سے مراد ذوالحجہ کی نویں تاریخ ہے ۔ ذرا غور کریں ، اس حدیث میں آگے کے
الفاظ ہیں صیام یوم عاشوراء ، یہاں یوم عاشوراء سے محرم کی دسویں تاریخ
مراد ہے جیساکہ دوسری حدیث میں بصراحت مذکور ہے ۔ عبداللہ بن عباس ؓ کہتے
ہیں:
أمرَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ بِصَومِ عاشوراءُ ، يومُ
العاشِرِ(صحيح الترمذي:755)
ترجمہ: رسول اللہﷺ نے دسویں تاریخ کو عاشوراء کا روزہ رکھنے کا حکم دیا۔
جس طرح صیام یوم عاشوراء سے محرم کی دسویں تاریخ مراد ہے اسی طرح صیام یوم
عرفہ سے ذوالحجہ کی نویں تاریخ مراد ہے ۔ اس بات کو اس حدیث سے تقویت ملتی
ہے جس میں نبی ﷺ کے متعلق نویں ذوالحجہ کے روزہ کا احتمال ہے۔ بعض ازواج
مطہرات کا بیان ہے :
أنَّ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ كانَ يَصومُ تِسعًا مِن
ذي الحجَّةِ ، ويومَ عاشوراءَ ، وثلاثةَ أيَّامٍ من كلِّ شَهْرٍ ، أوَّلَ
اثنينِ منَ الشَّهرِ وخَميس(صحيح أبي داود:2437)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحجہ کے ( پہلے ) نو دن ، عاشورہ
محرم ، ہر مہینے میں تین دن اور ہر مہینے کے پہلے سوموار اور جمعرات کو
روزہ رکھا کرتے تھے ۔
(3)لغوی استدلال :
لغت کی کتابوں میں یوم عرفہ تلاش کریں تو عام طور سے ہرجگہ ذوالحجہ کی نویں
تاریخ ملے گی یعنی یوم عرفہ سے مراد اہل لغت کے یہاں بھی ذوالحجہ کی نویں
تاریخ ہے بطور مثال دیکھیں : القاموس الفقهي، معجم لغة الفقهاء وغیرہ
(4)عربی گرامر سے استدلال :
یوم عرفہ میں یوم کا لفظ زمان پراطلاق ہوتا ہے یعنی یہ زمانہ ہے اس لئے یوم
عرفہ سے ہرگزہرگز میدان عرفات مراد نہیں ہوگا بلکہ کوئی زمانہ ہی مراد ہوگا
اور وہ ہے ذوالحجہ کی نویں تاریخ ۔
(5)وجہ تسمیہ سے استدلال:
یوم عرفہ کی وجہ تسمیہ کے متعلق کئی اقوال ملتے ہیں ،ابن قدامہ صیام یوم
عرفہ کی حدیث کے تحت یوم عرفہ کی وجہ تسمیہ سے متعلق لکھتے ہیں :
فأما يوم عرفة : فهو اليوم التاسع من ذي الحجة ، سمي بذلك ، لأن الوقوف
بعرفة فيه . وقيل : سمي يوم عرفة ، لأن إبراهيم عليه السلام أري في المنام
ليلة التروية أنه يؤمر بذبح ابنه ، فأصبح يومه يتروى ، هل هذا من الله أو
حلم ؟ فسمي يوم التروية ، فلما كانت الليلة الثانية رآه أيضا فأصبح يوم
عرفة ، فعرف أنه من الله ، فسمي يوم عرفة(المغني : 4/ 442 )
ترجمہ: یوم عرفہ سے مراد ذوالحجہ کی نویں تاریخ ہے ، اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے
کہ اس دن وقوف عرفہ ہوتا ہے، اور یہ بھی کہا جاتا ہے یوم عرفہ اس لئے نام
پڑاکہ ابراہیم علیہ السلام نے ترویہ کی رات خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے
کو ذبح کرنے کا حکم دئے جارہے ہیں پس پورے دن غوروفکر کرتے رہے کہ یہ واقعی
اللہ کا حکم ہے یا پھر کوئی خواب ہے ؟ اس لئے اس دن کا نام ترویہ پڑا پھر
دوسری رات بھی یہی خواب آپ کو دکھایا گیا اور جب عرفہ کی صبح ہوئی تو جان
گئے کہ یہ اللہ کی طرف سے اس کا حکم ہی ہے پس اس وجہ سے یوم عرفہ پڑ گیا۔
اس قول میں شروع میں ہی اصل اور اہم بات بتلادی گئی کہ یوم عرفہ سے مراد
ذوالحجہ کی نویں تاریخ ہے ۔ گویا یوم عرفہ ،وقوف عرفہ یا خواب کی معرفت کی
نسبت پہ اس کانام پڑا تاہم مراد نویں تاریخ ہی ہے ،ٹھیک اسی طرح جیسے یوم
النحر قربانی کی نسبت سے موسوم ہے اور مراد دسویں تاریخ ہے۔
(6)عقلی اور منطقی استدلال:
اسلام ایک ہمہ گیر دین رحمت ہے ، اس کے احکام آفاقی ہیں ،اس دین رحمت کے
زیر سایہ ہرکسی کو اپنے اپنے علاقہ میں رہ کر بہ آسانی دین پر عمل کرنے کی
سہولت ابتداء سے ہی موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گی کیونکہ یہ فطری
نظام ہے ، ہماراخالق ہمارے حالات وکیفیات سے مکمل باخبر ہے اس کے عین مطابق
ہمیں دینی تعلیمات کا مکلف بنایا ہے۔اسلام نے کسی کو روزہ اور نماز کی
انجام دہی میں مکہ مکرمہ کی تاریخ اور وقت معلوم کرنے کی زحمت نہیں دی ہے
۔آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے نبی ﷺ نےلوگوں کو یوم عرفہ کا روزہ رکھنے کا
حکم دیا ، نبی ﷺ کو مسلمانوں کا دور دراز علاقوں میں رہنا بھی معلوم رہا
ہوگا پھر بھی اس وقت عرفہ کے دن کا روزہ رکھنے کی تعلیم دینا اس بات کی
کھلی دلیل ہے کہ جو مسلمان جس طرح اپنے علاقے کے اعتبار سے رمضان ، ایام
بیض اور عاشوراء کا روزہ رکھتے ہیں اسی طرح اپنے علاقہ کے اعتبار سے یوم
عرفہ کا یعنی نو ذوالحجہ کا بھی روزہ رکھیں ۔ وقوف عرفات پہ تمام دنیا
والوں کو روزہ رکھنےکا حکم اسلام دیتا تو ساتھ ہی پوری دنیا کے مسلمانوں کو
وقوف عرفات کی اطلاع کا نظام بھی دیا ہوتاجبکہ ٹکنالوجی کی آمد سے قبل کوئی
ایسا ذریعہ نہیں تھا جس کی مدد سے دنیا کے کونے کونے میں پھیلے مسلمانوں کو
وقوف عرفات کی اطلاع دی جاسکے۔ آج بھی دنیا کے سارے کونے میں یہ خبر نہیں
پہنچ پاتی ہوگی کیونکہ بہت سارے علاقوں میں رابطوں کی سہولت نہیں اور بہت
سارے مقامات پر رہنے والوں کو دنیا کی کوئی خبر نہیں ہوتی مثلا قید خانہ۔
(7)مناسک حج سے استدلال:
حج کے اعمال بھی تواریخ کے ساتھ مخصوص ہیں ۔ یوم الترویہ یعنی آٹھ ذوالحجہ
کو منی میں قیام ، یوم عرفہ یعنی نو ذوالحجہ کو وقوف عرفات ، یوم النحریعنی
دس ذوالحجہ کو رمی، حلق/تقصیر، قربانی، طواف افاٖضہ، سعی جیسے اعمال ، ایام
تشریق میں رمی جمرات اور منی میں قیام ۔ یہ سارے حج کے اعمال تاریخ کے ساتھ
مخصوص ہیں ۔ کوئی یوم الترویہ (آٹھ ذوالحجہ) کو عرفات میں وقوف کرے تو اس
کا وقوف ہوگا ہی نہیں، کوئی یوم عرفہ(نو ذوالحجہ) کو حج کی قربانی کردے یا
طواف افاضہ کرلے، حج کی سعی کرلے تو یہ اعمال مقبول نہیں ہوں گے یعنی حج ہی
نہیں ہوگا۔ گویا مناسک حج بھی تاریخ سے مربوط ہونے کے سبب لامحالہ ماننا
پڑے گا کہ یوم عرفہ ذوالحجہ کی نو تاریخ کو ہی کہا جاتا ہے۔
یوم عرفہ اور عرفات میں فرق:
لفظ عرفہ کا بسااوقات استعمال وادی کے لئے ہوتا ہے جیساکہ رسول اللہ ﷺ کا
فرمان ہے :
عرفةُ كلُّها مَوقفٌ ووقفتُ ههنا(صحيح مسلم:1218)
ترجمہ: میں نے یہاں وقوف کیا ہے اور سارا عرفہ جائے وقوف ہے ۔
لیکن عرفات کا اطلاق صرف وادی پر ہوتا ہے ، قرآن میں عرفات کا لفظ آیا ہے۔
اللہ کا فرمان ہے:
فَإِذَا أَفَضْتُم مِّنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِندَ الْمَشْعَرِ
الْحَرَامِ (البقرۃ: 198)
ترجمہ: جب تم عرفات سے لوٹو تو مسجد حرام کے پاس اللہ کا ذکر کرو۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے: الحجُّ عَرفاتٌ، الحجُّ عَرفاتٌ، الحجُّ عَرفاتٌ(صحيح
الترمذي:2975)
ترجمہ:حج عرفات کی حاضری ہے، حج عرفات کی حاضری ہے۔ حج عرفات کی حاضری ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس کہتے ہیں : رأيتُ النَّبيَّ صلَّى اللَّهُ عليهِ
وسلَّمَ ، بعَرفاتٍ واقِفًا (مسند أحمد) اس کی سند کو مسند کے محقق احمد
شاکر نے صحیح کہا ہے(4/173)
ترجمہ: میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عرفات کے میدان میں
کھڑے ہیں۔
غرض جہاں کہیں بھی عرفات کا لفظ آیا ہے ان جگہوں پر کہیں بھی یوم عرفات
نہیں آیا ہے کیونکہ عرفات وادی کا نام ہے جبکہ عرفہ کبھی وادی پر بولاجاتا
ہے تو کبھی دن پر اور جب عرفہ پر یوم کا لفظ داخل ہوجائے تو صرف اور صرف
تاریخ پر اطلاق ہوگا یعنی نویں ذوالحجہ۔ یوم عرفہ کہنے سے وقوف عرفہ یا
میدان عرفات کبھی بھی مراد نہیں ہوسکتا ہے کیونکہ یوم کا لفظ دن کے لئے
استعمال ہوتا ہےجبکہ وقوف عرفہ عمل اور میدان عرفات وادی ہے۔ اوراگر عرفات
پر یوم کا لفظ بھی لگادیا جائے تو پھر بھی وہی دن مراد ہوگا جو یوم عرفہ سے
مراد ہے یعنی نو ذوالحجہ۔ جیسے منی کے ساتھ ایام منی کا لفظ ذکر ہوتا ہے تو
اس سے مراد ایام تشریق کے تین دن ہیں۔
خلاصہ کلام اور آخری بات :
عرفہ کے دن کے روزے سے متعلق جو اشکالات اور اعتراضات ہیں ان سب کا جواب
الگ مضمون میں "عرفہ کا روزہ: ایک تحقیقی جائزہ" کے عنوان سے دیا گیا ہے جو
اسی نام سے میرے ذاتی بلاگ،محدث فورم اور اردومجلس فورم وغیرہ پر تلاش
کرسکتے ہیں۔ یہاں اس مضمون میں صرف یہ بتلانے کی کوشش کی گئی ہے کہ یوم
عرفہ سے مراد ذوالحجہ کی نو تاریخ ہے یعنی رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو
ذوالحجہ کی نو تاریخ کا روزہ رکھنے کا حکم دیا ہے لہذا جس ملک میں جب
ذوالحجہ کی نو تاریخ ہو اس دن یوم عرفہ کا روزہ رکھیں ۔ |