حسن مثوی
یہ کیا!!!
حیا وہیں رک گٸ اور ایک منہمک سوچ میں گم ہو کے رہ گٸ۔وہ نہ صرف ان دو
الفاظ کو سمجھتی تھی بلکہ ان کے مفہوم سے بھی آگاہ تھی بس وہ رک اسلۓ تھی
کہ آج اسکے یقین کو مصحف جیسی عظیم کتاب کی مہر لگ رہی تھی۔
حیا اور علی اچھے دوست تھے
جلد یہ دوستی محبت میں بدل گٸ دیکھتے ہی دیکھتے محبت گہری ہوگٸ
حیا کسی حدتک بے باک تھی لیکن اسکی اچھی بات یہ تھی کہ وہ کبھی بھی کسی بھی
حال میں مصحف سے رشتہ نہیں توڑ تی تھی although کہ وہ اسی معاشرے کا حصہ
تھی لیکن بہرحال اسکی سوچ وچار کسی حد تک جدا تھے۔
اسی طرح علی بھی عام سوچ کا حامل انسان نہی تھا ۔logical aproach or
solution اسکے prominent features تھے,تھوڑا ضدی تھا لیکن caring بھی تھا
بہرحال,ان اچھی خوبیوں کے باوجود بھی تھے تو انسان ہی جذبات کی رو میں کبھی
بہہ جاتے۔اور بات محبت کے dialogue سے شروع ہوکر کسی حد بے ہودہ romance پہ
ختم ہوتی۔حیا بنسبت علی کے ذیادہ محبت کرتی تھی۔کیو نکہ اسے زندگی میں کبھی
کوٸ مخلص دوست نہی ملا تبھی وہ علی کی بیہودہ گوٸ پہ اسے پیار سے ٹوک دیتی
لیکن اس ناجاٸز رشتے کو توڑنا اسکے بس میں نہی تھا۔جوں جوں علی سے اسکا
رشتہ مضبوط ہوتا جاتا مصحف سے کمزور پڑنے لگتا۔اور جب وہ مصحف سے دل لگاتی
تو علی سے دور ہونے لگتی۔یہ اسلۓ تھا کہ مصحف اسے عشق حقیقی سے ملاتا جبکہ
علی کی محبت لاکھ واضح ہونے کے باوجود بھی مصحف کے مقابلے میں ماند تھی۔
حیا دل سے اس بات کی اقراری ہوتی جارہی تھی کہ یا تو وہ مصحف سے مستقل رشتہ
رکھ سکتی ہے یا اس غیر شرعٸ رشتے کو نبھاۓ ۔اس کشمکش میں اس نے کٸ بار علی
کو چھوڑا لیکن ہر بار نفس جیت جاتا اور وہ پھر رجوع کرلیتی ۔لیکن اسکا
کمزور ضمیر اسکی بھرپور ملامت کرتا۔جب وہ نماز پڑھتی تو اسے کوٸ سکون نہ
ملتا کبھی لاکھ کوشش کے باوجود بھی نماز قضا ہوجاتی ۔ایسی محرومی اسے صرف
جب ہوتی جب وہ علی سے link میں رہتی
مصحف اسکے نزدیک صرف ایک کتاب نہی تھی بلکہ ایک رشتہ تھا ایک اٹوٹ
رشتہ۔مصحف حیا کو صرف rules n regulation نہی سکھا رہی تھی بلکہ اسے اس ذات
عظیم سے وفا کرنا سکھارہی تھی جو واقعی وفا کے پہلے مستحق ہیں ۔سب سے پہلے
وہ اپنے رب کے آگے شرمندہ ہوتی کہ میرا رب تو جانتا ہے۔اسکے مجھ پہ اتنے
احسان ہیں اپنی ہر نعمت کو دیکھتی اور سوچتی کہ میرا رب کتنا رحیم ہے کہ
میری اتنی نافرمانیوں کہ باوجود مجھے نوازتا رہتا ہے ۔ماں باپ کی جانب
دیکھتی تو انسے نافرمانی اور اپنی احسان فراموشی کو دل ہی دل میں ملال کرتی
اسی اثنا میں علی کے تقاضے بھی بے جا ہونے لگے ۔اب تو حیا اور پریشان رہنے
لگی اسے کچھ سمجھ نہی آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے اب ۔دونوں میں بحث ہوٸ اور
آخر کار حیا نے اس بات پہ اس غیر شرعی رشتے کو توڑ دیا کہ وہ اسکے رب کے اس
پہ بہت احسان ہیں اور رب نے بہت اچھا رکھا ہے ہر طرح سےاسے ۔
آج وہ جس باب کو پڑھ رہی تھی وہ سورہ یوسف کا تھا جس میں حضرت یوسف۶ نے بھی
زلیخا سے یہی کہ کر اپنے نفس کو کچلا کہ ِانہٗ ربیِ احسنَ مثوی بے شک مجھے
میرے رب نے بہت اچھا رکھا ہے آیت:23
حیا آج اپنے فیصلے پہ سرشار اور مصحف کی شکر گزار ہے.
|