کھاؤ دنوں کی بات ہے

لازم نہیں‘ کوئی عمر رسیدہ یا پڑھا لکھا ہی پتے کی بات کر سکتا ہے۔ پائے کی بات‘ کسی بچے‘ ان پڑھ یہاں تک کہ مورکھ کے ذہن میں بھی آ سکتی ہے۔ اب یہ کہنا کہ چھوڑو جی‘ اس کو کیا پتا زندگی اور اس کے معاملات کیا ہوتے ہیں۔ اسی بناء پر ہی شاید کہا گیا ہے‘ کہنے والے کو مت دیکھو‘ یہ دیکھو کہ اس نے کہا کیا ہے۔ عین ممکن ہے کہ اس کا کہا کسی ہیرے جواہر سے بھی زیادہ قیمتی ہو اور زندگی کی کسی ایسی سمسیا کو سلجھا رہا ہو‘ جو بڑے بڑوں سے بھی نہ سلجھ پا رہی ہو۔

رحما گنڈری فروش‘ ہماری گلی کی نکر پر رہتا ہے۔ گریب آدمی ہے‘ لباس اور رہائش تھرڈ کلاس ہے۔ ہاں محنت کی کماتا ہے اور مشقت کی کمائی سے‘ گھر کا نظام چلا رہا ہے۔ اس کی گھر والی بھی بڑی صابر عورت ہے۔ اس کی محدود اور قلیل آمدن میں گزرا کر رہی ہے۔ ہر روز اور ہمیشہ نہیں‘ کبھی کبھی‘ لوگوں کی عشرت بھری زندگی دیکھ کر چلا اٹھتی ہے۔

رحما بڑے تحمل سے جوابا کہتا ہے: پاگل اللہ کا شکر ادا کرو‘ حلال کی کھا رہی ہو۔ حرام کی کھاؤ گی تو بیماریوں کی گرفت میں آ جاؤ گی۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ قیامت کے دن اپنے اللہ کو کیا جواب دو۔ یہ ہی تمہارے بچے‘ وہاں تمہارا ساتھ نہیں دیں گے۔ بیمار پڑتی ہو تو دیسی ٹوٹکوں سے کام نہیں چل جاتا۔ اللہ تمہیں چنگا بھلا نہیں کر دیتا۔
تھوڑا بہتا بھونک بھانک کر وہ خاموش ہو جاتی ہے۔ رحما بھی بلاشبہ بڑے جگرے والا ہے کہ جوابا تتا نہیں ہو جاتا ورنہ گھر میدان جنگ بن جائے۔

ان ہی الیکشنوں کے کھاؤ دنوں کی بات ہے۔ وہ رات کو بڑے بڑے آم یا بریلریانی کھانے کے لیے کسی ڈیرے پر نہیں جاتا تھا حالاں کہ اس کے ساتھ والے‘ بلاناغہ چنگے چوسے کے لیےان ڈیروں کے چکر لگاتے تھے۔ ایک دن وہ گلی سے گزر رہا تھا کہ میری اس سے ملاقات ہو گئی۔

میں نے پوچھا: میاں کس کو ووٹ دے رہے ہو۔ جوابا کہنے لگا: آ جی وقت آئے گا تو دیکھا جائے گا۔ ہم لوگ پہلے بھی ایسے تھے‘ اس کے بعد بھی ایسے ہی رہیں گے۔ یہ پیسے والوں کا کھیل ہے اور ہمیشہ سے کھیلتے چلے آتے ہیں۔ ہم گریب بےوقوف ہیں جو ان کے جھوٹے وعدوں کی گرفت میں آ جاتے ہیں۔

یہ لوگ کتنا پیسا برباد کر رہے ہیں۔ کل کو ان کھانے والوں کی جیبوں کو ہی قینچی لگائیں گے۔ یہ ہی پیسا اچھے کاموں پر صرف ہو سکتا تھا مثلا ہوٹلوں اور دکانوں پر کام کرنے والے بچوں کی تعلیم پر خرچ ہو سکتا تھا۔ گربا کے گھر بیٹھی‘ جوان بیٹیوں کی شادی کا بندوبست ہو سکتا تھا۔ چارپائی پر لگے گریب بیماروں کے علاج کی طرف توجہ ہو سکتی تھی۔ مگر کہاں جی‘ ادھر توجو کرتے انہیں مری پڑتی ہے۔ یہ نظام سلطنت صرف نام کا عوامی ہے‘ ورنہ اپنی اصل میں سرمایہ داری نظام ہی کی ہی چڑتی ہے۔

میں سوچ میں پڑ گیا ایک گریب‘ ان پڑھ اور مشقتی کس قسم کی باتیں کر رہا ہے۔ میں دور تک اس کے کہے پر ہی غور کرتا گیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ وہ کہہ تو ٹھیک رہا تھا لیکن اس کا کہا‘ گریب اور ان پڑھ کا کہا تھا‘ اس لیے کس طرح ٹھیک ہو سکتا تھا۔ اس کے کہے کو پاگل پن کا نام ہی دیا جا سکتا ہے اور قہقہ دار ہنسی‘ ہنسی جا سکتی ہے۔

فانی مقصو حسنی
About the Author: فانی مقصو حسنی Read More Articles by فانی مقصو حسنی: 184 Articles with 210991 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.