اکیسویں صدی کے اردو افسانوں میں حبّ الوطنی

نِطشے نے کہاتھا کہ ایسے الفاظ کو ڈیفائن نہیں کیا جا سکتا جن کے ساتھ ایک تواریخ وابستہ ہے کیونکہ ان الفاظ کا مطلب ان سے وابستہ کہانیوں میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ لفظ حب الوطنی کے ساتھ بھی کم و بیش یہی بات نظرآتی ہے۔ اصل میں یہ لفظ یا یہ اصطلاح امریکی اور فرانسیسی انقلابات کے بعد ہی نظر آتی ہے اور انھیں انقلابات کے بعد کرۂ ارض پر ایک نئے خدا کے ظہور کی نوید سنی گئی اور یہ خدا تھا : la patrie, ، یعنی نیشن …… یا وطن ۔ اور اس نئے خدا کے تحفظ کے لئے اسٹیٹ یعنی ریاست کا ادارہ وجود میں آیا۔1792 میں فرانس کی نیشنل اسمبلی میں Abbe Sieyes نے اس نئے خدا یعنی وطن کی وضاحت کرتے ہوئے کہا :
' ....the nation exixsts before all. it is the origin of everything. It is the law
itself.... The image of the patrie is the sole divinity which is permitted to worship.'
مگر جیفرسن ، لنکن اور مارٹن لوتھر کنگ نے ایک دوسری قسم کا تصور بھی دیا جو اپنی زمین یا اپنے لوگوں اور اپنی ثقافت کا امین تو تھا مگر دوسروں کی تضحیک یا زوال نہیں چاہتا تھا اور سب کے لئے مساوی انصاف کا متمنی تھا ۔
کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر Richard A. Cloward کہتے ہیں کہ یہ انتہائی افسوسناک امرہے کہ دانشور اور مفکرین بھی اپنے وطن کی اچھائی یا برائی کے تحفظ میں اندھی وفاداری یعنی blind loyalty دکھاتے ہیں ، اور جو ایک ایسا خطرناک رحجان ہے جس کی وجہ سے وطن کے نام پرکی جانے والی عسکری کاروائیوں کو بھی حمایت مل جاتی ہے۔
قدیم روم کے تھنکر Tacitus نے حب الوطنی کے بارے میں کہا تھا ہمیں اپنے اسلاف کے ساتھ مسابقت کرنی چاہیے ۔ اور فلیگ کو سلام کرنے کے رحجان سے ماؤرا ہو کرحالات سے مناظرہ کرنا چاہیے ، یعنی :
'Beyond saluting the flag, let us pledge allegiance "to the earth,
that it supports; one planet and to the flora, fauna and human life
indivisible, with clean air, soil and water, liberty, justice and peace
for all....'
اور شاید اسی جذبے کی توسیع میں تقریباً ایک سو سال پہلے تھوریو نے کہا تھا :
"I am a citizen of the world first, and of this country at a later and more convenient hour."
مگر ازمنہ جدید کے انھیں مفروضوں کی توثیق و تصدیق کے لیے ہزاروں سال قبل قدیم ہندوستانی فکریات میں کہا جا چکا ہے کہ :
olq/kSoe~ dqVqacde~
یعنی ’ پوری دنیا ایک پریوار ہے ‘
مگرروایتی طور پر لفظ ’حب الوطنی ‘سنتے ہی ہمارے ذہن میں ایک ایسا منظرنامہ ابھرتا ہے جس میں کوئی فوجی یا غیر فوجی شخص دشمن ملک سے لڑتا ہوا جاں بحق ہو جاتا ہے ۔ …… یا پھر ایک ایسا منظر نامہ ابھرتا ہے جس میں ہم بڑے ادب سے قومی ترانے کی تعظیم میں کھڑے رہتے ہیں، یا قومی جھنڈے کی عزت و تکریم کے لئے کسی کی جان کے دشمن بھی بن جاتے ہیں یا پھر اپنے آپ کوالیکشن میں ووٹ ڈالنے ، یا کسی دشمن ملک سے کوئی میچ جیتنے تک محدود کر لیتے ہیں ۔
ریاست یعنی اسٹیٹ میں تمام لسانی، مذہبی ، معاشرتی گروپ ضم کر دئیے گئے ہیں ۔ اور اس میں ایسی علامتوں کو ہائی لائٹ کیا گیا ہے جو تمام معاشرتی گروپوں کے لئے مشترکہ ہوں جیسے جھنڈا ، ترانہ وغیرہ جنہیں بجا طور پر مذہب سے بالاتررکھا گیا ہے ۔
جب ایک ملک دوسرے پر حملہ کرتا ہے تو سب سے آسان راستہ ہوتا ہے شکست تسلیم کر کے فاتح کے اشاروں پر ناچنا…… لیکن اگر ہماری کوئی اپنی تہذیب ہے (یاد رہے کہ تہذیب ماضی سے نکلتی ہے) اور اگر ہم ان تہذیبی اقدار کی عزت کرتے ہیں، ان سے محبت کرتے ہیں ، انہیں قائم رکھنا چاہتے ہیں، تو ہم حملہ آور کی مزاحمت کرکے اپنے تہذیبی اقدار کا تحفظ کرتے ہیں …… اپنے تہذیبی، ثقافتی ، تواریخی ، سیاسی، فکری اور زمینی سرمائے کی حفاظت کی اس خواہش اور عملی کوشش کا نام ہی حب الوطنی ہے۔لہٰذا زمین کے اس خطے میں جہاں آپ کے اسلاف رہتے تھے ، آپ رہتے ہیں اور جہاں آپ کی آیٔندہ نسلیں رہیں گی، کے تئیں وفاداری اور دفاع کے جذبے کو حب الوطنی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ۔
لیکن زمین کے کسی بھی خطے کی سلامتی اور تحفظ کو اسی صورت میں یقینی بنایا جا سکتا ہے جب یہاں انفرادی آزادیاں ، بنیادی حقوق ، اوراختلاف رائے کے حق کا حاسدانہ تحفظ ممکن ہو سکے۔اور ان حقوق کے تحفظ کے لئے ریاست کا عمل دخل کم ترین ہونا لازمی ہے ……
لیکن زمینی صداقت یہ ہے کہ ہر معاشرتی گروپ لاتعداد خاندانی گروپوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ہر خاندان کی طرح ہر معاشرتی گروپ اپنی تمام اکائیوں سے اپنے تئیں وفاداری کا مطالبہ کرتاہے۔ اسی طرح ذات یا قبیلیائی یا مذہبیاتی بنیادوں پر استوار ہر اکائی اپنے تئیں وفاداری کا مطالبہ کرتی ہے۔ اور یہی اجتماعی وفاداریاں ملکی سطح پر یا میکرو لیول پر وطن یا اسٹیٹ کے لئے ایک جذبہ بن کرحب الوطنی بن جاتی ہے۔
حب الوطنی ازمنہ وسطیٰ( medival period) میں بھی وفاداری کے تقاضوں کی ایک وسیع تر (enlarged )شکل ہے۔ اس زمانے میں یہ رفیع تر انسانی مُطالبات کسی ایک حکمران گروپ کی جانب سے کیے جاتے تھے ، مثلاً موریہ خاندان کی جانب سے، گُپت حکمران خاندان کی جانب سے ، مغل حکمراں اور ان کے حواریوں کی جانب سے۔ مگر آج وطن کا تصور وہ بھی نہیں ہے بلکہ اس کی توسیع ہو گئی ہے۔آج وفاداری کا مطالبہ کسی ایک حکمران گروپ یا معاشرتی اور مذہبی گروپ کی جانب سے نہیں بلکہ اسٹیٹ یعنی ریاست کی جانب سے کیا جاتا ہے جو نئے دور کا ایک طاقتوور ادارے کی حیثیت سے ابھرا ہے لیکن جس میں سب سے پہلی شرط مساوات کی ہے۔
اکیسویں صدی کی دوسری دہائی فکشن کی صدی ہے۔اس کی آہٹ اور گونج کو بہت پہلے ہی پروفیسرگوپی چند نارنگ نے محسوس کرلیا تھا۔ اسی لیے انھوں نے کہا تھا کہ اردو فکشن کی فتوحات سے خوش ہونا چاہئے۔ اب اکیسویں صدی کی چاپ صاف سنائی دے رہی ہے۔ میرا خیال ہے کہ آنے والی صدی اردو میں فکشن کی صدی ہوگی ۔آج اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے اس ما بعد جدیدیت سے نئے عہد کی تخلیقیت تک کے تناظر میں افسانہ نگاری ایک اہم اور معنی خیز صنف ہے۔ اس کی مقبولیت اور اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ افسانہ نگاری کل بھی تھی، آج بھی ہے اور کل بھی رہے گی۔ اردو میں افسانے کی شروعات پریم چنداورسجاد حیدر یلدرم سے ہوتی ہے اور یہ زمانہ بیسوی صدی کے آغاز کا زمانہ ہے۔ عہد حاضر میں اس صنف کو افسانہ، مختصر افسانہ اور افسانچہ کے نام سے جاناجاتا ہے۔اردو افسانہ بیسویں صدی میں پریم چند،منٹو، کرشن چندر، راجندرسنگھ بیدی،عصمت چغتائی، قرۃالعین حیدر سے سفر کرتا ہوا اکیسوں صدی میں سلام بن رزاق،نیر مسعود، سید محمد اشرف،نند کشور وکرم،شوکت حیات ،طارق چھتاری،غضنفر،مشرف عالم ذوقی سے ہوتا ہوا اسلم جمشیدپوری تک پہنچتا ہے۔
اکیسویں صدی کا آغاز دہشت گردی، بربریت اور جنگ و جدل سے شروع ہواہے۔ تا ہم اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جانا چاہئے کہ افراد کی طرح ادوار یا زمانے بھی علیحدگی(isolation)میں ظہور نہیں کرنے اور نہ ہی ان میں رو نما ہونے والی تبدیلیاں آناً فاناً یا شب آفریدہ ہوتی ہیں۔ افراد کے رویوں کی طرح زمانے کا مزاج بھی مختلف عوامل کے زیر اثر اور در جہ بدرجہ ترتیب پاتا ہے او رنمایاں تبدیلی کو ظاہر کرتا ہے۔ لہذا اکیسویں صدی کے اولین عشرے کے سیاسی، تہذیبی اور سماجی رجحانات جو آج کی انسانی زندگی پر اثر انداز ہو رہے ہیں یا اس کی صورت گری کر رہے ہیں، انھیں اس وقت تک بہتر انداز سے سمجھا ہی نہیں جا سکتا جب تک گزشتہ صدی کی کم سے کم دو دہائیوں کے حقائق ہمارے پیش نظر نہ ہوں۔اردو فکشن میں ہونے والی نِت نئی تبدیلی کی آہٹ کو ما بعد جدیدیت کے علمبردارپروفیسر گوپی چندنارنگ نے بہت پہلے ہی محسوس کیا تھا۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ اپنے ایک انٹر ویو میں فرماتے ہیں:
ـــــــ ــــــــــــ’’ 1980 کی دہائی سے تبدیلی کے آثار صاف دکھائی دینے لگے تھے۔ اسی زمانے میں ضرورت
سے زیادہ بڑھی ہوئی علامتیت اورلَغویت کے خلاف آواز اٹھائی گئی۔ شکست ذات اور داخلیت رد
ہوئی، سماجی سروکار پر زور دیا جانے لگا۔ سیاسی موضوعات Taboo نہ رہے۔ حکم ناموں اور آمرانہ
نعروں کو ٹھکرایا جانے لگا۔ کہانی میں کہانی پن پر توجہ ہوئی۔ بیانیہ کی بحالی کو محسوس کیا گیا۔ کتھا کہانی/
حکایتی داستانی اسلوب اور تہذیبی جڑوں اور اساطیر کا عرفان بڑھا اور اردو ادب اپنے قاری سے
جڑنے لگا ۔ جس کو جدیدیت نے علی الاعلان گنوا دیا تھا۔‘‘
ہندوستانی معاصر اردو افسانہ نگاروں میں گلزار،سید محمد اشرف، مظہر الزماں خاں،سلام بن رزاق،انور خان، عبدلصمد، شوکت حیات، نند کشور وکرم، شموئل احمد، انیس رفیع،نورالحسنین،حسین الحق،ساجد رشید،م ۔ناگ، یٰسین احمد، مشرف عالم ذوقی،غضنفر، خورشید اکرم، انجم عشمانی، مشتاق احمد نوری، طارق چھتاری، بیگ احساس،سید نفیس سنبھلی، اطہر مسعود خان، نور شاہ،وحشی سعید،اختر آزاد،ابرار مجیب، سریندر پرکاش،الیاس احمد گدی، احمد صغیر،خورشید حیات، اقبال مجید، دیپک بدکی، تسکین زیدی،احمد رشید،بلراج بخشی،ناصر بغدادی،اشتیاق سعید، دیپک کنول،مراق مرزا،انل ٹھکّر،اقبال حسن آزاد،جاوید انور،کیول دھیر،انیس اشفاق،ف۔سین اعجاز، مناظر عاشق ہرگانوی ،اسرار گاندھی ، پرویز شہریاراور اسلم جمشید پوری وغیرہ خاص ہیں۔اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں خواتین افسانہ نگاروں میں ترنم ریاض ،زاہدہ حنا، شمیم صادقہ، نفیس بانوشمع،قمر جہاں،نصرت آرأ، تسنیم کوثر، نزہت نوری، ثروت خان ،حناروحی، غزال ضیغم، جیلانی بانو، ذکیہ مشہدی، نجم محمود،ہما فلک، مہ جبیں آصف،سیمیں کرن،تبسم فاطمہ،صادقہ نواب سحر،شائستہ فاخری اور رینو بہل وغیرہ کا نام خاص طور پر لیا جا سکتا ہے۔اکیسویں صدی کے افسانہ نگاروں نے خود پر کسی بھی طرح کا درواز ہ بند نہیں رکھا ہے بلکہ سارے دروازے، کھڑکیاں اورروشن دان کھول دینا چاہتے ہیں اور اپنے زمانے کے کھوکھلے ہوتے ہوئے باطن اور اطراف و جوانب میں چشم بصیرت کو محسوس ہونے والی تاریکی کے باوجودیہ افسانہ نگار شعلہ تخلیق کو روشن ترکیے ہوئے ہیں ۔ یہ دینا کی تیز رفتار ناچتے ہوئے پیکر وں سے ٹکرانا چاہتے ہیں، لِجلجے پن کو دور کرنا چاہتا ہے اور خون میں گرمی لاکر نئی جہتیں متعین کرنا چاہتے ہیں کیوں کہ یہ زمانہ مکمل انتشار کا ہے۔ اس انتشار کے بحران سے کردارکا بحران پیدا ہوا ہے جو نہ صرف قومی آشوب بلکہ عالمی المیہ ہے اور پوری دنیا کے لئے لمحہ فکر ہے۔ زندگی کے ہر شعبے کے مانند کردار کا یہ بحران نئے اردو افسانے اور افسانہ نگاروں میں بھی رو پذیر ہوا ہے جو اپنی مقبولیت اور شناخت کے لیے بھی تھی۔اس ادبی فرقہ (جدیدیت) کبھی اس ادبی فرقہ (ترقی پسندیت) کے دست نگر ہوتے ہیں اور بالاآخر خود ادبی فرقہ پرستی، تشدد پسند اور غیر انسانی بھونپو بن جاتے ہیں۔ بقول نظام صدیقی نئی قدر،نیا حسن، نیا آدمی، نئی دنیا اور نیا انصاف میں نیا ہی یکسر غیر مرئی ہے، اس لیے آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے کہ نئے کی بابت، سمجھوتہ پرست اور مصلحت گزیدہ رویہ اور برتاؤ کو ختم کیا جائے اور ہمہ جہت تنظیم پرور اور فرقہ پرست فکری اور فنی جمود سے نبردآزما ہوا جائے تاکہ اپنے موجودہ قومی اور عالمی سیاق سے جڑ کر صحیح تخلیقیت کی پرورش کی جا سکے تاکہ فکرو خیال کا نیا پن، موضوع اور معنی کا نیا پن اور الفاظ و اظہارکا نیا پن منفرد تخلیقی شان کے ساتھ رونما ہو جو زندہ، نامیاتی اور متحرک ادب کی روح ہے۔ اپنے نئے سیاق سے جڑے بغیر بے معنی تخلیقیت سے عاری تقلیدیت گزیدہ افسانہ نما تحریروں کا ہمالیہ پہاڑ کھڑا کر دینا تو آسان ہے لیکن رائی بھر تخلیقیت پرور حقیقی افسانوی ادب کی تخلیق نہیں حقیقی افسانہ یکسر گوریلا جنگ ہے۔ جو سرحدوں پر لڑی جاتی ہے۔اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں اردو کے افسانوی تناظر میں اس گوریلا جنگ کی بابت ما بعد جدیدیت سے نئے عہد کی تخلیقیت تک کے علمبردار نظام صدیقی اپنے پُر مغز اور معنی خیز خیالات اور تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
’’اردو افسانہ میں حسن آگیں اور اقدار افروز تخلیقیت کے مختلف جہات آہستہ آہستہ روشن ہوں گے
جو اردو میں 1965 تک نمایاں ہوئے، جن کے زیر اثر اردو افسانہ میں نت نئے تخلیقی تجربات
کا خیر مقدم ہوا۔ محض افسانویت کو مسجود تصور نہیں کیا گیا بلکہ اب اس کی معنویت، تہہ داری اور
تاثر انگیزی پر زیادہ اصرار کیا جانے لگا کہ یہ نیا افسانہ ہے۔‘‘
اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے اردو افسانوی ادب کے اُفق پر سلام بن رزاق کا نام سرِ فہرست آتا ہے۔ ان کے افسانوی سفر کا آغاز 1962 سے ہوتا ہے جب اُن کا پہلا افسانہ ’’رین کوٹ‘‘ شاعر ممبئی میں شائع ہوتا ہے۔ سلام بن رزاق نے عہد حاضر کے مسائل کی حقیقی تصویر بڑے ہی فنی بصیرت اور خوش اسلوبی کے ساتھ اپنے افسانوں میں پیش کیاہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے تمام افسانے فطری انجام پر ختم ہوتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں موضوع مرکزی حیثیت رکھتا ہے اور الفاظ و تمثیلوں کی مدد سے اپنی پیش کش کو اس قدر پر کشش بنا دیتے ہیں کہ نہ صرف قاری متاثر ہو بلکہ وہ اسی انجام کی تمنا کرے جسے افسانہ نگاراپنے افسانے میں پیش کر رہا ہے۔ ان کے افسانوی مجموعہ ’’شکستہ بتوں کے درمیان‘‘ کو ساہتیہ اکادمی اعزاز سے نوازا جا چکا ہے۔ ان کے مشہور اور کامیاب ترین افسانوں میں ’کُلہاڑی‘،’انجام کار‘، ’تصویر‘، خوں بہا،زمین،’دہشت‘، ’چہرہ ‘ اور ’باہم‘ وغیرہ اہم ہیں۔ ان افسانوں میں حبّ الوطنی، وطن دوستی، قومی یکجہتی اور سماجی سروکار کی جھلک صاف طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔سلام بن رزاق کا افسانہ ’’زمین‘‘ ہندو اور مسلم کے باہمی رشتے کی ایک بہترین مثال ہے۔ اس افسانے میں مسلمان خاندان کے فرد شیخو اور اس کے ہندو دوست دامودرکے درمیان میں قائم دوستی کے رشتے کو دکھایا گیا ہے۔ یہ دونوں ممبئی میں پچھلے بیس برس سے ساتھ ساتھ رہتے چلے آ رہے تھے لیکن دامودر شہری ماحول کی فضا میں پھیلی خرابی اور ملازمت سے سبک دوش ہونے کے بعد شہر چھوڑ کر اپنے گاؤں واپس چلا گیااور وہاں پر اس نے ایک پریس لگا کر اپنا کاروبار شروع کر دیتا ہے لیکن ممبئی سے جانے کے بعد بھی وہ اپنے رشتے کو بھول نہیں سکا۔ جب بھی وہ ممبئی کا سفر کرتا تو شیخو کے یہاں ہی ٹھہرتا تھا۔ دامودر بھی شیخو کو اپنے یہاں آنے کی دعوت دیتا لیکن دامودر کے گاؤں جانے کا اتفاق نہ ہو سکا۔ شیخو کو جب گھوشٹ رائٹنگ کا کام ملا تو کچھ پیسہ کمانے کا موقع ملا اور اس نے دھیرے دھیرے چالیس ہزار روپئے جمع کر لیے۔ شیخو اور اس کی بیوی نے اس رقم کے بہتر استعمال کی ترکیب سوچی۔ دونوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اس پیسے سے وہ زمین خریدیں گے۔ اس سلسلے میں انھوں نے اپنے دوست دامودر سے بات کی، دامودر نے شیخو کو کہیں اور زمین دلانے کے بجائے اپنی دوستی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے دوست کو ساتھ بسانے کی غرض سے اپنی ہی زمین دینے کا ارادہ کیا۔ وعدہ کے مطابق شیخو دامودر کے گھر جاتا ہے۔ جہاں اسے گاؤں کی زندگی اور تہذیب کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ جب وہ بس سے اترتا ہے تو دامودر اپنے کام کرنے والے ساتھی کے ساتھ شیخو کے ٹھہرنے کا انتظام کرتا ہے۔ اسے اپنے گھر لے جاتا ہے اور اس کی خوب خاطر تواضع کرتا ہے۔ شام کو دونوں دوست زمین دیکھنے جاتے ہیں شیخو کو وہ جگہ پسند آ جاتی ہے اور دونوں میں زمین کی بات طے ہو جاتی ہے۔ عیش و نشاط کی محفل جمتی ہے تبھی کچھ وقفے کے بعد دروازے پر کسی کی آواز آتی ہے۔دامودرآواز پہچان لیتا ہے۔ یہ آواز گاؤں کے مکھیا شیو رام پاٹل کی تھی۔ جو اس سے پہلے بھی ایک دو مرتبہ آ چکا تھا تھا کیوں کہ اسے اس بات کا علم ہو چکا تھا کہ وہ اپنی زمین کسی مسلم کے ہاتھ بیچ رہا ہے۔ اس لیے وہ اس کے خلاف گاؤں والوں کو متحد کر رہا تھا کہ گاؤں کی زمین کسی مسلم کو نہ دیں۔ دامودر اپنی بیس برس کی دوستی کو پل بھر میں مٹا دینے کی ان فرقہ پرستوں کی کوشش سے بے قرارہو جاتا ہے۔ شیخو کو گاؤں کے مکھیا شیو رام پاٹل کی بات گالی کی طرح محسوس ہوتی ہے:
’’ ہم کسی مسلمان کو گاؤں میں زمین خریدنے نہیں دیں گے۔ میں مسلمان ہوں؟
کیا مسلمان ہونا پاپ ہے؟ بیس برس سے میں اوردامودر ایک جان دو قالب تھے۔
پھر اچانک اس نے مجھے آگ میں ڈھکیل دیا۔ پاٹل نے مجھے کوئی گالی نہیں دی تھی۔
مگر اس کی بات مجھے گالی کی طرح کیوں لگ رہی تھی۔‘‘
سلام بن رزاق نے دامودر اور شیخو کی محبّت اور ان کے رشتے کو باہمی گفتگو کی مدد سے ظاہر کیا ہے کہ ان دونوں کے لیے مذہب و ملت سے زیادہ عزیز دوستی کا رشتہ ہے جو بیسوں برس سے قائم و دائم ہے اور جس کی بنیاد انسانیت، محبت، اخوت اور وفاداری پر مبنی ہے۔افسانے کا خاتمہ رجائیت اور امید پر ہوتا ہے۔ دامودر اورشیخو جذبات کی رو میں بہنے لگتے ہیں اور ان کے دل کا غبار آنکھوں میں آنسو بن کرگرنے لگتے ہیں۔ اس افسانے میں افسانہ نگار نے انسانیت ،بھائی چارے ،دوستی ،محبت اور اخوت کی حقیقی تصویر پیش کی ہے۔ دامودر اپنے دوست شیخو سے کہتا ہے:
’’شیخو میں پاٹل کی بات پر بہت شرمندہ ہوں۔ تو جانتا ہے میں کتنا ہندو ہوں؟
میں جانتا ہوں تو کتنا مسلمان ہے؟ ہماری ذات، ہمارے نام اور ہمارے دھرم
الگ ہو سکتے ہیں شیخو، مگر ہمارے تعلق کی ڈور۔۔۔۔ جس کا ایک سرا تیرے ہاتھ
میں ہے۔یہ کسی مذہب یا دھرم کی کھونٹی سے نہیں بندھی ہے۔ ہمیں اس ڈور کو تھامے رکھنا ہے۔
شیخو جس دن ہمارے ہاتھ سے یہ ڈور چھوٹ جائے گی ہم وقت کی ریلوں میں تنکوں کی
طرح بہہ جائیں گے۔ تو یہاں نہیں آنا چاہتا مت آ ۔مگر میرا فیصلہ بھی سن لے۔
میں اب وہ زمین کسی کو نہیں بیچوں گا۔ کسی کو نہیں دوں گا۔ وہ اسی طرح ویران رہے گی۔‘‘
نند کشور وکرم عہدِ حاضر کے معتبر افسانہ نگار ہیں۔ان کے تخلیقی سفر کا آغاز دسمبر 1947سے ہوتا ہے جب ان کا پہلا افسانہ ماہنامہ ’’نرالی دُنیا‘‘ دھلی سے شائع ہواہے۔ نند کشور وکرم کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’آوارہ گرد‘‘1998 میں منظرِ عام پر آتا ہے اور دوسرا افسانوی مجموعہ ’’آدھا سچ‘‘
2007 میں شائع ہوا ہے۔ ان کے افسانے ’’آدھا سچّ‘‘، ’’ایک پاکستانی کی موت‘‘، زمین میں دفن سچائی‘‘،’’ سہما ہوا آدمی‘‘ اور’’ طولِ شبِ فراق ‘‘میں حّب الوطنی، وطنی دوستی ، بھائی چارے اور دہشت گردی کے خلاف احتجاج کی تصویر صاف طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔زندگی کی تلخ اوربے رحم سچائی کو نند کشور وکرم نے اپنے افسانے ’’آدھا سچ‘‘میں بڑی بیباکی اور فنی بصیرت کے ساتھ بیان کیا ہے۔’’آدھا سچ ‘‘ ہمارے سماج کا المیہ ہے ۔اس افسانہ کا مرکزی کردار ایک ہندو بچہ ہے۔ جب وہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے والد نے اس کا نام شری رام رکھا اور اسکول میں داخلے کے وقت اس کے نام کے ساتھ شرما بھی جوڑ دیا جاتا ہے۔ جس سے اس کی شناخت ہو سکے کہ یہ لڑکا برہمن ہے۔ ہندوستان میں شناخت کے لیے نام کے ساتھ ورما، شرما،سید، حسینی اور قریشی لکھنے کی روایت چلی آ رہی ہے۔ یہی بچہ دھیرے دھیرے بڑا ہوتا ہے اور جب یہ لڑکاساتوں آٹھویں جماعت میں پہنچتا ہے تو اس کو شعر و شاعری سے رغبت ہوتی ہے تواس نے اپنا تخلص اقبالؔ رکھ لیا اور اقبالؔ لائلپوری کے نام سے شاعری کرنے لگتا ہے۔ دھیرے دھیرے وقت کی رفتار کے ساتھ وہ اقبالؔ لائل پوری کے نام سے موسوم ہو جاتا ہے اور لوگ اس کا اصلی نام شری رام شرما بھول جاتے ہیں۔ایک دفعہ بیساکھی کے میلے میں وہ جاتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ وہاں پرکچھ لوگ اپنے ہاتھ کی پشت پر ’اوم‘،’۷۸۶‘ اور بازو پر اپنا نام لکھوا رہے تھے۔ اس لڑکے نے بھی شوق سے اردو میں اپنا نام شری رام شرما کے بجائے اقبالؔ لائلپوری لکھوا لیتا ہے اور جب لوگ اس کو اقبالؔ لائلپوری کے نام سے پکارتے ہیں تو اس کا سر فخر سے اونچا ہو جاتا ہے۔تقسیم ہند سے پیش تر ایک دن جب وہ لاہور کے مسلم علاقے شاہ عالمی گیٹ سے گزر رہا تھا کہ اچانک فرقہ وارانہ فساد شروع ہو جاتا ہے ۔ ساری دکانیں بند ہو جاتی ہیں اور لوگ جلدی جلدی محفوظ مقامات کی طرف دوڑ پڑتے ہیں۔ وہ اپنے گھر سے کوسوں دور تھا اور اندر ہی اندر وہ خوف اور دہشت سے کانپ اٹھا کہ اگر کسی کو بھی اس کے ہندو ہونے کی بھنک لگ گئی تو اس کی خیریت نہیں۔ وہ جلدی جلدی ڈگ بھرنے لگا تاکہ وہ ہندو علاقے میں پہنچ جائے لیکن مسلم بلوائیوں نے اچانک اس کو گھیر لیا۔موت اس کے سامنے نظر آنے لگی۔ وہ لوگ اس سے اس کا نام پوچھتے ہیں ۔وہ اپنا نام اقبال ؔ بتاتا ہے تو بلوائی اس کو مسلمان سمجھتے ہیں۔ شہادت کے لیے وہ اپنے بازو پر لکھے ہوئے نام کو دکھاتا ہے۔اسی دوران کلام صاحب آتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ کلام صاحب اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ ہندو ہے لیکن جب اقبال کو بلوائیوں کے درمیان گھرا ہوا دیکھا تو انھوں نے فوراً آواز دی ’’ارے اقبال! تم کہاں گھوم رہے ہو گھر چلو۔کلام صاحب اس کو اپنے گھر لے جاتے ہیں اور ملازم کو آواز دیتے ہیں کہ اس کو بالائی منزل کی کوٹھری میں بند کردو۔ یہ سنتے ہی اس کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے۔ تاریک کوٹھری اس کو پھانسی کی کوٹھری نظر آنے لگی۔ کلام صاحب کا وہی ملازم رات میں اس کے لیے کھانا لاتا ہے اور جب صبح ہوتی ہے تو کلام صاحب اس کو اپنے پاس بلاتے ہیں۔ اس کوچائے پلاتے ہوئے کہتے ہیں کرفیو دو گھنٹے کے لیے کھلا ہے اس لیے میرے ملازم تمہیں ہندو علاقے تک چھوڑ آئیں گے۔ یہ وہی کلام صاحب ہیں جن کے تازہ ترین ناول کا تبصرہ کرتے وقت اس نے لکھا تھا کہ ایم کلام ایک ایسی کتیا ہے جو سال میں درجنوں بچے دیتی ہے۔ اس طرح کا غیر اخلاقی اور اشتعال انگیز تبصرہ چھپنا تھا کہ چاروں طرف اس کے چرچے ہونے لگے۔ جب کلام صاحب نے یہ تبصرہ پڑھا تو وہ بھی آگ بگولہ ہو گئے اور اپنی بندوق لے کر ناشر چودھری شوکت علی کی دکان پر پہنچتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’کہاں ہے وہ تمہارا تبصرہ نگار اقبال لائلپوری؟‘‘ناشر کی منت و سماجت کے بعد ان کا غصہ ٹھنڈا ہوتا ہے اور وہ اس لڑکے کو معاف کر دیتے ہیں۔
اقبالؔ لائل پوری ہجرت کرکے ہندوستان آ جاتا ہے اور اپنے آپ کو محفوظ سمجھتا ہے لیکن فسادات اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے ہیں۔ ہندو بلوائی اس کو چاروں طرف سے گھیر لیتے ہیں ۔ افسانہ نگار نے زندگی کی حقیقت اور بے رحم سچائی سے پردہ اٹھانے کی کامیاب ترین کوشش کی ہے۔ اس افسانے کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’کون ہو تم؟‘‘
’’میں۔۔۔میں ہندو ہوں؟‘‘
’’دکھتے تو نہیں ہو‘‘
’’جناب میں سچ کہتا ہوں۔ میں ہندو ہوں‘‘
’’اچھا تو تم ہندو ہو؟‘‘ ایک بلوائی نے اسے شک و شبہ سے دیکھتے ہوئے کہا ’’اچھا تو تمہارا نام کیا ہے؟
وہ صورت حال سے آگاہ ہو گیا تھا۔ اگر کوئی اور موقع ہوتا تو وہ بڑے فخر سے کہتا۔’’اقبالؔ لائلپوری‘‘
لیکن اس وقت تو اسے جان کے لالے پڑے ہوئے تھے اس لیے بڑی سہمی ہوئی آواز سے اس کی زبان سے نکلا۔
’’شری رام‘‘
’’ابے ’شر ی رام‘ ۔۔۔ ’جے شری رام ‘ کہنے سے کام نہیں چلے گا۔ جلدی سے اپنا صحیح نام بتا۔
’’جی شری رام شرما‘‘
اچھا تو اب شرما بھی لگا لیا لیکن تم ہندو تو دکھائی نہیں دیتے اور یہ شلوار۔۔۔۔؟‘‘
جناب شلوار تو ہم بچپن ہی سے پہنتے آ رہے ہیں۔
اس سے پہلے کہ اس سے کوئی اور سوال کیا جاتا۔ اچانک ایک بلوائی کی نظر اس کے ہاتھ پر اردو
میں لکھے نام پر پڑ گئی۔ اور وہ چیخ اٹھا’’نیتا جی یہ تو مسلمان ہے۔ اس کے تو ہاتھ پر اردو میں نام لکھا ہوا ہے۔‘‘
اچھا۔ سالا ’جھوٹ بولتا ہے ‘اور اس کے ساتھ ہی کچھ کہے سنے بغیر ایک بلوائی نے اپنی تلوار اس کے پیٹ میں گھونپ دی۔
اور اسی اشنا پولیس کی گاڑی کا سائرن بج اٹھا۔ گاڑی کو دیکھتے ہی تمام بلوائی ساتھ کی گلی میں گھس کر اپنے اپنے گھروں میں
جا چھپے۔ پولیس جب موقع واردات پر پہنچی تو اس نے وہاں ایک تڑپتی ہوئی لاش کو دیکھا جو ان کے دیکھتے ہی دیکھتے ٹھنڈی
ہو گئی۔ اس لاش کے ڈیل ڈول اور لباس سے وہ اس جگہ کا باشندہ نظر نہیں آتا تھا۔ ابھی وہ الٹ پلٹ کر اسے دیکھ ہی رہے تھے
کہ اچانک ایک پولیس والے کی نظر اس کے ہاتھ پر کھدے ہوئے اردو نام پر پڑ گئی اور چونکہ ان میں سے کوئی بھی اردو نہیں
جانتا تھا لہذٰا وہ اس لاش کو اٹھا کر پولیس چوکی لے آئے تاکہ کسی اردو جاننے والے سے اس کا نام پڑھوایا جا سکے۔ اور پھر
دوسرے دن تمام اخبارات میں شہ سرخیوں سے یہ تہلکہ خیز خبر شائع ہوئی کہ۔۔۔۔
’’کل شام ایک خطرناک پاکستانی دہشت گرد اقبال پولیس سے مٹھ بھیڑ میں ہلاک ہو گیا ہے جو پاکستان کے شہر لائلپور
حال فیصل آباد کا رہنے والا تھا۔‘‘
طارق چھتاری معاصر اردو افسانہ نگاروں میں ایک اہم افسانہ نگارہیں۔ ان کے تخلیقی سفر کا آغاز1975سے ہوتا ہے جب انھوں نے اپنا پہلا افسانہ ’’تین سال‘‘ تخلیق کیالیکن یہ افسانہ 1979 میں شائع ہوا۔ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’باغ کا دروازہ‘‘ 2001میں شائع ہوا اور اس کا دوسرا ایڈیشن 2011 میں منظرِ عام پر آیا۔اس افسانوی مجموعہ میں طارق چھتاری کے چالیس سالہ ادبی سفر کو دیکھا اور سمجھاجا سکتا ہے۔ان کے اس افسانوی مجوعہ میں کل 19 افسانے ہیں۔ ’’دھوئیں کے تار‘‘،’’آن بان‘‘،’’کھوکھلا پہیا‘‘،’’باغ کا دروازہ‘‘، ’’گلوب‘‘،’’نیم پلیٹ‘‘،’’ شیشے کی کرچیں‘‘،’’لکیر‘‘،’’آدھی سیڑھیاں‘‘،’’پورٹریٹ‘‘،’’صبح کا ذب‘‘،’’تین سال‘‘،’’کوئی اور‘‘،’’دس بیگھے کھیت‘‘،’’ژمبان‘‘،’’دوسرا حادثہ‘‘،’’برف اور پانی‘‘،’’چھلاوہ اور وہ‘‘ اور’’چابیاں‘‘ وغیرہ افسانے کامیاب ترین افسانے ہیں۔ طارق چھتاری نے اپنے افسانے ’’لکیر‘‘ میں ایسے قصبے کی کہانی پیش کی ہے جہاں گنگا جمنی تہذیب بستی ہے جو ہندوستان کے مشترکہ تہذیب کی روح ہے۔ ہندو مسلمان بھائی آپس میں محبت و اخوت اوربھائی چارے کے ساتھ رہتے ہیں۔ اس افسانے میں حمید اور پنڈت برج کشور دو مختلف قوم و ملت کے ماننے والے بڑے ہی پیار اور محبت کے ساتھ رہتے ہیں۔ برج کشور حمید کا استاد ہے وہ حمید کو تعلیم دیتا ہے۔برج کشور کو حمید کے اوپر پورا بھروسہ رہتا تھا۔ حمید پنڈت جی کے یہاں تہواروں پر بڑے شوق سے حصہ لیا کرتا تھا۔ پنڈت جی کی بیٹی کُسم سے حمید کی بہت اچھی دوستی تھی۔ حمید نے ایک مرتبہ کرشن کا رول ادا کرنے پر شہر کے ڈپٹی کے ذریعہ انعام بھی حاصل کیاتھا۔پنڈت جی حمید کو کنہیا کہا کرتے تھے۔ حمید کی دلی خواہش تھی کہ وہ ایک مرتبہ جنم اشٹمی پر کرشن کا کردار ادا کرے لیکن دوسرے فرقے کے لوگوں نے اعتراض کیا اور جنم اشٹمی پر ڈولا نہ اٹھنے کی دھمکی دی۔پنڈت جی اس کا معقول جواب دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پچھلے برس اسکول کے ناٹک میں کرشن کا رول کرنے والا اور رام لیلا میں رام کا کردار ادا کرنے والا، کیا مسلمان نہیں تھا؟جنم اشٹمی کی رات حمیدا پنے گھر نہیں جاتا ہے ۔وہ پنڈت جی کے گھر پر ہی ٹھہر جاتا ہے۔ دوسرے دن پنڈت برج کشور بڑے شوق سے فقیر محمد کے بیٹے حمید کو پوری طرح سے سجا سنوار کر تیار کرتے ہیں۔ حمید رتھ میں بیٹھ کر بالکل کرشن بھگوان معلوم ہو رہا تھا۔ پنڈت برج کشور آرتی کا سامان لے کر اس کی آرتی اتارتے ہیں اور اس کے قدموں میں بیٹھ جاتے ہیں۔عقیدت اور مذہب کے سارے رسومات وہ ادا کرتے ہیں۔ وہ عوام سے کہتے ہیں کہ تم لوگوں نے کرشن کے چرن نہیں چھوئے۔ یہ تو بالک ہے اور بالک پوتر ہوتا ہے۔ یہی ہندوستان کی حب الوطنی، وطن دوستی ،مشترکہ تہذیب اور معاشرتی رواداری کی علامت ہے۔ جس کو افسانہ نگار نے بڑے ہی فنّی بصیرت اور چابکدستی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ افسانہ نگار نے برج کشور کے کردار میں انسانیت کی جو پیکر تراشی کی ہے وہ اپنے آپ میں ایک زندہ آدمی کی مثال ہے۔ اقتباس ملاحطہ فرمائیں:
’’پنڈت جی نے دوپہر سے ہی حمید کو نہلا دھلا کر کرشن کے روپ میں سجانا
شروع کر دیاتھا۔ پہلے پورے بدن پر ہلکا نیل پوتا۔ مردار سنگ کو بھگو کر سل
پر گھسا، پھر حمید کے چہرے پر اس کا لیپ کر دیا۔ چہرہ خشک ہونے لگا تو گلابی
اور نیلا رنگ ملا کر رخساروں پر لگا دیا۔ کمر میں کاچھنی، گلے میں بیجنتی مال،
سر پر کار چوبی مکٹ، ہاتھ میں بنسی اور گردن کی بائیں جانب سے کمر کے
داہنے حصے تک ایک چمکیلی چندری باندھ کر پنڈت جی نے اپنے کنہیا کو سچ مچ
کا کرشن بھگوان بنا دیا۔‘‘
دہشت گرد لوگ فساد پھیلانے کے لیے ایسے ہی موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ وہ لوگ رتھ کو عین مغرب کی نمازکے وقت مسجد کے سامنے روک کر زور زور سے کیرتن اور بھجن گاتے ہیں، شنکھ بجاتے ہیں اور باجے کی آواز کو تیز کر دیتے ہیں۔ ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے۔ ادھر نمازی لوگ اس نا معقول حرکت سے بے انتہا پریشان ہو جاتے ہیں، اسی دوران مسجد والے علاقے سے کوئی اینٹ کا ٹکڑا رتھ پر زور سے پھینکتا ہے اور وہ اینٹ کا ٹکڑا رتھ پر بیٹھے حمید کو لگ جاتا ہے جو رتھ پر کرشن بن کر سوار تھا اور ماتھے پر خون کی لکیر بن جاتی ہے۔ اس کے بعد پورا معاشرہ فرقہ وارانہ فساد کی آگ میں لپٹ جاتا ہے۔طارق چھتاری نے اپنے اس افسانے میں یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح سے امن و امان اور پُر سکون ماحول کو فرقہ پرست لوگ آگ کے حوالے کر دیتے ہیں۔ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی ان کا کوئی دین اور ایمان ہوتا ہے ۔وہ نہ ہندو ہوتے ہیں اور نہ ہی مسلمان۔ اس کی جیتی جاگتی تصویر طارق چھتاری کے افسانے ’’لکیر‘‘ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ فرقہ پرستوں نے کس طرح سے ایک معصوم بچے کو خون سے لت پتھ کر دیا ہے۔ ایک طرف پنڈت برج کشور اور حمید محبت، اخوت اور گنگا جمنی تہذیب کے بے مثل کردار ہیں اور دوسری طرف فرقہ پرست طاقتوں کا۔ جو گاؤں کے امن و امان اور پُرسکون ماحول کو خراب کرتے ہیں۔ طارق چھتاری نے اپنے اس افسانے کے ذریعہ ہندوستان کی مشترکہ تہذیب، غیر معمولی محبت و خلوص، رواداری، وضع داری، اتحاد و اتفاق اور ان کے درمیان جو تہذیبی و ثقافتی مساوات اور رکھ رکھاؤ قائم و دائم تھا اس کوانھوں نے اپنے تئیں پیش کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے، جس میں وہ کامیاب بھی نظر آتے ہیں۔ طارق چھتاری کے شاہ کار افسانے ’’لکیر‘‘ کا ایک اقتباس خاطر نشیں ہو:
’’گشت شروع ہوا شردھالو آرتی اتارتے، چڑھاوا چڑھاتے اوربھگوان کے پیر چھو کر
ڈولے سے اتر جاتے۔ ڈولا جب گلیوں اور چوپالوں سے گشت کرتے ہوئے مسجد
کے قریب پہنچا تو آسمان پر سورج بھی اپنا گشت پورا کر چکا تھا۔ اور موذّن مغرب کی اذان
دینے کے لیے سقا دے (پانی کی ٹنگی) پر کھڑا ڈولے کے گزر جانے کا انتظار کر رہا تھا۔ یا ترا
مسجد کے برابر آکر ٹھہر گئی۔ کیرتن منڈلی بلند آواز میں کیرتن گا رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر اس نے پوری طاقت سے سنکھ بجادیا۔ سنکھ کی آواز سن کر باجے والوں نے بھی
باجے کی آواز یں تیز کر دیں۔ ان آوازوں کی کوکھ سے ایک بہت بھیانک آواز اس وقت اٹھی
جب مسجد کی طرف سے آئے اینٹ کے ایک ٹکڑے نے کرشن بھگوان کے ماتھے پر خون
کی لکیر کھینچ دی۔ بھگوان کے ماتھے سے جب خون کی بوند گری تو آرتی کے تھال میں
جلتا دیا بجھ گیا۔ اینٹ کرشن بھگوان کو ماری گئی تھی، چوٹ حمید کو لگی تھی اور آرتی کا دیا بجھ
گیا تھا۔ موہن کنہیا کے خون کی بوند سے چاروں سمت بے ہنگم شور برپا ہوا۔ چیخ پکار
توڑ پھوڑ اور جذبات سے بھری آوازوں نے مسلمانوں کے دروازوں کو گھیر لیا۔
مسجد کے دروازے پر بھی لوگ جمع ہونے لگے۔۔۔۔۔۔’’بھیا یہ کیا؟ یہ کیا
بھیا۔۔۔۔۔ ہم سب بھائی ہیں۔ اس دھرتی پر پیدا ہوئے ہیں اور اسی۔۔۔۔۔۔‘‘
پیچھے سے آواز آئی’’ہاں اس دھرتی پر مریں گے بھی‘‘ اور اس وقت سیٹھ ڈونگر مل
اور رامانند جی ہلاک کر دیے گئے۔۔۔۔۔۔پنڈت جی کلہاڑی پھینک کر بندا خان
کے دروازے کی طرف بھاگے، جہاں سے ’’جے بجرنگ بلی‘‘ کا نعرہ بلند ہوا تھا۔
وہ جب وہاں پہنچے تو دروازہ شعلے اگل رہا تھا اور اندر عورتوں اور بچوں کی آوازیں
بلک رہی تھیں۔‘‘
طارق چھتاری نے حمید پر ہوئے حملے کے لیے دونوں فرقوں کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے اور بتایا ہے کہ ایک مسلمان پر جن کی طرف سے حمید کو اینٹ لگی۔ یہ طنز کرتے ہیں کہ وہ جس کرشن کو اینٹ مارتے ہیں وہ انھیں کے فرقے کا ایک معصوم بچہ ہے۔ دوسری طرف وہ ہندوؤں پر بھی طنز کرتے ہیں کہ تم نے جس کو ہلاک کیا ہے، قتل کیا ہے اس کو تم لوگ کچھ دیر پہلے تک اپنا کرشن بھگوان بنا کر عبادت اور کیرتن کر رہے تھے۔ یہاں حمیدیا ایک بچہ کی موت نہیں ہے اور نہ ہی ہندو یا مسلمان کی موت ہے بلکہ انسانیت کی موت ہے۔ مذہب اور قوم کے نام پر ہونے والے فساد کو طارق چھتاری نے بڑے ہی طنزیہ اور تلخ انداز میں ہمارے سامنے بڑ ی بیباکی سے پیش کیا ہے اور یہ بتانے کی بھرپور کوشش کی ہے کہ اس فساد کے لیے ہندو اور مسلمان دونوں برابر کے شریک رہے ہیں۔ طارق چھتاری نے اس افسانے میں بیانیہ کے ساتھ ساتھ علامتوں کا بھی بھرپور استعمال کیا ہے۔فقیر محمد کا بیٹا حمید اور پنڈت برج کشور ہندوستان کی مشترکہ گنگا جمنی تہذیب کی علامت ہیں۔ہر پرشاد کا کردار ایک لا ابالی قسم کا انسان ہے جوجذباتی ہو کر اورمذہب کے نشے میں چور ہوکر انسانیت کے فرائض کو بھی بھول جاتا ہے اور انسانیت کا قتل و خون کر دیتا ہے۔ سفید سائے کو اس افسانے میں طارق چھتاری نے سیاسی رہنما کے طور پر استعمال کیا ہے جو بظاہر ملک میں فرقہ واریت کو ہوا دیتے ہیں اوراس ملک میں سرخ اور زرد وہ تنظیمیں ہیں جو ملک میں فساد کی جڑ ہیں۔اس افسانے کا خاتمہ بہت ہی پر اثر ہے۔ ’’لکیر‘‘ کا ایک اقتباس خاطر نشان ہو:
’’پنڈت جی نے دیکھا ایک شخص نے ڈولے پر رکھا پھرسا اٹھا لیا ہے اور کرشن بھگوان
اس کے آگے ہاتھ جوڑے سہمے کھڑے ہیں۔۔۔پنڈت برج کشور کے منھ سے کانپتی
ہوئی آواز نکلی ’’یہ کیا۔۔۔۔یہ تو کرشن بھگوان ہیں۔۔۔۔ کنہیا۔۔۔۔ہمرے کنہیا۔۔۔‘‘
ہرپرشاد جس نے ابھی ابھی آرتی گائی تھی۔ بھرائی ہوئی آواز میں مسمسا اٹھا۔ ’’ناہیں۔۔۔۔۔
یہ حمید ہے فقیر محمد کا لڑکا۔‘‘ ایک ساتھ کئی آوازیں ابھریں ’’ہاں یہ حمید ہے ایک مسلمان کا
لڑکا، ہمارے کرشن بھگوان کا اپمان کیاہے۔ انھوں نے ڈولے پر اینٹ پھینکی ہے۔۔۔
بھگوان کے ماتھے سے خون بہا ہے اور اب دروازے بند کرکے گھروں میں چھپ
گئے ہیں۔‘‘
ڈولے پر کھڑا شخص پھر پھرسا ہوا میں اٹھاتے ہوئے دہاڑا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ہم اس کا بدلہ لیں گے ہم آج سے۔۔۔۔۔۔پھر۔۔۔۔۔۔پھر حمید کے سر پر
ایک بھرپور وار کر دیا۔‘‘
معاصر اردو افسانہ نگاروں میں نئے قلم کاروں میں اسلم جمشید پوری نے اپنی شناخت قایم کی ہے۔ اسلم جمشید پوری نے اپنے افسانوں میں سماج کے ٹوٹتے بکھرتے کرداروں کے ذریعہ سماج کے دکھ درد اور رنج و غم کی حقیقی تصویر کوبہت ہی فنی بصیرت اور ہنر مندی سے ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔ ان کے تخلیقی سفر کا آغاز ’’نشانی‘‘ سے ہوتا ہے ۔ یہ افسانہ1981 میں پہلی بار ’’روشن ادب‘‘ دھلی میں شائع ہوا تھالیکن ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’اُفق کی مسکراہٹ‘‘1997 میں بیسویں صدی کے ادارے سے شائع ہوا تھا۔اس افسانوی مجموعہ میں دس افسانچے اور بائس افسانے شامل تھے۔ جن میں خاص طور سے ’’اندھیرا ابھی زندہ ہے‘‘،’’نہ بجھنے والا سورج‘‘،’’ ممتا کی آواز‘‘ ،’’ترکیب‘‘ اور ’’جاگتی آنکھوں کا خواب‘‘ خاص طور سے اہمیت کے حامل ہیں۔ دوسرا افسانوی مجموعہ’’لینڈرا‘‘ 2009 میں منظرِ عام پر آیا۔ یہ افسانوی مجموعہ موڈرن پبلشنگ ہاؤس، دھلی سے شائع ہوا تھا۔ اسلم جمشید پوری کا تیسرا افسانوی مجموعہ ’’عید گاہ سے واپسی‘‘ 2015 میں عرشیہ پبلی کیشنز، دھلی سے شائع ہوا ہے۔ اس افسانوی مجموعہ میں کُل بارہ افسانے ہیں۔ ’’بدلتا ہے رنگ آسماں‘‘،’’پانی اور پیاس‘‘،’’عید گاہ سے واپسی‘‘،تیری سادگی کے پیچھے ۱‘‘، تیری سادگی کے پیچھے ۲‘‘، ’’راستہ‘‘، ’’بے آبرو‘‘، لمبا آدمی‘‘،’’بنتے مٹتے دائرے‘‘،’’ایک ادھوری کہانی‘‘،’’دن کے اندھیرے رات کے اجالے‘‘ اور ’’ہوئے تم دوست جس کے‘‘ وغیر ہ وغیرہ۔
’’نہ بجھنے والا سورج‘‘ اسلم جمشید پوری کا ایک کامیاب ترین افسانہ ہے۔ جس میں حب الوطنی اور وطن دوستی کے عناصر صاف طور پر دکھائی دیتے ہیں۔اس افسانے کے اہم کردار رمضانو، بانو ، آفتاب اور مہتاب ہیں۔ جن کے ارد گرد کہانی گھومتی ہے۔شاہ پور گاؤں میں ایک عمر رسیدہ عورت رمضانو اپنے دو بیٹے آفتاب اور مہتاب کے ساتھ رہتی ہے۔آفتاب کی شادی بانو سے ہوئے تقریباً دو برس گزر چکے تھے لیکن ان کی محبت کا گلشن ابھی تک ویران پڑا ہوا تھا۔ آفتاب کی نوکری بی ایس ایف میں ہے اور برسوں سے دشمن ملک سے جنگ جاری تھی۔ اس لیے آفتاب کو گھر آنے کا موقع نہیں مل سکا لیکن وہ کئی دفعہ گھر آنے کی تاریخ بھی لکھ چکا تھا مگر فرصت نہ ملنے کی بنا پر وہ گھر نہ آ سکا تھا۔ اس دفعہ کمانڈر نے آفتاب کو ایک ہفتہ کی چھٹی دی تھی اور آفتاب نے اپنے بھائی مہتاب کو خط لکھا ہے کہ وہ اس مہینے کی 12 تاریخ کو گھر آ رہا ہے۔ مہتاب نویں جماعت کا طالب علم ہے۔ رمضانو اور بانو پڑھی لکھی نہیں ہیں۔ رمضانوبوڑھی ہو چکی ہے اس لیے وہ گھر کا کام دھندھا نہیں کر تی ہے۔ گھر کا سارا کام بانو کے ذمہ ہے۔ جسیے ہی خبر رمضانواور بانوکو ملتی ہے کہ آفتاب آ رہا ہے سارے گھر میں خوشی کا ماحول چھاجاتا ہے۔ بانو تو پھولے نہیں سما رہی تھی۔ گھنٹوں آئینے کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑے میں خود کو سنوارتی رہی۔ آج اس نے آفتاب کی پسندکے لائے ہوئے کپڑے پہنے تھے جو آفتاب پہلی بار دھلی سے لایا تھا ۔ اس نے مانگ میں سندور، کانوں میں بالی،ناک میں لونگ، ہاتھوں میں چوڑیاں اور تمام معمولی زیورات اس نے اپنے بدن میں پہن لیے تھے، جو اس کی شادی کے تھے۔اس لباس میں وہ نئی نویلی دلہن معلوم ہوتی تھی ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے اس کی برات آ رہی ہو۔ رمضانوبھی بہت خوش معلوم ہو رہی تھی کیوں کہ آج اس کا بیٹا آفتاب برسوں کے بعد گھر آ رہا تھا۔آج اس نے رس کی کھیر پکائی ہے جو آفتاب کو بہت پسند تھی۔سبھی لوگ آفتاب کا انتظار کرتے کرتے مایوس ہو جاتے ہیں۔ امید کی لو دھیرے دھیرے مدھم ہوتی جاتی ہے۔ صبح سے شام ہو جاتی ہے لیکن آفتاب نہیں آتا ہے ۔ ڈاکیہ آتا ہے۔مہتاب خط پڑھتا ہے کہ میں اس تاریخ میں گھر نہ آ سکوں گا۔ ادھر پھر جنگ زورو ں پر ہے اور ہماری سرحدوں پر دشمن کی فوج نے حملہ کر دیا ہے۔ زندگی نے ساتھ دیا اور خدا کی مرضی رہی تو پھر ملیں گے ورنہ۔۔۔آفتاب کے خط کو سن کر بانو کی آنکھ سے آنسو بہنے لگتے ہیں۔ کھلا ہو ا گلاب مرجھا جاتا ہے۔ رمضانو اپنے بہو کو دلاسہ دیتے ہوئے کہتی ہے کہ بہو مت رو۔ کیوں روتی ہے۔ اﷲ سے دعا کر کہ وہ ہمارے ملک کو فتح نصیب کروائے۔دوسرے دن ریڈیو سے یہ خبر آتی ہے کہ غیر ملکی فوجیں ناکام ہو گئی تھیں۔ ملک کے نوجوانوں نے بہت بہادری دکھائی لیکن کئی ہندوستانی جوان شہید ہو گئے۔ جس میں شاہ پور گاؤں کا آفتاب بھی بڑی بہادری کے ساتھ جنگ کرتا ہوا شہید ہو گیا۔ رمضانو ملک کے لیے اپنے بیٹے آفتاب کے شہید ہو نے پر آنسو نہیں بہاتی ہے بلکہ وہ فخر کرتی ہے کہ اس کا بیٹا وطن کے لیے قربا ن ہو گیا۔ رمضانو اپنی بہو بانو کو دلاسہ دیتے ہوئے کہتی ہے کہ :
’’ارے پگلی ۔۔۔تو رو رہی ہے۔۔۔۔آج تو ہنسنے کا دن ہے۔ ہمارا ملک جیت گیا۔ دشمنوں کو منہ کی کھانی پڑی
ہے۔ تو کیوں روتی ہے۔ تیرا آفتاب چھپا نہیں ہے۔ یہ عارضی موت ہے۔ وہ شہید ہو کر اور بھی روشن ہو گیا ہے۔
وہ ہمیشہ چمکتا رہے گا۔ اس کا نام امر ہو گیا ہے۔ دعا کرو ملک کا ہر نوجوان محب وطن ہو، ملک پر جان دینے والا ہو۔ بیٹی
جب وطن کی عزت اور آبرو کا سوال ہوتا ہے تورشتے ناطے نہیں دیکھے جاتے۔ آنسو نہیں بہاےء جاتے بلکہ ہمت
کے بازوؤں سے کام لیا جاتا ہے۔ آفتاب تو ہمیشہ ملک کے آسمان پر چمکتا رہے گا۔‘‘
بلراج بخشی کے افسانوں میں حب الوطنی کے یہ تمام عوامل دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں جا بہ جامعاشرتی سروکارنظرآتے ہیں اوراجتماعی معاشرتی جبر کے خلاف اور بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے فرد کا پرزور احتجاج دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن اپنے مافی الضمیر کے اظہار کے لئے بلراج بخشی کسی اونچے پلیٹ فارم پر کھڑے ہو کر نعرہ بازی نہیں کرتے بلکہ وہ اپنے کرداروں کو ان کے millieu میں چھوڑ کر آگے نکل جاتے ہیں اور خود کہیں نظر نہیں آتے۔
بلراج بخشی کے قابلِ قدر افسانے ’ فیصلہ ‘ میں ایک جنگلی مرغ مظلوم عوام کی بے بسی اور بے چارگی کی تمثیل بن گیا ہے ۔ جموں و کشمیر کے ضلع بھدرواہ میں شدید برفباری کی وجہ سے ایک جنگلی مرغ بالائی خطے سے اتر کر نیچے بستی میں آ جاتا ہے جہاں لوگ اس کی جان کے درپے ہو کر اس کا تعاقب کرتے ہیں ۔ بھاگتا ہوا مرغ ایک عدالت میں پہنچ جاتا ہے جہاں کا presiding judge خود گوشت کی ایک بوٹی کے لئے ترس گیا ہے۔ جج مظفر علی رانا کی آنکھوں کے سامنے جب کمرہ عدالت میں اس کا اردلی سلیمان مرغ پر قابو پا کر اسے ذبح کرنے لگتا ہے تو عین اسی وقت جج مظفر علی رانا یہ کہہ کر مرغ کو آزاد کرنے کا حکم دیتا ہے کہ یہ عدالت ہے، ذبح خانہ نہیں۔ بلراج بخشی نے مرغ پر قابو پانے کا منظر اور اسے ذبح کرنے کی تیاری کی منظر کشی اس انداز سے کی ہے کہ قاری کے سامنے اب ذبح شدہ مرغ آنے ہی کو ہے مگر عین وقت پر جب جج مظفر علی رانا اسے آزاد کرنے کا حکم دیتے ہیں تو بالکل غیر متوقع طور پرقاری اطمینان اور سکون کے احساس سے مالا مال ہو جاتا ہے ، an immense sense of relief and painlessness ۔ یہاں افسانے کے تمام انسلاکات پر بحث کی گنجائش نہیں ہے لیکن بلراج بخشی کا یہ پیغام واضح ہے کہ اب اسٹیبلشمنٹ سے انصاف کی کوئی امید نہیں رہی، اور کہ اب عدلیہ ہی عوام کے مسائل کا سدباب کر سکتی ہے ۔ ’’فیصلہ‘‘ میں جج رانا نے انسانیت کی جو تصویر پیش کی ہے وہ قابلِ ستائش ہے۔ اس افسانہ کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’سلیمان نے اس کا سر موڑ کر اس کے گلے پر چھری رکھی اورزیر لب کچھ پڑھنے لگا۔ مرغ میں اب چھٹپٹانے
کی قوت بھی نہیں رہی تھی۔ بقا کی طویل جدو جہد نے اسے تھکا دیا تھا اور مزاحمت کے مرحلوں سے گزر کر اب وہ
شائد بہ تقدیر ہو گیا تھا۔ اس کی چونچ جج رانا کی طرف تھی اور اس کی آنکھیں رانا کی جانب دیکھتی محسوس ہو رہی تھیں۔
کیا یہ میری طرف دیکھ رہا ہے، رانا نے حیرت سے سوچا اور اسے لمحہ بھر کو لگا کہ وہ واقعی اسی کو دیکھ رہا ہے۔ رانا بھی
کچھ دیر اس کی آنکھوں میں دیکھتا رہا۔
پھر جب سلیمان اس کے گلے پر چھری پھیرنے ہی والا تھا کہ رانا بے اختیار چیخ پڑا،
’ٹھہرو۔۔۔‘
سلیمان نے ہاتھ روک کر حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔ رانا عدالت کی میز سے اتر کر اس کے پاس آ گیا۔
’اسے چھوڑ دو۔۔۔‘
سب اسے حیرت سے دیکھنے لگے۔ گوشت کے اس شدید بحران میں بمشکل یہ ہاتھ لگا تھا اور جج صاحب کیا
کہہ رہے تھے۔ ’اسے چھوڑ دو۔۔۔‘ جج رانا نے پر سکون لہجے میں کہا’۔۔۔یہ عدالت ہے ذبح خانہ نہیں۔۔۔‘‘
بلراج بخشی کا ’ ڈیتھ سر ٹیفکیٹ ‘ بھی ایک اسی قسم کا افسانہ ہے جہاں ایک عام آدمی اپنا شناختی کارڈ بنوانے کے لئے کس غیر منطقی طریقے سے اسٹیبلشمنٹ کی سنگدلی اور بے حسی کا شکار ہوتا ہے اور آخر میں وہ افسر سے ڈیتھ سر ٹیفکیٹ بنانے کی گزارش کرتا ہے ۔
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ بلراج بخشی کے افسانے کسی نظریے کی تبلیغ نہیں کرتے بلکہ وہ بڑے موضوعات کو چھوتے ہیں اور غیرجانبداری اور سفاکی سے زندگی کا تجزیاتی مطالعہ کرتے ہیں ۔ بلراج بخشی کے افسانے لاؤڈ اسپیکر ، سقوط ، قرابتدار ، کیا نہیں ہو سکتا، اور کئی دوسرے افسانے میں معاشراتی سروکاروں کی شکل میں حب الوطنی کا جذبہ ایک چیخ کی صورت میں صاف سنائی دیتا ہے ۔
اقبال حسن آزاد معاصر اردو افسانہ نگاروں میں ایک اہم اور معتبر افسانہ نگار ہیں۔ ان کے تخلیقی سفر کا آغاز1977 سے ہوتا ہے جب ان کا پہلا افسانہ ’’انقلاب‘‘شمع دہلی سے شائع ہوتا ہے۔ ’’قطرہ قطرہ احساس‘‘ اقبال حسن آزاد کا پہلاافسانوی مجموعہ 1987میں منظرِ عام پر آیا۔ دوسرا افسانوی مجموعہ’’مردم گزیدہ‘‘ 2005 میں شائع ہوا ہے اور تیسرا افسانوی مجموعہ’’پورٹریٹ‘‘ ہے جو 2017میں منظرِ عام پر آیا ہے۔ حب الوطنی کے حوالے سے اقبال حسن آزاد کاکامیاب ترین افسانہ ’’کاٹنے والے جوڑنے والے‘‘ہے۔ اس افسانہ میں افسانہ نگار نے تقسیم ملک سے پیشتر اور تقسیم ِ ہند کے بعدرو نما ہونے والے فسادات اور خونریزی کو بیانیہ انداز میں بڑی خوبصورتی اور فنّی بصیرت اور ہنر مندی کے ساتھ پیش کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ شمبھو ناتھ کے کردار کے ذریعہ انسانیت کی جو پیکر تراشی کی ہے وہ ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کاایک جیتا جاگتالا زوال کردارہے۔ افسانہ نگار نے جمّن میاں اور شمبھو ناتھ کے کردار کے ذریعہ ملک کی رواداری، وطن دوستی ،پاسادری ،بھائی چارے اور انسان دوستی کی تصویر کو بہت ہی فنی لطائف اور کامیابی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ شمبھو ناتھ کا دوست جمّن ہے جو ٹیلر ماسٹر ہے اور اس کی بازار میں ٹیلرنگ کی دکان ہے۔ جہاں پر رحمت میاں شکور میاں اور اسلم میاں کام کرتے ہیں۔ کوئی دکان پر سینے کا کام کرتا ہے، کوئی کاٹنے کا کام کرتا ہے اور کوئی جوڑنے کا کام کرتا ہے۔ جمّن میاں کا بیٹا اسلم اور شمبھو ناتھ کا بیٹا پردیپ خاص دوست ہیں۔ ملک کی تقسیم سے پیشتر ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات شروع ہو جاتے ہیں۔ مسلمان بھائی اپنا گھر بار چھوڑ کر پاکستان روانہ ہو رہے ہیں۔ پورے کا پورا گاؤں خالی ہو جاتا ہے۔ اسلم اپنے والد سے کہتا ہے کہ ہمارے دینی بھائی جا رہے ہیں کیوں نہ ہم لوگ بھی یہاں سے چلے جائیں۔ جمّن میاں بھڑک اُٹھتے ہیں۔جمّن میاں کواس ملک کی مٹّی عزیز ہے وہ اسی ملک میں دفن ہونا چاہتے ہیں۔ جمّن میاں کا گھر ملی جلی آبادی والا علاقہ تھا۔ جو فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور گنگا جمنی تہذیب کی جیتی جاگتی مثال تھی۔ حالات سے بد سے بد تر ہونے لگے تو جمّن میاں بھی چپکے چپکے روانگی کی تیاری شروع کر دیتے ہیں لیکن دکان کا کوئی انتظام نہیں ہو پارہا تھا۔ بیٹی سکینہ کا بھی بیاہ اس کے خالہ زاد بھائی سے طئے کر دیا تھا۔ ایک دن صبح سویرے شمبھو ناتھ جمّن میاں کو خبر دیتا ہے کہ سنا ہے آج حملہ ہونے والا ہے۔ با ہر سے دنگائی بلائے گئے ہیں، بہتر ہوگا آپ لوگ کسی محفوظ مکان پر چلے جائیں۔ اس رات گاؤں میں بڑا اندھیرا اور سنّاٹا تھا۔ جمّن میاں کے گھر کے سامنے نواب صاحب کی کوٹھی تھی۔ نواب صاحب نے جمّن میاں اور ان کے بال بچوں کو اپنی کوٹھی میں بُلوا لیا۔ رات کو دنگائی جمّن میاں کے گھر پر حملہ کرتے ہیں لیکن شمبھو ناتھ اور اس کا بیٹا پردیپ جمّن میاں کے گھر کی حفاظت کرتے ہیں۔ صبح جب جمّن اپنے گھر آتا ہے تو دیکھتا ہے کہ گھر کا سارا سامان ویسے ہی پڑا ہوا تھا جیسے وہ چھوڑ کر گیا تھا اور اس کے دروازے پر شمبھو ناتھ اس کا بیٹا پردیپ موجود رہتا ہے۔ شمبھو ناتھ کی انسان دوستی دیکھ کر جمّن کی آنکھ سے خوشی کے آنسو بہنے لگتے ہیں اور دونوں دوست گلے ملتے ہیں۔ انسان دوستی اور بھائی چارے کی عمدہ مثال کو اقبال حسن آزاد نے بڑی خوبصورتی اور کامیابی کے ساتھ اپنے افسانے میں پیش کیا ہے۔ اس افسانے کا ایک اقتباس خاطر نشان ہو:
’’جمن میاں !آپ لوگ آ گئے۔ شکر ہے بھگوان کا۔‘‘شمبھو ناتھ دونوں ہاتھ جوڑے کھڑا تھا۔ان کے جی
میں آیا کے اس ولدالحرام کو کھڑے کھڑے گولی مار دیں مگر خون کا گھونٹ پی کر رہ گئے۔اتنے میں پردیپ
ہاتھوں میں کنجی لئے آتا دکھائی دیا۔
’’جمن میاں!آپ کے گھر کا تالا تو ٹوٹ گیا۔میں نے اپنا تالا لگا دیا تھا۔ لیجیے اپنا گھر سنبھالیے۔‘‘
جمن میاں کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔انوں نے کانپتے ہاتھوں سے کنجی سنبھالی ‘
گھر کا دروازہ کھولا اور اندر داخل ہو گئے۔
ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
گھر کا سارا سامان بالکل اسی طرح رکھا ہوا تھا جیسا وہ چھوڑ کر گئے تھے۔
انہوں نے حیرت زدہ نگاہوں سے شمبھو ناتھ کی طرف دیکھا۔وہ شرمندہ سا کھڑا تھا۔
’’جمن میاں!ہم لوگوں نے تمہارا سامان تو بچا لیا مگر تمہارے گھر کو جلنے سے نہ بچا سکے۔معاف کر دینا۔‘‘
جمن میاں کی آنکھیں آنسوؤں سے ڈبڈبا گئیں اور وہ بے اختیار ہو کرشمبھو ناتھ سے لپٹ گئے۔
اسرار گاندھی کا افسانہ’’جنگل سے پرے‘‘ایک ایسا افسانہ ہے جس میں انسانی اور حب الوطنی کے عناصر نظر آتے ہیں اور اس کو افسانہ نگارنے عالمی سطح پر پیش کرنے کی کامیا ب کوشش کی ہے۔ یہ کہانی ایک ایسے بچہ کی ہے ،جس کی عمر تقریباً پانچ برس کی ہے ،جو بھیڑیوں کے ساتھ ماند میں رہتا ہے اور انھیں کی طرح زندگی گزارتا ہے۔ یہ بچہ بھیڑیوں کے ساتھ رہتا ہے، کھاتا ہے، پیتا ہے ، انھیں کی زبان بولتا ہے اور انہیں چوپایہ جانوروں کی طرح چلتا بھی ہے۔ انور اور وسیم شکار کھیلنے کی لیے جنگل میں جاتے ہیں۔ یہ لوگ بچہ کو بھیڑیوں کے ساتھ دیکھتے ہیں تو حیران ہو جاتے ہیں۔ بہ مشکل اس بچہ کو پکڑ کر اپنے گھر لے آ تے ہیں۔ اس کو انسان بناتے ہیں۔ لکھنا، پڑھنا، اُٹھنا، بیٹھنا اور کھانے پینے کا سلیقہ سکھاتے ہیں۔ اس کا نام لوگ پیار سے خاور رکھتے ہیں۔ اب یہ پندرہ برس کا ہو گیا ہے۔ اب خاور ٹی۔ وی دیکھتا ہے اور اخبار بھی پڑھتا ہے لیکن کچھ دنوں کے بعد وہ نہ کچھ دیکھتا ہے اور نہ ہی کچھ بولتا ہے۔ لوگ حیران اور پریشان ہو جاتے ہیں تو خاور سے پوچھتے ہیں کہ تمہیں کیا ہو گیا تو وہ جواب دیتا ہے کہ میں جانوروں کے بیچ میں ہی اچھا تھا۔ کم سے کم وہاں پر خون خرابہ تو نہیں تھا۔اسرا گاندھی کہانی کہنے کے فن سے بخوبی واقف ہیں اور انھوں نے جس خوبصورتی اور فنی بصیرت کے ساتھ افسانے کو کامیاب بنانے کی کوشش کی وہ قابلِ ستائش ہے۔ خاور اس دنیا میں ہونے والے قتل و خون کی خبریں دیکھ کر اور پڑھ کر پریشان ہو جاتا ہے۔ اس کو اس دنیا سے نفرت ہو جاتی ہے۔ وہ کہتا ہے:
’’انکل اس دنیا میں اتنا خون خرابہ، اف میرے خدا۔ وہ جو بے گناہ ہیں ان کے خون سے زمین سینچی جا رہی ہے۔
انھوں نے کسی کا کیا بگاڑا ہے۔ انکل شائد کمزوری کی سزا موت ہوتی ہے۔ میں نے اسی لیے اخبار پڑھنا اور
ٹی وی دیکھنا چھوڑا کہ قتل، خون، غارت گری میں اب اور نہیں دیکھ سکتا۔‘‘
خاور ایک لمحے کے لیے ٹھہرا پھر اپنے پپا کی طرف دیکھتے ہوئے ہکلا ہکلا کر بولنا شروع لیا۔ ’’ پپا آپ نے
میرے ساتھ بہت زیادتی کی۔ اس ماند سے مجھے یہاں لائے اور آدمی بنانے کی کوشش کی۔ پپا میں وہیں بہتر
تھا کہ وہاں اس قدر خون خرابہ نہ تھا۔‘‘
اچانک خاور زور زور سے رونے لگا اور روتے ہوئے بس وہی ایک جملہ دہراتا جا رہا تھا۔’’پپا میں اپنے ماند
میں ہی بہتر تھا۔‘‘
اسی طرح حب الوطنی، انسانیت اور دہشت گردی کے حوالے سے گلزار کا افسانہ ’’خوف‘‘،ساجد رشید کا افسانہ ’’زندہ گور‘‘اور’’ایک چھوٹا سا جہنم،‘‘ احمد صغیر کا افسانہ ’’شہر چھوٹا نہیں‘‘ ،’’شگاف‘‘اور ’’کچھ بھی تو نہی بدلا‘‘، بیگ احساس کا افسانہ ’’آسمان بھی تماشائی‘‘،’’ریت کا سمندر‘‘ اور تیرگی کا سفر‘‘، غضنفر کا افسانہ ’’پہچان‘‘،’’سائبر اسپیس ‘‘اور خالد کا ختنہ‘‘، سید محمد اشرف کا ’’آدمی‘‘ اور ’’کعبے کا ہرن‘‘، حسین الحق کا ’’نیو کی اینٹ‘‘، انیس رفیع کا افسانہ ’’کرفیو سخت ہے‘‘،انور خان کا افسانہ ’’راستے اور کھڑکیاں‘‘ ، ’’کوؤں سے ڈھکا آسمان‘‘اور ’’لمحوں کی موت‘‘، عبدلصمد کا افسانہ ’’درماں‘‘ اور ’’ کال بیل‘‘،اشتعیاق سعید کا افسانہ ’’پرائی دھرتی کا عذاب‘‘اور ’’فرنگی‘‘، سریندر پرکاش کا افسانہ ’’بالکنی‘‘، ابنِ کنول کا افسانہ ’’خانہ بدوش‘‘، شوکت حیات کا افسانہ ’’ گنبد کے کبوتر‘‘ اور ’’سانپوں سے نہ ڈرنے والا بچہ‘‘، مجیب احمد کا افسانہ ’’افواہ‘‘، شفق کا افسانہ ’’نیلا خوف‘‘، الیاس احمد گدی کا افسانہ ’’بغیر آسمان کی زمین‘،‘مشرف عالم ذوقی کا افسانہ ’’احمداباد ۳۰۲ میل‘‘ اور جیلانی بانو کا بانو کا افسانہ ’’مجرم‘‘ وغیرہ خاص طور سے دیکھے جا سکتے ہے۔ ایک بات میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ آج اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے اس ما بعد جدید تناظر میں بڑے موضوعات کو صحافیانہ پیرائے میں بیان کرکے اچھا اوربڑا افسانوی ادب تخلیق نہیں کیا جا سکتا ہے کیوں کہ اگر اس قسم کی کوئی کوشش کرے گا تو وہ تشہیری اور تبلیغی ادب( propoganda literature ) کہلائے گا اور اس کی کوشش ترقی پسند ادیب پہلے ہی کر چکے ہیں۔ بڑا ادب وہی ہو سکتا ہے جس میں زندگی کی رنگا رنگی اور بو قلمونیت کو افسانوی رنگ و آہنگ میں پیش کیا گیا ہو۔

Ajai Malviya
About the Author: Ajai Malviya Read More Articles by Ajai Malviya: 34 Articles with 78741 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.