کلن کمار نے للن بہاری سے کہا یار ان بھاگلپور والوں نے
بہار کی ناک کٹوادی ۔ اب تو ہم لوگ کسی کومنہ دکھانے لائق نہیں رہے۔
للن بہاری نے قہقہہ لگا کر کہا بھائی ناک تھی ہی کہاں؟ جو کٹتی؟؟
یہ کیسی بات کررہے ہو للن ؟ بہار کوئی نکٹا پردیش ہے کیا؟
پہلے تو نہیں تھا لیکن مظفرپور کے شیلٹر ہوم والی گھٹنا کے بعد ہوگیا ۔
ارے بھائی اتنے بڑے پردیش میں ایک آدھ واقعہ کے رونما ہونے سے کیا صوبے کی
ناک کٹ جاتی ہے؟
جی نہیں ناک اس سانحہ کے بعد نہیں بلکہ اس خبر کے بعد کٹی کہ ریاست میں
سماجی فلاح بہبود کی وزیرمنجو ورماکا شوہر بھی اس میں ملوث تھا ۔
یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں للن بھائی۔ اس منجو کے پتی چندریشور ورما کا اس سے
کیا سمبندھ؟
ارے بھائی شیلٹر ہوم تو اینٹ گارے کی عمارت ہے۔ اس سے نہیں بلکہ چلانے والے
برجیش ٹھاکر کے چندریشور سے تعلقات تھے ۔
لیکن برجیش ٹھاکرتوبڑا دبنگ آدمی ہے؟
جی ہاں کیونکہ وہ چار جعلی اخبارات چلاتا تھا۔
مجھے پتہ ہے وہ بازار میں نہیں بکتے مگر اس کو سالانہ چالیس لاکھ کے سرکاری
اشتہارات ضرور ملتے تھے۔
لیکن اس سے بھی بری بات یہ ہے کہ اپنی طاقت کا دبدبہ قائم رکھنے کے لیے وہ
سیاستدانوں بلکہ خاتون وزیر کے شوہر سے بھی شیلٹر ہوم کی نابالغ لڑکیوں کا
استحصال کرواتا تھا ۔
یہ تو واقعی شرمناک بات ہے۔
لیکن اس سے بھی زیادہ بھیانک بات یہ ہے کہ ان سارے حقائق کے افشاء ہوجانے
پربھی سشیل مودی نے اس کی مذمت نہیں کی اور نتیش کمار نے منجو ورما کا دفاع
کرنے کے لئے نظام کو موردِالزام ٹھہرا دیا ۔
کلن کمار بولا لیکن میں نے سنا ہے وزیر موصوفہ استعفیٰ دے چکی ہیں؟
تم نے صحیح سنا۔ عدالت عظمیٰ کی پھٹکار کے بعد مجبوراً نتیش کمار نے
استعفیٰ تو لیا لیکن برجیش کو جیل نہیں بھیجا ۔
اچھا! میں نے تو اس کی گرفتاری کا فوٹو اخبار میں دیکھا تھا ۔
وہ تو میں نے بھی دیکھا لیکن پولس اس کو جیل کے بجائے اسپتال لے گئی ۔
کیوں وہ بیمار ہوگیاتھاکیا؟
جی نہیں جیل میں اس کی جان کو خطرہ تھا اس لیےآرام کے لیے اسپتال لے جایا
گیا۔
جیل میں جان کو خطرہ بات سمجھ میں نہیں آئی ۔
بھائی کلن کمار آج کل ہمارے صوبے میں کوئی محفوظ نہیں ہے ۔
یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں للن بہاری۔ سشاسن بابو کے راج میں ایسا نہیں ہوسکتا
۔
ارے بھائی وہ زمانہ بیت گیا۔آج کل تو اٹل بہاری واجپائی پر تنقید کرنے کے
نتیجے میں پروفیسرسنجے کمار کے گھر میں گھس کر کوزدوکوب کیا جاتا ہے بلکہ
زندہ جلانے کے لیے ان پر پٹرول تک چھڑک دیا جاتا ہے۔ وہ تو خیر قسمت سے بچ
گئے۔
اور ہمارے نتیش کمار ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں؟ یہ نہیں ہوسکتا ؟؟
للن بہاری بولا جی نہیں وہ کارروائی تو کرواتے ہیں لیکن پروفیسر کے خلاف۔
بیچارے سنجے سنگھ کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیاہے۔
اچھا یہ تو بہت بری بات ہے۔
جی ہاں اب پولس ان کوگرفتار کرکے جیل لے جانے کے لیے اسپتال سے رہائی کا
انتظار کررہی ہے ۔
یار کمال ہے جسے جیل میں ہونا چاہیے وہ اسپتال میں اور جس کو اسپتال میں
ہونا چاہیے وہ جیل میں ؟ بات سمجھ میں نہیں آئی۔
میرے دوست کلن کماراندھیر نگری چوپٹ راج کے اندر کچھ سمجھ میں نہیں آسکتا
۔ اس لیے بلاوجہ دماغ پر زور نہ دو۔
یہ تو صحیح ہے لیکن میرے خیال میں بھاگلپور کا واقعہ ان سب سے زیادہ بھیانک
ہے۔
کیوں آخر ایسا کیا ہوگیا بھاگلپور میں ؟
بھاگلپور میں ریلوے پٹری پر ایک وملیش ساو کی لاش ملی ۔
یہ تو عام سی بات ہے ۔ پولس نے اس کی لاش کو اپنے قبضے میں لے کر پوسٹ
مارٹم کے لیے بھیج دیا ہوگا ۔
جی نہیں للن بھیا ایسا نہیں ہوا۔ دو پولس تھانوں کے لوگ وہاں پہنچے اور ان
میں تنازع ہوگیا کہ لاش کس کی حدود میں ہے۔
ارے بھائی تو ریلوے پولس کو حکم بنا کر اسے حل کروالیتے۔
جی ہاں لیکن اس سے پہلے وہاں ہجوم پہنچ گیا ۔
اچھا اس کا کیا کام ؟
بھائی اس کے پاس کوئی کام نہیں ہے اس لیے جب چاہتا ہے؟جہاں چاہتا ہے پہنچ
جاتا ہے۔
اچھا تو پھر اس کے بعد کیا ہوا؟
ان لوگوں نے قریب کی ایک بستی پر ہلہً بول دیا۔ توڑ پھوڑ اور آگ زنی کرنے
لگے۔
قریب کی بستی پر حملہ۔ وہاں والوں کا کیا قصور ؟
بھیڑ کو شبہ تھا کہ اس بستی کے لوگوں نے ویملیش کوقتل کیا ہے ۔
بستی کے لوگ چلتی گاڑی کے اندر سے کسی کو مار کر اس کی لاش سڑک پر کیسے
پھینک سکتے ہیں کلن کمار؟
للن بہاری یہ آپ اس لیے سوچ رہے ہیں کہ ہجوم میں شامل نہیں ہیں۔ اگر آپ
بھی اس کا حصہ ہوتے تو نہیں سوچتے ۔ اس لیے بھیڑ نہیں سوچتی۔
بنا سوچے سمجھے وہ کیا کرتی ہے؟
وہ کچھ بھی کرسکتی ہے۔ اس کو اپنی مرضی کے مطابق قتل و غارتگری کا لائسنس
ملا ہوا ہے۔ بڑی ڈھٹائی سےوہ اپنے کرتوتوں کی ویڈیو بنا کر پھیلاتی ہے۔
اچھا تو بھاگلپور میں اس نےکسی مسلمان کو قتل کردیا ؟
جی نہیں وہاں پر اس نے ایک ہندو عورت کو برہنہ کرنے کے بعدبازار میں دوڑا
دوڑا کر مارا۔
عورت ! اس بیچاری کا کیا قصور ؟
کوئی قصور نہیں تھا۔ اسی لیے پڑوسیوں کے بھیڑ آرہی ہے بھاگ جاوکہنے پراس
نے کہا تھا جب ہم نے کچھ کیا ہی نہیں تو کیوں بھاگیں ؟
یار پھر تو وہ بیچاری بلاوجہ ذلت ورسوائی کا شکار ہوئی ۔
بھیڑ کا یہی شعار ہے ۔ وہ قصووار کو سزا نہیں دیتی ۔ اس کاتو کام ہی نہتے
اور کمزور لوگوں پر اپنا غصہ اتارنا ہے للن جی ۔ یہی ہجومیت ہے۔
ہجومیت! یہ اصطلاح تو میں آج پہلی بار سن رہا ہوں ۔ یہ کیا ہوتی ہے؟
میں نے اسے ابھی ابھی وضع کیا ہے۔ یہ دیو جمہوریت کی نرینہ اولاد ہے۔
میں نہیں سمجھا ؟
اکثریت کے جبرکاخوبصورت نام جمہوریت ہے اور اقلیت کی قبر پر چسپاں خوشنما
کتبہ ہجومیت ہے۔
لیکن کلن کمار اس کے پس پشت کارفرما وجوہات بھی تو کچھ ہوں گی؟
جمہوری نظام اپنی ناکامی کی پردہ پوشی کے لیے عوام میں نفرت کے جذبات پیدا
کرتا ہے اور اس غم و غصے کاا ظہار ہجومی تشدد کی شکل میں ہوتا ہے۔
للن بہاری نے پوچھا لیکن تم نے تو کہا تھا وہاں دو پولس تھانوں سے فورس
پہنچ چکی تھی۔ کیوں انہوں نے کچھ نہیں کیا؟
ان لوگوں کو جو تربیت دی گئی ۔ ان لوگوں نے وہی کیا؟
کیسی باتیں کرتے ہو کلن کمار ؟پولس کو کیا اسی لیے وردی اور اسلحہ دیا جاتا
ہے؟
جی ہاں اس کو ہجوم کی حفاظت کرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ ہجومی تشدد کے
واقعات گواہ ہیں کہ پولس نے بھیڑ کے تشدد کا شکار ہونے والوں کے خلاف ہی
اسلحہ استعمال کیا ہے۔بھاگلپور میں بھی انہوں نے یہی کیا ۔ وہ خود بھیڑ کا
حصہ بن گئے ۔
للن بہاری نے کچھ سوچ کر کہا یار مجھے تو لگتا ہے کہ ہندوستان کے بھکتوں نے
بھاگوت جی کا سپنا ساکار کردیا ہے۔
آپ کس خواب کی بات کررہے ہیں للن بہاری ؟
وہی جس کا اظہار سرسنگھ چالک نے فروری میں مظفرپور کے تربیتی اجتماع میں
کیا تھا ۔
آج کل تو پردھان سیوک کے جملے بھی یاد نہیں رہتے ایسے میں سرسنگھ چال کی
باتیں کون یاد رکھے ۔آپ بھی بتائیں ۔
ارے بھائی انہوں نے کہا تھا فوج کو جس تیاری کے لیے ۶ ماہ درکار ہیں وہ کام
سنگھ پریوار تین دن میں کرسکتاہے ۔
لیکن اس سے ہجومی تشدد کا کیا تعلق؟
ارے بھائی بھکتوں نے ثابت کردیا کہ تین دن تو بہت ہیں ۔ وہ لوگ ۳۰ منٹ کے
اندر میدان میں اتر کر جو من میں آئے کرسکتے ہیں ۔
جی ہاں یاد آیا لیکن موہن بھاگوت نے یہ بھی کہا تھا کہ سنگھ سیوک اپنی
ذاتی اور سماجی زندگی میں اچھے اخلاق کے اعلیٰ نمونے پیش کرتے ہیں ۔
للن بہاری بولاہجومی تشدد منو سمرتی کے مطابق بہترین اخلاق و کردار کا
مظاہرہ کرہی تو رہا ہے۔ وہ امبیڈکر کا نہیں منو کا بھکت ہے۔
کلن کمار نے تائید کی اور کہا تب تو نتیش جی نے صحیح کہا یہ ویوستھا(نظام)
کا نقص ہے۔
جی اس کے لیے جمہوریت اور ہجومیت قصوروار ہے اور اس پر کسی کا اختیار نہیں
ہے۔
|