سنگل پیرنٹنگ ایک ایسا موضوع ہے جس پر ہمارے ہاں کم ہی
بات کی جاتی ہے مگر اسے زیرِ بحث لانا بہت ضروری ہے تاکہ ان سب کی راہنمائی
ہو سکے جو ان حالات کا سامنا کرتے ہیں اور جیسا کہ ہمارے ہاں سنگل پیرنٹ
ہونا کوئی اتنی اچھی بات بھی نہیں سمجھی جاتی ہے خاص طور پر جب طلاق ہو چکی
ہو ، اس سب میں جو امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے وہ عورت کو برتنا پڑتا ہے۔
اسے معاشرتی طور پر بے شمار تنزلی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ تنزلی اسے
بہت حد تک روند دیتی ہے ۔ بےشک بچوں کے لیے دونوں ماں باپ کی ہی ضرورت ہوتی
ہے مگر بعض اوقات کسی کی موت ہو جاتی ہے یاں حالات ایسے ہو جاتے ہیں کہ
دونوں کا ایک دوسرے کے ساتھ رہنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے اور اس سب کی اس
سنگل پرنٹ کے اوپر ساری ذمہ داری آ جاتی ہے۔
مرد کو تو پھر بہت سے مواقع میسر ہوتے ہیں وہ معاشرتی طور پر مضبوط ہوتا ہے
اور معاشرہ اس پر اس طرح سے اثر انداز بھی نہیں ہوتا جس طرح عورت پر ہوتا
ہے اور وہ بہت جلدی آگے بھی بڑھ جاتا ہے اور مرد کی دوسری شادی کو بھی
معیوب نہیں سمجھا جاتا ہے مگر عورت کو معاشرتی دباؤ ہر طرف سے بہت حد تک
برداشت کرنا پڑتا ہے ۔
جیسا کہ سنگل پیرنٹ کو اور حاض طور پر عورت کو معاشرے میں بہت سے چیلنجز کا
سامنا کرنا پڑتاہے ،اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ان کے پاس ہنر نہیں ہوتا وہ معاشی
طور پر مضبوط نہیں ہوتیں جس وجہ سے ان کو دوسروں کی محتاجی برداشت کرنی
پڑتی ہے ۔اب جیسا کہ معاشرتی دباؤ بہت زیادہ ہوتا ہے اور مشکل وقت میں تو
تقریبا سب ہی ساتھ چھوڑ دیتے ہیں اور پھر کبھی خاندان اور لوگوں کی طرف سے
دباؤ ، جو سب برداشت کرنا آسان نہیں ہوتا ہے خاص طور پر اس عورت کے لئے جو
ان حالات سے گزر رہی ہوتی ہے اور اوپر سے بچوں کی پرورش کی ذمہ داری الگ ۔
ایسے حالات میں جب اپنے بھی ساتھ چھوڑ جائیں تو اکیلا پن مزید بڑھ جاتا ہے
اور اگر کوئی دکھ درد بانٹنے والا نہ ہو تو ایموشنل سٹرس اور ڈپریشن بڑھ
جاتا ہے جو حالات کو مزید سنگین بنا دیتے ہیں ۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ معاشرہ ایسا ہےجو طاقت کے دم پر چلتا ہے ، یہاں
لوگ بھی اسی کو قبول کرتے ہیں جس کے پاس پاور ہو، طاقت ہو ۔جب ایک عورت
اکیلی ہو جاتی ہے تو یہ معاشرہ اس پر مزید دباؤ ڈالتا ہے۔ ان حالات میں خود
کو سنبھالنا، بچوں کو دیکھنا اور حالات کا مقابلہ کرنا آسان نہیں ہے یقینا،
مگر یہ حقیقت ہے اور اسے قبول کرنا ہی دانش مندی ہے تب ہی آپ حالات سے
نمٹنےکیلئے خود کو تیارکر پائیں گی ۔ حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے ضروری ہے
کہ حالات کی سنگینی کو پہلے قبول کیا جائے تب ہی ہم حل کی طرف آ سکتے ہیں ۔سب
سے بڑا مسئلہ اس زمر میں جو سامنے آتا ہے وہ acceptance( قبولیت) کا ہے
ہمیں ماننا پڑے گا کہ یہ مسئلہ ایک حقیقت ہے اور اس کا سامنا بھی اٹل ہے
اسے برداشت کرنے کے لیے خود کو تیار کرنا ہی ہو گا اور معاشرے کا مقابلہ
بھی کرنا ہے ،خود کو اور بچوں کو سنبھالنا بھی ہے۔ ہمارے معاشرے کی بے شک
بے شمار اچھائیاں ہیں ہمارا کلچر اعلیٰ ہے مگر یہاں بہت سی خرابیاں بھی ہیں
اور ان میں سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ رشتوں کے تقدس کے حوالے سے یہ بیمار
معاشرہ ہے اور ہم اس سمت اچھی تربیت بھی نہیں کرتے ہیں ۔ یہاں تو ایک عورت
بیوہ ہوتی ہے تو اس کو لوگوں کی باتیں بھی سننی پڑتی ہیں ۔ اسے تانے بھی
برداشت کرنے ہیں اور مشین بھی چلانی ہے ، کمانا بھی ہے ، گھر بھی چلانا ہے
اور بچے بھی پالنے ہیں ۔ ہماری بہنیں اور مائیں جو ان حالات سے گزرتی ہیں،
اکثر معاشرتی دباؤ کی وجہ سے خود ترسی کا شکار ہو جاتی ہیں اور پھر وہ نفرت
کرنا سیکھ جاتی ہیں اور پھر اسی کو فروغ دیتی ہیں ۔ ہمارے ہاں رشتے محاذ پر
قائم ہیں جو بیمار معاشرے کو جنم دیتے ہیں اور یہ مخاذ آرائی بچوں کی تربیت
کو بے حد متاثر کرتی ہے ۔ اس چکر میں بچہ پس کر رہ جاتا ہے، وہ بچہ جو ایسے
حالات میں جنم لیتا ہے اور انتہائی صدمے سے گزر رہا ہوتا ہے ان حالت کی وجہ
سے ڈپریشن میں چلا جاتا ہے ۔ اس حالت میں ماں کو خود کو مضبوط رکھنا ہے اور
حالات کو قبول کرنا ہے اور بچوں کو محاذ آرائی کا حصہ نہیں بنانا اور نہ ہی
انہیں نفرت کرنا سکھانا ہے ۔ پیرنٹ کو خاص طور پر بچوں کےسامنے اختیاط کا
معاملہ رکھنا ہے ان کے سامنے ایسی گفتگو نہیں کرنی جو ان کے لیے پریشانی
اور ڈپریشن کا باعث بنے ۔اپنے آپ کو بچے کے لیول پر رکھ کر ان سے برتاو
کریں ، اب آپ کو ہی اسے بیلنس رکھنا ہے نہ روایہ تلخ ہو اور نہ ہی انتا نرم
ہو کہ صحیح غلط کی تمیز بھلا دی جائے ۔عورتوں کو خود ترسی کا شکار نہیں
ہونا ،یہ چیز ہمدردی دینے کی بجائے تباہ کر دیتی ہے ۔خود کو خود ترسی سے
نکالیں اور مان لیں کہ یہ ایک حقیقت ہے اور آپ کو اب اس کو اچھے طریقے سے
فیس کرنا ہے۔ بہت سے بڑے لوگوں کے ساتھ بھی ایسا ہوا ہے مگر جینا سب سیکھ
جاتے ہیں مگر ہمیں اچھے سے جینے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے اور بچوں کو بھی
یہی سمجھائیں ۔ ہم لوگوں کو ایک ضروری قدم اٹھانے کی اشد ضرورت ہے اور وہ
یہ ہے کہ اپنےبیٹوں کے ساتھ ساتھ اپنی بیٹیوں کو بھی معاشی طور پر مضبوط
کریں، اللہ نے اسکا حکم بھی دیا ہے اور جائیداد میں اس کا حصہ مقرر کیا ہے
جو اسے دیا جانا چاہیے مگر ہمارے ہاں اسے اس کے اس جائز حق سے بھی محروم کر
دیا جاتا ہے ،ایسے حالات میں وہ کیسے مضبوط ہو سکتی ہیں اور بڑے بڑے
گھرانوں میں بھی ایسا ہی کیا جاتا ہے ۔ اچھی تعلیم کے ذریعے ہو یا پراپرٹی
اور فائیننس کے ذریعے اور انہیں ہنر مند بنائیں تاکہ وہ ہر طرح کے حالات کا
مقابلہ کرسکیں ۔ معاشی طور پر مضبوط ہونا بہت ساری پریشانیوں اور تکلیفوں
سے بچا لیتا ہے اور اسے در در بھٹکنے سے بچا لیتا ہے ۔ خدا را اس زمر میں
اقدام کریں ۔صرف اچھے گھر میں شادی ہو جانا ہی کافی نہیں ہے اس کے ساتھ اس
کا خود کسی قابل ہونا بھی ضروری ہے ۔
سب سے اہم اور ضروری بات ہم اللہ کے ماننے والے ہیں، ہمیں اس کی قدرت پر
یقین ہے ہم مانتے ہیں کہ وہ ہر چیز کا کارساز ہے ۔مگر زندگی کے معاملات میں
ہم اکثر بے یقینی کا شکار ہو جاتے ہیں اور جو صرف ہمیں ڈپریشن دیتا ہے ۔
ہمیں محدود صلاحیتوں کے ساتھ بنایا گیا ہے اور ہم اسی میں سب سوچتے رہتے
ہیں اور ایسے ہی اپنا مستقبل کا تعین کر لیتے ہیں مگر ہم یہ بھول جاتے ہیں
کہ کوئی اور بھی ہے جو اس سب نظام کو کنٹرول کر رہا ہے اور وہ ہم سے زیادہ
بہتر طریقے سے کنڑول کر سکتا ہے مگر ہم اس پر بھروسہ کمزور کر لیتے ہیں جو
مایوسی کا سبب بنتا ہے ۔ ہم کو اس ذات پر اپنے بھروسے کو بڑھانا ہے اور اس
سے اچھے کی امید رکھنی ہے کہ سب بہت شاندار طریقے سے ٹھیک کرے گا۔
ایک مشہور قول ہے کہ معجزے اسی کے لیے ہیں جو ان پر یقین رکھتا ہے ۔آپ اپنے
کام کو ،ذمہ داری کو اچھے سے کرنے کی کوشش کریں باقی اللہ پر چھوڑ دیں ۔اللہ
آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف بخشے ۔ |