رب ذوالجلال و الا کرام کا فر مان عالیشان ہے۔فَا
تَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ۔(القرآن،سورہ آل عمران3،آیت31) تر جمہ:
تم میرے فرما بردار بن جاؤ اﷲ تمھیں دوست رکھے گا۔اس آیت کریمہ نے فیصلہ کر
دیا کہ جو شخص اﷲ سے محبت کا دعویٰ کرے تو رسو ل اﷲ ﷺ کی اتباع کرے۔ اس کے
اعمال،افعال،عقائد، فرمان نبوی ﷺ کے مطا بق نہ ہوں ،طریقہ نبوی پر کار بند
نہ ہو تو وہ جھوٹا ہے۔ حدیث پاک میں ہے رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں: ’’ جو شخص
کوئی ایسا عمل کرے جس پر ہمارا حکم نہ ہو وہ مردود ہے‘‘ اسی لئے ارشاد نبوی
ہے کہ اگر تم اﷲ سے محبت رکھنے کے دعوے میں سچے ہو تو میری سنتوں پر عمل
کرو، اسوقت تمھاری چاہت سے زیادہ اﷲ تمھیں دے گا یعنی وہ خود تمھا را چا
ہنے والا ہو جائے گا۔ صو فیا ء کرام فر ماتے ہیں کہ تیرا چاہنا کو ئی چیز
نہیں لطف(مزہ) اس وقت ہے کہ اﷲ تجھے چاہنے لگ جائے۔
عالم اسلام کی عبقری شخصیت قاضی القضاۃ فی الھند، شہزادہ حضورمفسر اعظم
حضرت مولانا محمد ابراہیم رضا خان عرف جیلانی علیہ ا لرحمہ وجا نشین حضرت
مولانا مصطفےٰ رضا خان عرف مفتی اعظم ہند رحمۃاﷲ علیہ ،حضورعلامہ مفتی
ازہری میاں بمعروف تا ج ا لشریعہ علیہ الر حمہ کی اﷲ کی بار گاہ میں
مقبولیت کی یہ دلیل ہے کہ آپ کی نماز جنازہ میں بے شمار لوگ حاضر ہوئے
،بیرون ملک وعالم اسلام کی عبقری(کار ہائے نمایہ سر انجام دینے والا)
شخصیتیں تشریف لائیں اور ہندوستان کی ہر خانقاہ کے بزرگ، جید علماء، مبلغ،
مفکر، سجادہ نشین حضرات بھی شریک ہوئے، مارہرہ مطہرہ شریف، کچھو چھہ شریف،
بدایوں شریف، امجھر شریف،بلگرام شریف کالپی شریف، خانقاہ عالیہ چشتیہ
معینیہ،اجمیر معلیٰ شریف، وغیرہ وغیرہ صدق دل سے سوچیں تو یہ آپ کی کرامت
بھی مانی جاسکتی ہے کہ آپ نے اپنے وصال پر سبھی کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر
دیا۔اﷲ والوں کو منجا نب اﷲ مقبولیت ملتی ہے اور یہ مقبولیت ان کی ولایت و
محبو بیت کی دلیل ہے، حضور تا ج الشریعہ،اعلیٰحضرت امام احمد رضا (اور پیرو
مرشد) مفتی اعظم ہند سیدی مصطفےٰ رضا خاں کے علوم کے وارث و امین اور ان کے
جا نشین تھے۔آپ صحیح معنوں میں نائب رسول اور وارث انبیاء تھے۔ علم قرآن،
علم حدیث،علم فقہ، اور دیگر علوم وفنون میں متبحر اور کئی زبانوں کے ماہر
تھے، عربی، فارسی، اور انگریزی زبان لکھنے اور بولنے میں کافی دسترس رکھتے
تھے۔ وہ علم شریعت اور علم طریقت کے سنگم تھے۔ اسی لئے شریعت پر چلنے والے
بھی آپ کے شیدائی ہیں اور طریقت کو اپنانے والے بھی آپ کے فدائی ہیں اس کی
واضع دلیل ہے کہ پوری دنیا میں آپ کے مر یدین کی تعداد لگ بھگ کروڑوں تک ہے
۔ 22جولائی 2018 کو بریلی شریف میں آپ کی نماز جنازہ پڑھنے کے لیے لاکھوں
لاکھ مسلمانوں کا اکٹھا ہو نا اور پوری دنیا میں آپ کے ایصال ثواب کے
لیے،مجالسِ دعا منعقد ہونا ،آپ کے پیر طریقت،رہبر شریعت، ولیٗ کامل اور قطب
عالم ہونے کی دلیل ہے آپ کی رحلت بلا شبہ عالم اسلام کے لیے بہت بڑا سانحہ
ہے( بہر حال موت تو برحق ہے) آپ کی وفات سے (ناچیز راقم) اور پورا عالم
اسلام سوگ وارو رنج وغم میں ہے ایسے ہی موقع کے لیے فر مایا گیا ہے۔موت
العالمِ مو ت العالَمعالم کی موت ایک عالم (دنیا) کی موت ہے یہ زبر دست
خلاہے۔اﷲ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ خلا کیسے اور کب پر ہو گا۔
’’تفقہ فی الدین‘‘حضور تا ج ا لشر یعہ کی جو لانیاں و نکات دیکھنا ہو تو آپ
کے فتاؤیٰ کو ملاحظہ فر مائیں آپ کی کتا بوں کا مطالعہ فرمائیں1ٹائی کا
مسئلہ،2آثار قیامت،3تین طلاقوں کا شرعی حکم مسئلہ وٖغیرہ وغیرہ بلا شبہ اﷲ
رب ا لعزت کی عطا سے ہی یہ دولت آپ کو ملی تھی تفقہ فی الدین ایک ایسا
اثاثہ ہے کہ اس جوہر کو ہر دل کی تجوری میں مقفل نہیں کیا جاتا۔ اور نہ ہی
اس کا رشتہ کسب و حصول کے تانے بانے سے جڑا ہے۔ تفقہ فی ا لدین کا تعلق
مشیت ایزدی سے وابستہ ہے۔مَنْ یُرِدِاللّٰہُ بِہٖ خَیْرًایُفَقِّھْہُ فِی
الدِّیْنِ:تر جمہ:اﷲ تعالیٰ اپنے جس بندے پر احسان او ربھلائی کر نا چاہتا
ہے اسے تفقہ فی ا لدین کے گوہر سے ما لا مال فر ماتا ہے(بخاری
شریف،حدیث71،مسلم1037) آپ کی کتاب حضرت ابراہیم کے والد تارخ یا آزر۔ اور
ٹائی کا مسئلہ اہل علم ضرور مطالعہ فر مائیں آپ کے فقہی اور علمی استد لال
آپ کو عش عش کر نے پر مجبور کر دیں گے، مقالہ میں ساری باتیں لکھنا مشکل ہے
اس کے لیے کتاب کی ضرورت ہے اہل علم اس پر توجہ دیں اور کاوش فر مائیں،
اکابر کی بار گاہ میں خراج پیش فر مائیں ۔
مورانواں،ضلع اناؤ،یوپی میں تاج الشریعہ کی آمد۔حضور تا ج الشریعہ اور حضور
مفتی اعظم ہند علیہ ا لرحمہ کو سب سے پہلے1979 میں دیکھنے کا شرف حاصل ہوا
اور وہیں حضور مفتی اعظم ہند علیہ ا لرحمہ سے بیعت کا شرف بھی حاصل ہوا اس
کے بعد متعد دبار ملا قات کا شرف ملتارہا اور تقریباً ہر جگہ حضور تا ج
الشریعہ سے بھی ملا قات ہوتی رہی،دوران طالب علمی الجا معۃ الاشرفیہ
مبارکپور میں 2 ملا قا تیں ہوئیں پھر بریلی شریف میں کئی بار اور پھر شہر
آہن جمشید پور میں 3 ملا قاتیں تا ریخی کانفرنس کنز الایمان کانفرنس میں
ہوئیں کنزالایمان کانفرنس حضرت مولانا مبین الھدیٰ صاحب نے کرائی تھی ناچیز
راقم بھی اس میں پیش پیش تھا حضور تا ج الشریعہ سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع
میسر ہو ا3 کرا متیں بھی میں نے دیکھیں(ان شا ء اﷲ بشرط حیات، صحت و عافیت
کتاب لکھنے کا ارادہ ہے اﷲ کامیاب فر مائے آمین) تقریباً ہر سال ایک یا
دوبار بریلی شریف کی حاضری ہو رہی ہے اور ہمیشہ تاج الشریعہ کی زیارت و ملا
قات کا شرف حاصل رہا کئی واقعات قلم بند کرنے سے تعلق رکھتے ہیں، تاج ا لشر
یعہ کے تفقہ فی الدین کاا یک دلچسپ واقعہ ملاحظہ فر مائیں۔ راقم کا آبائی
وطن قصبہ مو رانواں ،ضلع اناؤ ، یوپی ہے جہاں قدیم تاریخی مدرسہ ضیاء
لاسلام ویتیم خانہ قائم ہے جو کہ تقریباً 90سالوں سے چل رہا ہے واضح رہے کہ
مدرسہ ویتیم خانہ یہ ضلع اناؤ تو کیا یوپی کے نامی گرامی بلکہ ہندوستان کے
پرانے مدرسوں ویتیم خانوں میں سے ایک ہے ۔الحمد ﷲ !آج بھی شان وشوکت سے چل
رہا ہے۔ جس کی بنیاد حاجی عبد الو حید رحمۃاﷲ علیہ نے رکھی، چلایا پھر آپ
کے بعد ان کے قریبی رشتے دار کوتوال صاحب نے چلایا ان کے بعد ، آج ملک کے
مشہور عالم دین ومفتی کانپوراور مدرس احسن المدارس کانپور محمد حنیف کے نا
نا حضرت مولوی دلا ور حسین صاحب نے تقریباً30سال چلایا انتہائی نیک شریف
پابند صوم وصلاۃ ،بہت ایمان دار، چہرہ نورانی چمکتا دمکتا ہوا بہترین مشفق
استاد پیار سے پڑھا تے ناچیز کا املا درست کرانے میں آپ کی محبت بھری کاوش
شامل ہے45سال گزر جانے کے بعد بھی ان کے میٹھے بول، مشفقانہ تنبیہ اور
پاکیزہ تعلیم وتربیت کی یادیں بالکل تازہ ہیں پا بندی نمازکا اثر انھیں کی
محبت بھری نصیحت و کاوش کا نتیجہ ہے اب ایسے نیک اور طالب علم کے خیر خواہ
استاد کہاں دور دور تک دھند لا دیکھائی دیتا ہے الا ما شا ء اﷲ ،حضرت
مولانا بدر عالم بدر القادری از حال مقیم ایمسٹرڈم ہا لینڈ جو دارالعلوم
ضیاء ا لاسلام ویتیم خانہ میں مدرس رہ چکے ہیں آپ نے اشرفیہ کے شمارے میں
لکھا ہے کی مولوی دلا ور حسین کے جنازہ میں اتنی بھیڑ تھی ، کہ بیان نہیں
کیا جاسکتا اطراف کے سارے گاؤں کے لوگ جنازہ میں شامل ہوئے تھے(جبکہ وہ مو
بائل کا زمانہ نہیں تھا) یہ انکی مقبولیت کی دلیل تھی،قرآن کریم میں
ہے۔وَکَا نَ اَ بُوْ ھُماَ صَا لِحَا۔ان کا باپ صالح نیک شخص تھا، جسکی
نیکی کی برکت سے اﷲ نے ان کی اولاد کی مدد فر مائی باپ کی نیکی کا بدلہ
اولاد کو بھی دیا اﷲ کا کرم ہی ہے کہ آج حضرت مولانا مفتی محمد حنیف
القادری مفتی کانپور سلمہُ کو اﷲ نے نوازا ہے پورے ملک میں اہلسنت والجماعت
،دین حق کی اشاعت وتبلیغ میں لگے ہیں۔ بات کچھ آگے چلی گئی پر یہ بھی ضروری
تھا -
حضور تا ج الشریعہ کی مورانواں تشریف آوری: مدرسہ ضیا ء لاسلام ویتیم خانہ
کی جدید بلڈنگ’’ دارالعلوم ضیاء الاسلام‘‘ کی سنگ بنیاد رکھنے حضور شہزادہ
اعلیٰ حضرت، حضرت مولانا مصطفےٰ رضا خاں علیہ الرحمہ مورانواں تشریف لائے
تو ایک عجیب واقعہ پیش آ گیا، ہوا یوں کہ حضرت کو لانے میں رئیس ہندوستان،
ہندوستان ٹرانسپورٹ کے مالک جناب محمد رفیق خاں اور ان کے خسر محترم جناب
حاجی معظم خاں،اور مولا نا ڈاکٹر محمد قاسم خان۔حضرت مولانا بر کت اﷲ
نانپار وی اور حضو ر مفتی رجب علی نانپاروی کا ہاتھ تھا جمعہ کا دن
تھا،حاجی معظم خاں حضور مفتی اعظم ہند کو اپنے گھر تحصیل پور وہ لے جا نا
چاہ رہے تھے دیہات میں جمعہ کا مسئلہ چھیڑ کر فائدہ اٹھانا چاہ رہے تھے۔ سر
کار حضور مفتی اعظم نے فر مایا میں جہاں جس کام کے لیے آیا ہوں وہیں لے چلو
آپ مو رانواں تشریف لائے،مورانواں میں جمعہ زمانہ قدیم سے قائم تھا جمعہ کی
نماز ہوتی تھی آپ نے جمعہ پڑھا پھر آپ نے شریعت مطہرہ کا مسئلہ بتایا کہ
یہاں جمعہ قائم ہے تو جمعہ کی نماز ہوتی رہے گی لیکن آپ حضرات ظہر کی نماز
بھی با جما عت ادا کریں چنانچہ ظہر کی نماز بھی باجماعت ادا کی گئی۔ اور یہ
سلسلہ تقریباً 3سال تک چلا، دیو بندیوں، جماعت اسلامی والوں نے ہنگا مہ بر
پا کردیا۔ بعد جمعہ’’ دارالعلوم ضیاء ا لاسلام ‘‘کی جدید بلڈنگ کی بنیا د 8
شوال المکرم 1394 ھ بمطابق25 اکتوبر دن جمعہ1974 حضور مفتی اعظم ہند علیہ
الر حمہ اور حضور تاج ا لشریعہ ودیگر علمائے کرام کے مقدس دست مبارک سے
رکھی گئی۔واضح رہے سنگ بنیاد رکھنے والے دن ہی ،رات بعد نماز عشاجلسہ تھا
پورے اطراف کے گاؤں کے لوگ حتیٰ کہ شہر سے بھی لوگ آئے تھے۔ ناچیز نے
مورانواں میں اتنا مجمع کبھی نہیں دیکھا۔حضرت مولا نا ڈاکٹر محمد قا سم خان
مصباحی نے تلاوت قرآن کریم سے جلسے کا آغاز کیا پھر حضرت مو لانا بر کت اﷲ
نانپار وی نے جمعہ کی جماعت کے مسا ئل بتائے(جو مدرسہ ضیاء الاسلام ویتیم
خا نہ کے مدرس تھے) پھر حضور مفتی رجب علی نا نپار وی نے بیان فر مایا اس
کے بعد بحکم حضور مفتی اعظم ہند علیہ ا لرحمہ کے حضور ازہری میاں قبلہ نے
براہین ودلا ئل سے جمعہ قائم ہونے کے مسائل بیان فر مائے(کاش وہ تقریر
ریکارڈ ہوتی تو کیا بات ہوتی)۔ پورا مجمع پر سکون انداز میں حضور تا ج ا
لشریعہ کا بیان سن رہا تھا بیچ میں ناچیز اور مولوی محمد وار ث عرف منیم
مولی صاحب نعرہ تکبیر کی صدا لگا تے تو پورا مجمع بھی لگا تا اور پورا قصبہ
دہل جاتا،صبح پورے اطراف کے براد ران وطن(ہندو)آئے حضرت کی زیارت کی، مشہور
کروڑ پتی ہندو ’’ چندن سنار‘‘ بھی آیا اور حضور مفتی اعظم ہند کی زیارت کی۔
بعد میں معلوم ہوا حضرت جانے کے بعد اس نے اسلام قبول کر نے کا اظہار کیا
تھا، کیوں نہ ہوا معلوم نہ ہوا یہ بات ہمیں مرا دعلی صاحب عرف مرادی بڑے
ابَّا نے بتائی تھی۔حضور تا ج الشریعہ کے کیا کہنے میرے جیسا کم علم آدمی
بھی لکھے تو کم ازکم سو پیج کی کتاب لکھ دے ان شا ء اﷲ افسوس وسائل کی کمی
صحت کی گڑ بڑی آڑے آتی ہے جو کچھ لکھا اﷲ قبول کرلے بڑی سر کار کی بات ہی
نرالی ہے۔
حضور تاج ا لشر یعہ کا تصلب فی الدین:تصلب فی الدین اوصاف حمیدہ میں سے
ہے،یہ وہ عظیم وصف ہے جو مرد مومن کو بہت سے درجات و مناصب جلیلہ سے معراج
کمال اﷲ ورسول ﷺ کی محبوبیت تک پہنچا دیتاہے،اﷲ رب ا لعزت کا ارشاد
ہے۔اِنَّ ا لَّذِیْنَ قَا لُوْا رَبُّنَا ا للّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَا مُوْا
تَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمُ الْمَلٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَا فُوْا وَلَا
تَحْزَنُوْا وَ اَبْشِرُوْا بِا لْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْ عَدُ
وْنَ۔ (القرآن، سورہ حم سجدہ41 ،آیت 30 )تر جمہ: بیشک وہ جنہوں نے کہا
ہمارا رب اﷲ پھر اس پر قائم رہے ان پر فرشتے اتر تے ہیں کہ نہ ڈرو اور نہ
غم کرو اور خوش ہو اس جنت پر جس کا تمھیں وعدہ دیا جاتاتھا،(کنزالایمان)
حدیث پاک میں ہے من اَ حب للّٰہ وَ ابغض ﷲ وَاعطٰی لِلّٰہ ومنع ﷲ فقدستکمل
الایمان(مشکوٰۃ شریف،حدیث30) جس نے اﷲ کے لیے بغض رکھا، اﷲ کے لیے دیا، اﷲ
کے لیے روک رکھا، تو اس نے ایمان کامل کرلیا۔تصلب عر بی زبان کا لفظ ہے۔ جس
کے معنیٰ ہیں سخت، محکم اور مضبوط ہونا۔یہ ’’صُلْب‘‘ سے مشتق ہے۔’’صُلْب‘‘
ریڑھ کی ہڈی کو کہتے ہیں قرآن مجید میں وہ مادہ اور نطفہ جس سے انسان کی
تخلیق ہے اس کا ذکر کر تے ہوئے فر مایا گیا ہے۔یَخْرُجُ مِنْ بَیْنِ
الصُلْبِ وَالتَّرَآئِبِ۔(القرآن، سورہ طارق 86، آیت7) ترجمہ: وہ ریڑھ اور
سینے کی پسلیوں کے بیچ سے نکلتا ہے۔اور ہڈی چونکہ ایک سخت چیز ہے خاص کر
ریڑھ کی ہڈی لھذا تصلب کے معنیٰ اسی مناسبت سے سختی، شدت،مضبوطی اور
استحکام کے ہیں۔
تصلب فی الدین کا مطلب: دین میں تصلب کا مفہوم ہے سختی، مضبوطی کے ساتھ
تاعمر اپنے دین پر قائم رہنا،اپنے دین کے علا وہ تمام ادیان کو غلط اور
باطل اور خلاف حق جاننا اور اپنے قول و فعل سے یہی ظاہر کر نا اور ہر وہ
نظریہ و عقیدہ جو دین اسلام کے خلاف ہو اس سے کنارہ کشی اور دوری اختیار
کرنا ،دین اسلام کے احکام پر مضبوطی سے قائم رہنا۔دین اسلام کی ترقی اور
خوش حالی دیکھ کر خوش ہونا اس کی تنزلی اور بربادی دیکھ کر غمگین اور
رنجیدہ ہونا۔ دین یہی ہے ،تصلب فی ا لدین یہی ہے، اسی کو حضور تا ج ا
لشریعہ کے دادا حضور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا علیہ ا لرحمہ یوں فر ماتے
ہیں۔۔
دہن میں زبا ں تمہاا رے لیے، بدن میں ہے جاں تمہارے لیے٭ ہم آئے یہاں
تمہارے لیے،اُ ٹھیں بھی وہاں تمہارے لیے
اﷲ کے جتنے بھی مقدس و بر گزیدہ بندے ہیں خواہ خلفائے راشدین کی جماعت ہو
یا صحا بۂ کرام،تابعین کی جماعت ہو یا صالحین کی یا ربانی علما کی جماعت ہو
یا اقطاب واغواث اور اولیائے عارفین کی سبھی تصلب فی الدین اور اعلان علی
الحق کے وصف جمیل سے متصف اور آراستہ رہے ہیں، دین کے دشمنوں اور بد مذہبوں
نے جب بھی دین اسلام میں قطع برید کر نے اور مسلما نوں کے عقیدے پر شب خون
مار نے کی ناپاک کوشش کی تو مردان حق نے بغیر کسی پس و پیش کے مو منانہ
فراست اور مجاہدانہ ہمت کے ساتھ خود میدان عمل میں کود کر دین اسلام کی
حفاظت فر مائی ہے سر زمین بریلی شریف میں خانو دہ اعلیٰ حضرت مولانا احمد
رضا کی تاریخ اٹھاکر دیکھ لیں ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں۔ حضور مفسر اعظم حضرت
مولانا ابراہیم رضا خان جیلانی میاں، حضور حجۃالاسلا م ہوں، حضور ریحان ملت
ہوں، ایمر جنسی کے دور میں نس بندی کے خلاف فتویٰ دینا ’’نس بندی حرام حرام
حرام ہے ۔قانونِ الٰہی نہیں بد لتا حکو متیں بدل جاتی ہیں ‘‘ نوٹ۔ ناچیز کا
مضمون ’’ قانون الٰہی نہیں بدلتا حکو متیں بدل جاتی ہیں‘‘نیٹ میں ہے سرچ
کریں ضرور پڑھیں) یا حضور تاج الشریعہ ہوں،ہر زمانے میں نئے نئے فتنوں نے
جنم لیا لیکن ان اﷲ کے بندوں نے ان کا منھ توڑ جواب دیا اور اﷲ کی مخلوق کی
رہنمائی فر مائی سیکڑوں مثالیں دی جا سکتی ہیں۔اعلائے کلمۃ الحق وتصلب فی ا
لدین کا ایک واقعہ ملاحظہ فر مائیں۔1945ء کی بات ہے حضور مفتی اعظم ہند حج
و زیارت کے لیے حرمین شریفین حاضر ہوئے ادھر نجدی حکومت نے پوری دنیا سے
آئے ہوئے لاکھوں حجاج کرام پر حج و زیارت کا ٹیکس(Tax)لگادیا ،زرخرید نجدی
علماء نے جواز کا فتویٰ دے دیا۔ ظلم وجبر واستبداد کو مد نظر رکھتے
ہوئے،علماے حرمین شریفین رخصت پر عمل کرکے خاموش رہے،لیکن مجدد اعظم امام
احمد رضا خاں علیہ الرحمہ کے صاحبزادے حضور مفتی اعظم ہند سے خاموش نہ رہا
گیا،آپ کی غیرت ایمانی پھڑک اٹھی،اعلائے کلمۃ الحق کے لیے آپ نے فوراً قلم
اٹھایا اور میدان عمل میں آگئے اور آپ نے دارالافتاء کی چہاردیواری کے اندر
نہیں بلکہ ظالموں کے ملک میں بیٹھ کر اس کے خلاف فتویٰ صادر فرمایا اور
دنیا کو بتایا کہ تصلب فی الدین کیا ہے؟ نجدی حکومت لرز گئی اور ٹیکس کی
واپسی کا اعلان کردیا۔
آئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی ٭ اﷲ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
حضرت کے فتویٰ کو علماے حرمین شریفین نے مطالعہ فرمایا اور متفقہ طور پر
فرمایا: ان ھٰذا الالعام مفتی اعظم۔ ’’تصلب فی الدین‘‘ کو امام وقت ،شیخ
الہند والحرم تسلیم فرمایا اور بطور تبرک قرآن وحدیث و فقہ کی سلاسل کی
اجازتیں لیں اور اپنے آپ کو مفتی اعظم کے زمرۂ تلامذہ میں داخل کرنے پرفخر
فرمایا ۔کلمہ حق کے اظہار اور خلاف شرع باتوں کے ردّ بلیغ کرنے میں کسی سے
ڈرنا اور دبنا یہ اعلیٰ حضرت کے خانوادے کی فطرت کے خلاف رہا ہے اور آگے
بھی رہے گا (ان شاء اﷲ تعالیٰ) اسی لیے حضور تاج الشریعہ نے بھی ہمیشہ
اٹھنے والے نئے نئے فتنوں کا منھ توڑ جواب دیا تصویر کا مسئلہ ہو یا ٹی ․وی
کا یا ٹائی کا وغیرہ وغیرہ آپ نے نہ صرف فتویٰ صادر فرمایا بلکہ کتابیں بھی
تصنیف فرماکر اعلائے کلمۃ الحق کا فریضہ بھی انجام دیا،ٹی․ وی کے جواز کے
سلسلے میں حضور تاج الشریعہ کے پاس لوگ گئے اور بار بار تاویلیں پیش کیں کہ
موجودہ زمانہ میں ٹی․ وی کے ذریعہ اشاعت اسلام کا کام ہوگاآپ نے کہا استغفر
اﷲ! استغفراﷲ ! آپ نے فرمایا آج پوری دنیا میں مذہب اسلام کے ماننے والوں
کی تعداد ہر مذہب کے پیروکاروں سے زیادہ ہے۔ یہ سب صرف چودہ سو سالوں میں
ہوا ہے مذہب اسلام حق اور سچا ہے خود بخود پھلتا پھولتا رہے گا، ٹی․ وی کا
محتاج رہا ہے نہ رہے گا۔قرآن کریم میں جگہ جگہ تصلب فی الدین کی تعلیم دی
گئی ہے ،صرف چند آیات کریمہ کے تراجم ملاحظہ فرمائیں: (۱) سورہ فاتحہ جو
قرآن مجید کی سب سے معظم سورہ ہے پورے قرآن کا نچوڑ اور خلاصہ ہے اس میں اﷲ
تعالیٰ نے اپنے بندوں کو جو دعاتعلیم فرمائی ہے ظاہر ہے کہ وہ دعاؤں میں سب
سے افضل دعا ہوگی۔اس میں فرمایا جاتا ہے :اے اﷲ!ہمیں سیدھا راستہ چلا،راستہ
ان کا جن پر تونے احسان کیا ،نہ ان کا جن پر تونے غضب کیا ۔نہ بہکے ہوؤں کا
(القرآن:سورہ فاتحہ،آیت7,6) ان کلمات میں واضح طور پر مخصوص و محبوب بندوں
کے پیچھے چلنے کی تلقین کی گئی ہے،وہیں جن سے اﷲ ناراض ہے اور جن پر اس کا
غضب(عذاب) نازل ہوا ان سے نفرت و بیزاری و دوری اور علاحدگی کا سبق دیا گیا
ہے اور یہ دونوں باتیں ہی دین میں تصلب کا دوسرا نام ہے۔جس میں یہ جتنی
زیادہ ہوں گی اتنا ہی زیادہ متصلب ہوگا ،جس کو اﷲ تعالیٰ کے محبوب بندوں سے
جتنی زیادہ محبت ہوگی اس کو اس کے دشمنوں سے اتنی ہی زیادہ نفرت ہوگی اور
جس کو اﷲ تعالیٰ کے دشمنوں سے جتنی زیادہ نفرت ہوگی اس کو اتنی ہی زیادہ اﷲ
کے محبوب بندوں سے محبت ہوگی۔یہ ہوہی نہیں سکتا کہ جس کو اﷲ و رسول کے
دشمنوں سے نفرت نہ ہو اس کو اﷲ اور اس کے دوستوں کی محبت نصیب ہوجائے ۔ (۲)
ایک جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے (القرآن:سورہ مائدہ،5آیت51)ترجمہ: اے ایمان
والو! یہود ونصاریٰ کو دوست نہ بناؤ۔وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں،اور
تم میں کوئی ان سے دوستی رکھے گا وہ انہیں میں سے ہے۔(۳) (القرآن:سورہ
مائدہ،5آیت81) ۔(۴) (القرآن:سورہ مجادلہ،سورہ 58، آیت :27) ترجمہ: تم نہ
پاؤگے ان لوگوں کو جو اﷲ اور قیامت کے دن پر یقین رکھتے ہیں کہ دوستی کریں
ان سے جنہوں نے اﷲ اور اس کے رسول سے مخالفت کی ہے۔اگرچہ وہ ان کے باپ
،بیٹے ،بھائی یا کنبے والے ہوں ۔اور مطالعہ فرمائیں سورہ ممتحنہ آیت:2,1اور
13بھی ۔سورہ نساء:آیت :14۔سورہ مائدہ:آیت :57۔ سورہ بقرہ:آیت 208۔ سورہ
فتح:آیت :29۔ قرآن کریم کا مطالعہ فرمائیں ،احادیث طیبہ پڑھیں تصلب فی
الدین ہی ایمان کی جڑ ہے،مسلمان ہو کر دوسرے مذاہب کے احکام اور ان کی
شریعتوں کی پاسداری اور مراعات مسلمانوں کے لئے قطعاً روا نہیں ہے اور
اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ صحابہ کرام، بزرگان دین کے دینی تصلب
میں قائم رہنے کے بے شمار واقعات تاریخ میں موجود ہیں۔
ام المومنین ام حبیبہ کا دینی تصلب: ہجرت نبوی کے ساتویں سال قریش مکہ صلح
حدیبیہ کے معاہدے کو توڑنے پر شرمندہ ہوئے نبی رحمت ﷺ نے مکہ معظمہ پر حملے
کی تیاری کا حکم دیاتو گھبرائے ہوئے قریش مکہ نے اپنے سرداروں میں سے ابو
سفیان کو تجدید(نئے سرے سے معاہدہ کرنے کے لیے) Renewal of the
Agreementکرنے کے لیے حضور ﷺ کے پاس بھیجا ۔مسلمانوں کے خلاف بہت سی لڑایوں
میں پیش پیش رہنے والے ابو سفیان مدینے آئے۔کاشانہ نبوت میں اپنی بیٹی ام
المومنین ام حبیبہ (رضی اﷲ عنہا) کے حجرے میں داخل ہوگئے۔ان کی بیٹی اسلام
لے آئی تھیں اور رسول اﷲ نے ان سے نکاح فرمالیا تھا جب رسول اﷲ ﷺ کے بستر
مبارک پر ابو سفیان نے بیٹھنے کا ارادہ کیا تو ام المومنین نے بستر کو سمیٹ
دیا اور اپنے باپ ابوسفیان کو جو ابھی کافر و مشرک تھے بستر رسول پر بیٹھنے
نہیں دیا،باپ نے بیٹی سے کہا اس بستر کو میرے شایان شان نہیں سمجھا؟مجھ کو
اس بستر کے قابل نہیں سمجھا تو ام المومنین ام حبیبہ کا ایمان بھرا عشق
مصطفی اور دینی تصلب میں ڈوبا ہوا جواب ملاحظہ فرمائیں ’’ یہ رسول کریم ﷺ
کا بستر ہے ۔تم مشرک ہو ۔نجس ،ناپاک ہو میں یہ پسند نہیں کرتی کہ تم رسول
اﷲ ﷺ کے بستر پر بیٹھو‘‘۔ (تاریخ ابن جریرطبری مترجم جلد 1،صفحہ404،سیرت
النبی ،مدارج النبوۃ وغیرہ وغیرہ)
محمد ہے متاع عالم ایجاد سے پیارا ٭ پدر مادر برادراولاد سے پیارا
مشرکین مکہ نے رسول کریم ﷺ کو اتحاد واتفاق کی دعوت (Offer)دی اور یہ کہا
کہ ایک سال تم ہمارے معبودوں کو پوجواور ایک سال ہم تمہارے معبود کو پوجیں
گے۔ اس پر اﷲ رب العزت نے قرآن میں سورہ کافرون نازل فرمائی اور اس پیش کش
کو سختی کے ساتھ ٹھکرادیا۔ہم مسلمان یہ سوچ کر نہیں ہیں کہ سب مذہب حق ہے
۔اگر سب کو حق سمجھ لیں تو کیا ضروری ہے کہ پھرمسلمان رہیں؟اور ہم سنی اس
لیے نہیں ہیں کہ سب فرقے سچے اور ناجی ہیں اگر سب کو ناجی اور جنتی خیال
کرتے تو سنی ہونے کو ضروری کیوں خیال کرتے؟حضور تاج الشریعہ یا خانوادہ
اعلیٰ حضرت کے بزرگوں کی زندگی کا مطالعہ فرمائیں تو حق اور سچ کی پہچان
ہوگی۔ہمارے آقاؤں نے مارہرہ مقدسہ، کچھوچھہ مقدسہ وغیرہ وغیرہ نے حق اور سچ
کی تعلیم دی اسی میں فلاح و بھلائی ہے ،کچھ لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ عالم
اسلام کی عظیم دینی متصلب شخصیت کا دینی کردار اور اسلامی انداز اور مذہبی
طریقہ بتایا ہوں اسی پر عمل کریں اﷲ نجات عطا فرمائے گا۔اﷲ ہمیں سچا پکا
مسلمان بنائے۔(آمین ثم آمین) |