اسلام میں مسلمان عورت کا بلند مقام اور ہر مسلمان کی
زندگی میں مؤثر کردار ہے ۔صالح اور نیک معاشرے کی بنیاد رکھنے میں عورت ہی
پہلا مدرسہ ہے،جب وہ کتاب اﷲ اور سنت رسول پر عمل پیرا ہو۔کیونکہ کتاب اﷲ
اور سنت رسول کو تھام لینا ہی ہر جہالت وگمراہی سے دوری کا سبب ہے ۔قوموں
کی گمراہی کا سب سے بڑا سبب اﷲ تعالیٰ کی شریعت سے دوری ہے جس کو أنبیاء
کرام قوموں کی فلاح وبہبود کے لئے لے کر آئے ۔نبی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم
نے فرمایا:میں تمہارے اندر دو چیزیں چھوڑ کرجا رہا ہوں،جب تک ان دونوں کو
مضبوطی سے تھامے رکھو گے کبھی گمراہ نہ ہوگے ۔ایک ہے اﷲ کی کتاب ،اور میری
سنت۔
قرآن مجید میں عورت کی اہمیت اور مقام کے بارے میں کئی ایک آیات موجود
ہیں۔عورت خواہ ماں ہو یا بہن ہو،بیوی ہو یا بیٹی ہو،اسلام نے ان میں سے ہر
ایک کے حقوق وفرائض کو تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا ہے ۔ماں کا شکر ادا کرنا
،اس کے ساتھ نیکی سے پیش آنا اور خدمت کرنا عورت کے اہم ترین حقوق میں سے
ہے۔حسن سلوک اور اچھے اخلاق سے پیش آنے کے سلسلے میں ماں کا حق باپ سے
زیادہ ہے ،کیونکہ بچے کی پیدائش اور تربیت کے سلسلے میں ماں کو زیادہ
تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔اور اسلام نے ان تمام تکالیف کو سامنے رکھتے
ہوئے ماں کو زیادہ حسن سلوک کا مستحق قرار دیا،جو اسلام کا عورت پر بہت بڑا
احسا ن ہے ۔
یہاں پر ان حقوق کاذکر کیاجاتا ہے جو اسلام نے عورت کو دیے، بلکہ ترغیب و
ترہیب کے ذریعہ اسے ادا کرنے کا حکم بھی صادر کیا۔
عورتوں کو زندہ رکھنے کاحق:
عورت کا جو حال عرب میں تھا وہی پوری دنیا میں تھا،عرب کے بعض قبائل لڑکیوں
کودفن کردیتے تھے ۔ قرآن مجید نے اس پر سخت تہدید کی او راسے زندہ رہنے کا
حق دیا اور کہا کہ جو شخص اس کے حق سے روگردانی کرے گا، قیامت کے دن خدا کو
اس کاجواب دینا ہوگا۔ فرمایا:اس وقت کو یاد کرو جب کہ اس لڑکی سے پوچھا
جائے گا جسے زندہ دفن کیاگیا تھا کہ کس جرم میں اسے مارا گیا۔(التکویر)
ایک طرف ان معصوم کے ساتھ کی گئی ظلم وزیادتی پر جہنم کی وعید سنائی گئی تو
دوسری طرف ان لوگوں کوجنت کی بشارت دی گئی۔ جن کادامن اس ظلم سے پاک ہو
اورلڑکیوں کے ساتھ وہی برتاو کریں جو لڑکوں کے ساتھ کرتے ہیں اور دونوں میں
کوئی فرق نہ کریں۔ چنانچہ حضرت عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کی لڑکی ہو وہ نہ تو اسے
زندہ درگور کرے اور نہ اس کے ساتھ حقارت آمیز سلوک کرے اور نہ اس پر اپنے
لڑکے کو ترجیح دے تو اﷲ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا۔
عورت بحیثیت انسان:
اسلام نے عورت پر سب سے پہلا احسان یہ کیا کہ عورت کی شخصیت کے بارے میں
مرد وعورت دونوں کی سوچ اور ذہنیت کو بدلا۔ انسان کے دل ودماغ میں عورت کا
جو مقام ومرتبہ اور وقار ہے اس کو متعین کیا۔ اس کی سماجی، تمدنی، اور
معاشی حقوق کا فرض ادا کیا۔ قرآن میں ارشاد ربانی ہے :اﷲ نے تمہیں ایک
انسان (حضرت آدم علیہ السلام)سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی کو
بنایا۔(النساء)
اس بنا پر انسان ہونے میں مرد وعورت سب برابر ہیں۔ یہاں پر مرد کے لیے اس
کی مردانگی قابلِ فخر نہیں ہے اور نہ عورت کے لیے اس کی نسوانیت باعثِ عار۔
یہاں مرد اور عورت دونوں انسان پر منحصر ہیں اور انسان کی حیثیت سے اپنی
خلقت اور صفات کے لحاظ سے فطرت کا عظیم شاہکار ہے ۔ جو اپنی خوبیوں اور
خصوصیات کے اعتبار سے ساری کائنات کی محترم بزرگ ترین ہستی ہے ۔
عورتوں کی تعلیم کا حق:
انسان کی ترقی کا دارومدار علم پر ہے کوئی بھی شخص یاقوم بغیر علم کے زندگی
کی تگ ودو میں پیچھے رہ جاتاہے ۔ اور اپنی کُند ذہنی کی وجہ سے زندگی کے
مراحل میں زیادہ آگے نہیں سوچ سکتا اور نہ ہی مادی ترقی کا کوئی امکان نظر
آتاہے ،لیکن اس کے باوجود تاریخ کا ایک طویل عرصہ ایسا گزرا ہے، جس میں
عورت کے لیے علم کی ضرورت واہمیت کو نظر انداز کیاگیا اور اس کی ضرورت صرف
مردوں کے لیے سمجھی گئی اور ان میں بھی جو خاص طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں صرف
وہی علم حاصل کرتے تھے اور عورت علم سے بہت دور جہالت کی زندگی بسر کرتی
تھی۔لیکن اسلام نے علم کو فرض قرار دیا اور مرد وعورت دونوں کے لیے اس کے
دروازے کھولے اور جو بھی اس راہ میں رکاوٹ وپابندیاں تھیں، سب کو ختم
کردیا۔اسلام نے لڑکیوں کی تعلیم وتربیت کی طرف خاص توجہ دلائی اور اس کی
ترغیب دی، جیسا کہ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: طلب علم فریضۃاور
دوسری جگہ ابوسعید خدی کی روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے
فرمایا:جس نے تین لڑکیوں کی پرورش کی ان کو تعلیم تربیت دی، ان کی شادی کی
اور ان کے ساتھ (بعد میں بھی) حسن سلوک کیا تو اس کے لیے جنت ہے ۔
اسلام مرد وعورت دونوں کو مخاطب کرتا ہے اور اس نے ہر ایک کو عبادت اخلاق
وشریعت کا پابند بنایا ہے جو کہ علم کے بغیر ممکن نہیں۔ علم کے بغیر عورت
نہ تو اپنے حقوق کی حفاظت کرسکتی ہے اور نہ ہی اپنی ذمہ داریوں کو ادا
کرسکتی ہے جو کہ اسلام نے اس پر عائد کی ہے ؛ اس لیے مرد کے ساتھ ساتھ
عورتوں کی تعلیم بھی نہایت ضروری ہے ۔
معاشرتی میدان:
جس طرح دیگر معاشروں نے عورت کو کانٹے کی طرح زندگی کی رہ گزر سے مٹانے کی
کوشش کی تو اس کے برعکس اسلامی معاشرہ نے بعض حالتوں میں اسے مردوں سے
زیادہ فوقیت اور عزت واحترام عطا کیا ہے ۔ وہ ہستی جو عالمِ دنیا کے لیے
رحمت بن کر تشریف لائی(محمد صلی اﷲ علیہ وسلم) اس نے اس مظلوم طبقہ کو یہ
مژدہ جانفزا سنایا:مجھے دنیا کی چیزوں میں سے عورت اور خوشبو پسند ہے اور
میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں رکھ دی گئی ہے ۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت سے بیزاری اور نفرت کوئی زہد وتقویٰ کی دلیل
نہیں ہے ، انسان خدا کا محبوب اس وقت ہوسکتاہے جب وہ اﷲ کی تمام نعمتوں کی
قدر کرے جن سے اس نے اپنے بندوں کو نوازا ہے ، اس کی نظامت اور جمال کا
متمنی ہو اور عورتوں سے صحیح ومناسب طریقے سے پیش آنے والا ہو۔ یہی وجہ ہے
کہ مرد اور عورت دونوں کے لیے نکاح کو لازم قرار دیا گیا ہے۔
معاشی حقوق:
معاشرہ میں عزت معاشی حیثیت کے لحاظ سے ہوتی ہے ۔ جو جاہ وثروت کامالک ہے ،
لوگ اس کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور جس کے پاس نہیں ہے لوگ اس کے قریب
سے گزرنا بھی گوارا نہیں کرتے ، عزت کرنا تو دور کی بات ہے ۔ اسے دنیا کے
تمام سماجوں اور نظاموں نے عورت کو معاشی حیثیت سے بہت ہی کمزور رکھا،
سوائے اسلام کے ، پھر اس کی یہی معاشی کمزوری اس کی مظلومیت اور بیچارگی کا
سبب بن گئی۔ مغربی تہذیب نے عورت کی اسی مظلومیت کا مداوا کرنا چاہا۔ اور
عورت کو گھر سے باہر نکال کر انھیں فیکٹریوں اور دوسری جگہوں پر کام پر
لگادیا۔ اس طرح سے عورت کا گھر سے باہر نکل کر کمانا بہت سی دیگر خرابیوں
کا سبب بن گیا، ان حالات میں اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس نے راہِ اعتدال
اختیار کیا۔
عورت کا نان نفقہ:
عورت کا نان نفقہ ہر حالت میں مرد کے ذمہ ہے ۔ اگر بیٹی ہے تو باپ کے ذمہ۔
بہن ہے تو بھائی کے ذمہ ، بیوی ہے تو شوہر پر اس کانان و نفقہ واجب کردیا
گیا اور اگر ماں ہے تو اس کے اخراجات اس کے بیٹے کے ذمہ ہے ، ارشاد باری
تعالی ہے کہ:خوشحال آدمی اپنی استطاعت کے مطابق اور غریب آدمی اپنی توفیق
کے مطابق معروف طریقے سے نفقہ دے ۔(البقرہ)
عورت کا حق مہر:
عورت کا حقِ مہر ادا کرنا مرد پر لازم قرار دیا گیا ہے ۔ اﷲ تعالیٰ قرآن
کریم میں فرماتا ہے کہ:عورتوں کا ان کا حقِ مہر خوشی سے ادا کرو اگر وہ
اپنی خوشی سے اس میں سے کچھ حصہ تمھیں معاف کردیں تو اس کو خوشی اور مزے سے
کھاو۔(النساء)
وراثت میں عورت کا حق:
بعض مذہبوں کے پیشِ نظر وراثت میں عورت کا کوئی حق نہیں ہوتا، لیکن ان
مذہبوں اور معاشروں کے برعکس اسلام نے وراثت میں عورتوں کا باقاعدہ حصہ
دلوایا۔ اس کے لیے قرآن میں لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْانْثَیَیْنِ ارشاد
ہوا ہے یعنی مرد کو عورتوں کے دو برابر حصے ملیں گے ۔ (النساء) یعنی عورت
کاحصہ مرد سے آدھا ہے ، اسی طرح وہ باپ سے ، شوہر سے ، اولاد سے ، اور
دوسرے قریبی رشتہ داروں سے باقاعدہ وراثت کی حق دار ہے ۔
مال وجائیداد کا حق:
اس طرح عورت کو مہر سے اور وراثت سے جو کچھ مال ملے ، وہ پوری طرح سے اس کی
مالک ہے، کیوں کہ اس پر کسی بھی طرح کی معاشی ذمہ داری نہیں ہے ، بلکہ وہ
سب سے حاصل کرتی ہے، اس لیے یہ سب اس کے پاس محفوظ ہے ۔ اگر مرد چاہے تو اس
کا وراثت میں دوگنا حصہ ہے، مگر اسے ہر حال میں عورت پر خرچ کرنا ہوتا ہے ،
لہٰذا اس طرح سے عورت کی مالی حالت (اسلامی معاشرہ میں) اتنی مستحکم ہوجاتی
ہے کہ کبھی کبھی مرد سے زیادہ بہتر حالت میں ہوتی ہے ۔
پھر وہ اپنے مال کو جہاں چاہے خرچ کرے ، اس پر کسی کا اختیار نہیں، چاہے تو
اپنے شوہر کو دے یا اپنی اولاد کو یا پھر کسی کو ہبہ کرے یا خدا کی راہ میں
دے یہ اس کی اپنی مرضی ہے اور اگر وہ از خود کماتی ہے تو اس کی مالک بھی
وہی ہے، لیکن اس کا نفقہ اس کے شوہر پر واجب ہے ، چاہے وہ کمائے یا نہ
کمائے ۔ اس طرح سے اسلام کا عطا کردہ معاشی حق عورت کو اتنا مضبوط بنادیتا
ہے کہ عورت جتنا بھی شکر ادا کرے کم ہے، جب کہ عورت ان معاشی حقوق سے
کلیتاً محروم ہے ۔
شوہر کاانتخاب :
شوہر کے انتخاب کے سلسلے میں اسلام نے عورت کو بڑی حد تک آزادی دی ہے ۔
نکاح کے سلسلے میں لڑکیوں کی مرضی اور ان کی اجازت ہر حالت میں ضروری قرار
دی گئی ہے ۔ ارشاد نبوی ہے :شوہر دیدہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے
جب تک کہ اس سے مشورہ نہ لیاجائے اور کنواری عورت کا نکاح بھی اس کی اجازت
حاصل کیے بغیر نہ کیا جائے ۔(مشکوٰۃ)ہاں اگر عورت ایسے شخص سے شادی کرنا
چاہے جو فاسق ہو یا اس کے خاندان کے مقابل نہ ہو تو ایسی صورت میں اولیاء
ضرور دخل انداز ی کریں گے ۔
خلع کا حق:
اسلام نے عورت کو خلع کاحق دیا ہے کہ اگر ناپسندیدہ ظالم اور ناکارہ شوہر
ہے تو بیوی نکاح کو فسخ کرسکتی ہے اور یہ حقوق عدالت کے ذریعے دلائے جاتے
ہیں۔
عورتوں کا معاشرتی مقام اسلام کی نظر میں:
اسلام میں معاشرتی حیثیت سے عورتوں کو اتنا بلند مقام حاصل ہے کہ اس کا
اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ معاشرت کے باب میں اﷲ تعالیٰ نے خاص
طور پر مرد کو مخاطب کرکے یہ حکم دیتا ہے کہ ان کے ساتھ معاشرت کے باب میں
”معروف“ کاخیال کیا جائے ؛ تاکہ وہ معاشرت کے ہر پہلو اور ہر چیز میں حسن
معاشرت برتیں۔ ارشاد ربانی ہے کہ:اور ان عورتوں کے ساتھ حسنِ معاشرت کے
ساتھ زندگی گزارو اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو ممکن ہے کہ تم کوئی چیز
ناپسند کرو اور اﷲ اس میں خیر کثیر رکھ دے ۔(النساء)
اسلامی حدود میں مرد اور عورت میں برابری :
اسلام نے مرد اور عورت میں اسلامی حدودیعنی حدالسرقۃ وغیرہ میں برابری ہی
کی ۔
چوری کی سزا میں اﷲ تعالی نے فرمایا:اور جو مرد یا عورت چور ہو تو ان کا
ہاتھ کاٹو ان کے کیے کا بدلی اﷲ کی طرف سے سزا اور اﷲ غالب حکمت والا ہے
(المائدۃ) ان حدودکا قیام امیر و غریب دونوں پر برابر کیا جائے گا جیسا کہ
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں جب اشراف قریش میں سے ایک عورت
نے چوری کی اور اس پر اس حد کو نافذ کیا گیا تھا ۔
زنا کے بارے میں اﷲ تعالی نے فرمایا:اور جو عورت بد کار ہو اور جو مرد تو
ان میں سے ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤاور تمہیں ان پر ترس نہ آئے اﷲ کے دین میں
اور اگر تم ایمان لاتے ہو اﷲ اور پچھلے دن پر اور چاہیے کہ ان کی سزا کے
وقت مسلمانوں کا ایک گروہ حاظر ہو( النور ) اﷲ تعالی نے فرمایااور یہ کام
حرام کیا گیا ہے (النور)مگر شادی شدہ پر زنا کی حد یہاں تک کہ مر جائے اور
غیر شادی شدہ پر اس کی حد سو کوڑے ہیں چاہے مرد ہو یا عورت اور قذف کی
سزابغیر گواہوں کے اسی کوڑے ہیں اور اس کی کوئی گواہی بھی قبول نہیں کی
جائے گی اور وہ دنیا و آخرت میں لعنتی ٹھہرے گا جیسا کہ اﷲ تعالی نے قرآن
مجیدمیں فرمایا۔اور جو پارسا عورتوں کو الزام لگائے اور معائنہ کے چار گواہ
نہ لائیں تو انہیں اسی کوڑے لگاؤاور ان کی گواہی کبھی نہ مانو اور وہی فاسق
ہیں (النور )
آج کل عورتوں پر مغرب کا سایہ کچھ زیادہ ہے،وہ خود ہی اپنے حقوق مانگتی
ہیں،ذاسوچو تو صحیح کہ آپ کو اسلام نے کتنے حقوق دئیے ہیں،مگر ہم خود اسلام
سے دور ہیں چہ جائیکہ ہماری عورتیں دین اسلام کو اپنا لیں۔اﷲ تعالیٰ ہمیں
سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین بجاہ سید المرسلین)
|