فیض کے آغازِ شعور میں علامہ اقبال کی شہرت کا دائرہ
ہندوستان کی سرحدوں کو عبور کر کے مشرق و مغرب تک پھیل چکا تھا؛ ایسے میں
فیض کا اقبال سے متاثرہونا بالکل فطری تھا۔ یہ وہ دور تھا، جب اختر شیرانی
و حفیظ جالندھری کی نغمگی، حسرت موہانی کا تغزل اور جوش کی انقلابی لَے
نوجوان نسل کو کسی نہ کسی طور متاثر کر رہی تھی اور ساتھ ہی ساتھ میر اجی
اور راشد کی سرگوشیاں بھی محسوس کی جا رہی تھیں۔ فیض ان سب آوازوں کو بغور
سن رہے تھے، لیکن ان کی پہلی شعری توجہ کا مرکز اقبال بنے؛ چنانچہ اپنے
زمانۂ طالب علمی کے دَوران (۱۹۳۱ء) گورنمنٹ کالج لاہور میں منعقدہ ایک
مشاعرے میں ’اقبال‘ کے عنوان پر انعامی مقابلے کے لیے فیض نے بھی ایک نظم
لکھ کر اقبال کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ یہ نظم بعد ازاں گورنمنٹ کالج کے
ادبی مجلے راوی میں ’اقبال‘ کے عنوان سے شائع ہوئی:
زمانہ تھا کہ ہر فرد انتظارِ موت کرتا تھا
عمل کی آرزو باقی نہ تھی بازوے انساں میں
بساطِ دہر پر گویا سکوتِ مرگ طاری تھا
صداے نوحہ خواں تک بھی نہ تھی اس بزمِ ویراں میں
رگِ مشرق میں خونِ زندگی تھم تھم کے چلتا تھا
خزاں کا رنگ تھا گلزارِ ملت کی بہاروں میں
فضا کی گود میں چپ تھے ستیز انگیز ہنگامے
شہیدوں کی صدائیں سو رہی تھیں کارزاروں میں
سنی واماندۂ منزل نے آوازِ درا آخر
تِرے نغموں نے آخر توڑ ڈالا سحرِ خاموشی
مےِ غفلت کے ماتے خوابِ دیرینہ سے جاگ اٹھے
خود آگاہی سے بدلی قلب و جاں کی خودفراموشی
عروقِ مردۂ مشرق میں خونِ زندگی دَوڑا
فسردہ مشتِ خاکستر سے پھر لاکھوں شرر نکلے
زمیں سے نوریاں تک آسماں پرواز کرتے تھے
یہ خاکی زندہ تر ، پائندہ تر ، تابندہ تر نکلے
نبود و بود کے سب راز تو نے پھر سے بتلائے
ہر اک فطرت کو تو نے اس کے امکانات جتلائے
ہر ایک قطرے کو وسعت دے کے دریا کر دیا تو نے
ہر اک ذرّے کو ہمدوشِ ثریا کر دیا تو نے
فروغِ آرزو کی بستیاں آباد کر ڈالیں
زجاجِ زندگی کو آتشِ دوشیں سے بھر ڈالا
طلسم کن سے تیرا نغمۂ جاں سوز کیا کم ہے
کہ تو نے صد ہزار افیونیوں کو مرد کر ڈالا
پروفیسر علی احمد فاطمی کے خیال میں اس نظم سے اقبال کی عظمت پر روشنی پڑتی
ہی ہے، خود فیض کے شعورِ فکر و فن کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ نظم کا تانا
بانا، ردیف و قافیہ، تراکیب اقبال اور فیض کے فکری رشتوں کی نشان دہی کرتے
ہیں۔ اس نظم کو محض ابتدائی اثر پذیری کہہ کر فراموش کیا جا سکتا تھا، اس
لیے بھی کہ یہ نظم بعد میں ان کے کسی مجموعۂ کلام میں شامل نہ ہو سکی؛ لیکن
فیض اپنے بعض بیانات اور تحریروں میں تسلسل کے ساتھ اقبال سے اپنی عقیدت کا
اظہار کرتے رہے۔
اقبال کی زندگی میں ان پر تین قسم کے اعتراضات کیے گئے۔ اوّل اوّل اہل زبان
نے ان کے زبان و بیان پر گرفت کی اور بعد میں ان کے افکار پر تنقید کی جانے
لگی، لیکن جب کسی صورت بات نہ بنی تو اقبال کی شخصیت کو بھی ہدفِ تنقید
بنایا جانے لگا۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کی تشکیل سے بھی ایک سال قبل ڈاکٹر
اختر حسین راے پوری نے اپنے معروف مقالے ’ادب اور زندگی‘ میں اقبال کو
فاشسٹ قرار دیتے ہوئے ان کے بعض خیالات پر سخت تنقید کی اور ۱۹۴۳ء میں
’اردو ادب کے جدید رجحانات‘ میں ترقی پسند تحریک کے فروغ میں اقبال کی رحلت
کو اہم واقعہ قرار دیا۔ پھر تو ہر ترقی پسند نقاد اقبال پر اعتراض کو اپنا
فرضِ اوّلین سمجھنے لگا۔
ایسے میں فیض سب سے الگ اور منفرد ہی دِکھائی دیتے ہیں۔ ان کی تنقیدی بصیرت
کی داد دینا پڑتی ہے، کیونکہ دیگر ترقی پسند ناقدین کے برعکس، وہ ایک ہی
فکری جست سے اوائل جوانی ہی میں اعترافِ اقبال کی منزل تک پہنچ گئے تھے۔
روزگارِ فقیر کے پیش لفظ میں انھوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ اب یہ ثابت کرنے
کی ضرورت باقی نہیں رہی کہ علامہ اقبال ہمارے دور کے سب سے اہم اور سب سے
عظیم المرتبت شخصیت تھے؛ بلکہ انھوں نے اقبال کی وفات پر ایک نظم کے ذریعے
انھیں خراجِ عقیدت بھی پیش کیا۔ یہ جذباتی یا فرمائشی قسم کی نظم نہیں تھی،
بلکہ فیض نے اسے اپنے اوّلین مجموعۂ کلام نقش فریادی میں شامل کرنا بھی
ضروری خیال کیا۔ فیض لکھتے ہیں:
آیا ہمارے دیس میں اِک خوش نوا فقیر
آیا اور اپنی دھن میں غزل خواں گزر گیا
سنسان راہیں خلق سے آباد ہو گئیں
ویران میکدوں کا نصیبہ سنور گیا
تھیں چند ہی نگاہیں ، جو اس تک پہنچ سکیں
پر اُس کا گیت سب کے دِلوں میں اُتر گیا
اب دُور جا چکا ہے وہ شاہِ گدا نما
اور پھر سے اپنے دیس کی راہیں اداس ہیں
چند اِک کو یاد ہے کوئی اُس کی اداے خاص
دو اِک نگاہیں چند عزیزوں کے پاس ہیں
پر اُس کا گیت سب کے دِلوں میں مقیم ہے
اور اُس کی لَے سے سیکڑوں لذت شناس ہیں
اِس گیت کے تمام محاسن ہیں لازوال
اس کا وفور ، اس کا خروش ، اس کا سوز و ساز
یہ گیت مثل شعلۂ جوالا تند و تیز
اس کی لپک سے بادِ فنا کا جگر گداز
جیسے چراغ وحشت ِ صرصر سے بے خطر
یا شمع بزمِ صبح کی آمد سے بے خبر
حیرت ہے، ریاض قدیر کو ان نظموں میں اقبال کی شخصیت سے فیض کی جذباتی
وابستگی کا اظہار نہیں ملا اور وہ فیض کی ان نظموں کو اقبال کی قومی اور
شعری خدمات کے لیے رسمی خراجِ تحسین سمجھتے ہیں ۔ علی احمد فاطمی کے خیال
میں، یہ نظمیں ہرگز رسمی نہیں اور اقبال سے متعلق فیض کی نظموں اور مضامین
میں سچے جذبۂ فکر کا مخلصانہ اور دانشورانہ احساس و اظہار ملتا ہے۔ دوسری
طرف، پروفیسر عبدالحق نے اقبال کی شخصیت، فکر اور پیغام کے برملا اعتراف
اور مخصوص ذہنی رویے کے باوصف بے پایاں عقیدت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے
کہ اس سے فیض کی وسعت نظر اور قلب و ذہن کی طہارت کا اندازہ ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں یہ اندازِ نظر قدیم سے ہے کہ کسی فن کار کی عظمت کو دوسرے کی
مذمت سے مشروط سمجھا جاتا ہے۔ اس رویے نے محمد حسین آزاد کے ہاں آ کر عملی
صورت اختیار کر لی اور پھر شبلی نعمانی نے اس روایت کو یوں کمال تک پہنچا
دیا کہ انیس کے مقابلے میں دبیر چاروں شانے چت ہو گئے۔ دیگر ترقی پسند
ناقدین کی طرح مجنوں گورکھپوری بھی ترقی پسندوں کی عظمت کے اعتراف کے ساتھ
اقبال کو مسترد کرنا ضروری خیال کرنے لگے تھے؛ چنانچہ ان کی شاعری میں
عقاب، شاہین، شہباز اور چیتے کی علامات کو دیکھ کر وہ یہ سمجھے کہ اقبال
انسان میں بھی، بالخصوص ’مردِ مومن‘ میں انھی پھاڑ کھانے والے جانوروں کی
خصلت دیکھنا چاہتے ہیں، حالانکہ فیض کے خیال میں، یہ خارجی وارداتیں نہیں
ہیں، بلکہ:
وہ خالصتاً ایسے نشانات ہیں، جن کی مدد سے اقبال داخلی احساسات کی وضاحت
کرتا ہے، ان کی اپنی کوئی حیثیت نہیں۔ اقبال کو عقاب اور شاہین سے کوئی
دلچسپی نہیں۔ میرے خیال میں اس نے کبھی یہ نہیں بتایا کہ عقاب کیسا نظر آتا
ہے۔ اسے جگنو، عقاب، چاند اور سورج میں کوئی دلچسپی نہیں، وہ شاعر کے لیے
خارجی چیزیں نہیں ہیں، بلکہ بعض مضامین کی تشریح کے لیے نمونہ جات ہیں۔
گویا شاہین یا عقاب کا تعلق ’مردِ مومن‘ کی بعض خصوصیات کی تشریح و تفسیر
سے ہے۔ مردِ مومن اور انسانِ کامل کی شخصیت کے اجزاے ترکیبی کا اظہار اقبال
کے لاتعداد اشعار میں ملتا ہے، تاہم یہ جاننا ضروری ہے کہ ان کے ہاں شخصیت
کو پرکھنے کا معیار کیا ہے؟ اس سلسلے میں اقبال اپنے انگریزی خطبے میں
لکھتے ہیں:
The idea of personality gives us a standard of value --- that which
fortifies personality is good, that which weakens it is bad. Art,
religion and ethics must be judged from the standpoint of personality.
چونکہ شخصیت کے فروغ اور توانائی کا انحصار معاشرتی روابط پر ہوتا ہے،
چنانچہ ایک مقام پر پہنچ کر، بقول فیض، اقبال کا انسانِ کامل نیتشے کے فوق
البشر سے مختلف ہو جاتا ہے؛ اس لیے کہ اقبال کے حتمی فیصلے ہر قسم کے قومی
تعصبات، استعماری مقبوضات، نسلی امتیازات، معاشرتی استحصال اور ذاتی اغراض
کے سراسر خلاف ہیں۔
ہر بڑا شاعر ماضی کے شعری سرمایے سے اثرات قبول کرتا ہے اور مستقبل کے منظر
نامے پر نقش مرتسم بھی کرتا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ عظیم شعرا کے اعتراف
سے شاعر کی عظمت میں کمی واقع نہیں ہوا کرتی۔ اردو ادب کی تاریخ شاہد ہے کہ
میر کی عظمت کو ہر دَور کے شعرا نے تسلیم کیا ہے، حتیٰ کہ غالب جیسے عظیم
شاعر کے ہاں بھی میر کا اعتراف موجود ہے۔ پھر اقبال کے ہاں غالب کے رنگ و
آہنگ کی باز گشت سنائی دیتی ہے۔ اب، بقول پروفیسر عبدالحق، اقبال کے ادبی
اقدار کو صدقِ دل سے قبول کیے بغیر چارہ نہیں؛ خواہ وہ کسی گروہ یا کسی
قبیل کے شاعر ہوں۔ ان کے خیال میں فیض کی عظمت بھی یہی ہے کہ انھوں نے اس
نکتے کو سمجھ لیا تھا اور اسے اچھی طرح برتا اور اپنے فن کی بالیدگی کو نئی
جہات سے روشناس کر کے اسے تابندگی بخشی۔
فیض کے شعری لب و لہجے اور بیانات میں انتہا پسندی کبھی راہ نہ پا سکتی؛
چنانچہ اُس دَور میں بھی، جب ترقی پسند ناقدین اقبا ل کی شخصیت اور افکار
پر جا و بے جا اعتراضات کر رہے تھے ، فیض ان سے الگ تھلگ دِکھائی دیتے ہیں۔
ایک محفل میں جب احمد ندیم قاسمی نے اقبال کو رجعت پسند قرار دے کر شدید
تنقید کا نشانہ بنایا تو فیض نے قاسمی صاحب کے نقطہ نظر کو مسترد کر دیا۔
ایک دوسرے موقع پر، فیض کی موجودگی میں کچھ حضرات ایک محفل میں اقبال پر
طعن و تشنیع کر رہے تھے، بلکہ تجویزیں پاس کر رہے تھے، فیض کو اتنا ناگوار
گزرا کہ اٹھ کر چلے آئے۔ پروفیسر عبدالحق کے خیال میں یہ صرف اقبال کی
توہین یا تحقیر نہ تھی،بلکہ اقبال کے اس لازوال فن کی اہانت تھی، جو قوموں
کی تقدیر بدل سکتا ہے۔
فیض نے نظریہ ادب کی حد تک اقبال کو ترقی پسند قرار دیا، کیونکہ اقبال نے
ثابت کیا ہے کہ شاعر کا کام خوب صورت نظمیں اور گیت لکھنا ہی نہیں ہے، بلکہ
زندگی کے عوامل اور مشاہدات کو موضوع بنانا بھی ہے؛ لیکن ساتھ ہی اقبال کی
شاعری کو ان کے نظریۂ ادب، موضوعِ سخن اور شاعری پر سیاسی و سماجی اثرات کے
پس منظر میں ترقی پسند یا رجعت پسند قرار دینے کی تجویز بھی پیش کر دی۔ آلِ
احمد سرور نے اس مطالبے کو نامناسب قرار دیتے ہوئے اقبال کی ساری فکر کو
پیش نظر رکھنے پر زور دیا ہے۔
ڈاکٹر محمد علی صدیقی کے خیال میں کہ فیض، اقبال کے اس تجزیے سے پوری طرح
متفق تھے کہ کوئی دِین اور نظریہ صرف اسی وقت پامال ہوتا ہے، جب اس کی عہد
بہ عہد توسیع سے منہ موڑ لیا جائے، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ فیض نے ترقی
پسندی کو کسی جامد نظریے کے طور پر قبول نہیں کیا، بلکہ انھوں نے زمانی و
مکانی اعتبار سے معروضی نقطہ نظر اپنایا اور کئی مواقع پر پارٹی لائن کو
نظر انداز کیا۔
فیض کا شمار اردو کے عظیم شعرا میں تو ہوتا ہی ہے، لیکن ان کی عزت و شہرت
میں ان کی دانش وری بھی نمایاں ہے اور چونکہ وہ شعر و سخن کی دنیا میں حکمت
و دانائی اور فکر و فلسفے کی اہمیت کے قائل ہیں، اس لیے وہ کولرج کا یہ
بیان دہراتے ہیں:
No man was ever yet a great poet without being at the same time a great
philosopher.
اس سلسلے میں وہ رومی، سعدی، حافظ، خسرو اور غالب جیسے عظیم مسلمان شعرا کے
ساتھ اقبال کا نام بھی لیتے ہیں؛ تاہم اس امتیاز کے ساتھ کہ:
عہد وسطیٰ کے پیش روؤں کے برعکس محض یہ نہیں کہ انھوں نے فلسفے کے مختلف
مدرسہ ہاے فکر کا، جس میں قدیم و جدید دونوں شامل ہیں، بنظر غائر مطالعہ
کیا تھا، بلکہ وہ ایک سے زیادہ زبانوں میں ایسا نثری سرمایہ بھی رکھتے ہیں،
جس میں منطقی اختصار کے ساتھ ساتھ انھوں نے حقیقی دنیا کے مسائل کا اپنا حل
پیش کیا ہے۔
فیض اردو ادب کے کلاسک کا احترام کرتے ہیں، لیکن سرمایہ دارانہ استبداد اور
بڑھتی ہوئی طبقاتی خلیج کے باعث تغیر پذیر عالمی و سماجی منظر نامے میں
ترقی پسند نظریات کی اہمیت بھی واضح کرتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ترقی پسند
ادیبوں نے مرض کی صحیح تشخیص کی تھی اور ان کا تجویز کردہ علاج بھی صحیح
تھا، لیکن اس اعتراف سے بھی انھیں عار نہیں کہ ان [ترقی پسندوں] میں غالب،
اقبال یا نذیر احمد کے پایے کا کوئی ادیب نہیں تھا، جو اس نئے گھروندے کا
گھر بنا سکتا۔
اقبال سے فیض کی عقیدت کا اظہار منظوم خراجِ عقیدت اور بعض مضامین کے علاوہ
کلامِ اقبال کے ترجمے کی صورت میں بھی ہوا ہے۔ ۱۹۷۷ء میں اقبال صدی کے موقع
پر اقبال اکادمی پاکستان کی دعوت پر فیض پیامِ مشرق کے منظوم اردو ترجمے کے
لیے تیار ہو گئے۔ آغا ناصراور احمد فراز کو ناگوار گزرا، لیکن فیض ترجمے کو
تخلیقی سرگرمیوں سے کمتر نہیں سمجھتے تھے۔ فیض کا خیال تھا کہ پیامِ مشرق
میں ہمارے مطلب کی شاعری ہے، لہٰذا اس کا اردو ترجمہ ضرور ہونا چاہیے۔
کہنے کو تو فیض نے اپنے دوستوں کو خاموش کرا دیا، لیکن جب ترجمہ ہوا تو
’ہمارے مطلب کی شاعری‘ اس میں شامل نہیں تھی۔ ’کارل مارکس‘، ’ٹالسٹائے‘،
’ہیگل‘، ’نیتشے‘، ’محاورہ مابین حکیم فرنسوی اگسٹس کومٹ و مردِ مزدور‘،
’جلال و گوئٹے‘، ’موسیولینن و قیصر ولیم‘، ’قسمت نامہ سرمایہ دار و مزدور‘
کے علاوہ حکما اور شعرا پرمختلف نظموں پر مشتمل پیامِ مشرق کا حصہ ’نقش
فرنگ‘ فیض نے نظر انداز کر دیا تھا۔
انتخابِ پیامِ مشرق کی اشاعت (لاہور: اقبال اکادمی پاکستان، ۱۹۷۷ء) کے ایک
برس بعد جب فیض نے اپنا شعری مجموعہ شامِ شہر یاراں مرتب کیا تو اقبال کو
خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے اس کے سرعنوان کے لیے اسی کتاب سے ایک شعر
منتخب کیا:
گماں مبر کہ بپایاں رسید کارِ مغاں
ہزار بادۂ ناخوردہ در رگِ تاک است
درج بالا گفتگو سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال کی عظمت کا اعتراف فیض کی جوانی
سے ان کی فکری پختگی تک، بلکہ فن کارانہ عروج کے دَور تک پھیلا ہوا ہے۔
برعظیم میں فکری بحران سے نکلنے کی پہلی کوشش کا احساس ۱۸۵۷ء کے بعد ہوتا
ہے۔ جنگ آزادی کی ناکامی اور مسلم دنیا کی زوال پذیری کے دَور میں مسلمان
دو شدید رویوں کا شکار ہو گئے۔ ایک طرف مصلحت پسند سیاسی رہنما تھے تو
دوسری جانب قدامت پسند علما۔ ان کے برعکس نئی دانش کے پس منظر میں اقبال کا
نقطہ نظر دونوں انتہاؤں کے برعکس اعتدال پسندی سے عبارت رہا۔ اقبال کے اس
رویے کا تجزیہ کرتے ہوئے فیض لکھتے ہیں:
یہ دونوں آوازیں نئے دانش ور طبقے کے لیے کوئی اپیل نہ رکھتی تھیں۔
شاعراقبال اُن کی ناآسودگی کے سوتوں سے کماحقہٗ واقف تھے اور مفکر اقبال
اُن کے اس فکری اور روحانی کرب کی ماہیت کو خود سمجھتے تھے، جو جدیدیت اور
روایت کے دیوان کی کلائیوں کو گرفت میں لے کر مختلف سمتوں میں کشاکش سے
پیدا کر رہے تھے۔ وہ دونوں سے ذہنی و جذباتی اُنس رکھتے تھے۔ رفتہ رفتہ
انھوں نے ہندی مسلمانوں، مسلمانانِ عالم اور ……خدا ، انسان اور فطرت کی
تکون سے متعلق عصری مسائل کے جوابات تلاش کر لیے۔
فیض کے خیال میں، اقبال فرد میں جرات، حق شناسی، ایمان کی پختگی اور مخالف
ماحول سے نبرد آزما ہونے کا عزم ابھرتا ہوا دیکھنا چاہتے تھے، چنانچہ وہ
اقبال کے شاعرانہ کمالات کے ساتھ ساتھ ان کے اس خیال سے بھی بہت متاثر ہوئے
کہ انسان اپنے اندر بے پناہ قوتیں رکھتا ہے اور تمام عظمتیں اسی کے لیے
ہیں۔ آل احمد سرور نے عظمت آدم کے فلسفے کی وجہ سے اقبال کو ہیومنسٹ قرار
دیا تو فیض نے اقبال کے ارتقائی سفر کی مزید اگلی منزلوں کی نشان دہی کی
ہے:
ابتدائی کلام میں، جوانی کے ایام کے کلام میں، اقبال کی توجہ اپنی ذات پر
ہے؛ وہ اپنے بارے میں لکھتا ہے، اپنے عشق کے بارے میں،اپنے غم کے بارے میں،
اپنی تنہائی کے بارے میں، اپنی مایوسیوں کے بارے میں۔ پھر بانگِ درا کے
دوسرے نصف حصے میں وہ اپنی ذات سے آگے بڑھ کر مسلمان قوم اور مسلم دنیا کے
بارے میں لکھتا ہے۔ مسلم دنیا سے آگے بڑھ کر وہ نوعِ انساں اور نوعِ انسان
سے آگے چل کر وہ کائنات کی بات کرتا ہے۔
فیض کی مندرجہ بالا راے کے بعد ڈاکٹر محمد علی صدیقی کا یہ کہنا ……’اقبال
کا عشق ہند و پاک کی ملت مسلمہ کا درد لیے ہوئے ہے؛ فیض نے اپنے درد کو ملت
مسلمہ تک محدود نہ رکھا، بلکہ اسے پورے عالم انسانیت کا درد بنا کر پیش کیا
اور یہ ایک طرح سے طرحِ اقبال میں، جو خود اقبال کے لیے طرحِ نو تھی، اضافہ
ہے۔‘ ……درست نتیجہ فکر نہیں، کیونکہ فیض کے خیال میں تو آفاقی طریقے سے
سوچنے کا ڈھب اور اس کو سوچنے کی ترغیب ہمارے ہاں اقبال نے پیدا کی ہے اور
پھر ذہنی و جذباتی سفر کے آخری مقام پر انسان اور کائنات، خالق اور مخلوق،
وَرا اور ماوَرا کے حقائق ہی اقبال کے ہاں موضوعِ شعر ٹھہرتے ہیں۔
سرورؔ نے مذہب کو اقبال کے فکر کا مرکز قرار دیا ہے؛ لیکن یہ امر پیش نظر
رکھنا ہو گا کہ اقبال کے یہاں مذہب محض عقائد و عبادات کا نام نہیں، بلکہ
حرکت و عمل سے عبارت ہے، چنانچہ انھوں نے آخرت یا جزا و سزا کی نسبت
کارزارِ حیات میں جہد مسلسل پر زیادہ زور دیا ہے۔ اس کی وجہ، بقول فیض، یہ
ہے کہ اقبال شاعر ہے جدوجہد کا، فطرت کی حریفانہ قوتوں کے خلاف انسان کی
جنگ کا؛ ان قوتوں کے خلاف جنگ کا، جو روحِ انسانی کی دشمن ہیں۔
فیض نے ایک اَور مقام پر مذہب سے متعلق اقبال کے رویے پر روشنی ڈالی ہے:
ایسے روایتی صوفی سے، جو موجودہ دنیا کو واہمہ اور انسان کے دنیوی عمل کو
کارِ لاحاصل سمجھ کر اُسے رد کر دیتا ہے، اقبال کنارہ کش ہو جاتے ہیں؛ مگر
وہ متشرع فقیہوں اور ان کی جامد و ساکن عصبیت کو بھی پوری قوت سے رد کر
دیتے ہیں۔
کسی فن کار کی عظمت کا انحصار روایت کی پاسداری سے زیادہ عصری مطالبات کے
پیش نظر روایات کی ازسرِنَو تشکیل پر ہوتا ہے۔ بہت بہت دیگر مفکروں کی طرح
اقبال کے ذہنی سفر کے دَوران بھی خیالات میں تفادت کا در آنا خارج از امکان
نہیں؛ لیکن فیض،بظاہر دِکھائی دینے والے تضادات کو اقبال کے ارتقا کی
منزلیں قرار دیتے ہوئے خیالات کے منطقی ربط، فطری ارتقا اور ایک نظامِ فکر
کو ان کی شاعری کا اہم ترین پہلو گردانتے ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ وہ اقبال کے
عہد بہ عہد نظریات میں اختلاف تو پاتے ہیں، تناقض نہیں۔
یہ درست ہے کہ اقبال کے ابتدائی اسلوب پر داغ کی سلاست اور غالب کا شکوہ
محسوس کیا جا سکتا ہے، لیکن آگے چل کر اقبال جذبات و احساس کی جگہ خیالات و
تصورات کو شاعری کی سطح پر رُوشناس کرانے والے تھے۔ اس ضمن میں فیض نے فکر
و خیال کے اعتبار سے اقبال کے بدلتے ہوئے شعری لب ولہجے، لغت، علامتوں،
استعارات اور اصنافِ سخن کی نشان دہی کی ہے، چنانچہ فیض نے اسلوبِ اقبال کی
دو خصوصیات کو اہم قرار دیا ہے:
۱۔ ایک تو یہ کہ اقبال نے تازہ خیالات و افکار کو شامل کر کے اردو شعری
روایت کے فرسودہ اور بے جان استعارات و تشبیہات میں جان ڈال دی۔
۲۔ بے رنگ اور دقیق خیالات کو اس بے ساختگی سے ادا کیا کہ مضمون اپنی وقعت
اور اجنبیت کے باوجود غالب کے عشق سے زیادہ رنگین معلوم ہونے لگتا ہے۔
اقبال کے اسلوب پر فیض کے تبصرے کے بعد اسلوبِ فیض سے متعلق پروفیسر
عبدالحق کی یہ راے نہایت وقیع محسوس ہوتی ہے؛ جس کے مطابق، اقبال کی طرح
فیض نے قدیم شعری تلازموں، رمز و کنایات، تلمیحات و اشارات میں ایک نیا
مفہوم اور نئی فکر، نئے اسالیب و اظہار کے ساتھ استعمال کیا ہے، جس کی وجہ
سے پرانی اصطلاحوں یا الفاظ میں عہد جدید کے نئے مفاہیم نے ہماری شاعری کے
افق کو بلند تر کیا ہے۔
اقبال کی ہاں جذبے کو بتدریج غیر مرصع اسلوب میں بیان کیے جانے کا رجحان
ملتا ہے۔ اس غیر مرصع اسلوب کے باوجود اقبال نے اپنے کلام کو کیسے وقعت دی؟
فیض اس سوال کے جواب میں تین وجوہ بیان کرتے ہیں:
۱۔ ایک چیز، جو کلی طور پر اردو شاعری کو اقبال کا عطیہ ہے، وہ اسم معرفہ
کا استعمال ہے؛ مثلاً کوفہ، حجاز، عراق، فرات، اصفہان، سمرقند، قرطبہ
وغیرہ۔
۲۔ ایسے الفاظ کا استعمال، جو سادہ تو ہیں، لیکن نامانوس۔جو نہ مشکل ہیں،
نہ متروک؛ صاف شفاف الفاظ، لیکن جو پہلے استعمال نہیں کیے گئے۔
۳۔ نامانوس بحر، مثال کے طور پر مسجد قرطبہ کی بحر۔ اقبال کے ہاں کم از کم
چھ ایسی بحریں ملتی ہیں، جو اس سے قبل اردو شاعری میں مستعمل نہیں تھیں۔
ان حربوں کے علاوہ اقبال اپنی لفظیات کو اس طرح ترتیب دیتے ہیں کہ خود ان
کے صوتی اثرات شعر میں نغمگی پیدا کر دیتے ہیں اور بقول فیض، کان اس نغمگی
کو بار بار سننے کے لیے بے تاب ہو جاتے ہیں اور زبان انھیں بے ساختہ دہراتی
ہے۔
اگرچہ فیض نے اقبال کی فکر کو اُن کے خطبات اور غنائیت کو اُن کی شاعری میں
تلاش کیا ہے؛ لیکن علی احمد فاطمی کے خیال میں، اقبال کے یہاں خطابت زیادہ
ہے تو فیض کے یہاں غنائیت، جو فیض کی ایک مخصوص شناخت قائم کرتی ہے؛
حالانکہ فیض خود کہہ چکے ہیں کہ جہاں تک شاعری میں semsbuity، زبان پر عبور
اور غنائیت کا تعلق ہے، ہم ان کی خاکِ پا بھی نہیں۔ ایک انٹرویو میں انھوں
نے اس بات کا اظہار کیا تھا کہ نغمگی، موسیقی اور شعریت کے اعتبار سے بالِ
جبریل اقبال کا شاہکار ہے۔
اقبال کا مطالعہ کرتے ہوئے فیض نے درست نتیجہ اخذ کیا ہے کہ صرف یہی اسٹائل
اس حتمی موضوع سے مطابقت رکھتا ہے، جو اقبال نے اپنے طویل شعری سفر میں
اپنایا۔
بہ اعتبارِ مضامین، اقبال کے غنائی دَور میں فیض نے تین اجزا کی نشان دہی
کی ہے:
۱۔ عنفوانِ شباب کے عاشقانہ جذبات
۲۔ مناظر فطرت
۳۔ حب وطن اور قومیت کا احساس
فیض اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ اکثر اقبال شناسوں نے اقبال کے
فلسفیانہ عقائد اور تعلیمات کی تفسیر و تشریح پر زورِ قلم صرف کیا ہے، لیکن
کلامِ اقبال کے آئینے میں ان کی ذات کو دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ ان کا یہ
کہنا بجا ہے کہ اقبال کی نظر سے دنیا کو بہت سے لوگوں نے دیکھا، اقبال کی
نظر سے اقبال کا مطالعہ کسی نے نہیں کیا، حالانکہ فلسفیانہ موضوعات کی طرح
اپنی ذات بھی ان کی شاعری کا ایک مستقل موضوع ہے اور ان کے کلام کا کوئی
دَور اس موضوع سے عاری نہیں۔ فیض کے خیال میں، کلامِ اقبال میں سب سے
پُرخلوص اور دل گداز جزو وہی ہے، جس کا تعلق اقبال کی ذات سے ہے، کیونکہ یہ
حصہ فلسفہ و خطابت کی نسبت جذبہ و احساس کی شدت سے مملو ہے اور اس کلام پر
اقبال کی حکیمانہ بزرگی کے بجاے ان کی شاعرانہ عظمت کا انحصار زیادہ ہے۔
اقبال شناسی کے ابتدائی برسوں میں ان کے شعری محاسن اور سحر کی طرف ناقدین
کی عدم توجہ کی ذمہ داری فیض نے شاعر پر عائد کی ہے، کیونکہ اقبال کے کلام
میں کئی بار قارئین کو اُن کی شاعری کو نظر انداز کرنے اور ان کے پیغام پر
توجہ دینے کی تلقین کی گئی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ وہ خود کو محض شاعر کہلوانا پسند نہیں کرتے تھے۔ فیض کہتے
ہیں :
اقبال نہیں چاہتے تھے کہ انھیں سڑے بسے نغمہ نگاروں میں شامل کیا جائے، جن
کی ہمارے یہاں بہتات ہے۔ مَیں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس انداز کی صحت
اور عدم صحت سے قطع نظر، اقبال کے پاے کا شاعر کسی نام سے بھی پکارا جائے،
عظیم ہو گا۔
اقبال کی شاعرانہ عظمت بجا سہی، لیکن وہ خود شاعری کی نسبت اپنے تصورات کو
زیادہ اہم سمجھتے ہیں۔ اقبال نے اپنے دَور کے سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی
پس منظر میں عالمی منظر نامے کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ اس ضمن میں فیض،
اقبال کو عالمی کلاسک کی صف میں کھڑا کر دیتے ہیں:
تمام ’شاعرانِ اثبات‘،مثلاً دانتے، ملٹن اور گوئٹے کی طرح اقبال بھی محض
مجرد فکر کے حامل نہیں ہیں، انھی کی طرح وہ بھی گرد و پیش کی معاشرتی دنیا
کے معاملات میں بڑے انہماک سے شامل تھے۔
اگرچہ یہ کوششیں اردو کے دیگر شعرا کے ہاں بھی دیکھی جا سکتی ہیں، لیکن
عموماً ان کی شاعری میں تدبر و فکر کے بجاے تتبع یا غم و غصے کی کیفیت ملتی
ہے ، یہی وجہ ہے کہ ان کے خیالات مؤثر جذبے کے فقدان کے باعث واعظانہ رنگ
اختیار کر لیتے ہیں، جب کہ بقول فیض، اقبال اُن معدودے چند شعرا میں سے
ہیں، جو محض جذباتی خلوص کے بل پر ایک فلسفیانہ پیغام کو شاعری کی سطح تک
پہنچانے میں کامیاب ہوئے۔ دوسری جانب وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگرچہ اقبال
فلسفی، مفکر،قومی راہبر اور مبلغ بھی تھے، لیکن جس نے ان کے پیغام کو اصل
قوت اور دلوں میں گھر کر جانے کی صلاحیت بخشی، وہ ان کی شاعری ہی تھی۔
اس ضمن میں اقبال اور فیض کا موازنہ کرتے ہوئے علی احمد فاطمی لکھتے ہیں کہ
فلسفہ کو شاعری (اقبال) اور نعرہ کو شاعری (فیض) کس طرح بنایا جا سکتا ہے؛
یہ درس، یہ شعور دونوں کی شاعری سے ملتا ہے۔ ان کے خیال میں ایسا اس لیے ہے
کہ دونوں آرزو، خواب، حقیقت اور حکمت کے شاعر ہیں اور دونوں ہی بہتر اور
صحت مند معاشرے اور زندگی کا تصور رکھتے ہیں۔ ایک نے فلسفہ کو شاعری بنا
دیا تو دوسرے نے شاعری کو فلسفہ۔
اقبال کے فلسفے میں ان کے تصورِ خودی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، چنانچہ
اقبال کا تصورِ مردِ مومن ہو یا تصورِ وطن، تصورِ نسواں ہو یا تصورِ تعلیم،
تصورِ معیشت یا تصورِ سیاست؛ تمام افکار ان کے اسی تصور کے گرد گھومتے ہیں۔
مختلف سمتوں سے سفر کرتے ہوئے یہ تصورات تصورِ خودی تک پہنچتے پہنچتے بظاہر
متضاد مقامات سے گزرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ بعض ناقدین ان کے ہاں تضاد،
اختلاف یا تناقض کی نشان دہی کرتے ہیں، لیکن جیسا کہ ہر عظیم فن کار کے
پیغام کی کئی جہتیں، کئی پہلو اور کئی گوشے ہوتے ہیں اور ہر شخص اپنی بصیرت
اور ظرف کے مطابق اس سے مستفیض ہوتا ہے؛ فیض کی راے میں، اقبال کے کلام کے
بارے میں بھی یہی ہے کہ قریب قریب ہر مکتب فکر ان کو سند کے طور پر استعمال
کرتا ہے اور ہر مکتب فکر اپنے عقائد اور نظریات کی تصدیق اور دوسرے مکتب کی
تکذیب یا تنقیص کے لیے ان کا کوئی نہ کوئی مصرع یا شعر ڈھونڈ نکالتا ہے۔
انھی حالات میں فیض نے اقبال کو عہد حاضر کا سب سے مظلوم شاعر قرار دیا ہے،
تاہم ان کے خیال میں، کسی بڑے شاعر کے بارے میں مختلف و متضاد آرا سے اس کی
عظمت میں فرق نہیں آتا، بلکہ اس کی تصدیق ہوتی ہے، اسی لیے انھوں نے اقبال
کو ایک ندی یا نہر سے تشبیہ نہیں دی، جو ایک ہی سمت کو بہے چلی جاتی ہیں،
بلکہ انھوں نے اقبال کو ایک سمندر قرار دیا ہے، جو چاروں اور محیط ہوتا ہے،
چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ اقبال کو کسی تحریک کی چار دیواری میں بند نہیں کیا
جا سکتا۔ ان کا ایک قدم پرانے وطن پرستوں میں ہے اور دوسرا قدم موجودہ ترقی
پسندوں میں۔
اس سلسلے میں کوئی دوسری راے نہیں کہ اقبال کے خیالات مسلسل ارتقا پذیر رہے
اور یہ بھی حقیقت ہے کہ انھوں نے اپنے افکار و تصورات کے مطابق اسلوب
اختیار کیا۔ فیض نے اقبال کے افکار اور اسالیب کے مابین ربط تلاش کرتے ہوئے
لکھا تھا:
اقبال فن براے فن کا شدید مخالف تھا، اس لیے ہم اس کے فن یا اسٹائل یا
تکنیک یا دوسرے شعری محاسن نفسِ مضمون سے الگ کر کے نہیں دیکھ سکتے، کیونکہ
اس امر کے باوصف کہ اس کا اسٹائل بتدریج بدلتا رہا، اس نے مختلف اسٹائل
اختیار کیے۔ یہ سارے اسٹائل ان مضامین کے مطابق وضع کیے گئے، جو اقبال بیان
کرنا چاہتا تھا، اس لیے اقبال کے اسٹائل کا ارتقا اس کے فکر کے ارتقا کے
متوازی ہے اور ان میں سے ایک کو دوسرے سے علیحدہ کر کے مطالعہ کرنا نہ صرف
ایک سطحی بات ہو گی، گمراہ کن بھی ہوگی۔
چنانچہ فیض نے اس موضوع پر تحقیقی کام کی ضرورت پر زور دیا ہے کہ علامہ کی
فکر نے جو ارتقائی منزلیں طے کی ہیں، ان میں اور علامہ کے اظہارِ فکر میں
کیا رشتہ اور قرب ہے اور یہ کہ ان میں کیا تبدیلیاں آئیں۔
ہمارے ہاں بالعموم شعر و ادب کو تفریح، غنائیہ یا زیادہ سے زیادہ مذہبی
ضروریات کے لیے استعمال کیا گیا اورشاعری کا اصلاحی کردار حالی کے بعد ہی
متعین ہو سکا، جب کہ فیض کا خیال ہے کہ شعر میں فکر، شعر میں حکمت اور شعر
میں عظمتیں، جن کو ہم شاعروں سے نہیں، فلاسفروں سے متعلق کرتے ہیں، وہ محض
اقبال کی وجہ سے ہمارے ہاں پیدا ہوئیں۔ وہ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اقبال کے
افکار کی وجہ سے ہی ہماری ذہنی زندگی میں وہ تہیج و تلاطم پیدا ہوا، جو اُن
سے پہلے یا ان کے بعد کسی واحد مصنف، کسی واحد ادیب یا کسی واحد مفکر نے
ہمارے اذہان میں پیدا نہیں کیا۔
مندرجہ بالا گفتگو سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال کی شخصیت اور فن سے
متعلق فیض کے خیالات میں کوئی بنیادی تضاد نہیں ملتا اور یہ کہ اقبال سے
اپنے فکری اختلاف کے اظہار کے لیے بھی انھوں نے نہایت شستہ انداز اختیار
کیا۔ جہاں تک اقبال کی شخصیت کا تعلق ہے، فیض ساری زندگی انھیں خراجِ عقیدت
اور خراج تحسین پیش کرتے رہے۔ ایک نقاد کی حیثیت سے وہ ہر قسم کے تعصبات سے
دُور رہے اور یوں دیگر ترقی پسند ناقدین کے مقابلے میں ان کے ہاں ہمیشہ ایک
اعتدل اور توازن قائم رہا۔ |