فیصلہ

عائشہ طارق
ہم لوگ ہر روز زندگی میں ہزاروں فیصلے کرتے ہیں۔ ہر قسم کے چھوٹے بڑے بہت سے۔ انسان کی زندگی اس کے فیصلہ کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے اہمیت رکھتی ہے۔ صرف انسان کو ہی اللہ تعالیٰ نے عقل اور سوچ سمجھ دی ہے۔ صرف انسان کو ہی فیصلے کرنے کا اختیار ہے۔اور کسی چیز کو نہیں ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک ہے کہ اس نے ہمیں یہ حق دیا ہے کہ ہم اپنے لیے صحیح اور غلط کا فیصلہ کر سکے۔ مگر افسوس کہ ہم اس پاؤر کا سہی استعمال نہیں کرتے۔

انسان کو جب بھی کوئی مشکل درپیش آتی ہے تو یہ صحیح معنوں میں اس کے لیے فیصلے کی گھڑی ہوتی ہے۔ اور یہ گھڑی کسی وقت راہ میں کھڑی ہو جاتی ہے۔ ہم چھوٹی چھوٹی باتوں سے لے کر بڑے بڑے کارناموں تک سب کو فیصلوں کی مدد سے چلاتے ہیں۔ فیصلوں کے دم سے عروج حاصل کرتے ہیں اور فیصلوں کے دم سے ہی زوال۔ انسان فیصلہ ایک لمحے میں کرتا ہے اور پھر اس فیصلے کا نتیجہ ساری عمر ساتھ ساتھ رہتا ہے۔ کھبی روشنی کی طرح ، کھبی سائے کی طرح اور کھبی آسیب کی طرح۔ ایک بار کیا گیا فیصلہ کھبی بدلا نہیں جا سکتا ہے۔ وقت دوبارہ نہیں آتا۔ انسان اپنے فیصلوں کے نتیجوں کا عذاب ساری زندگی بھگتا رہتا ہے۔ زندگی میں جب کوئی لمحہ دوبارہ نہیں آتا ہے۔ تو فیصلے کے لمحے کہاں دہرائے جاسکتے ہیں۔

دنیا کا سب سے مشکل فیصلہ ہی اچھا فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ ہم لوگ فیصلہ کرنے کا شوق تو زمانہ ازل سے ہی رکھتے ہیں۔ یعنی کہ بچپن سے ہی ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ بڑے بڑے فیصلے کرے اپنے بارے میں، دنیا کے بارے، ملک و قوم کے بارے میں، مگر عجیب بات یہ ہے کہ جب ہمیں فیصلہ کرنے کا موقع ملتا ہے تب ہمیں کچھ سمجھ ہی نہیں آتا کہ اب کیا کریں، کس طرح اور کیسے کریں۔ ہم اپنی زندگی کے بڑے بڑے اور متاثر کن فیصلے اتفاقاً کر لیتے ہیں۔ اور پھر ساری زندگی کھبی ہس کر تو اور کھبی رو کر ان کو نبھاتے ہیں۔
واصف علی واصف اپنی ایک نظم میں فیصلہ کے بارے میں یوں بیان کرتے ہیں۔
آدھا رستہ طے کر آیا
اب کیا سوچ رہا ہے آخر
انجانی منزل کی جانب
چلتا جائے
یا واپس ہو جائے راہی!
سوچ کے بھی انداز عجب ہیں
سوچ کے ہی آغاز کیا تھا
سو رستوں میں ایک چنا تھا
اور اب سوچ ہی روک رہی ہے؟
آگے بھی کچھ تاریکی ہے
لوٹ کے جانا بھی مشکل ہے
سوچ کا سورج ڈوب رہا ہے
ایسے راہی کی منزل ہے۔۔۔۔آدھا رستہ

مجھے اس نظم کا عنوان بہت اچھا لگتا ہے۔ ہمارے فیصلے بھی تو ایسے ہی ہیں۔ ہم خود ہی اس الجھن میں پڑ جاتے ہیں کہ کیا ہم نے جو فیصلہ کیا ہے وہ سہی ہے یا نہیں۔ ہم لوگ بھی عجیب ہے جن فیصلوں کے بارے میں سوچنا چاہیے ان کو انا فانا کر دیتے ہیں اور اگر سو چنے بیٹھتے ہیں تو پھر ساری زندگی ہی سوچتے رہتے ہیں اور اتنے میں سارا وقت گزار جاتا ہے۔

خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو فیصلے کرتے ہیں اور ان پر ساری زندگی قائم رہتے ہیں۔ اور افسوس ہے ان لوگوں کے لیے جو شعور رکھتے ہیں اور پھر چنتے ہیں اور پھر سوچتے ہیں اور پھر کھبی کھبی پچھتاتے ہیں۔ ہم اکثر کوئی فیصلہ کرتے ہیں اور کچھ عرصہ کے بعد ہمیں اس فیصلے کے غلط ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ اور اس وقت ہماری سوچ ہی ہمارے پاؤں کی زنجیر بن جاتی ہے۔ ہمارا دماغ ہی ساتھ دینا چھوڑ دیتا ہے۔ جذبات سے بھرا دل جذبات سے محروم ہو جاتا ہے۔ پھر ہم سوچتے ہیں کہ ہمارا یہ فیصلہ ہمیں غلط سمت میں لے کر جا رہا ہے۔ ہم غلط سمت کی طرف سفر کر رہے ہیں۔ مگر اس وقت واپس لوٹنا ممکن ہی نہیں ہوتا۔ اور نہ ہی آگے جانے کا حوصلہ کیونکہ ہمارا پچھلا فیصلہ ہی غلط نکلتا ہے۔ تب ہم لوگ اس مقام پر کھڑے ہو کر کھبی ماضی کو دیکھتے ہیں اور افسوس کرتے ہیں اور کھبی ممکن مستقبل کے بارے میں سوچ کر افسوس کرتے ہیں۔ کھبی آسمان کی دیکھتے ہیں اور کھبی زمین کی طرف، حسرت بھری نگاہوں سے، رحم کی امید میں کے شاید اللہ تعالیٰ کوئی رستہ دیکھ دے۔ ایسے وقت میں انسان کے کام صرف اللہ پر ایمانلللل ہی آتا ہے۔

ہم انسان ہے اور اگر بحثیت انسان ہم سے کوئی غلط فیصلہ ہو بھی جائے، تو ہمیں اپنے اس فیصلے کی ذمہ داری کو قبول کرنے سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔ دنیا کی تاریخ کو دیکھے تو معلوم ہوتا ہے کہ اکثر فیصلے غلط ہو جایا کرتے ہیں۔ فیصلے غلط ہو جائے تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کے انسان فیصلے کرنا ہی چھوڑ دے۔ انسان کے فیصلے اس کی اولاد کی طرح ہوتے ہیں۔ جیسے انسان کی اولاد جیسی بھی ہو انسان اس کی حفاظت کرتا ہے اور آخری دم تک اس کو بہتر بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسی طرح انسان کو چاہیے کہ وہ جیسے بھی فیصلے کر چکا ہے ان فیصلوں کی حفاظت کرے اور ان کو بہتر بنانے کی کوشش کرے۔

ہم فیصلہ کرتے وقت صرف ایک آدھ چیز پر غور کرتے ہیں۔ حالانکہ ہر فیصلے کے ساتھ کئی واقعات جوڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ جو وقت کے ساتھ رونما ہونا شروع ہو جاتے ہیں جن کا ہمیں اندازہ ہی نہیں ہوتا۔ انسان کا مقدر بھی اس کے فیصلوں کے ساتھ جوڑا ہوا ہے۔

جو لوگ اپنے کام اللہ کے سپرد کر دیتے ہیں۔ وہ مطمئن رہتے ہیں۔ جو ہو سو ہو، سب ٹھیک ہے۔ ان کا فیصلہ ہوتا ہے کہ جو ہوا اچھا تھا، جو ہوا ہے اچھا ہے اور جو ہو گا اچھا ہو گا۔ ایسے لوگوں کو فیصلے کیا تکلیف دے سکتے ہیں۔

ہم فیصلوں والی قوم بن چکے ہیں۔ ہم ہر وقت فیصلے کرتے رہتے ہیں۔ جہاں عمل کی باری آتی ہے وہاں نیا فیصلہ کر دیتے ہیں۔ ہم لوگ بہت عرصے سے فیصلوں کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ ہمیں شاید اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہے کہ ہمارے فیصلوں کے اوپر ایک اور فیصلہ نافذ ہو جاتا ہے۔ اور وقت کے سامنے ہمارے سارے کے سارے فیصلے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ ہم انسان غیر معین مدت تک فیصلوں کے مقام پر نہیں رہ سکتے کیونکہ ایک وقت ایسا آتا ہے جب انسان کے پاس وقت نہیں ہوتا۔ وقت اپنا فیصلہ صادر کر دیتا ہے۔ تب ہمارے سارے کے سارے فیصلے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ وقت کے پاس آخری اختیار، آخری فیصلہ ہوتا ہے۔

انسان کو اپنی ذات کے مطالق فیصلہ کرتے وقت اپنی شخصیت کا خیال رکھنا چاہیے۔اپنی شخصیت کے مطابق فیصلے کرنے چاہئیں۔ اس دنیا میں زیادہ تر لوگ اپنی ذات سے ہی انجان ہیں۔ اس لیے لوگ باہر کی دنیا سے متاثر ہو کر اپنی زندگی کے اہم فیصلے کر لیتے ہیں اور لوگوں کے یہ فیصلے ان لوگوں کو وہاں لے جاتے ہیں جہاں جانے کے بعد ان لوگوں کا کام ہی ان کا سب سے بڑا دشمن بن جاتا ہے۔ یاد رکھے کامیابی اچھے فیصلوں کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اور اچھے فیصلے ایمان کی بنیاد پر کئے جاتے ہیں۔ کیونکہ جذبات میں کیے گئے فیصلے انسان کو تباہ کر دیتے ہیں۔ اس لیے انسان کو جذبات میں آکر فیصلے نہیں کرنے چاہئیں۔ عقل اور شعور سے فیصلہ کرنا بھی ٹھیک ہوتا ہے مگر وہ بھی انسان سے کوئی اتنے اچھے فیصلے نہیں کرواتے۔

ہمیں فیصلہ کرتے وقت اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ ہم سے اوپر اللہ کی ذات ہے جو بہترین فیصلے کرنے والی ہے۔ انسان کو اپنے فیصلوں کو اللہ کے حضور پیش کرتے رہنا چاہیے اس سے انسان بہکتا نہیں ہے۔۔۔۔۔۔

Tariq Javed
About the Author: Tariq Javed Read More Articles by Tariq Javed: 28 Articles with 25604 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.