ضلع کرک میں بجلی کا مسئلہ اور اس کا حل

 یوں تو بجلی کی لو ڈ شیڈنگ کا مسئلہ پورے ملک میں موجود ہے ، ناروا لوڈشیڈنگ کے خلاف عوام کا احتجاج بھی وقتا فوقتا دیکھنے اور سننے کو ملتا رہتا ہے مگر صوبہ خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع کرک میں بجلی کا مسئلہ انوکھا بھی ہے ،پرانا بھی اور ملک کے دیگر اضلاع سے مختلف بھی۔انوکھا ،اس لئے کہ وطنِ عزیز میں شاید ہی کو ئی ایسا ضلع ہو، جہاں پورا پورا سال بیس سے بائیس گھنٹے بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہو،  اور یہ سلسلہ پچھلے کئی سالوں سے جاری و ساری ہو ، مگر حکومت یا واپڈا یا اس ضلع کے منتخب نمائیندے اس اذّیت نا ک مسئلہ کو سنجید گی سے حل کرنے کی کوشش بھی نہ کر رہے ہوں۔افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ مسئلہ ایک ایسے ضلع کا ہے ،جس کی مٹّی سے تیل اور گیس کی صورت میں حکومتِ وقت کو روزانہ تقریبا ایک ارب روپیہ آمدنی حاصل ہو رہی ہے۔

واپڈا حکام سے جب بھی اس مسئلہ کے متعلق بات کی جاتی ہے تو ان کا یہ مؤ قف ہوتاہے کہ ضلع کرک کے عوام بِل نہیں دیتے، با ایں وجہ ان کو بجلی بھی نہیں دی جا رہی ہے ، مگر اصل حقیقت کیا ہے؟ عوام بِل کیوں نہیں دیتے ؟وہ اصل اور بنیادی سبب کو چھپا رہے ہیں کیونکہ بنیادی وجہ اور حقیقت میں ان کی یعنی واپڈا والوں کی نااہلی، زیادتی اور کرپشن کی کہانی سامنے آتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ جب اس پسماندہ ترین ضلع میں بجلی آئی تو لوگوں نے بجلی کے میٹر بھی لگوائے اور باقاعدگی سے بِلوں کی ادائیگی بھی شروع کر دی مگر ہوا یوں کہ جو گھر  پانچ سو کی بجلی خرچ کرتا تھا ،اس کا بِل تین چار ہزار روپیہ آنے لگا، میٹر ریڈر ز اس ضلع کے دور دراز دیہاتوں میں پیدل جانے سے کترانے لگے ( واضح رہے کہ اس ضلع کے بیشتر دیہاتوں کو سڑک یا ٹرانسپورٹ کی سہولت میسر نہیں ) بجلی کے بِل کی تصحیح کے لئے لوگ مارے مارے پھرنے لگے مگر ان کی شنوائی نہیں ہو تی  تھی، اووربِلنگ واپڈا اہلکاروں کے لئے باعثِ آمدن جبکہ عوام کے لئے باعثِ اذیت بن گئی،آخر تنگ آمد بجنگ آمد ‘ کے مصداق لوگوں نے بِل جمع نہ کرانے میں ہی عا فّیت سمجھی،آخر کار نوبت یہاں تک پہنچی ، جو آج ہے ، یعنی ’’الٹا چور کوتول کو ڈانٹے ‘‘ والی بات ہے کہ قصور واپڈا والوں کا مگر ڈانٹ عوام کو پڑ رہی ہے کہ تم لوگ بِل نہیں دیتے اس لئے تمہیں بجلی نہیں دی جا رہی ہے۔ جبکہ اہلِ کرک نے بیسیوں مرتبہ جلوس، احتجاج اور گزارشات پیش کی ہیں کہ میٹرز لگاؤ، اور میٹرز پر درج شدہ خرچ کی ہو ئی بجلی کے مطابق بِل وصول کیا کرو۔ مگر ایسا کرنے کو واپڈا تیار ہے نہ حکومت۔۔واپڈا کے حساب کے مطابق ضلع کرک بجلی کی مّد میں اربوں روپے کی مقروض بھی ہے ۔یوں یہ مسئلہ مزید گھمبیر اور پیچیدہ ہو گیا ہے۔مگر میں سمجھتا ہوں کہ دنیا میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں ،جس کا کو ئی حل نہ ہو، مگر مسئلے تب حل ہو تے ہیں جب مسئلہ حل کرنے کی Willہو۔۔۔ ا س کا آسان حل یہ ہے کہ واپڈا کے بقایا جات کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے، ایک حصہ وفاق ،دوسرا صوبہ خیبر پختونخوا اور تیسرا حصہ آدھا اس ضلع کے رائیلٹی سے اور آدھا حصہ عوام سے وصول کیا جائے۔بجلی کے میٹرز کی تنصیب ایک فیڈر پر مشتمل علاقہ سے شروع کئے جائیں ،شہروں کی طرح میٹرز ریڈرز میٹرز کے فوٹو لے کر بِل بھیجا کریں ،کوئی بجلی چوری کرے تو ان کو قانون کے گرفت میں لایا جائے۔اس طرح پورا ضلع بِل بھی دے گا اور عوام کو شکایت ہوگی نہ واپڈا والوں کو شکایت ہو گی۔کرک کے عوام جس اذیت سے دوچار ہیں ،بجلی نہ ہو نے کی وجہ سے وہ جس عذاب سے گزر رہے ہیں ،وہ ناقابلِ بیاں ہے ، باایں وجہ وہ بِلوں کی ادائیگی سے کبھی روگردانی نہیں کر سکتے مگر اس مسئلہ کو حل کر نے کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی کی ضرورت ہے، چونکہ بجلی وفاق کے زیرِ انتظام ہے اس لئے اس کی حل کی زیادہ تر ذمّہ داری ضلع کرک سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے قومی اسمبلی کے ممبر جناب شاہد خٹک کے کندھوں پر ہے۔خو ش قسمتی سے اسوقت مرکز میں حکومت بھی پاکستان تحریکِ انصاف کی ہے اور اس سنگین اور تکلیف دہ مسئلہ کو حل کرنے کا
بہترین اور سنہری مو قعہ ہے ۔اس لئے رکنِ قومی اسمبلی، واپڈا اور حکومتِ وقت سے سطورِ ہذا کے ذریعے گزار ش کی جاتی ہے کہ خدا را ! اس مسئلہ کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کو شش کیجئے ،یہ لا ینحل مسئلہ ہر گز نہیں ،صرف آپ کی توجہّ کی محتاج ہے ،کرک کے عوام بجلی چور نہیں ہیں بلکہ واپڈا کی ناہلی کی وجہ سے انہیں بجلی چور کہا جانے لگا ہے ۔آپ ان سے ملک کی دیگر شہروں اور اضلاع جیسا سلوک کریں ، ان کا رسپانس آپ کو سب سے بہتر مِلے گا۔یہ تو قربانی دینے والوں اور شہیدوں کا ضلع ہے ۔اس ضلع کے ہر قبرستان میں پاکستان کا لہراتا ہوا جھنڈا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں کے عوام اپنے وطن سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے ، وفادار اور جان نثار کرنے والے ہیں ۔ ایسے لوگوں کو بجلی جیسی بنیادی ضرورت سے محروم رکھنا ظلمِ عظیم ہے ۔لہذا اس مسئلہ کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کے لئے فوری قدم اٹھانے کی اشّد ضرورت ہے۔۔۔۔۔۔

roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 284292 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More