خلیفۂ سوم،کاتب وحی حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالی عنہ

18 ذی الحج کے حوالے سے خصوصی مضمون…………برائے خصوصی ایڈیشن

خلیفۂ سوم حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے داماد، کاتب وحی اور عشرۂ مبشرہ میں سے ہیں۔ آپ کا نام عثمان ، والد کا نام عفان اور والدہ کا نام اردی ہے ۔ آپ کی کنیت ابو عبد اﷲ اور لقب ذوالنورین اور غنی ہے ۔آپ نے اسلام کی راہ میں دو ہجرتیں کیں۔ ایک حبشہ اور دوسری مدینہ منورہ کی طرف۔

ابتدائی زندگی:
خلیفہ سوم حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ قریش کی ایک شاخ بنو امیہ میں پیدا ہوئے ۔ والد عفان کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ سلسلہ نسب عبد مناف پر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے ملتا ہے ۔ حضرت عثمان ذوالنورین کی نانی نبی پاک صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی پھوپھی تھیں۔آپ سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے لوگوں میں چوتھے نمبرپر ہیں۔ آپ ایک خدا ترس اور غنی انسان تھے ۔ آپ اﷲ کی راہ میں دولت دل کھول کر خرچ کرتے ۔ اسی بنا پر حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کو غنی کا خطاب دیا۔

نسب:
عثمان غنی کا نسب حسب ذیل ہے : عثمان بن عفان بن ابو العاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن فہر بن مالک بن مالک بن النضر بن کنانہ (اسی کا لقب قریش تھا) بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن معد بن عدنان، عثمان غنی کا نسب عبد مناف بن قصی کے بعد محمد صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کے نسب سے مل جاتا ہے ۔

والدہ:
راوی بنت کریز بن ربیعہ بن حبیہب بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن فہر بن مالک بن مالک بن النضر بن کنانہ بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن معد بن عدنان، ان کی والدہ محمد صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی پھوپھی زاد بہن تھیں اور ان کی نانی کا نام بیضا بنت عبدالمطلب تھا۔

نشو و نما:
عثمان بن عفان کی پیدائش سنہ 576ء میں عام الفیل کے چھ سال بعدطائف میں ہوئی،تاہم ایک قول مکہ میں پیدائش کا بھی ہے ۔ یہ قریش کی ایک شاخ بنو امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف میں پیدا ہوئے ، یہ قبیلہ سرداران قریش میں سے تھا۔ ان کے والد عفان ابو سفیان بن حرب کے چچا زاد بھائی تھے ۔ عثمان غنی کی ایک بہن بھی تھی جس کا نام آمنہ بنت عفان تھا۔ عفان کے انتقال کے بعد ان کی والدہ نے عقبہ بن ابی معیط سے نکاح کر لیا، جس سے تین بیٹے اور بیٹیاں ہوئیں، ولید بن عقبہ، خالد بن عقبہ، عمارۃ بن عقبہ اور ام کلثوم بنت عقبہ، یہ سب عثمان غنی کے ماں شریک بھائی بہن تھے ۔ عثمان غنی کی والد اروی بنت کریز نے اسلام قبول کیا تھا اور انہی کے دور خلافت میں وفات پائیں، جبکہ ان کے والد عفان کا انتقال زمانہ جاہلیت ہی میں ہو گیا تھا۔

عثمان غنی زمانہ جاہلیت ہی سے انتہائی شریف الطبع، ذہین اور صائب الرائے تھے ۔ اسلام قبول کرنے سے قبل کبھی کسی بت کو سجدہ کیا اور نہ شراب پی۔ نیز علوم عرب مثلاً انساب، امثال اور جنگوں کے بڑے عالم تھے ، شام اور حبشہ کا سفر کیا تو وہاں غیر عرب قوموں کے ساتھ رہنے کا موقع ملا، جس کی وجہ سے ان اقوام کے حالات، طور طریقے اور رسم و رواج سے انھیں واقفیت حاصل ہوئی، یہ خصوصیت ان کی قوم میں کسی اور شخص کو حاصل نہیں تھی۔ عثمان غنی کا پیشہ تجارت تھا جو ان کے والد سے انھیں وراثت میں ملی تھی، اس پیشہ سے انھوں نے خوب دولت حاصل کی اور بنو امیہ کی اہم شخصیات میں شمار ہونے لگے ۔ عثمان غنی انتہائی سخی اور کریم النفس تھے ، زمانہ جاہلیت میں ان کی کنیت ابو عمرو تھی، لیکن جب رقیہ بنت محمد سے ان کے گھر میں عبد اﷲ کی ولادت ہوئی تو مسلمان ان کو ابو عبد اﷲ کی کنیت سے پکارنے لگے ۔

اوصاف:
عثمان غنی کا رنگ سفید لیکن کچھ زردی مائل تھا، خوبصورت اور خوش قامت تھے ۔ دونوں ہاتھوں کی کلائیاں خوش منظر تھیں، بال سیدھے یعنی گھنگریالے نہیں تھے۔ ناک ابھری ہوئی اور جسم کا نچلا حصہ بھاری تھا۔ پنڈلیوں اور دونوں بازوؤں پر کثرت سے بال تھے ۔ سینہ چوڑا چکلا اور کاندھوں کی ہڈیاں بڑی بڑی تھی تھیں۔ چہرہ پر چیچک کے متعدد نشانات، دانت ہموار اور خوبصورت تھے ۔ داڑھی بڑی گنجان اور زلفیں دراز، آخر عمر میں زرد خضاب کرنے لگے تھے ۔ جسم کی کھال ملائم اور باریک تھی۔

لباس:
تجارت میں کامیابی کی باعث خاصی وسعت تھی، چناں چہ عمدہ لباس پہنتے اور سو سو دینار کی یمنی چادریں اوڑھتے تھے ، لیکن لباس پہننے میں سنت نبوی کا خیال رہتا۔ سلمہ بن اکوع فرماتے ہیں کہ عثمان بن عفان آدھی پنڈلی تک لنگی باندھا کرتے اور فرماتے کہ میرے محبوب کی لنگی ایسی ہوا کرتی تھی۔ بائیں ہاتھ میں انگوٹھی بھی پہنتے تھے ۔

غذا:
اسی فراخی کے باعث غذا بھی عمدہ اور پرتکلف ہوا کرتی تھی۔ عثمان غنی پہلے مسلم خلیفہ تھے جو چھنا ہوا آٹا استعمال کرتے تھے ۔

گفتگو:
فطرتاً کم سخن تھے لیکن جب کسی موضوع پر اظہار خیال کرتے تو گفتگو سیر حاصل اور بلیغ ہوتی۔

اسلام:
عثمان بن عفان نے چالیس سال کی عمر میں ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی دعوت پر اسلام قبول کیا۔ آپ پہلے اسلام قبول کرنے والے لوگوں میں شامل ہیں۔ آپ ایک خدا ترس اور غنی انسان تھے ۔ آپ فیاض دلی سے دولت اﷲ کی راہ میں خرچ کرتے ۔ اسی بنا پر حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کو غنی کا خطاب دیا۔

ذو النورین:
ذو النورین کا مطلب ہے دو نور والا۔ آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو اس لیے ذو النورین کہاجاتا ہے کیونکہ رسول اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم کی دو صاحبزادیاں یکے بعد دیگرے آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے نکاح میں آئیں۔ منقول ہے کہ آج تک کسی انسان کو یہ سعادت نصیب نہیں ہوئی کہ اس کے عقد میں کسی نبی کی دو بیٹیاں آئی ہوں۔آپ کا شمار عشرہ مبشرہ میں کیا جاتا ہے یعنی وہ دس صحابہ کرام جن کو رسول اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ ہی میں جنت کی بشارت دی تھی۔آپ کی شادی پہلے حضور صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی بیٹی رقیہ سے ہوئی اور رقیہ کی وفات کے بعد پھر آپ کا نکاح حضور کی دوسری بیٹی ام کلثوم سے ہوا۔ اسی نسبت سے آپ کو ذو النورین کہتے ہیں۔

ہجرت:
آپ نے اسلام کی راہ میں دو ہجرتیں کیں، ایک حبشہ کی جانب اور دوسری مدینہ منورہ کی طرف۔

خلافت:
حضورصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ عثمان سے فرمایا:’’ائے عثمان اﷲ تجھے خلافت کی قمیص پہنائے گا لوگ اتارنا چاہیں گے تو مت اتارنا یہاں تک کہ مجھ سے آملو۔‘‘عمر فاروق نے اپنی وفات سے پہلے ایک کمیٹی تشکیل دی جس میں چھ صحابی شامل تھے ۔ عثمان ، علی، طلحہ، زبیر، سعد بن ابی وقاص اور عبد الرحمان بن عوف رضوان اﷲ علیہم اجمعین اس کمیٹی میں شامل تھے ۔ اس کمیٹی نے عثمان کو خلیفہ نامزد کیا۔ آپ نے بارہ سال خلافت کی زمہ داریاں سر انجام دیں۔ آپ کے دور خلافت میں ایران اور شمالی افریقا کا کافی علاقہ اسلامی سلطنت میں شامل ہوا۔

جامع قرآن:
ابن ابی داود نے بسند صحیح سوید بن غفلہ سے روایت کی انہوں نے فرمایا علی کا فرمان ہے کہ عثمان کے بارے میں خیر ہی کہو ؛ کیونکہ انہوں نے مصاحف کے بارے میں جو کچھ بھی کیا صرف اپنی رائے سے نہیں بلکہ ہماری ایک جماعت کے مشورہ سے کیا گیا ان ہی سے روایت ہے میں خلیفہ ہوتا تو مصحف کے بارے میں وہی کرتا جو عثمان نے کیا اختلاف لغات قبائل عرب میں عربی زبان میں کافی اختلافات تھے مثلا جس کلمہ ء مضارع کا عین ماضی مکسور ہو اس کی علامات مضارع ا۔ ت۔ ن کو غیر اہل حجاز کسرہ دیتے تھے اسی طرح علامات مضارع کو ی کو جب کہ اس کے بعد کوئی دوسری یا ہو اس لیے وہ تعلم م پیش کے ساتھ کو تعلم ت زیر اور م زبر کے ساتھ بولتے اسی طرح نبی ھذیل حتی کو عتی اہل مدینہ کے یہاں تابوت کا تلفظ تابوہ تھا بنی قیس کاف تانیث کے بعد ش بولتے ضربک کی بجائے ضربکش کہتے اس طریقہ تلفظ کو کشکشہ قیس سے تعبیر کیا جاتا بنی تمیم ان ناصبہ کو عن کہتے ، اسی طرح ان کے نزدیک لیس کے مشابہ ماولا مطلقا وامل نہیں، ماہذا بشرا ان کے لغت پر ماہذا بشر ہو گا اسی طرح کے اور بہت سے اختلاف تھے ۔

فضائل:
کائنات میں کوئی شخص ایسا نہیں جس کے نکاح میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی دو بیٹیاں آئی ہوں۔ یہ اعزاز صرف حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو حاصل ہوا ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی دو صاحبزادیاں یکے بعد دیگرے آپ کے نکاح میں آئیں۔ جب آپ اسلام لائے تو حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا نکاح آپ سے کر دیا۔ حضرت رقیہ کے وصال کے بعد حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی دوسری صاحبزادی حضرت ام کلثوم رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو آپ کے نکاح میں دے دیا۔ اور جب حضرت ام کلثوم رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا بھی وصال ہو گیا تو حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میری تیسری صاحبزادی ہوتی تو اس کو بھی عثمان غنی کے عقد میں دے دیتا۔ اسی اعزاز کی بنا پر آپ کو ذو النورین کہا جاتا ہے ۔

آپ نے خلیفہ اول سیدنا حضرت ابوبکر صدیق کی دعوت پر اسلام قبول کیا تھا۔ اسلام قبول کرنے کے جرم میں حضرت عثمان غنی کو ان کے چچا حکم بن ابی العاص نے لوہے کی زنجیروں سے باندھ کر دھوپ میں ڈال دیا، کئی روز تک علیحدہ مکان میں بند رکھا گیا، چچا نے آپ سے کہا کہ جب تک تم نئے مذہب (اسلام ) کو نہیں چھوڑو گے آزاد نہیں کروں گا۔ یہ سن کر آپ نے جواب میں فرمایا کہ چچا ! اﷲ کی قسم میں مذہب اسلام کو کبھی نہیں چھوڑ سکتا اور اس ایمان کی دولت سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گا۔

فضائل عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور احادیث کریمہ:
حضرت حفصہ رضی اﷲتعالیٰ عنھا بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف لائے پس آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا (اوپر لپیٹنے کا) کپڑا اپنی مبارک رانوں پر رکھ لیا، اتنے میں حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ آئے اور اندر آنے کے لئے اجازت طلب کی پس آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اندر آنے کی اجازت عنایت فرمائی اور آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اپنی اسی حالت میں رہے پھر حضرت عمر رضی اﷲ عنہ آئے اور اجازت طلب کی پس آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی اجازت عنایت فرمائی اور آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اسی حالت میں رہے ۔ پھر آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے کچھ صحابہ آئے پس آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی اجازت عنایت فرمائی پھر حضرت علی رضی اﷲ عنہ آئے اور اجازت طلب کی آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی اجازت عنایت فرمائی اور آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اپنی اسی حالت میں تشریف فرما رہے ۔ پھر حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ آئے تو آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے اپنے جسم اقدس کو کپڑے سے ڈھانپ لیا پھر انہیں اجازت عنایت فرمائی۔ پھر وہ صحابہ حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کچھ دیر باتیں کرتے رہے پھر باہر چلے گئے ۔ میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم آپ صلی اﷲ علیک وسلم کی خدمت اقدس میں ابو بکر، عمر، علی اور دوسرے صحابہ کرام حاضر ہوئے لیکن آپ صلی اﷲ علیک وسلم اپنی پہلی ہیئت میں تشریف فرما رہے جب حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اﷲ علیک وسلم نے اپنے جسم اقدس کو اپنے کپڑے سے ڈھانپ لیا؟ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا میں اس شخص سے حیاء نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں( احمد بن حنبل)

حضرت عبداﷲا بن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں سے سب سے زیادہ حیا دار عثمان بن عفان ہے ۔(ابونعیم فی الحلیۃ، و ابن ابی عاصم فی السنۃ)حضرت بدر بن خالد رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ یوم الدار کو حضرت زید بن ثابت رضی اﷲ عنہ ہمارے پاس کھڑے ہوئے اور کہا کیا تم اس شخص سے حیاء نہیں کرتے جس سے ملائکہ بھی حیاء کرتے ہیں ہم نے کہا وہ کون ہے ؟ راوی نے کہا میں نے حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ فرشتوں میں سے ایک فرشتہ میرے پاس تھا جب عثمان میرے پاس سے گزرے تو اس نے کہا یہ شخص شہید ہیں ان کی قوم ان کو قتل کرے گی اور ہم ملائکہ ان سے حیاء کرتے ہیں ۔( الطبرانی فی المعجم الکبیر)

حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہ روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میری امت میں سب سے زیادہ رحم دل ابوبکر ہیں اور اﷲ کے دین کے معاملے میں سب سے زیادہ سخت عمر ہیں اور سب سے حیادار عثمان بن عفان ہیں اور سب سے بہتر فیصلہ کرنے والے علی ہیں۔ (ابن عساکر فی تاریخ دمشق الکبیر)

شہادت:
اسلام کے دشمنوں خاص کر مسلمان نما منافقوں کو خلافت راشدہ اک نظر نہ بھاتی تھی،وہ منافق رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے بھی دنیاوی بادشاہوں کی طرح یہ توقع رکھتے تھے کہ وہ بھی اپنا کوئی ولی عہد مقرر کریں گے ۔ ان منافقوں کی ناپاک خواہش پر اس وقت کاری ضرب لگی جب امت نے حضرت ابوبکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو اسلام کا پہلا متفقہ خلیفہ بنا لیا۔حضرت ابو بکر کی خلافت راشدہ کے بعد ان منافقوں کے سینے پر اس وقت سانپ لوٹ گیا جب امت نے کامل اتفاق سے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کو خلیفہ اسلام چن لیا۔ حضرت عمررضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے بعد حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا خلافت کے منصب پر فائز ہونا بھی ان مسلمان نما منافقوں کے لیے صدمہ جانکناہ سے کم نہ تھا۔ انہوں نے آپ کو شہید کرنے کی ناپاک سازش کی اور ایک ایسے وقت میں کاشانہ خلافت کا محاصرہ کیا جب اکثر صحابہ کرام حج کے لئے مکہ مکرمہ گئے ہوئے تھے ۔آپ نے اپنی جان کی خاطر کسی مسلمان کو مزاحمت کرنے کی اجازت نہ دی اور چالیس روز تک محبوس رہے ۔ 18 ذوالحجہ کو باغی آپ کے گھر میں داخل ہو گئے اور آپ کو اس وقت شہید کردیا جب آپ قرآن پاک کی تلاوت فرما رہے تھے ۔ اس دلخراش سانحہ میں آپ کی زوجہ محترمہ حضرت نائلہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی انگشت مبارک بھی شہید ہو گئیں۔ آپ کی شہادت کے بعد حضرت علی نے خلافت راشدہ کے چوتھے خلیفہ کی حییثیت سے خلافت سنبھالی۔

جب حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کی شہادت ہوئی تو تین دن تک شرپسندوں نے دفن کرنے میں رکاوٹ ڈالی۔ آخر تین دن کے بعد مدینہ کے کچھ با اثر لوگوں نے جن میں حضرت حکیم بن حزام اور حضرت جبیر بن مطعم بھی تھے ، حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ سے حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دفنانے کے بارے میں بات چیت کی اور یہ بھی درخواست کی کہ آپ اپنے خاندان کے لوگوں کو بھی اس میں مدد کے لئے کہیں۔ جب شرپسندوں کو حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دفنائے جانے کا علم ہوا تو وہ راستہ میں پتھر لے کر بیٹھ گئے اور جنازہ گزرنے پر اس پر پتھراؤ کیا۔ابن عساکرزید بن ثابت سے روایت کرتے ہیں کہ محمد رسول عربی نے فرمایا ایک دن عثمان میرے پاس سے گزرے اور اس وقت ایک فرشتہ میرے قریب تھا جس نے کہا یہ شخص (عثمان) شہید ہو گا۔

Rizwan Ullah Peshawari
About the Author: Rizwan Ullah Peshawari Read More Articles by Rizwan Ullah Peshawari: 162 Articles with 189814 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.