’’بے شک اللہ تعالیٰ ان مسلمانوں سے خوش ہوا جب کہ وہ ایک
درخت کے نیچے آپ ﷺ سے بیعت کرنے والوں کے دلوں میں تھا۔ خدا کو وہ بھی
معلوم تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان مسلمانوں میں اطمینان پیدا کر دیا اور ان
کو اس بدلے میں ایک ایسی فتح عنایت فرمائی۔ جو بہت قریب تھی ۔ اور بکثرت
غنیمتیں بھی دیں جن کو یہ لوگ حاصل کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ بڑا زبردست
بڑی حکمت والا ہے‘‘۔ (سورہ فتح آیت نمبر ۱۹)(شان صحابہ )
اسلامی سال میں ذوالحجہ کے مہینے کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ اس مقدس مہینہ
میں ایثا ر قربانی کے بے شمار واقعات رونما ہوئے ۔ اسلام کی بنیاد قربانی
پر ہے۔ اسی مہینہ میں داماد رسول ﷺ جامع قرآن سیدنا عثمان غنیؓ کا یوم
شہادت ہے۔ اسی خصوصی مہینہ کی ۱۸تاریخ کو حضرت عثمان غنیؓ نے جام شہادت نوش
فرمایا۔ اس نسبت سے آج حضرت عثمانؓ کے فضائل اور آپؓ کی شہادت کے واقعات
بیان ہوں گے۔ ہمارا ایمان ہے کہ حضور اکرم ﷺ کے تمام صحابہؓ عظمت و رفعت کے
روشن مہ پارے ہیں۔ آقا و مولاٰ ﷺ نے فرمایا! ’’صحابی کا النجوم‘‘ میرے
صحابہؓ ستاروں کی مانند ہیں یعنی میرے صحابہؓ رشدو ہدایت کے ستارے ہیں۔
صحابہ کرامؓ رحمت دو عالم ﷺ کی صفات و کمالات کا عکس تھے۔
صدیقؓ عکس حسن کمال محمدﷺ است
فاروقؓ ظل جاہ و جلال محمدﷺ است
عثمانؓ ضیاء شمع جمال محمد ﷺ است
حیدرؓ بہارِ باغِ خصال محمد ﷺ است
حضورﷺ کے کسی صحابیؓ کا جب ذکر ہو گاتو ان کی شخصیت کا ایک غالب اور مخصوص
پہلو ابھر کر سامنے آئے گا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کا ذکر ہوگاتو آپ کی شرافت
اور صداقت کا پہلو ابھر کر سامنے آئے گا۔ حضرت عمرؓ خطاب کا ذکر ہوگا تو
آپؓ کے جاہ و جلال ،عدالت اور ذات وجاہت کا پہلو ابھرے گا ۔ حضرت علیؓ کا
تذکرہ ہوگا تو ان کی دلیری، جرأت اور شجاعت کا پہلو ابھرے گا ۔ اسی طرح جب
حضرت عثمانؓ کا ذکر ہو گا تو آپؓ کی ضرب المثل شرم و حیا اور سخاوت کا ذکر
آئے گا۔حضرت عثمانؓ کے بارے میں کیا خوب کہا جاتا ہے ’’وعلی کامل الحیاء
والا یمان جامع آیت القرآن امیر المومنین عثمان ابن عفان رضی اللہ تعالیٰ
عنہ ‘‘۔ صحابہ کرامؓ کی ایک محفل میں آنحضرت ﷺ اپنے پاؤں مبارک پھیلائے
ہوئے تھے ۔ آپ ﷺ کی پنڈیاں ڈھکی ہوئی نہ تھیں ۔ مجلس میں تمام جلیل القدر
صحابہؓ موجود تھے کہ اتنے میں حضرت عثمان غنیؓ تشریف لائے ۔آنحضرت ﷺ نے
اپنی ٹانگوں کو سمیٹ لیا بلکہ انہیں اپنی چادر مبارک سے ڈھانپ لیا ۔ صحابہؓ
نے وجہ پوچھی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں عثمانؓ سے کیوں حیا نہ کروں ، اس سے
تو عرش کے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں ۔ میرے بھائیوں سید نا عثمان غنیؓ کی
سیرت کے بیشمار پہلو ہیں ، دربار رسالت ﷺ سے کسی کو صدیق کا لقب ملا اور
کسی کو فاروق کا لقب ملا تو کسی کو حیدر کرار کا لقب ملا ، کسی کو سیف اللہ
کا لقب ملا مگر سیدنا عثمان غنیؓ کو وہ خوش نصیب ہیں جنہیں شہنشاہ کونین ﷺ
نے ذوالنورین کا لقب دیا۔ سیدنا عثمان غنیؓ بے پناہ خوبیاں اور کمالات
رکھنے والے جلیل القدر صحابی تھے، آپ ایسے خوش نصیب ہیں کہ زندگی میں ہی
زبان رسالت ﷺ سے شہادت اور جنت کی بشارت سنی۔ سخی ایسے کہ نبی کریم ﷺ کے
معمولی اشاروں پر مسلمانوں کے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیئے۔ زہد و تقویٰ
ایسا کہ قبرستان سے گزر ہوتا تو چہرہ اشکبار ہو جاتا، نیک ایسے کہ زندگی
بھر کبھی تہجد کی نماز قضا نہ کی ۔ خوش بخت ایسے تھے کہ نبی کریم ﷺ کی دو
بیٹیاں یکے بعد دیگرے آپؓ کے نکاح میں آئیں۔ ایثار پیشہ ایسے کہ تشنہ لب
جان دے دی لیکن مسلمان کی تلواروں کو آپس میں ٹکرانے نہ دیا ۔ میں نے قرآن
مجید کی جوآیت تلاوت کی ہے ان میں سرکار دو جہاں ﷺ کے چودہ سو جانثار
صحابہؓ کو خوشخبری سنائی گئی کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ان مسلمانوں سے بہت خوش
ہے ۔جنہوں نے آپ ﷺ کے دستِ مبارک پر بیعت کی اس کو بیعت رضوان کے نام سے
پکارا جاتا ہے۔یہ سعادت اور اعزاز صرف حضرت عثمان غنیؓ کو حاصل ہوا کہ بیعت
رضوان آپ کے لیے کی گئی۔حضرت عثمان غنیؓ کے اکرام و توقیر کے لیے آپ ﷺ اپنے
ہاتھ مبارک عثمانؓ کے ہاتھ قرار دے کر خود بیعت لیتے ہیں ۔ گویا معلوم ہوا
کہ نبی ﷺ کا ہاتھ حضرت عثمان غنیؓ کا ہاتھ اور عثمانؓ کا ہاتھ نبی ﷺ کا ہو
۔ اور حضرت عثمان غنیؓ نے اس اعزاز تحفظ اس طرح کیا کہ آپؓ خود فرماتے ہیں
کہ وہ ہاتھ جن کو نبی ﷺ نے اپنا ہاتھ قرار دیا تھا اس ہاتھ کی میں نے اس
قدر حفاظت کی کہ تمام زندگی اس ہاتھ پر کبھی نجاست نہ لگنے دی اور نہ ہی
اسے محل نجاست سے مس ہونے دیا ۔ (ذوالنورین کا خطاب) قبول اسلام کے بعد
حضرت عثمانؓ کو جو شرف حاصل ہوا ، وہ آپؓ کی کتاب منقبت کا سب سے درخشندہ
باب ہے۔ آپؓ داما دِ رسول ہیں اور ایسے خوش نصیب انسان ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی
دوبیٹیاں یکے بعد دیگرے آپؓ کے نکاح میں آئیں۔ اس اعزا ز کی بدولت حضرت
عثمانؓ کو ذوالنورین کا خطاب ملا۔ یعنی دونوروں والا۔ پہلا نکاح آنحضرت ﷺ
کی بیٹی حضرت رُقیہؓ سے ہوا۔ جس دن بدر کی فتح کی خوشخبری مدینہ پہنچی اس
وقت اہل مدینہ حضرت رُقیہؓ کو دفن کر رہے تھے اور حضرت عثمان غنیؓ محبوب
خدا کی بیٹی کی قبر پر مٹی ڈال رہے تھے۔ حضرت رقیہؓ کی وفات کے بعد حضرت
عثمانؓ غمگین اور اداس رہنے لگے۔ صحابہؓ نے استفسار کیا تو آپؓ نے
فرمایاآنحضرت ﷺ سے میرا رشتہ رقیہؓ کی وجہ سے تھا جو ٹوٹ گیا۔ سرکار دو
جہاں ﷺ نے اپنی دوسری بیٹی حضرت اُم کلثوم کا نکاح حضرت عثمانؓ سے کر دیا ۔
جب ان کا انتقال ہوا تو سرور کائنات ﷺ نے فرمایا عثمانؓ اگر میری چالیس
بیٹیان بھی ہوتیں تو میں یکے بعد دیگرے تیرے نکاح میں دے دیتا (البدایہ
والنہایہ)۔ سرکار دو عالم ﷺ کو عثمان غنیؓ سے کس قدر محبت تھی۔ ایک مرتبہ
اُم کلثومؓ نے حضور اکرم ﷺ سے کہا کہ فاطمہؓ کے شوہر حضرت علیؓ میرے شوہر
حضرت عثمانؓ سے بہتر ہیں ۔ یہ سن کر حضور اکرم پہلے تو خاموش رہے۔ پھر اشاد
فرمایا بیٹی تو بہت خوش نصیب سے تیر اشوہر عثمانؓ تو وہ ہے جو خدا اور رسول
ﷺ سے محبت کرتا ہے یہ کوئی خاص بات نہیں کیونکہ خدا اور اس کے رسول ﷺ سے
محبت کا دعویٰ تو ہر کوئی کرتا ہے۔ اعزاز والی بات رسول ﷺ کا یہ فرمان ہے
کہ بیٹی تو اس شوہر کی بیوی ہے جس سے خدا اور اس کا رسول بھی محبت کرتے
ہیں۔ نبی پاک ﷺ نے مزید فرمایا ! بیٹی کیا یہ تیرے مقدر کی معراج نہیں کہ
جنت میں تیرے عثمانؓ کا مکان سب سے اونچا ہوگا(رداہ بن عساکر)۔ایک مرتبہ
جناب رسالت مآب ﷺ حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عثمانؓ کے ہمراہ احد کے پہاڑ
پر کھڑے تھے کہ پہاڑ ہلنے لگا آپ ﷺ نے اپنی ایڑی مبارک ماری اور پہاڑ سے
کہا ٹھہر جاتجھے معلوم نہیں کہ تجھ پر ایک نبی ایک صدیقؓ اور ایک شہید کھڑا
ہے۔ حضرات! حضرت عثمانؓ کی شہادت کا واقعہ اور اس کا پس منظر تفصیل طلب ہے۔
وقت کی کمی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے آپؓ کی المناک شہادت مختصراً بیان
کروں گا۔ باغیوں نے حضرت عثمانؓ کے مکان کا محاصرہ کر لیا۔ مسجد نبوی ﷺ میں
آپؓ کے خطبہ جمعہ اور نماز پر پابندی لگا دی گئی ۔ باغیوں نے مسجد نبوی ﷺ
کی توہین کی۔ حضرت عثمانؓ کا وہ عصاتوڑ دیا گیا جو آنحضرت ﷺ ، حضرت ابوبکر
صدیقؓ ، حضرت عمر فاروقؓ کی عظیم یاد گار تھا۔ باغیوں نے طوفان بدتمیزی بپا
کیاآپؓ کا کھانا پینا بند کر دیا گیا ۔ صحابہ کرامؓ نے یہ سنگین صورت حال
دیکھی تو حضرت عثمانؓ سے باغیوں کی سرکوبی کرنے کی اجازت طلب کی ۔ آپؓ اس
قدر حلیم الطبع اور خدا ترس تھے کہ انتقامی اقدام کی اجازت نہ دی فرمایا
میں مسلمانوں کی خون ریزی پسند نہیں کرتا۔ بعض صحابہؓ نے امیر المومنین کے
سامنے تجویز رکھی کہ آپؓ اقتدار سے الگ ہو کر مد ینے سے تشریف لے جائیں۔
لیکن حضرت عثمانؓ نے اس تجویز کو رد کرتے ہوے فرمایا کہ مدینہ گوارا نہیں
کہ میں قبر رسول ﷺ سے دور ہو جاؤں۔ حضرت عثمانؓ کا گھر کا محاصرہ اس قدر
شدید کر دیا گیا کہ چالیس دن تک پانی ان کے گھر نہ آیا ۔ آخر آپؓ نے حضرت
علیؓ اور حضرت عائشہؓ کو پ پیغام بھیجا۔ حضرت علیؓ پانی کا مشکیزہ لے کر
روانہ ہوئے لیکن باغیوں نے آپؓ کو اس مقصد میں نہ ہونے دیا۔ حضرت علی
مرتضیؓ نے یہ خیال کرتے ہوئے کہ داماد رسول ﷺ کا پیاس سے بُرا حال ہوگا۔
اپنا عمامہ مبارک پانی میں بھگو کر بالکونی پر پھینکا ۔ تاکہ حضرت عثمانؓ
اس کو نچوڑ کر اپنی پیاس بجھالیں ۔ امیر المومنین نے جب باغیوں کی سنگ دلی
، بے رحمی اور سفاکی بھیانک مظاہر دیکھا تو ایک دن اپنے مکان کی بالکونی پر
تشریف لائے اور باغیوں کو مخاطب ہو کر فرمایا!میر ا پانی بند کرنے والو!
اور مجھے محصور کرنے والو ! یاد کرو میں وہی عثمان غنیؓ ہوں جس کے بارے میں
رسول خدا ﷺ نے کہا تھا کہ عثمانؓ تم دنیا میں بھی میرے ولی ہو اور آخرت میں
بھی ۔ جب رسول خدا ﷺ کو مسجدِ نبوی کی توسیع مقصود تھی تو آپ ﷺ نے فرمایا
تھا کہ کون ہے جو مسجد کے لیے جگہ دے اور اوراس کے بدلے جنت میں اپنا مقام
لے۔ باغیوں کے خطر ناک ارادوں کے پیش نظر حضرت علیؓ نے اپنے دونوں بیٹوں،
حسنؓ اور حسینؓ کو حضرت عثمانؓ کے گھر کے دروازے پر ان کی حفاظت کے لئے
متعین کیا۔ ذرا غور فرمائیے مصائب اور ظلم و ستم کا شکار ہونے والے مظلوم
عثمانؓ کا پہرے دار کون؟ علی مرتضیٰؓ کے نور نظر اور حضرت فاطمہؓ کے لخت
جگر ۔ خدا تعالیٰ کی ذات انہیں اشارہ دے رہی تھی کہ مکتب عثمانؓ سے درس
حاصل کر لو کہ مصائب آزمائش اور دشمن کے نرغے میں کس طرح صبر و استقامت اور
تحمل و بردباری کا مظاہر ہ کیا جاتا ہے۔ کس طرح آندھیوں کے سامنے صداقت کا
چراغ روشن کیا جاتا ہے۔ کسی طرح قیامت کی گھڑیوں میں خدا کو یاد کیا جاتا
ہے۔ کس طرح بھوکے پیاسے رہ کر مردانہ وار حالات کا مقابلہ کیا جاتا ہے۔ کس
طرح جبر و استبداد کے سامنے کلمہ حق کہا جاتا ہے۔ کس طرح خوف وہراس کی
راتوں میں عبادت کا لطف اٹھایا جاتا ہے کس طرح موت کے سامنے خدا کا قرآن
پڑھاجاتا ہے۔ کس طرح جذبوں کو پروان چڑھا جاتا ہے۔ کس طرح شہادت کا جام
پیاجاتا ہے اور کس طرح مرکر زندہ جاوید ہوا جاتا ہے۔ حضرت عثمانؓ سے کسی نے
پوچھا جب آپؓ کو بھوک پیاس ستاتی ہے تو آپ کیا کرتے ہیں؟ فرمایا میں قرآن
مجید کے تلاوت کرتا ہوں اس سے میری پیاس بجھ جاتی ہے، پیاس کیوں نہ بجھتی،
عثمانؓ حافظ قرآن ہی نہ تھے بلکہ کاتب وحی بھی تھے، عثمانؓ پیاسے رہ کر بھی
روزہ رکھتے تھے۔ ایک دوپہر خواب میں آنحضرت ﷺ ، حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت
عمرؓ کی زیارت ہوئی آپ ﷺ نے فرمایا عثمانؓ جلدی کروآج افطار ہمارے ساتھ
کرو۔ حضرت عثمانؓ خواب سے بیدا ر ہوئے تو اپنی زوجہ محترمہ حضرت نائلہؓ سے
کہا میرا وقت شہادت آن پہنچا ہے میرا زیر جامہ نکال دو یہ آپؓ نے کبھی پہلے
استعمال نہیں کیا تھا اس بات سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کس قدر شرم و حیا کے
مالک تھے۔ حضرت غنیؓ نے سفر شہادت کی تیاری مکمل کرلی اور تلاوت قرآن مجید
میں مشغول ہوگئے، باغی دیوار پھاند کر اندر آگئے ایک بدبخت نے لوہے کا سر
یا امیر المومنینؓ کے سر پر مارا لہو کا فوارہ پھوٹ پڑا۔ دوسرے باغی نے آگے
بڑھ کر تلوار سے وار کیا ۔ حضرت نائلہؓ بیچ میں آگئیں ۔ اپنے خاوند کو
بچاتے ہوئے آپ کے ہاتھ انگلیاں کٹ گئیں ۔ قاتل جذبہ انتقام اندھے ہو چکے
تھے۔ تلوار کا ایک کاری وار کیا گیا جامع قرآن حضرت عثمانؓ کا سرمبارک تک
قرآن مجید پر آپڑا ۔ اس طرح خونِ عثمانؓ سے قرآن مجید رنگین ہو گیا ۔
آنحضرت ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن شہید کی چیزیں اور شہادت کی جگہ اس کی
شہادت کی گواہی دیں گی ۔ کیا کہنے حضرت عثمان غنیؓ کی عظمت کے، قیامت کے دن
حضرت عثمان غنیؓ ذی شان کی شہادت کی گواہی خدا کا قرآن دے گا۔ حضرت عثمان
غنیؓ شہادت کے وقت ’’ترجمہ ! خدا تمہارے لئے کافی ہے اور سننے والا جاننے
والا ہے‘‘ حضرت عثمان غنیؓ کی بے گورو کفن نعش اور مظلومیت مسلمانوں کے لئے
سوہان روح بن گئی۔ آخرحضرت ام حبیہؓ (زوجہ محترمہ جناب رسالت مآ ب ﷺ )حضرت
معاویہؓ کی بہن نے سکوت توڑا اور باغیوں کو پیغام پہنچایا کہ اگر تم حضرت
عثمان غنیؓ کو دن نہیں کرتے دیتے تو پھر میں پردہ سے باہر نکل کر حضرت
عثمان غنیؓ کی تجہیز و تدفین کے فرائض سر انجام دونگی۔ حضرت اُم حبیبہؓ کا
یہ اعلان سن کر تمام باغی نرم پڑ گئے حضرت عثمان غنیؓ جو دین اسلام کی سر
بلندی کے لئے شہنشاہ دو جہاں ﷺ کے حکم پر اپنا مال خرچ کرنا عبادت سمجھتے
تھے انہوں نے مسلمانوں کی فلاح و بہود کے لئے کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کیا
۔آج اس فیاض و سخی دست و دل کے غنی کا جنازہ اٹھتا ہے تو صرف ستر آدمی ساتھ
ہیں ۔ جنازہ رات کو اٹھایا گیا ۔ باغیوں نے اس پر اکتفا نہیں کیا بلکہ
مکانوں کی چھتوں پر چڑھ کر شہید مدینہ کی میت پر پتھر برسائے۔ حضرت نائلہ
کٹی ہوئی انگلیوں سے چراغ اٹھائے ہوئے ہیں ، جنازہ حبیب کبریا ﷺ کے روضہ
اطہر کے قریب سے گزرتا ہے ۔ چشم تصور سے دیکھیں کہ ان دلوں پر کیا بیتی
ہوگی جو اس بے بسی کے عالم میں پاک نبی ﷺ کے پاک دامادؓ کا جنازہ اٹھائے
ہوئے ہوں گے۔ واہ عثمان غنیؓ ! تیری شان ! روز محشر آپؓ کی شہادت کی گواہی
قرآن ہی نہیں بلکہ مدینہ کی گلیاں ، خاک طیبہ کا ذرہ ذرہ اور مدینہ کے پتھر
روڑے بھی دیں گے۔ آخر جانثار رسالت مآب ﷺ کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا ۔
آج بھی سرکار دو عالم ﷺ فخر موجودات ﷺ اور پیکرشرم و حیا حضرت عثمان غنیؓ
ابن عفان جامع قرآن کے رخِ انو ر ایک دوسرے کے سامنے ہیں۔ جب قیامت کو
آقائے نامدار ﷺ اپنے گنبد خضرا سے اٹھیں گے تو نگاہیں آقاء مولا ﷺ کی ہونگی
چہر ہ عثمان غنیؓ کا ہوگا اور آخر میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اور
آپ کو نبی کریم ﷺ ، صحابہ کرامؓ ، خلفائے راشدینؓ اور اہل بیتؓ کی محبت
نصیب فرمائے آمین (صدائے محراب جلد اول صاحبزاہ طارق محمود ؒ )۔ |