نگاہ ِمفتی اعظم کی ہے یہ جلوہ گری
چمک رہاہے جواخترہزارآنکھوں میں
قادرمطلق بہت کم ایسی روحوں کواس دنیامیں بھیجتاہے جس کے بچھڑنے سے دنیامیں
موجودروٖحوں کی آدھی آبادی بے چین اورمضطرب ہواٹھتی ہے،رب کائنات جسے یہ
شرف ومنزلت بخشتاہے وہ اس کی بارگاہ کاچنندہ ہوتاہے اوراس کی بارگاہ سے
جداہوکربھی اس کی دہلیزکے جلوے اپنے دل ودماغ میں بسائے رہتاہے۔اسلام نے
اپنی ساڑھے چودہ سوسالہ تاریخ میں اپنی روحانی تعلیم سے ایسے سیکڑوں
افرادتیارکئے جواسلامی اصول وقوانین کی چلتی پھرتی تصویرتھے،جن کے روم روم
سے اسلام متشرح تھا،جن کے اسلام پرسختی سے کاربندرہنے کی وجہ سے مسلمانوں
نے ان کواپنے دلوں کی دھڑکن بنائے رکھا،ان کے قدموں میں دن رات پڑے
رہناانسانوں نے انسانیت کی معراج جانا،ان کے جانے کے بعدپوری دنیاایک ساتھ
یوں چیخ پڑی جیسے سب کی روحیں اپنے جسم سے ہواچاہتی ہو،ہم نے تاریخ میں اس
طرح کے واقعات پڑھے تھے،لیکن کبھی کبھی شک گزرتاتھاکہ ممکن ہے کہ مداحوں نے
ممدوحوں کی تعریف وتوصیف میں بلاوجہ کے مبالغے سے کام لیاہو،اب جب ہم نے
اپنے زمانے میں ایک عاشق صادق کے جانے کی کیفیت دیکھی،دنیاکوان کے لئے
تڑپتے،روتے،بلکتے اورآہیں بھرتے دیکھاتوسارے گردوغباردھل گئے،اورتاریخ کے
دامن میں بے شمارشخصیتیں کھلے ہوئے گلاب کی طرح مسکراتی نظرآئیں،ایک باکمال
نے سارے باکمال کی حیثیتیں کھلی کتاب کی طرح آنکھوں کے سامنے رکھ کرواضح
کردی۔
عہدحاضرکی لائق صدتکریم ذات اورقدم قدم پرعقیدتوں کے پھول نچھاورکئے جانے
والی عظیم شخصیت ہے رازیٔ دَوراں ،غزالی ٔزماں،عمدۃ المحدثین،سیدالمحققین
،حامی سنن،ماحی ٔ بدع وفِتن،آئینۂ ذاتِ رضا،وقت کے بوحنیفہ،وارث علو م
اعلیٰ حضرت،نبیرۂ حضورحجۃ الاسلام،جانشین حضورمفتی اعظم ہند،جگرگوشۂ
مفسراعظم ،شیخ الاسلام والمسلمین،قاضی القضاۃ،تاج الشریعہ،بدرالطریقہ حضرت
علامہ الحاج الشاہ مفتی محمداختررضاخان ازہری رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ کی ،جن
کی زندگی کاایک ایک لمحہ اورحیات مقدسہ کی ایک ایک ساعت سرمایۂ سعادت
اوردولتِ افتخارہے۔جن کی ساری عمرشریعت کاعلم پھیلاتے اورطریقت کی راہ
بتلاتے گزری اورجن کی زندگی کاایک ایک عمل شریعت کی میزان اورطریقت کی
ترازوپرتولاہواہے۔اس دورمیں خودممدوح کی شخصیت مسلمانانِ عالم کے لئے سرمدی
سعادتوں کی ضمانت ہے۔آپ کی رحلت صرف ایک ذات کی رحلت نہیں ہے ،بلکہ ایک صدی
کاجنازہ اٹھاہے،ہزاروں الجھنیں ،لاکھوں ارمان،کروڑوں آرزوئیں ایک ساتھ
سپردخاک ہوئیں ہیں۔پوری انسانیت روپڑی،ہرخاص وعام ایک ساتھ اشک
بارہواٹھا،کائنات کاذرہ ذرہ ماتم کدے میں تبدیل ہوگیا،کئی دنوں تک زمانے کی
فیض تھم سی گئی،کلیاں مرجھاگئیں،پھولوں کے ہونٹ سے شرمیلی سرخی غائب
ہوگئی،آسمان روپڑا،زمین کی سسکیاں نکل گئیں،جب عشاق کانظرآنے والاقافلہ آپ
کے آخری دیدارکے لئے اونے پونے اورآہیں بھرتے ہوئے پہونچاتوبریلی شریف کی
پاک سرزمین اپنی وسعت کے باوجودتنگ ہوگئی،حالانکہ نہ نظرآنے والے اجنہ
اورملائکہ کے قافلوں کی کسی کوخبرتک نہ ہوئی،اﷲ تعالیٰ جس بندے محبت کرتاہے
،اس کی محبت عام کردی جاتی ہے اورایک نعمت عظمیٰ بناکرکائنات پر بکھیردی
جاتی ہے،اس مفہوم کی محسوس تصویرپوری دنیانے اپنی کھلی آنکھو ں سے مشاہدہ
کیا۔سب انگشت بدندا ں تھے کہ عشاقوں کوہواکیاہے؟آخران کے مرض کی دواکیاہے؟
بڑی بڑی شخصیات کے تأثرات اورتعزیت نامے کے ساتھ ملک وبیرون ملک کے چھوٹے
بڑے اخبارات ورسائل میں خبریں چھپتی رہیں،تعزیت نامے،مضامین اورمنقبت چھپتے
رہے،کئی بڑے اخبارات توکئی دنوں تک ضمیمے شائع کرتے رہے۔الیکٹرانک
میڈیااورشوشل میڈیانے جوکچھ دکھایااورسنایاوہ اس کے ماسواہے۔میں اپنے محدود
وسائل کی روشنی میں ملکی اخبارات میں چھپنے والی خبریں ،تأثرات اورمضامین
کاتجزیہ کرنے کی کوشش کرتاہوں اوریہ بھی بتانے کی ذمہ داری لونگاکہ اتنی
بڑی شخصیت کوخراج عقیدت ،محبت اورتحفہ علم وعمل پیش کرنے کاآج کے زمانے میں
سب سے بہترطریقہ کیاہے اورہمیں کس طرح سے کام کرناچاہئے ؟۔حضورتاج الشریعہ
کاخاندان صاحب اقتدارنہیں ہے کہ اپنے بیگانے سب جاہ وحشمت کی چاہ میں تعزیت
پیش کریں یامضامین لکھ کرسرخروئی حاصل کرنے کی کوشش کریں۔جس نے بھی کچھ
کہااورلکھاانہوں نے اسی جذبۂ محبت سے مغلوب ہوکرلکھااورکہاجواﷲ تعالیٰ نے
اپنے محبوب بندے کی محبت ان کے دلوں میں ودیعت کی تھی۔
آپؒ کاشمارملت اسلامیہ کے ان چندمشاہیرمستندومعتبرعلماء وَدانشوران ملت میں
ہوتاہے جنہوں نے ملت اسلامیہ کی شیرازہ بندی میں کلیدی کرداراداکیا۔
حضورتاج الشریعہ بے شمارخوبیوں کے مالک تھے ان کی ہمہ گیراورہشت پہلوشخصیت
نے کتنے ہی ذرّوں کوآفتاب اورجگنوؤں کو ماہتاب بنادیا۔وہ صحراکوگلستاں
بنانے میں اپنی مثال آپ تھے انہوں نے پہاڑکھودکردودھ کی نہرنکالنے کامحاورہ
سچ کردکھایا۔آپ کی پوری زندگی احقاق حق ،ابطال باطل،فروغ سنیت اوراشاعت دین
متین کے لئے وقف تھی۔آپ نے مسلمانوں کو باوقارزندگی گزارنے کے لئے ملک
وبیرون ملک میں کئی دینی ادارے قائم کئے۔آپ نے نونہالان اسلام کی کردارسازی
کی،ان کے اندرخوداعتمادی کی روح پھونکی اورسیاسی،سماجی ومذہبی اعتبارسے قوم
مسلم کی صالح قیادت فرمائی۔آپ کی پوری زندگی قومی وملی خدمت میں صرف
ہوگئی۔آپ کی خدمت قلم کواﷲ تبارک وتعالیٰ نے عالمی شہرت بخشی۔آپ کی تصانیف
سے لاکھوں لوگ فیضیاب ہوئے اورقیامت تک آنے والی نسلیں فیضیاب ہوتی ر ہیں
گی۔
حضورتاج الشریعہ کی مشکل پسندطبیعت نے دینی اورملی کام کے لئے ہمیشہ ایسی
وادیوں کاانتخاب کیاجہاں صرف جنون عشق ہی کام آسکتاتھاوہ راہ کی دشواریوں
کو حوصلہ شکنی کا سبب نہیں بلکہ حصول منزل کاذریعہ بناتے تھے۔آپ ایک ایسے
ہمہ جہت عالم دین تھے کہ دوردُورتک ان کاکوئی مماثل نظرنہیں آتا۔حیات کاوہ
کون ساگوشہ ہے جس سے یہ مردخداآگاہ وخودآگاہ جہت آشنانہ ہو۔قوم مسلم کی
اصلاح وتربیت اوران کے تزکیۂ نفس کے لئے آپ نے ہرجہت سے اپنے تحریکی
وتبلیغی عمل کوجاری رکھا۔قوم مسلم میں فکراسلامی کی صحیح اسپرٹ پیداکرنے کے
لئے خطابت وقلم کی خدادادصلاحیتوں کاخوب خوب استعمال کیا۔اﷲ تباروتعالیٰ نے
آپ کوزبان وقلم پہ یکساں قدرت عطافرمائی تھی۔آپ نے علم تفسیر،حدیث،فقہ،اصول
فقہ،عقائد،بیان،تصوف،مذہب،اخلاق،تاریخ ،فلسفہ،سوانح،تحقیق وتنقید،حاشیہ
نگاری،ہرموضوع پراپنے خاصۂ زرنگارکومصروف رکھااورتمام مضامین میں
ترتیب،تہذیب،استدلال،وضاحت،فراست ومتانت اورتنقیدی شعورکی بالیدگی
نمایانظرآتی ہے۔
آپ عالمی سطح پرقائدکی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔آپ اعلیٰ حضرت کے نبیرہ
اورحضورمفتی اعظم ہندکے سچے جانشین تھے۔آپ باتفاق علماء ومفتیان کرام قاضی
القضاۃفی الہندکے منصب پرفائزتھے۔آپ نے دارالافتاء بریلی شریف کی مسندسے
کثیرفتاوے جارے کئے۔بریلی میں عظیم اسلامی یونیورسٹی قائم کی۔آپ کی نگرانی
میں شرعی کونسل آفٖ انڈیابریلی شریف میں ایک عرصے سے مسلمانان ہندکی شرعی
رہنمائی کے لئے متحرک ہے۔عربی اردوانگریزی میں متعددکتابیں تصنیف کیں۔آپ نے
اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی قدس سرہ العزیزکی درجنوں کتب کاعربی زبان میں ترجمہ
کیا۔نیزمتعددکتب کاعربی سے اردومیں ترجمہ کیا۔تقریباًنصف صدی پرمحیط تدریسی
دورمیں ہزاروں طلباء نے آپ سے اکتساب علم کیا۔آپ ایک صاحب طرزادیب ہونے کے
ساتھ ساتھ تحقیقی ذہن وفکررکھنے والے صاحب قلم بھی تھے۔آپ کی نثرمیں بہت
زیادہ جاذبیت وکشش پائی جاتی ہے۔آپ عرب وعجم میں یکساں مقبول تھے۔سلسلۂ
قادریہ کی وسیع پیمانے پراشاعت کی۔پوری دنیامیں لاکھوں مریدین پائے جاتے
ہیں۔تقویٰ وپرہیزگاری،خوف خداواستقامت میں بے نظیراوراپنی مثال آپ تھے۔
''آؤ کے ان کے نام سے چراغاکرتے ہیں''
آگے بڑھنے سے پہلے میں یہاں ایک بات کی طرف بہت زوردے کراشارہ کرناضروری
سمجھتاہوں،جسے بلاوجہ کی باتوں میں الجھاکردبانے کی کوشش کی جائے گی،لایعنی
باتوں اوربلائے ناگہانی کے مباحثے میں الجھاکرافکارصحیحہ کوذہن سے ہی اچکنے
کی کوشش تیزکردی جائے گی،حضورتاج الشریعہ کی پاکیزہ محبت لوگوں کے دلوں میں
کس قدرہے ،حکومت وقت نے بھی بہت توجہ سے محسوس کیا،جمہوری ملک میں اتنی بڑی
تعدادجس شخص واحدکومل جائیں بلاشبہ وہ وزرات عظمیٰ کاحق دارہوگا،ہمارے
''تاج الشریعہ ''نے کبھی بھی سیاست کولائق اعتنانہیں سمجھا،تعلیمی ادارے
یارفاہی کام کے لئے بھی آپ نے کبھی حکومت کی طرف یاحکومت کے امدادیافتہ
ادارے کی طرف'' مددکن''کے نظریے سے نہیں دیکھا۔آپ کی بے لوث خدمات کاسب
کواعتراف ہے۔پوری دنیامیں آپ نے ہندوستانی علوم وفنون اورہندوستان کے مدنی
تقوی وطہارت کی نمائندگی کی۔ہماری حکومت ان لوگوں کے نام پرتعلیمی ادارے
قائم کرتی ہے جس کاملک وملت کی تعمیرمیں بہت ہی کم کردارہوتاہے،جس ذات نے
ملک کے بہترمستقبل کی فکرمیں کم سے کم چالیس سال تک اپنی زندگی صرف کی
اوربے لوث صرف کی،اس عظیم ترذات کے نام پرملک کے ہرصوبے میں کم سے کم ایک
تعلیمی ادارے کامطالبہ کرناہم اہل سنت کاجائزحق بنتاہے،اس حصے پرہم عاشقان
تاج الشریعہ کواتنی توجہ دینی چاہئے کہ ملک کے ہرگوشے سے ''تاج الشریعہ
کالج''کی صداسنائی دے ،ہمیں ارباب اقتدارکویہ یقین بھی دلاناچاہئے ک آپ اس
نیک کام لئے پیش قدمی کریں، جہاں جس طرح کی مددکی ضرورت ہوگی ،اہلسنت
کاہرفردل وجان سے آپ کے ساتھ ہوگا۔نمازجنازہ میں شریک افرادکی تعدادگن
گناکرلوگ اسی طرف سے توجہ ہٹاناچاہ رہے ہیں اوراس کی پلاننگ ملک کے باہرسے
گھس پیٹھ کررہی ہے۔اگرحکومت ہندتوجہ نہیں دیتی ہے توہمیں اہلسنت کی عوام
کوتاج الشریعہ کے نام پرصرف بیس روپے کے لئے آوازدیناہوگا،اﷲ تعالیٰ کی ذات
پرتوکل،رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی نصرت اوراعلیٰ حضرت وتاج الشریعہ
علیہماالرحمہ کی کرامت پربھروسہ کرتے ہوئے اس تحریک کی ابتداء کرنی
چاہئے۔پھردیکھئے کیسے چراغ سے چراغ جلنے کاسلسلہ شروع ہوتاہے۔بہت ہی اہم
اورنکتے کی یہ بات ہمیشہ ذہن نشیں رہے کہ پوراملک بریلی شریف میں نہیں
سماسکتالیکن بریلی شریف ہرشہر،قصبہ اورہرگاؤں میں سماسکتاہے۔
اب آئیے ایک نظردیکھتے چلتے ہیں کہ حضورتاج الشریعہ علیہ الرحمہ کی رحلت
فرمانے کے بعدعالم اسلام کی کیاحالت بنی؟ہندوستانی پرنٹ میڈیانے اس کی طرف
کس قدرتوجہ دی؟ملک کاشایدہی کوئی اخبارایسارہاجس نے تاج الشریعہ علیہ
الرحمہ کی جانکاہ رحلت کی خبرکوکورنہ کیاہو۔کچھ اردواخبارات نے اپنی
پیدائشی یہودیانہ عصبیت کاثبوت بھی دیا۔ہرزبان اورہراخبارنے اس خبرکواپنے
علاقے میں صفحے اول پرجگہ دی۔ہندی اوراردوکے کئی بڑے اخبارات نے لگاتارکئی
دنوتک آپ کی حیات وخدمات پر مضامین شائع کئے۔کئی اخبارات نے تواس قدرمضامین
چھاپے کہ اخبارتاج الشریعہ کاہنگامی ضمیمہ بن گیا،ہوسکتاہے آنے والی نسل اس
کااعتبارنہ کرے لیکن یہ بھی تاریخ کاایک اٹوٹ حصہ بن چکاہے کہ دنیامیں اس
کثیرتعدادمیں لوگ کسی کی جنازے میں شریک نہیں ہوئے ،انسانی سمندر،نے یہ
فیصلہ کردیاکہ آپ دلوں کے تاجورتھے۔حضورتاج الشریعہ کی ذات اقدس پراخبارات
نے جوکچھ چھاپاہے ہم اس کے تین حصے کرسکتے ہیں(۱)تعزیت نامہ
یاتأثرات(۲)خبریں(۳)مضامین،ان تینوں حصوں پرتفصیل سے بات کی جائے توکئی
سوصفحات کم پڑجائیں گے ،جس کی یہاں گنجائش نہیں،کوئی عاشق تاج الشریعہ اٹھے
اوراس اہم موضوع پرتفصیل سے کام کرناچاہے توایک بڑاکام ہوسکتاہے،اختلاف
،جواب اورجواب الجواب کرنے سے بہترہے کہ اچھے ذہن وفکروالے افرادکوان کاموں
پرلگائے جائیں۔
اب حضورتاج الشریعہ کی رحلت پرتأثرات اورخبریں ہدیۂ قارئین ہے۔
شیخ طریقت پروفیسرحضرت ؤسیدامین میاں برکاتی مارہرہ شریف: وارث علوم اعلیٰ
حضرت،قائم مقام حضورمفتی اعظم ہند حضرت علامہ اختررضاخان صاحب ازہری میاں
وصال فرماگئے۔
عرش پردھومیں مچی وہ مؤمن صالح ملا
عرش سے ماتم اٹھے وہ طیب وطاہرگیا
ازہری میاں کاوصال دنیائے سنیت کاعظیم نقصان ہے جس کی تلافی ناممکن ہے۔
حضرت سیدنجیب حیدرمیاں نوری مارہرہ شریف: تاج الشریعہ کی رحلت علم فقہ کے
ایک عہدکاخاتمہ ،21 ؍اکیس جولائی بروز سنیچرملک کامشہواخبارانقلاب سیدنجیب
حیدرمیاں کابیان اسی ہیڈنگ کے ساتھ شائع کرتاہے۔مفتی اعظم ہند،قاضی القضاۃ
فی الہندعلامہ اختررضاخان المعروف ازہری میاں کاوصال دنیائے سنیت کاناقابل
تلافی نقصان ہے،جس سے علم فقہ کے ایک عہدکاخاتمہ ہوگیا۔ازہری میاں ان
شخصیات میں ایک تھے جنہیں اﷲ تعالیٰ نے بے شمارمحاسن وکمالات سے
نوازاتھا۔آپ عظیم فقیہ ومحقق اورعلوم اعلیٰ حضرت کے سچے وارث تھے۔
شیخ الاسلام علامہ مدنی میاں مصباحیؔ کچھوچھہ مقدسہ: معتمدذرائع سے افسردہ
خبرملی کہ امام اہل سنت امام احمدرضاخان فاضل بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ کے
شہزادے عالم اسلام کے مشہورومعروف عالم دین مفتی اختررضاخان ازہری صاحب
نوراﷲ مرقدہ جانشین حضورمفتی اعظم ہندعلیہ الرحمہ اس دنیائے فانی میں نہ
رہے''اناﷲ واناالیہ راجعون''مفتی اختررضاخان ازہری صاحب کی رحلت بلاشبہ
علمی وروحانی میں ایک عظیم خلاہے جس کاپرہونامستقبل قریب میں نظرنہیں
آتا۔ازہری صاحب نے دین وسنیت اوررشدوہدایت کی جوخدمات انجام دی ہیں یقینا
وہ تاریخ کاایک اہم حصہ ہیں۔اﷲ تعالیٰ ازہری صاحب کے ذریعے دین وسنیت کی
راہ میں کی گئی ہرچھوٹی بڑی خدمات قبول فرمائے آمین۔
خیرالاذکیا،امام العلماحضرت علامہ محمداحمدمصباحی سابق صدرمدرس جامعہ
اشرفیہ مبارکپور: خیرالاذکیاعلامہ محمدمصباحی دام ظلہ نے المجمع الاسلامی
کے اپنے لیٹرپیڈ پریہ بیان جاری کرکے اخبارات کے حوالے کیا''تاج االشریعہ
علامہ اختررضاخان ازہری کی رحلت کاغم صرف ایک خاندان ،ایک شہریاایک ملک
کاغم نہیں بلکہ ان کی جدائی پرپوری ملت سوگوارہے۔''
دنیاکے مختلف ممالک اوربے شمارخطوں میں ان کے وصال کے بعدہی سے تعزیتی جلسے
اورفاتحہ وایصال ثواب کاسلسلہ جاری ہے آج ۷؍ذیقعدہ ۱۴۳۹ ہجری مطابق ۲۱؍جون
۲۰۱۸ء سنیچرکی صبح کوباغ فردوس الجامعۃ الاشرفیہ(عربی یونیورسیٹی)
مبارکپور،اعظم گڑھ میں تلاوت قرآن ،ایصال ثواب اورتعزیت کی محفل دیرتک
منعقدہوئی،پھر علماوطلباکی کثیرتعدادجنازے میں شرکت کے لئے بریلی شریف
روانہ ہوگئی اورجامعہ میں آج اورکل کی تعطیل کردی گئی۔
کسی بھی شخصیت کے انتقال پرجامعہ نے اپناتعلیمی سلسلہ موقوف نہ کرنے کی
روایت حضورتاج الشریعہ کے لئے توڑدی اوردودن تک کے لئے سوگوارماحول میں
تعلیم روک دی گئی،جامعہ کے تاریخی حوالے سے اپنے آپ میں یہ اہم ریکاڈہے
،ذرائع کے مطابق نمازجنازہ میں شرکت کے لئے جامعہ سے جس میں صرف جامعہ
اشرفیہ کے طلبہ تھے ۱۲؍بسیں روانہ ہوئیں۔
مفتی اعظم دارالسلطنت دہلی حضرت مفتی مکرم صاحب قبلہ: ''تاج الشریعہ کاوصال
ملت کاناقابل تلافی خسارہ ہے''۲۴؍ جولائی ۲۰۱۸ء کومفتی مکرم صاحب قبلہ کے
بیان کو''انوارقوم''کانپورنے اس سرخی کے ساتھ چھاپااوران کے مدرسے میں
منعقدتعزیتی جلسہ اورایصال ثواب کے محفل کی خبردی۔
شیخ عرب وعجم ،ابوالیتامی علامہ ابوبکرمسلیار،کیرلاـ: ایک ہندی اخبارنے تاج
الشریعہ کے سوئم کے بعدشیخ عرب وعجم ،ابوالیتامیٰ علامہ شیخ
ابوبکرمسلیار،کیرلاکابیان اسی جلی سرخی کے ساتھ شائع کیا''اسلامی دنیامیں
تاج الشریعہ سے بڑاکوئی رہنمانہیں''شیخ ابوبکرجیسی شخصیت کا کسی ہم عصرکے
تربت پرانوارپرپہونچ کرفاتحہ خوانی کرنااوران الفاظ میں خراج عقیدت پیش
کرنابڑاہی معنی خیزہے۔
حضرت سیدخسرومیاں صاحب قبلہ سجادہ نشیں بارگاہ بندہ نوازگیسودراز،گلبرگہ
شریف،کرناٹک: کے ،بی،این ٹائم کے مطابق حضرت پیرطریقت سیدخسروحسینی میاں نے
فرمایا''مفتی اختررضاخان صاحب قبلہ کاانتقال مسلمانان ہندکے لئے عظیم نقصان
ہے''سیدصاحب قبلہ نے مزیدفرمایا: ان کے انتقال سے نہ صرف علماطبقہ میں ایک
خلاپیداہواہے بلکہ مسلمانان ہندکابڑاعظیم نقصان ہواہے''۔ؤ
خطیب اسلام مولاناکوکب نورانی پاکستان: نبیرۂ اعلیٰ حضرت،تاج الشریعہ ،قاضی
القضاۃ فی الہند،حضرت قبلہ مولانااختررضاخان ازہری میاں رحمۃ اﷲ تعالیٰ
علیہ کی وفات بلاشبہ بہت شدیدسانحہ ہے۔اس عہدمیں ان جیسی علمی روحانی شخصیت
سے محرومی ملت کابڑانقصان ہے۔اﷲ کریم ان کے درجات بلندفرمائے اورتمام
اہلسنت کواس سانحے پرصبرعطافرمائے آمین۔پاکستان کے دیگرعلماء کرام کے تأ
ثرات میں اپنے محدودوسائل کی وجہ سے حاصل نہیں کرسکا۔
ماہراسلامیات پروفیسراخترالواسع صاحب قبلہ وائس
چانسلرمولاناآزاداردویونیورسیٹی جودھپور،راجستھان: ماہراسلامیات،پدم شری
پرفیسراخترالواسع صاحب قبلہ نے اس طرح کے الفاظ سے اپنے دلی رنج وغم
کااظہارکیا''حضرت ازہری میاں صاحب قبلہ خاندان اعلیٰ حضرت کی علمی وراثت
ودرایت کے امین اورعلم وفضل،زہدوتقویٰ کے پیکرتھے،آپ کاہم لوگوں کے درمیان
سے اٹھ جاناایک عظیم علمی وروحانی پیشواکااٹھ جاناہے''پرفیسرصاحب قبلہ کے
مزاج سے جولوگ واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ صوفی مزاج پروفیسرجب تک کسی
کوسرسے پیرتک پرکھ نہیں لیتااپنی زبان نہیں کھولتا۔
مولاناولی رحمانی خانقاہ رحمانیہ مونگیر: ''حکمت وشریعت کے ماہرعلامہ
اختررضاخان ازہری کاانتقال ملت اسلامیہ کابڑاخسارہ''فاروقی تنظیم پٹنہ نے
ان الفاظ کی جلی سرخی کے ساتھ مولاناولی رحمانی کابیان شائع کیاہے جس میں
انہوں نے اپنے گہرے رنجم وغم کااظہارکیاہے،مولاناولی رحمانی خانقاہ رحمانیہ
کے موجودہ سجادہ نشیں،آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈکے موجودہ صدر اورامارت
شرعیہ بہاروجھارکھنڈ کے امیرہیں،ان کی خانقاہ اندرونی طورپرآج بھی معمولات
اہلسنت کی پابندہے لیکن رحمانی صاحب خانقاہ کے باہرمعمولات اہلسنت کے
مخالفین کے سربراہ اورولی بھی ہیں۔
''تاج الشریعہ کی رحلت:ملت ایک عظم علمی ومذہبی رہنماسے محروم ہوگئی''
مو لانااسرارالحق قاسمی موجودہ ایم پی ،حلقہ کشن گنج،بہار: مولاناقاسمی ضلع
کشن گنج بہارکے موجودہ ایم پی ہیں اورحالات حاضرہ کواسلامی نقطۂ نظرسے
دیکھنے والے ایک عمدہ قلمکاربھی،لگاتاراخبارات کواپنے مضامین بھیجتے رہتے
ہیں۔
عالی جناب شری نتیش کمار وزیراعلیٰ صوبہ بہار: عالی جناب شری نتیش
کمارموجودہ وزیراعلیٰ صوبہ بہارصوفیوں سے گہری عقیدت ومحبت کے لئے جانے
جاتے ہیں،سنجیدہ فکرونظرکے دوربیں اورایماندارسیاسی رہنماہیں،نے حضورتاج
الشریعہ کی رحلت پراپنے گہرے صدمے کااظہارکیاہے،جسے کئی ہندی اخبارات نے
جلی سرخیوں کے ساتھ اپنے اخبارمیں جگہ دی،ان کے الفاظ ہیں''غسل کعبہ کے لئے
اپنی پاکیزگی اورتقوی وطہارت کی وجہ سے آپ نے ہندوستانیوں کی نمائندگی کرکے
آپ نے ملک کاسراونچاکردیاتھا،آپ امن وسلامتی کے بڑے علمبردارتھے،ان
کاجاناملک کے لئے بہت بڑانقصان ہے۔''
عالیجناب مسٹرراہل گاندھی،صدرآل انڈیاکانگریس پارٹی: کانگریس پارٹی کے
موجودہ صدرراہل گاندھی کچھ مہینوں پہلے تاج الشریعہ سے ملاقات کرنے گئے
تھے،آپ نے ملاقات کرنے سے منع کردیا،راہل گاندھی نے کئی گھنٹے آپ کے ادارے
کے دروازے پرکھڑے ہوکرانتظارکیاتھاآخرنامرادواپس آگئے تھے،حضورتاج الشریعہ
کے انتقال پرانہوں نے بھی اپنے دلی جذبات کااظہارکیا،اورجنازہ مبارکہ میں
شامل مجمع کودیکھ کرانگشت بدنداں رہ گئے تھے،اخبارات نے ان کے الفاظ کوسرخی
کاجامہ پہنایا''ایسامجمع نہیں دیکھا''۔
''سنتوش گنگوامرکزی وزیر'': ازہری میاں کاجانا تکلیف دہ ہے،ان کے انتقال سے
بہت دکھی ہوں''۔
''وصال تاج الشریعہ اورجنازۂ تاج الشریعہ پراخباروں کی سرخیاں''
ایک ہندی اخبارنے اس ہیڈنگ کے ساتھ ۲۱؍جولائی ۲۱۰۸ء کورپورٹنگ کی ''آخری
الفاظ اﷲ اکبراﷲ اکبر''اخبارکے مطابق شام کے وقت آپ کی طبیعت ٹھیک تھی،مغرب
کی نمازکے لئے اٹھے توپانی مانگا،وضوبنایااورآذان ہونے لگی۔آذان کے الفاظ
کے ساتھ تاج الشریعہ اﷲ اکبراﷲ اکبرکہتے ہوئے نڈھال ہوئے اورروح اقدس
پروازکرگئی''.
''تاج الشریعہ ایک ہمہ جہت شخصیت ''
مولانافیاض احمدمصباحی نے ۲۱؍جولائی ۲۱۰۸ کواپناتأ ثراتی مضمون
دیا،مولانامصباحی نے اپنے خصوصی اندازمیں کم سے کم لفظوں میں حضورازہری
میاں علیہ الرحمہ کی زندگی کااحاطہ کیاہے،ان کے ہرلفظ سے ادب واحترام صاف
طورپرجھلکتاہے،''حضورتاج الشریعہ علیہ الرحمہ اپنے وقت کے عظیم مفتی،بے باک
قاضی،عشق رسالت میں فنائیت کی منزل پرفائز،فی البدیہ شاعر،بڑے سے بڑے نازک
حالات کااپنے ناخن تدبیرسے اعلیٰ پیمانے کی تدبیرکرنے والے باکمال
مدبر،سیکڑوں مساجداورمدارس کے بانی ،عربی ،اردو،فارسی،اورانگریزی کے ساتھ
کئی بڑی زبانوں پر دسترس رکھنے والے صوفی ادیب تھے ''۔ؤ
''حضورتاج الشریعہ نے اخیروقت تک عالمی سطح پر ملت اسلامیہ کی پاسبانی کی''
تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کی نمازجنازہ میں شرکت کے بعدمولانافیاض مصباحی نے
انقلاب بیوروسے بات کی اورجوکچھ کہااسے انقلاب نے ۲۳؍جولائی ۲۰۱۸ کو اس
سرخی کے ساتھ شائع کیا،
''ازہری میاں کے چاہنے والوں کی بھیڑ ایسی ٹوٹی کے سسٹم ہی بکھرگیا''
''شہرکے اندرکی سڑکیں ہی نہیں چاروں ہائی وے بھی ہوئے جام''
''ریلوے افسرگھبرائے کہیں ٹوٹ نہ جائے فٹ اوربریج''
''دوپہردوبجے بعدہلاروڈویزکاپہیا،آنکھیں نم اورہونٹ تھرتھرائے،یااﷲ یہ
کیاہوگیا،بھیڑدیکھ غائب ہوئے آٹوٹیمپووالے''
۲۳؍جولائی ۲۰۱۸کوامراجالاکے ساتھ مختلف ہندی اخبارنے اس طرح کی سرخی اورشہ
سرخی کے ساتھ شرکائے جنازہ کی اونچی جگہ سے مختلف زاویے سے لی گئی
تصویرشائع کی ہے،جس سے صاف پتہ چلتاہے کہ کم ازکم دس کیلومیٹرتک بریلی شریف
کاہرراستہ مکمل طورسے جام تھا،افرادکے سرگننے کی کوشش کرنے والے چاہیں
تواپنی محدودکھوپڑی میں ایک غیرجانب دارہندی اخبارکی درست رپورٹنگ داخل
کرکے کروڑوں افرادکواپنے دماغ میں کھپاسکتے ہیں۔
''پردہ کرگئے ازہری میاں''
ِِ''کئی دنوں سے تھے بیمار،شکروارشام اچانک ہواوصال،سنی مسلک میں غم کی
لہر،گھرپرجٹی ہزاروں کی بھیڑ''
اس طرح کی سرخیوں کے ساتھ امراجالانے ۲۱؍جولائی ۲۰۱۸ کوخبرشائع کی ،اوراپنے
لفظوں میں مسلمانوں کی کیفیت کوبیان کیا۔
''دلوں کومحبت کی روشنی سے بھر،ازہری میاں ہوئے رخصت ''
اودھ اردواخبارلکھنونے ۲۴؍جولائی ۲۰۱۸ کواس جلی سرخی کے ساتھ خبرپیش کی
،۲۳؍جولائی ۲۰۱۸ کے اس اخبارکے رپورٹ کے مطابق ۳۰؍ضلعوں کی پولس نے بریلی
شریف کاانتظام سنبھالا،یہ اخبارلکھتاہے کہ ہندوستان کے ہرشہرکے لوگوں کے
علاوہ ۱۲۷؍ممالک کے افرادنے جنازے میں شرکت کی۔
''
ارباب دیوبندکااظہارافسوس''
''انقلاب ''اشاعت لکھنوکی رپورٹنگ جودیوبندکے ارباب دانش کے خیالات پرمبنی
ہے،مفتی اختررضاخان ازہری کاانتقال دینی وعلمی حلقوں کاعظیم خسارہ ہے،جس
کاپرہونانہایت مشکل ہے، اس خبرکے مطابق دیوبندکے تمام اداروں کے ذمہ داران
نے اپنے گہرے رنج وغم کااظہارکیا۔ؤ
''تاج الشریہ کاسانحہ ارتحال عالم اسلام کے لئے تاقابل تلافی نقصان''
کالی کٹ،مرکزالثقافۃ السنیہ میں ازہری میاں کی رحلت پرتعزیتی اجلاس
کاانعقاد،،۲۴؍جولائی ۲۱۰۸ کواپناوطن نے یہ خبرشائع کی ۔
''تاج الشریعہ علامہ اختررضاخان قادری بریلوی سپردخاک''
نمازجنازہ میں لاکھوں افرادکی شرکت،شہربریلی میں غم واندوہ کی لہر،''ہم آپ
اردواخبارممبی''نے ۲۳؍جولائی ۲۰۱۸کواونچی جگہ سے لی گئی تصویرکے ساتھ جس
میں کروڑوں کا مجمع نظرآرہاہے یہ خبرشائع کیا۔
''مفتی اختررضاخان اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کے علوم کے سچے وارث وامین تھے''
روشن مسجدکے زیراہتمام مدرسہ عربیہ نورالعلوم،میسورروڈ،بنگلورمیں علامہ
ازہری میاں کے وصال پرتعزیتی جلسہ سے راقم الحروف کاخطاب ''۲۳؍جولائی ۲۰۱۸
کوسالاراردوبنگلورنے اس کی رپورٹنگ کی جس میں راقم الحروف کے خطاب سے جملے
بھی نقل کئے گئے،سالاراردوکے اسی صفحہ پرتاج الشریعہ کے لئے تعزیتی جلسے کے
حوالے سے دوخبراوربھی ہے ایک کی سرخی ہے'تاج الشریعہ کاوصال امت مسلمہ کے
لئے صدمۂ جانکاہ،۔
''ازہری میاں کے ہزاروں مریدبریلی پہونچے''
انقلاب ممبئی ۲۲؍ جولائی ۲۰۱۸ء اس سرخی کے ساتھ خبرپیش کی اورممبئی کے
مسلمانوں کی حالت بتاتی ہے کہ تاج الشریعہ کی رحلت سے زندگی کاہرشعبہ متأ
ثرہواہے۔
میرے سامنے پورے ملک کے اخبارات ہیں،علاقائی،ملکی اوربین
الملکی،کنڑا،ملیالم،گجراتی،تامل،اڑیہ،اوردیگرزبانوں کے اخبارات نے اپنی
زبان اوراپنے علاقے میں حضورتاج الشریعہ کی رحلت کی خبرکودیگرخبروں پرفوقیت
دیتے ہوئے نمایاکرکے چھاپاہے۔
''ان دنوں حضورتاج الشریعہ پرشائع ہونے والے مضامیں پرایک نظرڈال لینامناسب
ہے''
آبروئے خانوادۂ رضویہ حضرت تاج الشریعہ ،مفتی اختررضاخان ازہری علیہ الرحمہ
''خانوادۂ رضویہ بریلی میں علم وفضل اورفقہ وافتاکے شعبے میں حضرت ازہری
میاں آبروئے خاندان اورنمائندۂ خانوادۂ رضویہ تھے،جن پراہلسنت والجماعت کو
فخرتھا''
یہ ایک چھوٹاسامضمون ہے جس میں تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کے علم وفضل،تقوی
وطہارت،زہدوورع کے گن گائے گئے ہیں،یہ مضمون اہل سنت کے مایہ ناز اہل قلم
حضرت علامہ یٰسین اخترمصباحی صاحب قبلہ کاہے۔
''حضورتاج الشریعہ کی رحلت ملت اسلامیہ کے لئے ناقابل تلافی خسارہ''
سالاراردوبنگلوراورفاروقی تنظیم پٹنہ نے مولانامحمدصدرعالم قادری مصباحی
کایہ مضمون ۲۴؍جولائی ۲۱۰۸ء کواپنے ادارتی صفحہ پرچھاپا،مضمون معلوماتی
اورجذبات سے لبریز ہے،اختصارکے ساتھ سیدی ومرشدی حضورتاج الشریعہ کے حیات
مبارکہ پرمحیط ہے۔مصباحی صاحب کے اس مضمون کوملک کے تقریبا۵۰ سے زائد
اردواخبارنے چھاپاہے،صوبۂ کرناٹک میں حضورتاج الشریعہ پرہنگامی حالات میں
لکھی جانے والی یہ پہلی تحریرتھی۔
''کہاں کھولے ہیں گیسویارنے خشبوکہاں تک ہے''
اردوادب میں ادوے معلاکہی جانے والی یہ تحریرہے،ہرلفظ بلاغت کی معراج
پرہے،حرف حرف سے عقیدت اورمحبت ٹوٹی پڑتی ہے،سوشیل میڈیاپریہ تحریرسب سے
زیادہ پڑھی گئی،واضح رہے کہ یہ تحریرراقم الحروف ہی کی ہے جس میں ہم نے
حضورتاج الشریعہ کی شان اقدس میں خامہ فرسائی کی ہے۔
''ازہری میاں تاحیات علم دین کی ترویج واشاعت کے لئے کوشاں رہے''
''مختارعدیل''کی یہ تحریرجوانقلاب نے شائع کی ہے،کم ازکم مجھ جیسے لاابالی
پڑھاکو''کے لئے نام یہ نیاہے،پھرمضمون نے تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کی
اخلاقی زندگی کوجس طرح اجاگرکیاہے،اس سے خالق
تحریرکامنشاء،سمجھاجاسکتاہے،حالانکہ چھوٹے سے مضمون میں اثباتی بات کہنے کے
لئے زیادہ بہترزمین ہوتی ہے۔
ان تمام مذکورہ تأثرات،خبریں اورمضامین کے علاوہ خودمیرے پاس ابھی بے
شمارمضامین ،تأ ثرات اورخبریں ہیں،اس کے لئے کم وقت اورصفحا ت کی تنگی دنوں
مجھے اجازت نہیں دیتے۔زہدوتقویٰ،خوف خدا،تواضع وانکساری،فکروفن ،علم
وادب،قرطاس وقلم کاروشن وتابناک یہ آفتاب ۶؍ذی قعدہ ۱۴۳۹ھ مطابق20جولائی
2018 ء بروزجمعۃ المبارکہ بوقت مغرب ہمیشہ کے لئے غروب ہوگیا۔ (اِناللّٰہ
واِناالیہ راجعون)۔جانشین تاج الشریعہ حضر علامہ مفتی عسجدرضاخان قادری دام
ظلہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اورپرنم آنکھوں سے کروڑوں محبین
،مخلصین،معتقدین اورمریدین کی موجودگی میں ازہری گیسٹ ہاؤس، بریلی شریف میں
تدفین عمل میں آئی۔اﷲ تعالیٰ آپ کی قبرانورپررحمت ونورکی بارش فرمائے اورہم
تمام مسلمانوں کوآپ کے فیوض وبرکات سے مالامال فرمائے آمین۔بجاہ النبی
الکریم صلی اﷲ علیہ وسلم
ابررحمت تیری مرقدپرگوہرباری کرے حشرتک شان کریمی نازبرداری کرے
فناکے بعدبھی باقی ہے شان رہبری تیری
خداکی رحمتیں ہوں ائے امیرکارواں تجھ پر
قوم کے ایمان وحرمت کے نگہباں زندہ آباد
زندہ آبادائے مفتیٔ اختررضاخان زندہ آباد
محمدرضی احمدمصباحیؔ
دارالفرقان کنزالایمان،نیلنگہ،لاتور،مہاراشٹرا |