تحریر:مولانا احسن رضوان
برائے :خصوصی اشاعت 7ستمبر خصوصی ایڈیشن/میگزین ایڈیشن/ادارتی صفحہ
جب فتنہ قادیانیت نے انگریز کے زیر ِ سایہ جنم لے کر پھلنا پھولنا شروع کیا
تو حضور اکرم ﷺ کی غلامی کا دم بھرنے اور آپ ﷺ سے محبت رکھنے اور آپ ﷺ کی
غلامی پر نا زکرنے والوں نے اپنے تن من دھن کی بازی لگا کر اس فتنے کا
راستہ روکا ……خطباء نے اپنی شعلہ نوائی کے ذریعے قادیانیت کے خرمن پر آگ
برسائی ……علماء نے مناظرے کئے ……مجاہدین نے اپنی جانوں کی بازی لگا دی ……مشائخ
نے اپنے مریدین و متعلقین کو جہاد ِختم نبوت کے عظیم مشن پر لگا دیا ……کتابیں
لکھی گئیں ……لٹریچر تیا ر ہوا …… جلسوں اور کانفرنسوں کا اہتمام کیا گیا ……صحافیوں
اور ادیبوں نے اپنے قلم تلوار بنا لئے ……سیاستدانوں نے اپنے انداز میں
جدوجہد کی ……ماؤں نے اپنے بیٹوں کے نذرانے پیش کئے ……بہنوں نے اپنے بانکے
سجیلے بھائیوں کو بنا سنوا ر کر مقتل کی طرف روانہ کیا ……اکابر کی اس فتنے
کے بارے میں فکر مندی کا یہ عالم تھا کہ علامہ انور شاہ کشمیریؒ چھ ماہ تک
نہ چین سے سو سکے نہ ڈھنگ سے کچھ کھا پی سکے ……سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ کی
آدھی زندگی جیل کی نذر ہو گئی آدھی ریل میں بسر ہو گئی ……1953ء کی تحریک
ختم نبوت میں مجاہدین ختم نبوت کے خون کی ندیا ں بہا دی گئیں ……کشتوں کے
پشتے لگا دئیے گئے ……گریباں چاک دیوانوں نے سینے تان کر گولیاں کھائیں ……پاکستان
کی جیلیں تنگی داماں کی شکایت کرنے لگیں……شاہ جی ؒنے اس موقع پرفرمایا تھا
اس تحریک کے ذریعے مسلمانوں کی آنے والی نسلوں کو مرتد ہونے سے بچا لیا گیا
……اس تحریک کے ذریعے مسلمانوں میں ایسا ایٹم بم نصب کردیا گیاہے جو وقت آنے
پرپھٹے گا اور قادیانیت کے بت کے پرخچے اڑا کر رکھ دے گا ……1974ء میں وہ بم
پھٹ گیااور نئے عزم اور نئے انداز سے تحریک ِ ختم ِ نبوت کا آغاز ہوا……1974ء
کی تحریک ختم ِ نبوت چناب نگر سٹیشن پر قادیانی ظلم وبربریت کا شکار ہونے
والے نوجوانوں کے گرم لہو کے قطروں ……ان کے زخموں ……زخموں پر چھڑکے جانے
والے نمک …… ان کے بدن پر لگنے والی ضربوں ……ان ضربوں سے اٹھنے والی ٹیسوں
سے اٹھی اور پورے ملک پرچھا گئی ……وطن ِ عزیز کے گلی کوچے ختم نبوت زندہ
باد اور مرزائیت مردہ باد کے نعروں سے گونج اٹھے…… او رایسی زور دار تحریک
چلی جس کے نتیجے میں پاکستان کی تاریخ میں 7ستمبر 1974ء کا یوم فتح مبین
آگیا …… 7 ستمبر 1974ء بلاشبہ پاکستان کی تاریخ کا ایک نا قابل فراموش اور
تاریخ ساز دن ہے ……اس دن پاکستان کی پارلیمنٹ نے قادیونیوں کو آئینی طور پر
کافر اور غیر مسلم قرار دیا ……اس دن اسلامیانِ برصغیر کی پون صدی کی جدوجہد
بارآور ثابت ہوئی ……قادیانیت ہمیشہ کے لئے پاکستان میں گالی بن کر رہ گئی
……وہی لوگ جو پاکستان پر قبضے کے منصوبے بنا رہے تھے وہ منہ چھپا کر پھرنے
لگے ……قادیانیوں کی ساری سازشیں ناکام ہو گئیں ……سب تدبیریں الٹ گئیں ……اور
اﷲ نے انہیں خائب وخاسر کر دیا …… 7ستمبر کی فتحِ مبین کے پیچھے قربانیوں ،مجاہدوں
،صعوبتوں،آزمائشوں اورجہدِ مسلسل کا ایک طویل سلسلہ ہے…… اگر دیکھا جائے تو
اس 7ستمبر سے قبل مسلمان ہوشیار اور خبردار تھے …… وہ قصر ِختم نبوت کی
پاسبانی کو اپنی ذمہ داری سمجھتے تھے ……وہ مسلمانوں کے ایمانوں کے تحفظ اور
بقا کی جدوجہد میں مصروف تھے ……وہ چاند تک قادیانیوں کے تعاقب کا عزم مصمم
رکھتے تھے ……اس عہد کے تمام طبقات اپنی تمام صلاحیتوں کو اس فتنے کے سدباب
کے لیے بروئے کار لا رہے تھے ……لیکن 7ستمبر کو جونہی پارلیمنٹ نے قادیانیوں
کے کفر کا فیصلہ دیا تو ہم نے جشن منائے ……خوشیوں کے شادیانے بجائے ……اور
پھر مطمئن اور بے فکر ہو کر لمبی تان کر سو گئے ……ہم یہ سمجھے کہ اس فیصلے
نے قادیانیت کے تابو ت میں آخری کیل ٹھونک کر اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن
کر دیا ہے ……اﷲ کی یہ دھرتی صرف ایک فیصلے کے نتیجے میں قادیانیوں کے وجود
سے مکمل طور پر پاک ہو چکی ہے……در حقیقت پارلیمنٹ کے اس فیصلے نے تو
قادیانیت کے خلاف کام کرنے کی راہیں ہموار کی تھیں ……وہ فیصلہ قادیانیوں کو
اتنی کمزور پوزیشن پر لے آیا تھا کہ قادیانیت کی گرتی ہوئی دیواروں کو صرف
ایک دھکا دینے کی ضرورت تھی ……لیکن ہم نے وہ دھکا دینے کی ضرورت ہی محسوس
نہ کی ……بلکہ ہم اس غلط فہمی میں مبتلاء ہو گئے کہ قادیانیت اپنی موت آپ مر
چکی ہے ……اب قادیانیوں کے خلاف کسی جدوجہد کی کوئی ضرورت نہیں …… ان کی
کوئی سرگرمی باعثِ تشویش نہیں ……ملک وملت کو ان کی کسی سازش یا شرارت سے
کوئی خطرہ نہیں ……چنانچہ بجائے اس کے کہ ہم تحفظ ختم ِ نبوت محاذ پر اپنا
کردار اد ا کرتے ……اپنی صلاحیتیں ،اپنے وسائل ،اپنے اوقات ختم نبوت کے تحفظ
کے لیے صرف کرتے ……ہم اس محاذ پر کام کرنے والوں پر انگلیاں اٹھانے لگے ……ہم
نے یہ تک کہنا شروع کر دیا کہ اب ختم ِنبوت کے لیے کام کرنے کی کیا ضرورت
ہے ؟……ختم ِنبوت کے نام پر قائم جماعتوں اور اداروں کے بقا ء کا جواز کیا
ہے ؟……اور ادھر حال یہ ہے کہ آج بھی قادیانیوں کی سرگرمیاں جاری ہیں ……وہ
مال ودولت کا جھانسہ دے کر ……بیرون ممالک میں ملازمت دلوانے کے سبز باغ
دکھا کر ……آوارہ مزاج قادیانی عورتوں کی زلف کا اسیر بناکر دونوں ہاتھوں سے
سادہ لوح مسلمانوں کی متاعِ ایمان لوٹ رہے ہیں ……انٹرنیٹ کی طلسماتی دنیا
میں انہوں نے جگہ جگہ گھاتیں لگا رکھی ہیں ……یہ لوگ ملکوں ملکوں گھوم پھر
کر اسلام کے نام پر ارتداد پھیلا رہے ہیں ……اجالوں کا دھوکہ دے کر ظلمتیں
بانٹ رہے ہیں ……ان کا ٹی وی جھوٹ پھیلا رہاہے ……وہ دنیا کی بیسیوں زبانوں
میں قرآن کریم کے تحریف وترمیم شدہ تراجم و تفاسیر چھپوا کر تقسیم کر رہے
ہیں ……وہ بڑی مکاری اور ہوشیا ر ی سے کلیدی اسامیوں پر تسلط پانے کی کوششوں
میں لگے ہوئے ہیں ……وہ استعمار کے کرائے کے ایجنٹوں کا کردار ادا کر رہے
ہیں ……ان کے اخبارات دھڑا دھڑ چھپ رہے ہیں …… ان کا لٹریچر تیار ہو کر گھر
گھر پہنچ رہا ہے ……وہ بعض علاقوں کو اپنا خصوصی ہدف قرار دے کر ان میں ایڑی
چوٹی کا زور لگا کر قادیانیت کی تبلیغ وترویج کے لیے کوشاں ہیں……اس سلسلے
میں کوٹلی آزاد کشمیر کی مثال ہمارے سامنے ہے ……الغرض یہ کتنی عجیب بات ہے
کہ ایک طرف تو جھوٹ ،گمراہی ،ارتداد کو عام کرنے کے لیے قادیانیوں نے دن
رات ایک کر رکھا ہے جبکہ دوسری طرف ہماری حالت یہ ہے کہ ہم غفلت ،بے فکری
اور بے حسی کے امراض میں مبتلاء ہیں ……ہمارے من کی دنیا میں عشق ِ رسالت کے
چراغوں کی لو مدھم پڑتے پڑتے گل ہونے کے قریب جا پہنچی ہے ……7ستمبر کا یہ
دن لمحہ فکریہ ہے ……یہ تجدیدِ عہد کا دن ہے ……اور اس دن کا تقاضہ یہ ہے کہ
ہم سوچیں 7ستمبر 1974ء سے قبل کے مسلمان اور عاشقانِ مصطفے ٰ ﷺ کیسے تھے
؟……ان کا کردار کیا تھا ……ان کی خدمات کیا تھیں؟……انہوں نے تحفظ ِ ختم ِ
نبوت محاذ پر کیسی جانبازی کے جوہر دکھائے ……انہوں نے قادیانیوں کو کیسے
تگنی کا ناچ نچایا ……اور آج ہم کیا کر رہے ہیں ؟……جبکہ ہمیں کرنا کیا چاہیے
؟ |