1/ اکہری اذان دیکر دہری اقامت کہہ سکتے ہیں کہ نہیں ؟
جواب :اذان اکہری نہیں ہوتی ،اقامت اکہری ہوتی ہے اور یہی اصل ہے جیساکہ
حکم رسول ﷺ موجود ہے۔
عن أنسٍ قال : أُمِرَ بلالٌ أن يَشْفَعَ الأذانَ ، وأن يُوتِرَ الإقامةَ ،
إلَّا الإقامةَ .(صحيح البخاري:605)
ترجمہ: حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: حضرت بلال ؓ کو یہ حکم
دیا گیا تھا کہ اذان میں جفت (دو دو مرتبہ) کلمات کہے اور تکبیر میں قد
قامت الصلاة کے علاوہ دیگر کلمات طاق (ایک ایک مرتبہ) کہے۔
نبی کریم ﷺ کی یہی سنت آپ ﷺ کے زمانے میں معمول بہ تھی جیساکہ سیدنا ابن
عمر ؓ بیان کرتے ہیں:
إنما كان الأذانُ على عهدِ رسولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم مرتين مرتين
والإقامةُ مرةً مرةً غيرَ أنه يقولُ قد قامتِ الصلاةُ قد قامتِ الصلاةُ
فإذا سمِعنا الإقامةَ توضأنا ثم خرجنا إلى الصلاةِ.(صحيح أبي داود:510)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں اذان کے کلمات دو دو بار کہے جاتے تھے اور
اقامت ( تکبیر ) کے ایک ایک بار ۔ سوائے اس کے کہ مؤذن «قد قامت الصلاة قد
قامت الصلاة» کہا کرتا تھا ( یعنی دو بار ) تو جب ہم اقامت سنتے تو وضو کر
کے نماز کے لیے نکل پڑتے ۔
چونکہ ابومحذورہ والی روایت جو کہ سنن ابن ماجہ، سنن نسائی، سنن ابی
داؤداور صحیح ابن حبان وغیرہ میں ہے اور صحیح درجہ کی ہے اس وجہ سے کوئی
دہری اقامت کہے تو اس میں بھی مضائقہ نہیں ہے ۔
2/ کیا جس کے پاس روپئے نہیں ہوں مگر زمین یا گھر میں سامان ہوں تو اسے
لازمی طور پر زمین بیچ کر یا گھر کا سامان بیچ کر قربانی دینا چاہئے ؟
جواب : قربانی کسی مسلمان کے اوپر لازم نہیں ہے خواہ وہ مالدار ہو یا اس سے
نیچے ۔ یہ سنت موکدہ ہے یعنی ایسی سنت ہے جس کی زیادہ تاکید آئی ہے اس لئے
اس مسلمان کو جسے قربانی کے وقت جانور خریدنے کی طاقت ہو اسے قربانی دینا
چاہئے لیکن قربانی کے وقت کسی کے پاس وقتی طور پر پیسہ نہیں تو ادھار وغیرہ
کرکے بھی قربانی دے سکتا ہے بشرطکہ قرض ادا کرنے کی طاقت رکھتا ہو۔ اور وہ
مسلمان جس کے پاس جانور خریدنے کی طاقت نہیں ہے مگر اس کے پاس زمین ہے تو
اسے زمین بیچ کر قربانی دینے کی ضرورت نہیں ہے ، نہ ہی قربانی دینے کے لئے
گھر کا سامان بیچے کیونکہ یہ چیزین ضروریات زندگی ہیں ان کی انسان کو اپنے
ضروریات کی تکمیل کے لئے ضرورت ہے ۔ ہاں اگر ضرورت سے زائد زمین ہے اسے
بیچنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا یا گھر میں زائد سامان ہو اسے ہٹادینے سے حرج
نہیں ہے تو ایسی صورت میں سامان یا زمین بیچ کر قربانی خریدنے میں کوئی حرج
نہیں ہے ۔ یہ یاد رہے کہ محض قربانی کے لئے ضرورت کی زمین یا گھر کا ضروری
اثاثہ نہیں بیچنا چاہئے ۔
3/ حج کرنے والے کے نام کے آگے حاجی لگانا درست ہے ؟
جواب : حج ایک عظیم عبادت ہے اور اسی کا قبول ہوتا ہے جو مبرور ہو یعنی جو
لغوورفث سے پاک، ایمان وعمل سے مزین اور سنت رسول اللہ سے معطر ہو۔ یہ
عبادت کسی مسلمان کو نصیب سے زندگی میں ایک بار ادا کرنے کی سعادت ملتی ہے
، اس عبادت کی انجام دہی کے بعد آدمی رب سے بکثرت دعائیں کرے تاکہ اس کا حج
مقبول ہو اور اس حج پہ جس عظیم بشارت کا وعدہ کیا گیاہے اس کا مستحق ہوسکے
۔ جس مسلمان کو ایسی فکرہوگی وہ کبھی اپنے نام کے ساتھ حاجی نہیں لگائے
گاکیونکہ اس سے ریاکاری جھلکتی ہے۔عباد ت کا تعلق اللہ سے ہے اس کی نسبت سے
خود کو عابد ، نمازی، حاجی وغیرہ کہنا اس بات کی علامت ہے کہ وہ اس بندے کو
اپنی عبادت کی قبولیت کا یقین ہے اور اس نے اس عبادت سے رب کی رضا نہیں
اپنی ناموری کا ذریعہ بنانا مقصود ہے۔ نبی یا صحابہ سے بڑھ کر اس وقت کسی
کا ایمان نہیں ، انہوں نے اپنے نام کے ساتھ حاجی نہیں لگایا تو ہم کس شمار
وقطار میں ہیں ؟ ہاں دوران حج کسی کو نام نہ معلوم ہونے کی وجہ سے حاجی کہہ
دیا تو یہ الگ بات ہے ،یہ وقت بھی مناسک حج کاہے لیکن حج کو زندگی بھر کے
لئے اپنی ذات وصفات کے تعارف کا ذریعہ بنالینا سراسر ریاونمود ہےجس کی بیحد
مذمت آئی ہے ، اس کا اثر دوسرے اعمال پر پڑتا ہے بلکہ اس سبب آدمی جہنم
رسید بھی ہوسکتا ہے ۔
4/ شرابی کی نماز جنازہ اور اس میں شرکت کاکیا حکم ہے ؟
جواب : شراب پینا حرام اور گناہ کبیرہ ہے ، اس کا مرتکب بڑےسزا کا مستحق ہے
البتہ وہ دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہے ۔ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہونے کی وجہ
سے فاسق وفاجر کہیں گے ۔ ایسے مسلمان کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور عام
لوگ اس کے جنازہ میں شریک ہوں گے تاہم دوسروں کی نصیحت کے لئے علماء اور
صالح افراد اس میں شرکت نہ کریں ۔
5/ بیوٹی پارلر میں جاب کرنے کا شرعی حکم کیا ہے ؟
جواب : بیوٹی پارلر میں غیر شرعی امور سے بچنا بہت مشکل ہے مثلا ابرو
تراشنا، سر کے بال چھوٹا کرنا، بلاضرورت عورتوں کی مقامات ستر کو دیکھنامحض
زیبائش کے لئے، کسی عورت کا حرام کام گانے بجانےیا شوہر کے علاوہ دوسرے
اجنبی مردوں کے لئے سنگار کرنا وغیرہ ۔ ان کے علاوہ کہیں پر مردوں سے
اختلاط ہے تو کسی خاتون کو اس نوکری کے لئے تنہا گھر سے باہر آمدرفت کرنی
پڑتی ہے۔ ان تمام مفاسد و ناجائز کاموں سے بچ کراور شرعی حدود میں رہ کر
اگر کوئی عورت بیوٹی پارلر کا جاب کرسکتی ہے تو پھر کوئی حرج نہیں ہے لیکن
اگر غیرشرعی امور سے نہیں بچ سکتی ہے تو اس صورت میں یہ جاب کرنا جائز نہیں
ہوگا۔ ایک لفظ میں یہ کہیں کہ بناؤسنگار کا کام فی نفسہ جائز ہے اور اس کا
پیشہ اختیار کرکے اس پہ اجرت حاصل کرنا بھی جائز ہے لیکن اس پیشے میں
ناجائز کام کرنا پڑے تو وہ کمائی جائز نہیں ہے۔
6/ حجامہ پہ اجرت لینا منع ہے مگر کیا کوئی اسے آج کے ترقی یافیہ دور میں
جہاں حجامہ سائنسی آلات کے ذریعہ ہوتا ہے اسے پیشہ کے طور پر اپنا سکتا ہے
؟
جواب : نسائی ،ابن ماجہ اور مسند احمد وغیرہ کی صحیح حدیث سے معلوم ہوتا ہے
کہ نبی ﷺ نے حجامہ کی اجرت لینے سے منع کیا ہے مگر صحیحین میں سینگی لگانے
پر رسول اللہ ﷺ نے خود اجرت دی ہے اس کا ذکر ہے ۔ دونوں قسم کی احادیث
موجود ہیں ،ان دونوں کی روشنی میں یہ کہا جائے گاکہ سینگی پراجرت لینا
کراہت کے ساتھ جائزوحلال ہے ۔
7/ قرانی تعویذ کا بھی وہی حکم ہے جو شرکیہ امور پر مشتمل ہو یا قرآن پر
مشتمل تعویذ کا حکم جواز کے قبیل سے ہے ؟
جواب : نبی ﷺ نے مطلقا تعویذ سے منع کیا ہے فرمان رسول ہے : من علَّق
تميمةً فقد أشركَ(صحيح الترغيب:3455)
ترجمہ: جس نے کسی قسم کی تعویذ لٹکائی اس نے شرک کیا۔
جن لوگوں نے قرآنی تعویذ کو جائز کہا ہے اور جن چند دلائل سے استدلال کیا
ہے وہ قوی نہیں ہے۔ قرآنی آیات ویسے بھی دیوارودر یا جسم وغیرہ پر لٹکانا
اہانت کے زمرے میں آتا ہے۔مجھے سب سے زیادہ حیرت ان لوگوں پر ہے جنہوں
نےقرآن کی تعظیم میں حد سے زیادہ غلو کیا اور پھر قرآنی آیات لٹکاکر اس کی
توہین بھی کرتے ہیں بلکہ اس کی کمائی کھاتے ہیں۔ایک طرف قرآن کا ادب تو
دوسری طرف اس کی توہین،معاذاللہ۔ قرآن کا نزول پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل
کرنے کے لئے ہواہے لہذا قرآن کے نزول کے مقصد کے خلاف کوئی کام نہیں کرنا
چاہئے۔
8/ حدیث میں قبلہ رخ تھوکنا منع ہے مگر کسی مسجد میں قبلہ کی جانب ہی وضو
خانہ ہو تو اس کا کیا حکم ہے ؟
جواب : بلاشبہ قبلہ کی جانب تھوکنا منع ہے مگر قبلہ کی جانب وضو کرنا منع
نہیں ہے۔ وضو کے عمل میں تھوکنا پایا نہیں جاتا ہے ، ایک عمل کلی اورایک
عمل ناک کی صفائی بھی ہے،قبلہ رخ ان عملوں کی انجام دہی میں کوئی حرج نہیں
ہے ۔ اگر کسی کو وضو کے وقت تھوکنے کی ضرورت پڑجائے تو دائیں بائیں تھوک
سکتا ہے۔
9/ اگر کسی انسان کو دوسرے انسان کا مال یا حسن وجمال اور صحت وتندرستی
دیکھ کراپنے اندر کمی کا احساس کرے تو صبر کرے یا اپنے رب سے اس چیز کا
سوال کرے ؟
جواب : اللہ تعالی نے ہمیشہ سے سماج میں دو طبقہ اونچ نیچ کا بنایا ہے۔ اس
فرق کو قیامت تک کو ئی مٹا نہیں سکتا۔ اشتراکیت والوں نے مساوات کا نعرہ
لگایا اور اپنی موت آپ مرگیا۔ جس کمی کا احساس آپ کے دل میں کسی کے مال ،
حسن وجمال اور صحت وتندرستی سے پیدا ہوتا ہے اس کا علاج نبی ﷺ نے اس حدیث
میں بتلایا ہے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ قَالَ:إِذَا نَظَرَ أَحَدُكُمْ إِلَى مَنْ فُضِّلَ عَلَيْهِ فِي
المَالِ وَالخَلْقِ فَلْيَنْظُرْ إِلَى مَنْ هُوَ أَسْفَلَ مِنْهُ(صحيح
البخاري:6490)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ
آپ نے فرمایا:جب تم میں کوئی شخص کسی ایسے آدمی کو دیکھے جو مال ودولت اور
شکل وصورت میں اس سے بڑھ کر ہے تو اس وقت اسے ایسے شخص کو بھی دیکھنا
چاہیئے جو اس سے کم درجے کا ہے۔
اس حدیث سے پتہ چلا کہ کسی کا مال ، جاہ وجلا ل ،حسن وجمال آپ کو اپنی کمی
کا احساس دلائے تو اس سے کم درجہ کے گرے پڑے لوگ ہیں ان کی طرف بھی دیکھا
کروخاص طور سے اس آدمی کو جس پر تمہیں کسی وجہ سے برتری حاصل ہے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا نَظَرَ أَحَدُكُمْ إِلَى مَنْ فُضِّلَ عَلَيْهِ فِي
الْمَالِ وَالْخَلْقِ فَلْيَنْظُرْ إِلَى مَنْ هُوَ أَسْفَلَ مِنْهُ
مِمَّنْ فُضِّلَ عَلَيْهِ(صحیح مسلم : 7428)
ترجمہ:حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص اس کی طرف دیکھے جسے مال
اور جمال میں فضیلت حاصل ہے تو اس کو بھی دیکھے جو اس سے کمتر ہے ، جس پر (
خود ) اسے فضیلت حاصل ہے ۔
اس طرح سے انسان کی احساس کم مائگی ختم ہوجائے گی اور اللہ کی نعمتوں کی
ناقدری نہیں ہوگی۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْظُرُوا إِلَى مَنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ وَلَا
تَنْظُرُوا إِلَى مَنْ هُوَ فَوْقَكُمْ فَهُوَ أَجْدَرُ أَنْ لَا
تَزْدَرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ (صحيح مسلم:7430)
ترجمہ:حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہاکہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اس کی طرف دیکھو جو ( مال ور جمال میں
) تم سے کمتر ہے ، اس کی طرف مت دیکھو جو تم سے فائق ہے ، یہ لائق تر ہے
اسکے کہ تم اللہ کی نعمت کو حقیر نہ سمجھو گے ۔
10/ میرے پاس اردو میں ایک امیج ہے جس میں سات آسمانوں کے رنگ اور ان کے
الگ الگ نام ہیں اس کی کیا حقیقت ہے ؟
جواب : لوگوں میں اس طرح سے سات آسمانوں اور ان کے رنگوں کے نام مشہور ہیں
۔
(1)رقیعہ :پہلے آسمان کا نام رقیعہ ہے اور یہ دودھ سے بھی زیادہ سفید
ہے۔(2)فیدوم یا ماعون :دوسرے آسمان کا نام فیدوم یا ماعون ہے اور یہ ایسے
لوہے کا ہے جس سے روشنی کی شعاعیں پھولتی ہیں۔(3)ملکوت یا ہاریون :تیسرے
آسمان کا نام ملکوت یا ہاریون ہے اور یہ تانبے کا ہے۔(4)زاہرہ: چوتھے آسمان
کا نام زاہرہ ہے اور یہ آنکھوں میں خیرگی پیدا کرنے والی سفید چاندی سے بنا
ہے۔(5)مزینہ یا مسہرہ :پانچوں آسمان کا نام مزینہ یا مسہرہ ہے اور یہ سرخ
سونے کا ہے۔(6)خالصہ :
چھٹۓآسمانکانامخالصہہےاوریہچمکدارموتیوںسےبناہے۔(7)لابیہ یا دامعہ : ساتویں
آسمان کا نام لابیہ یا دامعہ ہے اور یہ سرخ یا قوت کا ہے اور اسی میں بیت
المعمور ہے۔
اس طرح کی بات ضعیف وموضوع روایات میں مذکور ہےجو غالبا اسرائیلیات سے
درآئی ہے ۔ اس پر اعتماد نہیں کیا جائے گا۔ کسی صحیح حدیث میں سات آسمان کے
نام اور رنگوں کا ذکر نہیں ہے۔
|