روشن خیالی کے نام پر آج جو بے حیائی کا اور بےشرمی کا
تماشا اپنے عروج پر ہے۔اس روشن خیال طبقے کو جان لینا چاہیے کہ دین اسلام
جس کو تنگ نظری اور انتہا پسندی اور عورتوں کی آزادی میں رکاوٹ کا سبب
سمجھتےہیں اور اپنی اس روشن خیالی میں خود تو بھٹک رہے ہیں اور ساتھ ساتھ
دوسروں کو بھی گمراہ کر رہے ہیں۔وہ یہ اچھی طرح سے سمجھ لیں کہ دین اسلام
سے زیادہ تحفظ اور دین اسلام سے زیادہ حقوق آج تک عورت کو کسی مذہب کسی
معاشرے نہیں دیے۔ دین اسلام نے نہ صرف عورت کے مرتبے کو بلند کیا بلکہ اس
کو اسکا کھویا ہوا مقام بھی دلوایا پردے میں رہنے کا درس دیا تاکہ اس کو
اپنی اہمیت و وقعت کا اندازہ ہو اس طرح وہ معاشرے میں پلنے والے بھیڑیوں کی
نظروں سے محفوظ رہے اور ان کے شر سے بچی رہے۔
تاریخ کے اوراق میں ایسی بے شمار خواتین اسلام موجود ہیں کہ جنھوں نے نہ
صرف اسلام کی سربلندی کے لیے کام کیا بلکہ جنگوں جہادوں میں بھی حصہ لیتی
رہیں جب جب ضرورت پڑی اسلام کے لیے اپنے اپنے انداز سے اپنی صلاحیتوں کا
لوہا منواتی رہیں۔
صحابیات میں ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں یہاں بھی جو بات زیر ِ غور ہے وہ
یہی ہے کہ آیا خواتین جنگ میں حصہ لے سکتیں ہیں یا نہیں؟ اور کس طرح اپنے
پردہ میں رہ کر اس کارخیر کو انجام دے سکتی ہیں ۔۔تو اسی نقطے کو مد نظر
رکھتے ہوئے ہم تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھتے ہیں۔جنگ احد میں ایسی متعدد
مثالیں موجود ہیں کہ جن کو پڑھ کر ہم بآسانی یہ بات سمجھ سکتے ہیں کہ اسلام
سے زیادہ وسیع مذہب اور روشن خیال دین کوئی اور نہیں ہے۔
سرفہرست حضرت ام عمارہ رضی اللہ تعالی عنھا کہ جنہوں نے بنفس نفیس نہ صرف
جنگ احد میں دشمنوں سے جنگ کی بلکہ انہیں قتل بھی کیا۔ جب لشکر اسلام میں
ہر طرف افراتفری پھیل گئی اور لوگ ادھر ادھر منتشر ہوگئے تو یہ سیدھی حضور
نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں گئیں اور شمشیر بکف دشمنانِ اسلام سے مصروف پیکار
ہوگئیں۔جو کافر حضور ﷺ پر حملہ کرنے کے لیے بڑھنا چاہتا آپ کر اسے پیچھے
ہٹا دیتیں۔اور جب موقع ملتا تو کفار پر تیروں کا مینا برساتیں۔ جب ابن قمہ
سرور دو عالم پر حملہ کرنے کے لیے آگے بڑھا تو اس شیر دل خاتون نے اور مصعب
بن عمیر نے آگے بڑھ کر اس کا راستہ روکا اور اس پر پے در پے حملے کیے لیکن
اس نے زرہیں پہنی ہوئی تھیں جس کی وجہ سے ان کے وار مؤثر ثابت نہ ہوئے ام
عمارہ کی اس شان جانثاری کو دیکھتے ہوئے حضورﷺ فرمایا کرتے کہ ”ام عمارہ
نسیبہ بنت کعب کا مقام فلاں فلاں کے مقام سے بہت بلند ہے میں جدھر دیکھتا
تھا مجھے ام عمارہ رضی اللہ تعالی عنھا جنگ کرتی دکھائی دیتی تھیں(بحوالہ
ضیاءالنبی اور تاریخ اسلام)
بلاذری یوں رقم طراز ہیں کہ یوم احد،جنگ میں نسیبہ ان کے شوہر اور ان کے دو
بیٹوں نے جہاد میں شرکت کی، ابتداء میں پانی کا مشکیزہ لے کر زخمیوں کو
پانی پلاتی رہیں لیکن حالات ناسازگار ہوگئے تو آپ نے تلوار سنبھال لی اور
جنگ میں مصروف ہو گئیں اس جنگ میں آپ کو تیروں اور تلواروں کے بارہ زخم آئے۔
مسیلمہ کذاب کے فتنے کو فرو کرنے کے لئے جو لشکر صدیق اکبر نے روانہ کیا
تھا اس میں بھی آپ شریک تھیں اور مسیلمہ کذاب کو قتل کرنے کا ارادہ بھی
رکھتی تھیں (انساب الاشرف جلد 1صفحہ نمبر325)(ضیاءالنبی جلد سوم)
حضرت ام عمارہ کے علاوہ بھی دیگر صحابیات نے جان ہتھیلی پر رکھ کر زخمیوں
کو پانی پلانے کا کام جاری و ساری رکھا۔اور ضرورت پڑنے پر شمشیر بکف دشمن
سے مصروف پیکار ہوجاتیں۔ان میں خانوادہ نبوت کی جلیل القدر مستورات بھی
شامل تھیں ۔ ان کی تعداد چودہ تھی انہیں مجاہدات میں سیدةنساء العالمین
سیدة فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا بھی
تھیں۔حمنہ بنت جحش ام ایمن بھی زخمیوں کی مرہم پٹی اور تیمارداری میں مصروف
تھیں۔
دوسری بہادری کی مثال غزوہ خندق کی وہ بہادر اور حوصلہ مند صحابیہ کہ جن کا
نام حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنھا ہے جو حضور ﷺ کی پھوپھی بھی ہیں غزوہ
خندق میں جب یہودیوں کی ٹولیوں نے ان قلعوں کے اردگرد چکر لگانا شروع کر
دیا تھا۔جہاں مسلم خواتین اور بچے ٹھہرے ہوئے تھے تو انہوں نے حضرت حسان سے
عرض کی کہ آپ اس یہودی کو بار بار ادھر آتا دیکھ رہے ہیں مجھے اندیشہ ہے کہ
یہ دوسرے یہودیوں کو جاکر بتادےگا کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ ہم پر حملہ کر
دیں۔حضور انور اور صحابہ کرام سب سب دشمن سے صف بستہ ہیں بہتر یہ ہے کہ آپ
نیچے اتر کر اس کا کام تمام کر دیں
حضرت حسان رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا یہ کام میرے بس کا نہیں۔
اس جملے کو سن کر آپ نے اپنا کمر بند کس کر باندھ لیا۔ ایک شہتر پاس ہی تھا
اس کو اٹھا کر نیچے تشریف لے گئیں۔ جب وہ یہودی پاس سے گزرا تو آپ نے شہتر
اٹھا کر اس کے سر پر دے مارا اور سر کاٹ یہودیوں کی بستی کی طرف پھینک دیا
جب یہودیوں کی ٹولی نے ایک بستی کی طرف پھینک دیا ۔جب یہودیوں کی کی ٹولی
نے ایک یہودی کا کٹا ہوا سر دیکھا تو انہیں یقین ہو گیاکہ مسلم خواتین کے
محافظ موجود ہیں ۔اگر نیت بد سے کسی نے اس طرف جانے کا قصد کیا تو انجام
خیر نہ ہوگا۔پھر کوئی یہودی اس طرف ن آسکا۔
یہ ہیں وہ خواتین اسلام کہ جن کی جنگی بہادری کی مثالوں سے تاریخ کے اوراق
روشن و منور ہیں۔کہ جنہوں نے حیا کے دامن میں رہتے ہوئے جنگ میں اپنی
بہادری کے جوہر دکھائے۔۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں بھی ان پاکباز ان پاک سیرت صحابیات کے نقشِ
قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔۔
|