عید قربان:یوں تو ذوالحجہ کا سارا عشرہ ہی نورٌ علیٰ نور
ہے اور اس میں ہر نیک عمل کا ثواب بہت ملتا ہے ۔مگر دسویں ذوالحجہ کا دن سب
سے زیادہ معظم ہے ۔خدا ئے بزرگ و برتر نے اس دن کی فجر کی قسم کھائی ہے
۔والفجر مجھے فخر عید قربان کی قسم ۔اس دن میں ہر ایک نیک عمل بڑی فضیلت
رکھتا ہے ۔مگر اس روز سب سے زیادہ محبوب عمل قربانی کرنا ہے ۔محبوب رب
العالمین ﷺ فرماتے ہیں کہ:
صحابۂ کرام رضوان اﷲ علیہ اجمعین نے رسالت مآب ﷺ کی خدمت میں عرض کیا ۔یا
رسول اﷲ ﷺ یہ قربانیاں کیسی ہیں ۔فرمایا تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی
سنت ہے ۔صحابۂ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین نے عرض کیا یا رسول اﷲ ﷺ ہمیں اس
میں کیا ثواب ملے گا ؟ فرمایا ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملے گی ۔ صحابۂ کرام
نے عرض کیا یا رسول اﷲ ﷺ صوف میں کیا ثواب ہے ۔فرمایا صوف کے ہربال میں ایک
نیکی ملے گی۔
اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ قربانی کرنا سب سے زیادہ فضیلت والا عمل ہے
۔ہر مسلمان مرد اور عورت صاحبِ استطاعت پر واجب ہے کہ وہ اس دن قربانی کرکے
دربار الہٰی سے بہت بڑا ثواب حاصل کرے۔
قرآن میں قربانی کا حکم:اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ۔انا اعطینک الکوثر 0فصل
لربک وانحر ۔اے محبوب بے شک ہم نے تمہیں بے شمار خوبیاں عطا فرمائیں تو تم
اپنے رب کے لئے نماز پڑھو او ر قربانی کرو۔(سورۃ کوثر)
اس سے چند مسئلے معلوم ہوئے ایک یہ کہ پابندی نماز رب تعالیٰ کی نعمتوں کا
بہترین شکریہ ہے ۔دوسرے یہ کہ قربانی اسلامی شعار ہے ۔اس کے بدلہ میں قیمت
وغیرہ نہیں دی جا سکتی۔ تیسرے یہ کہ قربانی صرف مکہ معظمہ والوں یا حاجیوں
کے لئے خاص نہیں جیسا کہ بعض بے وقوفوں نے سمجھا ہے کیونکہ مدینہ پاک میں
سرکار کو قربانی کا حکم ہو رہا ہے ۔(نور العرفان صفحہ990)
فرمودات رسول ﷺ اور قربانی : رسول اﷲ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں جو وسعت پائے اور
قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے پاس نہ آئے ۔ (سنن ابن ماجہ )ارشاد
فرماتے ہیں ہر گھر والے پر رجب میں ایک بکری اور ہر عید بقر کے دن ایک بکر
ی ذبح کرنا لازم ہے ۔ (جامع صغیر )
حضور ﷺارشاد فرماتے ہیں ،قربانی کرو کہ یہ تمہارے (روحانی ) باپ ابراہیم کی
سنت ہے ۔(بدائع الصنائع صفحہ 62جلد5)
قربانی کرنے کی فضیلت:ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے
مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا’’دسویں ذوالحجہ کے دن انسان کا کوئی
عمل قربانی سے زیادہ پیارا نہیں ہے اور اس کا جانورقیامت کے دن اپنے سینگوں
بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے
خدا کے نزدیک درجہ مقبولیت کو پہنچ جاتا ہے سو تم قربانی خوش دلی سے
کرو۔(مشکوٰۃ صفحہ 117جلد1)
حضرت زید بن ارقم رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم
اجمعین نے عرض کیا یا رسول اﷲ ﷺ قربانیاں کیا ہیں ؟ فرمایا تمہارے باپ حضرت
ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے عرض کیا ہمارے لئے اس میں کیا ہے ؟
فرمایا:ہربال کے عوض نیکی ہے پھر عرض کیا اون کیا ہے ؟ فرمایا اون کے ہر
بال کے بدلہ میں نیکی ہے ۔(مشکوٰۃجلد1صفحہ118)
حضرت امام حسن رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس نے
خوش دلی سے طلب ثواب سے قربانی کی وہ اُس کے لئے دوزخ کی آگ سے حجاب ہو
جائے گی۔(بہار شریعت )
حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا
جو روپیہ پیسہ عید کے دن قربانی میں خرچ کیا جائے اس سے زیادہ پیارا اور
کوئی پیسہ نہیں ہے ۔(بہار شریعت )
ایک روایت میں آیا ہے کہ رسو ل اﷲ ﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا سے
فرمایا’’اپنی قربانی کی طرف جاؤ اور اُس پر حاضری دو کیونکہ اُس کے اس پہلے
قطرہ کے بدلہ میں جو خون ٹپکتا ہے تیرے سب کردہ گناہ بخش دیئے جائیں گے اور
یہ کہو ان صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی للّٰہ رب العالمین۔(غنیۃ الطالبین حصہ
دوم صفحہ47)
رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا’’تم اپنی قربانیوں کو اچھا کرو کیونکہ وہ قیامت
کے دن تمہاری سواریاں ہوں گی ۔(غنیۃ الطالبین حصہ دو م صفحہ45)
قربانی کے مسائل:
قربانی واجب ہونے کی شرائط یہ ہیں ۔(1)مسلمان ہونا (2)مقیم ہونا۔(3)تونگری
یعنی مالک نصاب ہونا ۔یہاں مال داری سے مراد وہی ہے جس سے صدقہ فطر واجب
ہوتا ہے۔ وہ مراد نہیں کہ جس سے زکوٰۃ واجب ہوتی ہے ۔
(4) حریت یعنی آزاد ہونا ۔جو آزاد نہ ہو اس پر قربانی واجب نہیں ہے کہ غلام
کے پاس مال ہی نہیں ۔لہٰذا عبادت مالیہ اس پر واجب نہیں ۔مرد ہونا اس کے
لئے شرط نہیں۔ عورتوں پر بھی قربانی واجب ہے جس طرح مردوں پر واجب ہوتی ہے
۔اس کے لئے بلوغ شرط ہے یا نہیں ؟ اس میں اختلاف ہے اور نابالغ پر واجب ہے
تو آیا خود اس کے مال سے قربانی کی جائے گی یا اس کے باپ اپنے مال سے
قربانی کرے گا۔ظاہر الروایت یہ ہے کہ نہ خود نابالغ پر قربانی واجب ہے اور
نہ اس کی طرف سے اس کے باپ پر واجب ہے اور اسی پر فتویٰ ہے ۔ (درمختار۔)
مسئلہ:مالک نصاب نے قربانی کے لئے بکری خریدی تھی وہ گم ہو گئی اور اس شخص
کا مال نصاب سے کم ہو گیا ۔اب قربانی کا دن آیا تو اس پر یہ ضروری نہیں کہ
دوسرا جانور خرید کر قربانی کرے اور اگر وہ بکری قربانی ہی کے دنوں میں مل
گئی اور یہ شخص اب بھی مالک نصاب نہیں ہے تو اس پر بکری کی قربانی واجب
نہیں ہے ۔(عالمگیری)
مسئلہ:قربانی کے وقت میں قربانی کرنا ہی لازم ہے کوئی دوسری چیز اس کے قائم
مقام نہیں ہو سکتی۔ مثلاًبجائے قربانی کے اس نے بکری یا اس کی قیمت صدقہ کر
دی ۔یہ کافی نہیں ہے ۔ اس میں نیابت ہو سکتی ہے یعنی خود کرنا ضروری نہیں
دوسرے کو اجازت دے دی اس نے کر دی یہ ٹھیک ہے ۔(عالمگیری)
قربانی کا وقت:مسئلہ:قربانی کا وقت دسویں ذی الحجہ کے طلوع ِ صبح صادق سے
بارہویں کے غروب آفتاب تک ہے ۔یعنی تین دن دو راتیں اور ان دنوں کو ایام
نحر کہتے ہیں ۔گیارہ سے تیرہ ۔تین دنوں کو ایام تشریق کہتے ہیں ۔
مسئلہ: دسویں کے بعد کی دونوں راتیں ایام نحر میں داخل ہیں ۔ان میں بھی
قربانی ہو سکتی ہے مگر رات میں ذبح کرنا مکروہ ہے ۔(عالمگیری)
مسئلہ:پہلا دن یعنی دسویں تاریخ سب سے افضل ہے پھر گیارہویں اور پچھلا دن
یعنی بارہویں سب سے کم درجہ ہے ۔
مسئلہ:ایام نحر میں قربانی کرنا قیمت کے صدقہ کرنے سے افضل ہے ۔کیوں کہ
قربانی واجب ہے یا سنت ،اور صدقہ کرنا تطوع محض ہے ۔لہٰذا قربانی افضل ہوئی
اور وجوب کی صورت میں بغیر قربانی کئے عہدہ بر آنہیں ہو سکتا۔(عالمگیری)
مسئلہ:شہر میں قربانی کی جائے تو شرط یہ ہے کہ نماز عید پڑھنے کے بعد
کرے۔لہٰذا نماز عید سے پہلے شہر میں قربانی نہیں ہو سکتی ۔اور دیہات میں
چونکہ عید نہیں ہے ۔ یہاں طلوع فجر کے بعد سے ہی قربانی ہو سکتی ہے ۔دیہات
میں بہتر یہ ہے کہ طلوع آفتاب کے بعد قربانی کی جائے اور شہر میں بہتر یہ
ہے کہ عید کا خطبہ ہو چکنے کے بعد قربانی کی جائے ۔
مسئلہ:منیٰ میں چونکہ عید کی نماز نہیں ہوتی ۔لہٰذا وہاں جو قربانی کرنا
چاہے طلوع فجر کے بعد سے کر سکتا ہے ۔اس کے لئے وہی حکم ہے جو دیہات کا ہے
۔کسی شہر میں اگر فتنہ کی وجہ سے نماز عید نہ ہو تو وہاں دسویں کی طلوع فجر
کے بعد قربانی ہو سکتی ہے۔ (درمختار ،ردالمختار)
مسئلہ: قربانی کی منت مانی اور یہ معین نہیں کیا کہ گائے کی قربانی کرے گا
یا بکری کی ۔تو منت صحیح ہے ۔بکری کی قربانی کر دینا کافی ہے اور بکری کی
قربانی کی منت مانی تو اونٹ یا گائے قربانی کر دینے سے منت پوری ہو جائے گی
۔منت کی قربانی میں سے کچھ نہ کھائے بلکہ سارا گوشت وغیرہ صدقہ کر دے ۔اور
کچھ کھالیا تو جتنا کھایا اس کی قیمت صدقہ کرے۔(عالمگیری)
قربانی کے جانور:قربانی کے جانور تین قسم کے ہیں (1)اونٹ (2)گائے(3)بکری۔
بکری ہر قسم میں اس کی جتنی نوعیں ہیں سب داخل ہیں۔ نرؔ اور مادہ ؔ،خصیؔاور
غیر خصیؔ سب کا ایک حکم ہے یعنی سب کی قربانی ہو سکتی ہے ۔بھینس گائے میں
شمار ہے اس کی بھی قربانی ہو سکتی ہے ۔بھیڑاور دنبہ بکری میں داخل ہیں ۔ان
کی بھی قربانی ہو سکتی ہے ۔(عالمگیری)
مسئلہ:وحشی جانور جیسے نیل گائے اور ہرن ۔ان کی قربانی نہیں ہو سکتی۔
قربانی کے جانوروں کی عمریں:قربانی کے جانور کی کم از کم یہ عمر ہونی چاہیے
۔اونٹ پانچ سال کا اور گائے دو سال کی اور بکری ایک سال کی اس سے عمر کم ہو
تو قربانی جائز نہیں ۔زیادہ ہوتو جائز ہے بلکہ افضل ہے ۔ ہاں دنبہ یا بھیڑ
کا بچہ6 ماہ کا اگر اتنا بڑا ہو کہ دور سے دیکھنے میں سال بھر کا معلوم
ہوتا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے ۔(درمختار)
قربانی کا جانور کیسا ہونا چاہئیے:قربانی کے جانور کو عیب سے خالی ہونا
چاہیے اور تھوڑا عیب ہو تو قربانی ہو جائے گی مگر مکروہ ہو گی اور زیادہ
عیب ہو تو ہوگی ہی نہیں ۔جس کے پیدائشی سینگ نہ ہوں اس کی قربانی جائز ہے ۔
جس جانور میں جنوں ہے اور اس حد کا ہے کہ وہ جانور چرتا بھی نہیں ہے تو اس
کی قربانی ناجائز ہے اور اگر اس حد کا نہیں ہے تو جائز ہے ۔
خصیّ یعنی جس کے خصئیے نکال لئے گئے ہوں ان کی قربانی جائز ہے ۔
خارشی جانور کی قربانی جائز ہے جب کہ فربہ ہو اور اتنا لاغر کہ ہڈی میں مغز
نہ رہا ہو تو جائز نہیں ۔(درمختار)
مسئلہ:بھینگے جانور کی قربانی جائز ہے ۔اندھے جانور کی قربانی جائز نہیں ہے
اور کانا جس کا کانا پن ظاہر ہو اس کی بھی قربانی ناجائز ہے ۔
اتنالاغر کہ جس کی ہڈیوں میں مغز نہ ہو اور لنگڑا جو قربان گاہ تک اپنے
پاؤں سے نہ جا سکے اور اتنا بیمار کہ جس کی بیماری ظاہر ہو اور جس کے کان ؔ
یا دمؔ یا چکیؔکٹے ہوں یعنی عضو تہائی سے زیادہ کٹا ہو ۔ان سب کی قربانی
ناجائز ہے اور اگر کان یا دم یا چکی تہائی یا اس سے کم کٹی ہو تو جائز ہے ۔
جس جانور کے پیدائشی کان نہ ہوں ۔یا ایک کان نہ ہو اس کی قربانی جائز ہے
اور جس کے کان چھوٹے ہوں اس کی جائز ہے ۔جس جانور کی تہائی سے زیادہ نظر
جاتی رہی ۔اس کی بھی قربانی ناجائز ہے ۔(ہدایہ ،درمختار،عالمگیری)
مسئلہ: جس کے دانت نہ ہوں ۔یا جس کے تھن کٹے ہوں یا خشک ہوں ۔اس کی قربانی
ناجائز ہے ۔بکری میں ایک تھن کا خشک ہونا ناجائز ہونے کے لئے کافی ہے اور
گائے بھینس میں دو خشک ہوں تو ناجائز ہے جس کی ناک کٹی ہو یا علاج کے ذریعہ
اس کا دودھ خشک کر دیا ہو اور خنثیٰ جانور یعنی جس میں نرمادہ دونوں کی
علامتیں ہوں اور جلالہ جو صرف غلیظ کھاتا ہو ان سب کی قربانی ناجائز ہے
۔(درمختار)
مسئلہ:بھیڑیا دنبہ کی اون کاٹ لی گئی ہو اس کی قربانی جائز ہے اور جس جانور
کا ایک پاؤں کاٹ لیا گیا ہو اس کی قربانی ناجائز ہے ۔(عالمگیری)
قربانی کا گوشت :قربانی کا گوشت خود بھی کھا سکتا ہے اور دوسرے شخص غنی یا
فقیر کو بھی دے سکتا ہے ۔کھلا سکتا ہے ۔بلکہ اس میں سے کچھ کھا لینا قربانی
کرنے والے کے لئے مستحب ہے ۔بہتر یہ ہے کہ گوشت کے تین حصے کرے ۔ایک حصہ
فقراء کے لئے اور ایک حصہ دوست احباب کے لئے اور ایک اپنے گھر والوں کے لئے
اور ایک تہائی سے کم صدقہ نہ کرے۔اور کل کا صدقہ کر دینا بھی جائز ہے اور
کل کا کل گھر میں رکھ لے یہ بھی جائز ہے ۔تین دن سے زائد اپنے اور گھر
والوں کے کھانے کے لئے رکھ لینا بھی جائز ہے ۔اور بعض حدیثوں میں جو اس کی
ممانعت آئی ہے وہ منسوخ ہے ۔اگر اس شخص کے اہل و عیال بہت ہوں اور صاحب
وسعت نہیں تو بہتر یہ ہے کہ سارا گوشت اپنے بال بچوں کے لئے رکھ چھوڑے
۔(عالمگیری)
قربانی کا چمڑا:قربانی کا چمڑا اور اس کی جھول اور رسی اور اس کے گلے کا
ہاران سب چیزوں کو صدقہ کر دے ۔قربانی کے چمڑے کو خود اپنے کام میں لا سکتا
ہے یعنی اس کو باقی رکھتے ہوئے اپنے کسی کام میں لا سکتا ہے ۔مثلاً اس کا
جانماز بنا ئے ۔چھلنی ،تھیلی، مشکیزہ، دسترخوان، ڈول وغیرہ بنائے یا کتابوں
کی جلدوں میں لگائے ۔یہ سب کچھ کر سکتا ہے ۔ (درمختار)
مسئلہ:اگر قربانی کی کھال کو روپے کے عوض میں بیچا مگر اس لئے نہیں کہ اس
کو اپنی ذات پر ،بال بچوں پر صرف کرے گا۔بلکہ اس لئے کہ اسے صدقہ کر دے گا
جائز ہے ۔ (عالمگیری)مسئلہ:قربانی کا چمڑا یا گوشت یا اس میں سے کوئی چیز
قصاب یا ذبح کرنے والے کو اجر ت میں نہیں دے سکتا کہ اس کو اجرت میں دینا
بھی بیچنے ہی کے معنی میں ہے ۔ (ہدایہ)
خصوی توجہ فرمائیں :قربانی کی کھالیں صحیح العقیدہ سنی مدارس کو دے کر
دوہرا ثواب حاصل کیا جا سکتا ہے ۔
|