اذان کی مشروعیت اور فضائل احادیث کی روشنی میں

دین اسلام میں جس طرح نماز کو اہمیت حاصل ہے تو بالکل اسی طرح اذان بھی ہے جو کہ اسلام کی اہم ستون نماز کی طرف بلاوے کاذریعہ ہے،آج کی اس تحریر میں آذان کی مشروعیت اورفضائل بیان کریں گے۔

اذان کی مشروعیت:
صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اذان رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں مدینہ شریف میں مشروع ہوئی، ذیل میں چند ایک صحیح احادیث پیش کی جاتی ہیں:
نافع بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر رضی اﷲ تعالی کہا کرتے تھے : جب مسلمان مدینہ آئے تو وہ نماز کے لیے جمع ہوا کرتے تھے اور نماز کے لیے اذان نہیں ہوتی تھی، چنانچہ اس سلسلہ میں ایک روز انہوں نے بات چیت کی تو کچھ لوگ کہنے لگے عیسائیوں کی طرح ناقوس بنا لیا جائے اور بعض کہنے لگے : یہودیوں کے سینگ کی طرح کا بگل بنا لیا جائے،چنانچہ عمر رضی اﷲ تعالی عنہ کہنے لگے : تم کسی شخص کو کیوں نہیں مقرر کرتے کہ وہ نماز کے لیے منادیٰ کرے ، تو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:بلال اٹھ کر نماز کے لیے منادیٰ کرو ۔(صحیح بخاری)

ابن عمیر بن انس اپنے ایک انصاری چچا سے بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو یہ مسئلہ درپیش آیا کہ لوگوں کو نماز کے لیے کیسے جمع کیا جائے ؟ کسی نے کہا کہ نماز کا وقت ہونے پر جھنڈا نصب کر دیا جائے ،جب وہ اسے دیکھیں گے تو ایک دوسرے کو بتا دینگے ، لیکن رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو یہ طریقہ پسند نہ آیا۔زیاد کہتے ہیں کہ یہودیوں والے بگل کاذکر ہوا، چنانچہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو یہ بھی پسند نہ آیااور فرمایا یہ تو یہودیوں کا طریقہ ہے ۔پھر ناقوس کا ذکر ہوا، تو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تو عیسائیوں کا طریقہ ہے ،چنانچہ عبد اﷲ بن زید بن عبد ربہ وہاں سے نکلے تو انہیں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے اسی معاملہ کی فکر کھائے جارہی تھی اور وہ اسی سوچ میں غرق تھے ، چنانچہ انہیں خواب میں اذان دکھائی گئی،جب وہ صبح رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آئے تو انہیں اپنی خواب بیان کرتے ہوئے کہنے لگے :میں اپنی نیند اور بیداری کی درمیان والی حالت میں تھا کہ ایک شخص آیا اور مجھے اذان سکھایا۔اس سے قبل عمر رضی اﷲ تعالی عنہ بھی یہ خواب دیکھ چکے تھے، لیکن انہوں نے اسے بیس روز تک چھپائے رکھا اور بیان نہ کیا، پھر انہوں نے بھی رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو اپنی خواب بیان کی، تو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرمانے لگے : تمہیں خواب بیان کرنے سے کس چیز نے منع کیا تھا ؟ توانہوں نے جواب دیا عبد اﷲ بن زید مجھ سے سبقت لے گئے تو میں نے بیان کرنے سے شرم محسوس کی، چنانچہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:بلال اٹھو اور دیکھو تمہیں عبد اﷲ بن زید کیا کہتے ہیں تم بھی اسی طرح کرو، چنانچہ بلال رضی اﷲ تعالی عنہ نے اذان کہی۔(سنن ابو داود)

اذان بلالی پر مدنی پروانوں کی آہ وفغاں:
ایک مرتبہ حضرت بلال رضی اﷲ عنہ کو خواب میں نبی علیہ السلام کی زیارت نصیب ہوئی ، نبی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: بلال! یہ کتنی سرد مہری ہے کہ تم ہمیں ملنے ہی نہیں آتے ؟ یہ سنتے ہی حضرت بلال کی آنکھ کھل گئی ، انہوں نے اسی وقت اپنی بیوی کو جگایا اور کہا کہ : میں بس اسی وقت رات کو ہی سفر کرنا چاہتا ہوں ، چنانچہ اپنی اونٹنی پر روانہ ہوئے ، مدینہ طیبہ پہنچے تو سب سے پہلے نبی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر سلام پیش کیا، اس کے بعد مسجد نبوی میں نماز پڑھی، دن ہواتو صحابہ کرام کے دل میں خیال ہوا کہ کیوں نہ آج حضرت بلال کی اذان سنیں ، چنانچہ کئی صحابہ نے ان کے سامنے اپنی خواہش کا اظہار کیا ،لیکن انہوں نے انکار کردیا کہ میں نہیں سنا سکتا،کیوں کہ اس کی قوت برداشت مجھ میں نہیں ، ان میں بعض حضرات نے حسنین کریمین سے کہہ دیا کہ آپ بلال سے فرمائش کریں ، ان کا اپنا دل بھی چاہتا تھا، اب حضرت بلال رضی اﷲ عنہ کے لئے انکار کی کوئی گنجائش نہ تھی، چنانچہ حضرت بلال نے اذان دینی شروع کی تو حضرات صحابہ نے وہ اذان سنی جو نبی علیہ السلام کے دور میں سنا کرتے تھے ، تو ان کے دل قابومیں نہ رہے ،حتی کہ گھروں کی مستورات نے جب یہ آواز سنی تو وہ بھی روتی ہوئی گھروں سے باہر نکلیں اور مسجد نبوی کے باہر ہجوم ہوگیا۔جب اذان میں یہ روح وکیف ہوسکتا ہے تو کیوں کر یہ فضائل اذان کے نہ ہو۔

اذان کی فضیلت:
سیدنا ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:موذن کی آواز کی حد کو جب جن، انسان اور دوسری چیزیں سنتی ہیں (تو) وہ قیامت کے دن اسی کے (حق) میں گواہی دیں گے۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ اذان اور پہلی صف کی کیا فضیلت ہے تو پھر ان (لوگوں)کے لیے قرعہ اندازی کے سوا کوئی چارہ باقی نہ رہے تو یقینا وہ قرعہ اندازی (بھی) کریں اور اگر انہیں معلوم ہوجائے کہ عشاء اور فجر کی نماز کی کتنی فضیلت ہے تو ان دونوں نمازوں میں ضرور حاضر ہوں اگرچہ انہیں گھسٹ کر آنا پڑے۔(متفق علیہ)

سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : جب اذان ہوتی ہے تو شیطان پیٹھ موڑ کے گوز( یعنی پاد) مارتا ہوا بھاگ جاتا ہے تاکہ اذان نہ سن سکے اور اذان کے بعد پھر لوٹ آتا ہے اور جب تکبیر( اقامت )کہی جاتی ہے تو پھر بھاگ کھڑا ہوتا ہے اور تکبیر (اقامت) کے بعد پھر واپس آجاتا ہے اور آدمی کے دل میں وسوسے ڈالتا ہے اور اس کو وہ باتیں یاد دلاتا ہے جو نماز سے پہلے اس شخص کے خیال میں بھی نہ تھیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نمازی کو یاد ہی نہیں رہتا کہ اس نے کتنی رکعات پڑھی ہیں۔ (بخاری)

سیدنا جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اذان سن کر یہ کہے :اے اﷲ ! اے اس دعوت کامل اور قائم کی جانے والی نماز کے رب! محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو وسیلہ اور فضیلت عطا فرما اور انہیں اس مقام محمود پر فائز کر جس کا تونے ان سے وعدہ کررکھا ہے ،تو قیامت کے دن میری شفاعت اس کے لیے حلال ہوجائے گی۔(بخاری)

اذان کی فضیلت کا فلسفہ یہ ہے کہ یہ شعائر اسلام سے ہے اور داراسلام اسی سے پہچانا جاتا ہے کہ اس میں جابجا اذان کی آواز سنائی دیتی ہے ۔ اسی بناپر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم جب کسی قوم پر شبِ خون مارنا چاہتے تو پھر پو پھوٹھنے کا انتظار فرماتے اگر کہیں اذان کی آواز سنائی دیتی تو آپ مجاہدین کو حملہ کرنے سے روک دیتے تھے ۔ لیکن اگر کوئی اذان سنائی نہ دیتی تو اس قوم پر ہلہ بول دیتے ۔ اس کی فضیلت اس پر مبنی ہے کہ وہ دعوت نبوت کی ایک شاخ ہے کیونکہ موذن لوگوں کوایک ایسی عبادت کی طرف بلاتا ہے جو ارکان اسلام میں سب سے بڑارکن ہے ، اور وسائل قرب میں اسے پر سب پر فوقیت حاصل ہے ۔ وہ تمام نیکیاں جن کے کرنے سے اﷲ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے اور شیطان ناخوش ہوتا ہے ۔ان میں سب سے بڑھ کر وہ نیکی ہے جس کا اثر دوسروں تک پہنچتے پھر ان متعدی نیکیوں میں سب سے بڑا درجہ حق کا بول بالا کرنا ہے ۔

آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :قیامت کے دن موذنوں کی گردنیں سب سے درازہوں گی۔ ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ جس جگہ تک موذن کی آواز پہنچتی ہے ، اس دائرہ کے اندر جن وانس یا جتنی چیزیں بھی ہوتی ہیں وہ سب کی سب قیامت کے دن اس کے حق میں گواہی دیتی ہیں اور اﷲ تعالیٰ اس کے اتنے گناہوں کو بخش دیتا ہے جو اس دائرہ کے اندر سما سکیں۔ (حجۃ اﷲ البالغہ)

سیدنا انس بن مالک رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم صبح سویرے ہی دشمنوں پر حملہ کرتے تھے اور اذان کی آواز پر کان لگائے رکھتے تھے،اگر( مخالفوں کے شہر سے )آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو اذان کی آواز سنائی دیتی، تو ان پر حملہ نہ کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ ایک شخص کو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اﷲ اکبر اﷲ اکبر کہتے سنا تو فرمایا کہ یہ مسلمان ہے ۔ اس کے بعد آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے اشہد ان لا الٰہ الا اﷲ، اشہد ان لا الٰہ الا اﷲ کہتے سنا تو ارشاد فرمایا کہ اے شخص تو نے دوزخ سے نجات پائی۔ لوگوں نے دیکھا تو وہ بکریوں کا چرواہا تھا۔(صحیح بخاری)

ایک روایت میں ہے کہ : مؤذن کو شہید فی سبیل اﷲ کی طرح ثواب ملتا ہے اور دفن کے بعد اس کا جسم کیڑوں کی غذا نہیں بنتا ۔(الترغیب والترہیب) یہی وجہ تھی کہ حضرات صحابہ کرام یہ تمنا فرماتے تھے کہ کاش نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو اور ان کے اہل خاندان کو اذان دینے پر مامور کیا ہوتا، تاکہ وہ بھی ان بشارتوں کے مستحق ہوسکیں( مجمع الزوائد) چنانچہ حضرت سعد بن وقاص فرمایا کرتے تھے : مجھے پابندی سے اذان دینے پر قدرت حاصل ہونا ، حج وعمرہ اور جہاد سے زیادہ پسند ہے،اسی طرح کا قول حضرت عبد اﷲ بن مسعود سے بھی منقول ہے۔( مصنف ابن ابی شیبہ)

اﷲ تعالی ہم میں بھی اذان دینے ی شوق کو پیدا فرما لے،آج کل تو ہم کسی فیشن وغیرہ سے نہیں شرماتے مگر شرماتے ہیں تو بس صرف دینی کاموں میں۔اﷲ تعالیٰ ہمیں ان تمام احادیث پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔(آمین بجاہ سید المرسلین)

Rizwan Ullah Peshawari
About the Author: Rizwan Ullah Peshawari Read More Articles by Rizwan Ullah Peshawari: 162 Articles with 212091 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.