گزشتہ کچھ روز سے میں سوشل میڈیا پر دیکھ رہا ہوں کہ
ہر دوسرا بندہ ایک پوسٹ کرتا ہے جس میں جملہ کچھ اس طرح شروع ہو رہا ہے
اقبال تیرے شاہین۔۔۔۔۔۔ اور پھر کچھ جملہ تو ایسے لکھے کہ میں یہاں بیان
کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔ میرا آج یہ تحریر لکھنے کا مقصد صرف اور صرف اتنا
ہے کہ خدارا کچھ تو خیال کریں لکھتے ہوئے۔ اقبا ل کے شاہین والے فلسفے کو
آپ سمجھنیسے تو قاصر ہیں ۔ اور مجھے اتنا بھی یقین ہے کہ اگر آپ کو یہ
فلسفہ سمجھ آجائے تو کم سے کم آپ ایسی حرکت نہیں کریں گے۔ اب بات یہیں
اختتام پذیر نہیں ہوتی۔ بلکہ اس گفتگو میں ان پڑھ کم اور پڑھے لکھے لوگ بڑھ
چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ اقبال نے شاہین پوری مسلمِ امہ کو قرار دیا۔ چلیے
آیئے ذرا اقبال کے شاہین کے فلسفے پر نظر ڈالتے ہیں:
اقبال کی شاعری میں تصورشاہین خاص اہمیت کا حامل ہے وہ امت مسلمہ کے ہر
نوجوان میں شاہینی صفات دیکھنے کے متمنی ہیں۔ ایسا شاہین جس کی پرواز آسمان
کی وسعتوں کو چیر دے۔ جو مشرق سے مغرب تک کے آسمانوں پر اپنی بادشاہت قائم
کرے۔ جو اپنے لیئے جہان تازہ کی تلاش کرے اس کے افکار تازہ کی نمو کرے۔آج
کچھ لوگ اس کا شکار نظر آتے ہیں، ان کو آسمان پر گدھوں کے پروں کی آواز تو
سنائی دیتی ہے لیکن وہ شاہینوں کو شاید دیکھنا ہی نہیں چاہتے۔ وہ بھول جاتے
ہیں کہ یہ اقبال کے شاہین ہی تھے جنہوں نے حصول پاکستان کے لیے گھر گھر
روشنیوں کے چراغ روشن کئے اور وقت آنے پر اپنی جانوں کے نذرانے دے کر
پاکستان کی صورت میں آزاد فضاؤں کو آنے والی نسلوں کا نصیب بنا دیا۔
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
شاہیں ہے بصیرہ کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
وہ بھی اقبال ہی کے شاہین تھے جنہوں نے 1965 میں عیار ہمسائے کے حملے کو اس
طور ناکام بنا دیا کہ دشمن کے دانت کھٹے کر دیئے اور وہ دشمن جو کہ چند
گھنٹوں میں لاہور کو فتح کرنے کا خواب آنکھوں میں سجاکر آیا تھا۔ اس کو
گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ اور ان شاہینوں نے پاکستان کی فضاؤں کو اپنے
پروں سے اس طرح ڈھانپ دیا یہیں پر دشمن فوج کے سامنے ڈھال بن گئے۔ اور مکار
بنیئے کو ایک بار پھر منہ کی کھانے پر مجبور کر دیا۔ اور دسمبر 1971 کے
سورج نے یہ منظر بھی دیکھا کہ اقبال کے 90 ہزار شاہینوں کو مکار دشمن نے
سازش کے جال میں الجھا لیا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا المناک لمحہ تھا جب ان
جانبازوں کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا، لیکن ان شاہینوں کے سر تنے رہے
اور جب یہ شاہین آزاد فضاؤں میں لوٹے تو انکی تندی اور تیزی کئی گنا بڑھ
چکی تھی اور وہ پھر سے نئے عزم کے ساتھ پاک فضاؤں کی نگہبانی کے لیئے محو
پرواز ہو گئے۔
1998 میں ایک بار پھر اقبال کے یہ ہی شاہین اس وقت فضاؤں میں اترے جب دشمن
نے ایٹمی دھماکے کرکے پاک فضاؤں میں خوف کے بادل مسلط کرنے کی ناکام کوشش
کی۔ لیکن اس موقع پر بھی اقبال کے شاہینوں نے ثابت کر دیا کہ وہ وطن کے
دفاع سے غافل نہیں۔ چاغی کی فضائیں شاہینوں کے نعروں سے گونج اٹھیں اور یہ
گونج مشرق سے مغرب تک کی فضاؤں کوچیرتی لی کئی۔ امت مسلمہ کے شاہینوں کی
بلند پروازی اور دور اندیشی کے نتیجہ میں پاکستان دنیا کی ساتویں اور عالم
اسلام کی پہلی ایٹمی قوت بن کر ابھرا گویا، علامہ اقبال نے امت مسلمہ کے
نوجوانوں کو جو پیغام دیا وہ خاص طور سے بر صغیر کے مسلمانوں کے لیے حیات
آفرین ثابت ہوا۔ اور ایسے ہی درجنوں سانحات و واقعات موجود ہیں جنہیں اقبال
کے شاہینوں نے اس وطن عزیز کی خاطر اپنے جسم چھلنی کروائے۔
آج پاکستان اور امت مسلمہ جن مصائب کا شکار ہے ان سے نکلنے کے لیے اقبال کے
شاہینوں کو ایک بار پھر میدان عمل میں آنے کی ضرورت ہے۔ پاک فضائیں امت کے
ان شاہینوں کی منتظر ہیں۔ یہ شاہین آج کے نوجوان ہیں۔ لیکن لیکن!!! المیہ
یہ ہے کہ اقبال کے شاہین اور آج کے نوجوان سوشل میڈیا پر نہ صرف ان کے اس
فلسفے کی دھجیاں اڑا رہے ہیں بلکہ اپنیعظیم قومی لیڈر کا پوری دنیا کے
سامنے مزاق بنا رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم آج کینوجوانوں میں
شاہینی صفات بیدار کریں انہیں کرگس اور شاہین کا فرق سمجھائیں تاکہ مسلمان
ایک بار پھر اپنا کھیلا ہوا آسمان حاصل کر سکیں۔
|