1965کی جنگ کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے والوں کا کہنا ہے کہ
جو جزبہ اس قوم میں اس جنگ کے دوران موجود تھا وہ پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا،
یہ درست ہے کہ جنگیں ہمیشہ ایک سیاسی ایجنڈے کے تحت ہی لڑی جاتی ہیں لیکن
اس میں عام انسانوں کو شدید نقصان پہنچتا ہے کیونکہ جنگوں میں صرف ملک ہی
نہیں بلکہ وہاں پر بسنے والی قومیں بھی مٹ جایاکرتی ہیں پاک بھارت1965کی
جنگ بھی کچھ اسی قسم کا معرکہ تھا پاکستان ایک مسلمان ملک ہونے کے ناطے خون
خرابے کی بجائے معاملات کو ہمیشہ سے ہی بات چیت کے زریعے حل کرنے پر یقین
رکھتا چلا آیاہے مگر بھارت جس کا شاید کوئی مذہب نہ کل تھا اور نہ ہی آج ہے
اس نے ہمیشہ سے ہی پاکستان کو بلاوجہ ہی اپنا بدترین دشمن سمجھ رکھا ہے اور
ہمیشہ پاکستان کے خلاف سازشوں میں ہی جتا رہاہے ،1965کی جنگ کے زخم بھارت
اس لیے بھی کریدتا رہتا ہے کہ اس کے لیے یہ ایک شرم کا مقام تھا کہ وہ اس
قدر بڑے ملک اور بڑی فوج کو رکھتے ہوئے بھی اپنے سے نہایت کم مگر دلیر اور
زندہ دل فوجیوں سے عبرت ناک شکست سے دوچار ہواتھا،بھارت آج بھی جب اس جنگ
کے متعلق سوچتا ہوگا یقینا اس ملک کے سورماؤں کی نظریں شرم سے جھک جاتی
ہونگی اس جنگ میں پاکستان کے کونے کونے میں جنگ ہوئی سیالکوٹ سیکٹر،کھیم
کرن ،ہڈیارہ اور دیگر علاقوں سمیت پاکستان میں موجود ریگستانوں اور سمندر
کے راستے تک جنگ چھڑی ہوئی تھی دشمن سمجھتا تھا کہ وہ پاکستان کے کسی اہم
شہر پر قبضہ کرکے اس جنگ میں اپنی فتح کا ترنگا لہرادیگا مگر کم ظرف اور
حوصلوں سے عاری بھارتی فوج کے لیے خیالی پلاؤ پکانا تو آسان کام تھا مگر وہ
اس جنگ کی حقیقت اور اس کی تپش سے بلکل ہی ناآشناتھا اسے جب معلوم ہوا کہ
اس کا واسطہ پاکستان کے فوجی جوانوں سے پڑا ہے جو ااپنے سینے میں شہادت کا
جزبہ لیکر میدان میں اتریں ہیں جنھوں نے اپنے گھر واپس جانے کے تمام دروازے
خود اپنے ہی اپنے ہاتھوں سے بند کردیے ہیں اور ان کا مقصد اس ملک کی حفاظت
کے لیے آخری دم تک لڑناہے ،یہ جنگ بھی کیا جنگ تھی اس جنگ میں دنیا نے
دیکھا کہ ملکوں کی حفاظت کے لیے صرف فوجیں ہی نہیں بلکہ قومیں بھی برابر کا
حصہ لیتی ہیں، ہم جب اس جنگ کے بہادر فوجیوں کا زکر کرتے ہیں تو اس میں
میجر عزیز بھٹی کی جرات وبہادری کی داستانیں صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ
خود ہندوستان میں موجود مسلمان بھی انہیں عقیدت واحترام سے یادکرتے ہیں ،ان
کا نام آج بھی دشمن کی فوج پر ہیبت طاری کئے ہوئے ہیں ،1965 کی جنگ میں
بھارت کی جانب سے جب پیش قدمی کی گئی تو اس وقت سب سے پہلے میجر عزیز بھٹی
نے دشمن کو منہ توڑ جواب دینے کی ٹھانی اور اس طرح سترہ رجمنٹ پنجاب کے
اٹھائیس افسروں سمیت میجر راجہ عزیز بھٹی شہید نے پانچ دن اورپانچ راتوں
دشمن کے ہر وارکا بھرپور جواب دیا اور ان کے جگہ جگہ قدم اکھاڑتے رہے
اوردشمن یا تو مارا جاتا یا پھر راستہ بدل لیتا،اس طرح لاہور بی اربی کی
نہر پر جام شہادت نوش کیا،1965کے جنگ کے ہیرو ایم ایم عالم جرات و بہادری
کی ایک عظیم مثال تھے 1965کی جنگ میں سرگودھا کے مقام پر ایک منٹ کے اندر
دشمن کے پانچ جہاز گرانے کا اعزاز بھی انہیں کے پاس ہے بھارت کی ائیر فورسز
پر آج تک ایم ایم عالم کا خوف طاری ہے ،عظیم ہیرو داود پوتا جس نے واہگہ
اٹاری سیکٹر پربمباری کرکے دشمن کی توپوں کو ہمیشہ کے لیے خاموش کروادیا
تھا، 1965 کی جنگ کے ایک ہیرو لیفٹنٹ کرنل شفقت بلوچ جنھوں1965اور71کی جنگ
میں دشمن کے دانت کھٹے کیئے جبکہ 1965کی جنگ بھی میجر عزیز بھٹی کے شانہ
بشانہ لڑی انہوں نے ہڈیارہ گاؤں کے قر یب اپنے90ساتھیوں کو لیکر دشمن کے
ایک ڈویژن سے زیادہ فوجی دستوں کو سرپٹخ کر بھاگنے پر مجبور کردیا
تھا،بھارت ان ہی بہادرفوجیوں کی وجہ سے یہ سوچنے پر مجبور ہوچکاتھا کہ جب
تک پاکستان کا ایک بھی فوجی زندہ ہے انہیں اس محاز پر کسی بھی قسم کی
کامیابی نہیں مل سکتی،1965کی جنگ کے شہداؤں کے ناموں کی لسٹ بہت طویل ہے
ممکن ہے سب ہی بہادر افسران اورسپاہیوں کے واقعات لکھنا ممکن نہ ہو مگریہ
طے ہے کہ پاکستان کی قوم اپنے شہیدوں اور غازیوں کو دل وجان سے پیار کرتی
ہے ،اس جنگ کے بعد جہاں ہمارے بہت سے جوان شہید ہوئے وہاں سینکڑوں سپاہی
لاپتہ بھی ہوئے بھارت کے ساتھ ہونے والے فوجیوں کی تبادلے کے بعد پھر بھی
لوگ لاپتہ رہے تھے پاکستان کے ساتھ اس دوران بھارت نے بھی شکایتیں کی تھی
کہ ان کے کچھ قیدی پاکستان کی جیلوں میں قید ہیں لیکن اس سارے عمل میں
پاکستان نے جزبہ خیر سگالی کے تحت اپنا کام پورا کیا تھا مگر بھارت نے اپنی
روایتی چال بازی کو جاری رکھتے ہوئے ہمارے فوجی واپس کرنے میں گڑ بڑ کی ،ان
میں سے کچھ کا بھارت میں موجود قیدیوں کا بہت دیر بعد پتہ چلاان ہی فوجی
جوانوں میں ہما رے ایک فوجی چالیس سال تک بھارت کی قید میں رہے جس کا نام
سپاہی مقبول حسین تھا، جوبھارتی جیل میں بھی تشدد کے بعد پاکستان زندہ باد
کے نعرے لگانے سے باز نہیں آرھا تھاشاید اسی ضد کے باعث بھارت نے سپاہی
مقبول کو فوجیوں کے تبادلے میں پاکستان کے حوالے نہیں کیاتھا،بھارت نے
سپاہی مقبول حسین پر بہت تشدد کیا اور چاہا کہ وہ کچھ راز اگل دیں مگر
آفرین ہے کیونکہ سپاہی مقبول حسین ایک بہادر فوجی تھا اس نے آخر دم تک
خاموشی اختیار کیئے رکھی اور دشمن کے آگے سر نہ جھکایا ،بھارت نے قیدیوں کے
تبادلے کی فہرستوں میں بھی سپاہی مقبول حسین کا کبھی زکر نہ کیااس لیے
پاکستان بھی یہ سمجھتارہا کہ شاید سپاہی مقبول حسین اس جنگ میں شہید ہوچکے
ہیں ،اس کے علاوہ اور بھی بہت سے لوگ لاپتہ ڈکلئیر ہوئے ان کے بارے میں یہ
نہیں معلوم ہوسکا کہ وہ اس جنگ میں مارے گئے یا پھر قید میں چلے گئے ،پھر
ایک دن بھارت نے سپاہی مقبول حسین کو پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانے کو
جرم قرار دیتے ہوئے ان کی زبان ہی کاٹ ڈالی مگر انہوں نے زبان کٹ جانے کے
باجود بھی پاکستان سے محبت کو نہ چھوڑا اور جیلوں کی دیواروں پرپاکستان
زندہ بادکے نعرے لکھنا شروع کردیئے اس طرح چالیس سال بعدبھی بھارت نے
1905میں صرف اس لیے سپاہی مقبول حسین کو چھوڑا کہ وہ اب اس بہادر قیدی سے
جان چھڑانا چاہتا تھا اس نے انسانی ہمدردی کے لیے چھوڑناہوتا تو چالیس سال
قبل ہی رہا کردیتا۔اس طرح میری اس تحریر میں صرف چھ ستمبر کے شہداؤں کے لیے
ہی نہیں بلکہ پا ک بھارت جھڑپوں اور جنگوں میں جتنے بھی ہمارے شہدا ؤں نے
اپنی جانوں کا نزرانہ پیش کرکے اس ملک کی حفاظت کی ہے ان سب کو خراج تحسین
پیش کیا جارہاہے کیونکہ 1965کی جنگ کے علاوہ شہید ہونے والے پاک فوج کے
شہداؤں نے دشمن کے دلوں میں آجتک اپنا خوف طاری کیا ہوا ہے یہ وہ جوان ہیں
جن کی بہادری کے اعزاز میں انہیں پاکستان کا اعلیٰ ترین فوجی اعزاز نشان
حیدر اور دیگر اعزازات سے نوازا جاتا رہاہے "حیدر کے معنی شیر کے ہیں اور
یہ نام حضرت علی کرم اﷲ وجہ کا لقب بھی ہے فوج میں یہ اعزا ز یعنی نشان
حیدر سب سے بڑا عزاز مانا جاتاہے جو سب سے پہلے پنجاب رجمنٹ کے کیپٹن محمد
سرورشہید اور میجر محمد طفیل کودیا گیا ، اس طرح یہ اعزازات 1948کی جنگ کے
بعد1958،1965اور1971کے شہداؤں کو مل چکے ہیں ،جبکہ دو نشان حیدر کے اعزازات
1999میں کارگل کی جنگ میں شہید ہونے والے فوجی جوانوں کو بھی مل چکیں ہے ،
اس طرح نشان حیدر پانے والوں میں میجر محمد سرورشہید ،میجر طفیل محمد،میجر
راجہ عزیز بھٹی شہید ،پائیلیٹ آفسیر راشد منہاس ،میجر محمد اکرم ،میجر شبیر
شریف ،سوار محمد حسین ،لانس نائیک محمد،کیپٹن کمال شیر خان ،حوالدارلالک
جان جیسے بہادر افسران شامل ہیں اس کے علاوہ بہادری کے قصے صرف ان افسران
تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ سپاہی مقبول حسین کی طرح ان گمنام سپاہیوں کو
بھی ہماری قوم اتنی ہی عزت دیتی ہے جتنا کہ نشان حیدر پانے والے ان جوانوں
کودیتی ہے کیونکہ شہید کا رتبہ کسی بھی نشان حیدر سے بڑھ کرہے اور یہ وہ
شیر ہیں جن کی دھاڑ آج بھی دشمن کے کیپموں میں گونج رہی ہیں۔ختم شد |