نیا پاکستان پرانے چیلنجز

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

’’اگر آپ امریکہ کے دشمن ہیں تو آپ خطرے میں ہیں لیکن اگر آپ دوست ہیں تو پھر آپ انتہائی خطرے میں ہیں‘‘۔ یہ الفاظ اس مشہور امریکی سفارتکار و دانشور کے ہیں جسے دنیا ہنری کسنجر کے نام سے جانتی ہے۔ہنری کی کامیاب سفارتکاری دنیا کے سامنے اس وقت آئی جب امریکہ ویت نام کی جنگ میں بری طرح پھنس چکا تھا ۔۔ ان دنوں ہنری کسنجر نے اپنی سفارتکاری کے جوہر دکھاتے ہوئے اس جنگ کی دلدل سے امریکہ کو نکالا۔ہنری کسنجر 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں بنائی جانے والی امریکی پالیسیوں کے گواہ ہیں۔اس لیے ہنری کسنجر کے یہ الفاظ نظر انداز نہیں کیے جا سکتے۔

پاکستان میں انتخابات کے بعد نئی حکومت وجود میں آ چکی ہے تاہم خارجہ پالیسی کے محاذ پر نئی حکومت کے لیے پرانے چیلنجز سر اٹھائے کھڑے ہیں ۔پاک امریکہ تعلقات کے اتار چڑھاؤ کے باوجود یہ سمجھنا مشکل ہوتا ہے کہ اس وقت پاکستان امریکہ کا حلیف ہے یا حریف۔صدرٹرمپ کی وائٹ ہاؤس آمد کے ساتھ ہی پاک امریکہ تعلقات بری طرح متاثر کر دیے گئے ۔اگرچہ دونوں ممالک کے کشیدہ تعلقات میں مختلف ایشوز سامنے آتے رہتے ہیں تاہم افغان جنگ کے بعد سب سے اہم ایشو پاک چائنہ اقتصادی راہدای میں پاک چین تعاون سر فہرست ہیں۔انتخابات 2018کے نتیجہ میں بننے والی حکومت کے ساتھ امریکی اتنظامیہ کا پہلا تنازعہ ایک ٹیلیفون کال پر سامنے آیا ۔تاہم یہ شاید نئی حکومت کو ایک اشارہ دیا گیا تھا کہ وہ ان تعلقات کی نوعیت کو معمولی نہ سمجھے۔ 5ستمبر کو امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو امریکہ چئیرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل جوزف کے ہمراہ نئے پاکستان کا پہلا دورہ کر رہے ہیں۔ یہ ایک ٹرانزٹ دورہ ہے جس میں امریکی وزیر خارجہ کی منزل بھارت ہے ۔ بھارت جانے سے قبل وہ پاکستان میں کچھ دیر کے لیے ٹھہریں گے ۔تاہم اس کے باوجودپاکستان دورہ سے قبل ہی امریکی انتظامیہ کی جانب سے 30کروڑڈالر کی فوجی امداد معطل کر دی گئی ہے ۔اگرچہ پاکستان کے نئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے واضح کیا کہ یہ فوجی امداد نہیں بلکہ یہ کولیشن سپورٹ فنڈز کی رقم تھی جو خطے میں سیکورٹی کی صورت حال بالخصوص افغان پاک بارڈر کی سیکورٹی کو بہتر بنانے کے لیے اخراجات کے طور پر ادا کرنی تھی ۔ یہ امداد یا کولیشن فنڈز معطل کرتے ہوئے پنٹاگان کی جانب سے ایک بار پھر وہی الزام دہرایا گیا کہ پاکستان کی جانب سے دہشت گرد وں کے خلاف موثر اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے فیصلہ کیا گیا ہے تاہم اگر پاکستان اس حوالے سے اپنا رویہ بدل لے تو امداد بحال ہو سکتی ہے ۔ پنٹاگان کے ترجمان نے یہ بھی واضح کیا کہ کولیشن سپورٹ فنڈز کی معطلی کی وجہ پاکستان کی جانب سے ٹرمپ کی جنوبی ایشیا کی پالیسی کے مطابق فیصلہ کن کردار ادا نہ کرنے کی وجہ سے کیا گیا ۔پنٹاگان نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ پاکستان سے کس طرح کے اقدامات کی توقع کررہا ہے تاہم پنٹاگان کے مطابق وہ جنوری 2018سے پاکستان آرمی کے ساتھ اعلیٰ سطح کے رابطوں میں ہے جس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ کسی بھی تفریق کے بغیر ہر اس گروپ کے خلاف کارروائی کی جائے گی جو علاقائی استحکام اور سیکورٹی کے لیے خطرہ ہو اس میں حقانی نیٹ ورک سمیت وہ تمام طالبان شامل ہیں جس کے بارے میں امریکہ کا دعوٰ ی ہے کہ وہ پاکستان میں پناہ گزین ہیں اور امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان انہیں گرفتار کرے ، ملک سے نکال باہر کرے یا پھر انہیں مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے اقدامات کرے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ پاک امریکہ تعلقات میں کشیدگی کو کم کرنے کے لیے اقدامات ہونے ضروری ہیں اور موجودہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اس میدان میں نئے نہیں ہیں تاہم یہ بھی بہت اہم ہے کہ ان تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے ہر دفعہ پاکستان ہی کو قربانی کیوں دینا پڑتی ہے ۔عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے بعد یہ امریکہ کی جانب سے پہلا اعلیٰ سطح کا دور ہ ہے تو اس موقع پر امریکی انتظامیہ نے دانستگی میں ایسا اعلان کیوں کیا جس سے کشیدگی میں اضافہ ہو ۔ وزیر اعظم گزشتہ دنوں سینئر صحافیوں کے ساتھ ملاقات میں واضح کر چکے ہیں کہ وہ امریکہ کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتے ہیں تاہم پاکستان اپنی سالمیت ، بقاء اور عزت پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرے گا ۔ یہ بات واقعی خوش آئند ہے کہ پاکستان اپنی خودمختاری اور سالمیت کی قربانی دیے بغیر امریکہ سے تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے ورنہ عملی طور پریہ محض ایک نعرہ ہی نظر آیا ہے تاہم نئے پاکستان میں دیکھنا یہ ہو گا کہ اس پر کس طرح عملدرآمد کیا جاتا ہے ۔ پاک امریکہ تعلقات میں اب شاید بھارت کا عنصر اتنا اہم نہیں رہا تاہم اس وقت افغان صورت حال کے ساتھ ساتھ چین اور روس کی طرف پاکستان کا انتہائی جھکاؤ بہت ذیادہ اہمیت رکھتا ہے ۔ اگرچہ پاک چین تعلقات پر امریکہ کے لیے کھل کر کچھ کہنا مشکل نظر آتا ہے تاہم مختلف حوالوں سے اس کے بیانات سے ظاہر ہوتا رہتا ہے کہ وہ اس معاملہ میں کوئی لچک دینے کو تیار نہیں ہے ۔ پنٹاگان نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ امریکہ کی نظر میں لشکر طیبہ بھی انہی دہشت گرد گروپس میں شامل ہے جن کا فوکس افغانستان کی بجائے بھارت ہے ۔بظاہر یہ بیان بھارتی دورے کو موثر بنانے اور بھارتی انتظامیہ کو رام کرنے کے لیے دیا گیا ہے ورنہ درحقیقت امریکہ کا اس وقت سر درد افغان جنگ سے باعزت واپسی ہے ۔ امریکی انتظامیہ کی تمام تر توجہ سترہ سالہ جنگ کو اس انداز سے ختم کرنا ہے کہ سپر پاور کا بھرم برقرار رہ سکے ۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ انتظامیہ نے براہ راست طالبان سے مذاکرات کا آغاز کر دیا ہے ۔ اس حوالے سے بھی اشارے مل رہے ہیں کہ یہ مذاکرات کسی حد تک کامیاب ہوتے نظر آرہے ہیں ۔

امریکہ وزیر خارجہ کے دورے کے دوران اس وقت یہ بحث سامنے آرہی ہے کہ اس دورے کے دوران کیا وزیر اعظم کو ان کے ساتھ ملاقات کرنی چاہیے یا نہیں ۔ماضی پر نظر دوڑائی جائے تو ایسی ملاقاتوں میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی تاہم موجودہ صورتحال اور پھر نئی حکومت کے بیانیہ کے مطابق اس ملاقات کے بعد شاید تعلقات میں کوئی بہتری تو نہ آسکے لیکن پاکستان ایک بار پھر اپنے باوقار ریاست کا درجہ کھو سکتا ہے ۔ اگر موجودہ حکومت برابری کی سطح پر ملاقات چاہتی ہے تو ایسے وقت میں یہ ضروری ہے کہ وزیر اعظم کی بجائے ہم منصب کی ملاقات کر کے خودمختاری کا پیغام دیا جانا ضروری ہے ۔ امریکہ بھارت کے ساتھ تعلقات پر کسی قسم کا سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں تو پاکستان کو بھی چین کے ساتھ تعلقات میں کسی قسم کا دباؤ برداشت کرنے سے انکار کرنا ہوگا ۔ وزیر خارجہ اپنے ہم منصب کے ساتھ ملاقات میں واضح کریں کہ علاقائی صورت حال اور خطے کی سیکورٹی کے لیے امریکہ کو اپنے فطری حلیف بھارت پر بھی دباؤ ڈالنا ہو گا جو اسلحہ دوڑ میں خطے کے امن کو تباہ کرنے پر تلا ہے ۔ یہ پہلا اعلیٰ سطح کا دورہ نئی حکومت کا پہلا بڑا امتحان ہو گا جس سے گزرنا اتنا آسان نہیں ہے ۔ خارجہ پالیسی کے میدان کی پچ پر کھیلنا کپتان کے لیے نیا اور اہم میچ ہے دیکھنا ہے کہ وہ اپنی ٹیم کو اس پچ کس طرح کھلاتے ہیں ۔ چیلنجز پرانے ہیں لیکن کپتان نئے جوش ولولے اور جذبے سے میدان میں موجود ہے امید ہے کہ وہ پاکستانی عوام کو مایوس نہیں کرے گا۔
 

Asif Khurshid
About the Author: Asif Khurshid Read More Articles by Asif Khurshid: 97 Articles with 74599 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.