صبح کی نماز سے فارغ ہو کر پھولوں کو پانی دینے باغیچے
میں آ گئی چند پھول کھلے تھے ان کو خوش آمدید کہا ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی
تھی ہر گھر سو رہا تھا گویا صبح نے ان کے گھر پر دستک ہی نہ دی
ہو -
میں نے ماضی کے جھرونکوں میں جھانکا جھاڑو کی چھیں چھیں کی آواز موسیقی کے
سر بکھیرتی فضا میں تحلیل ہوتی اور یہ ٹھیک آذان کے تھوڑی دیر بعد شروع ہو
جاتی تھی کیوں کہ گھر کے سب مرد مسجد کی راہ لیتے اس وقت عورتیں صحن میں
بچھی چارپایوں کو اٹھا کر کندھوں پر لٹکانے کمروں میں بچھاتیں اور چند ایک
برآمدے کی زینت بنتیں- صحن میں جھاڑو سے فارغ ہوتے ہوتے ہلکا اندھیرا چھٹ
چکا ہوتا تھا اور اس کی جگہ ہلکی سی اٹھتی روشنی لے لیتی - وضو سے فارغ
ہوتے ہی عورتوں اور لڑکیوں کی قرآن پاک کی تلاوت کی آواز خدا کی محبّت میں
سرشار کانوں کو گویا نی تازگی بخشتی -پرندے اپنی سوریلی آوازوں سے حمدو سنا
سے ماحول کو اور ہی پرتاثیر کر دیا کرتے تھے- ٹیوب ویل کی آواز کوکو میں
شامل ہو کر جیسے کہتی ہو , اے درختو ! پودو! ,فصلو ! خوش ہو جاؤ ! تمہاری
پیاس بجھاتا ہوں میں - تھوڑی ہی دیر میں مسجد سے مولوی صاحب کی آواز لوڈ
سپیکر اتی 5 روپے کا چندہ عبد الرازق صاحب کی طرف سے مسجد کو دیا گیا ہے
الله پاک اس کو قبول و مقبول فرماے -جمّہ خان کی طرف سے ٢ روپے اور اس طرح
جو جو چندہ دیتا جاتا اس کا نام پکار کر کہا جاتا کے الله پاک اسے خوش رکھے
یوں الله کے حکم کی تعمیل کرتے -
قرآن میں الله پاک فرماتا ہے :" اعلانیہ اور غیر اعلانیہ الله کی راہ میں
خرچ کرو "
یوں صبح کا آغاز ہی الله کی راہ میں خرچ کرنے سے ہوتا -نجانے وہ کیسا زمانہ
تھا اور صبح میں اتنی برکت تھی کہ کچھ ہی دیر میں نماز اور قرآن سے فارغ ہو
کر امی پراٹھوں کی خوشبوؤں سے ہماری بھوک بڑھاتیں اور پیٹ خوشی سے ناچ رہا
ہوتا -چائے کو مگ سے اوپر نیچے کرتے ہوے پاپوں کی سنسناہٹ کا بھی ا پنا ہی
مزہ تھا -اتنی دیر میں ابو محلّے کے دوستوں کے ساتھ مسجد سے گھر کی طرف آتے
ہوے محلے کی کی خیر خبر لے کر آجاتے اور اماں کے کانوں میں بھی ڈال دیتے کہ
کون بیمار ہے اور کس کو ہماری ضرورت ہے -اسی دوران اماں بھی اپنی معلومات
سے آگاہ کرتیں یوں دن کا ملنے ملانے اور پڑوسیوں کی مدد کرنے کا پلان بھی
ترتیب دے دیا جاتا -منو ,گڈو ,کاکا سب ہاتھوں میں سپارے لئے اسلام و علیکم
کی آواز سے پورے گھر کو اپنی آمد کی خبر سناتے اور چوکی پر بیٹھ کر چا ے
اور پراٹھے سے خوب سیر ہوتے -ہم وردی پہنتے گاچی لگی تختی اٹھاتے ,سلیٹ کو
اپنے بستے میں ڈالتے اور چند ہلکی کتابوں پر مبنی بستے کو کندھے پر ڈال
لیتے اور خدا حافظ کہتے ہوے گھر سے نکلتے -
اتنے میں ہر گھر سے بچے اپنے بستوں اور باجیوں کے ہمراہ پونے 7 بجے سکول کی
راہ لیتے -" تن تن!" سکول کی گھنٹی پورے علاقے میں اعلان کرتی کہ :"علم کے
پیاسے آ کر سیر ہو کر علم حاصل کر لیں "-
"زووں زووں! " الارم کی آواز سے میں موجودہ زندگی میں لوٹی - وینوں کی پیں
پیں شروع ہونے والی تھی , جلدی سے بچوں پر ڈال ڈال کر ,گھسیٹ گھسیٹ کر باتھ
روم تک پہنچایا -سوتے جاگتے بچے ٹوتھ پیسٹ کر تے ہوے بھی خوابوں میں خراٹے
لے رہے ہوتے -ہر گھر سے آوازیں آرہی ہوتی ہیں "جلدی انڈا اور توس لے لو دیر
ہورہی ہے ,سنو دودھ کا کپ ضرور خالی کر کے جانا -کل بھی وین چلی گئی تھی
ڈولی سویٹی ,جیری جلدی کرو "-
اف لائٹ کو بھی ابھی مرنا تھا- ارے اٹھیں نہ بھی جنریٹر چلا دیں " -اور یوں
جنریٹر کی پھٹی ہوئی کانوں کو پھاڑتی آواز سے دن کا آغاز ہوتا ہے -"ارے
ناشتہ تو کرتے جاؤ" " -کنٹین سے کھا لوں گا "کی آوازیں بھی شامل ہوتیں
-کہیں وین والا بیل دے دے کر غصے میں پاؤں پٹخ رہا ہے ٹریفک بلاک ہو جا ے
گی باجی جلدی بھیجیں ای بھیا دیکھو چھوڑ کہ نہ جانا بچوں کو "-کہا بھی ہے
بچوں کو بڑے اسکول میں ڈلوا دیں -کم از کم اسکول ٹائم تو ٩ بجے تک ہے وہاں
-لیکن نہیں ! یہاں وہی آٹھ بجے والے سکول میں نیند پوری کیے بنا بچوں کو
بھیجو -پڑوسیوں کے گھر کی آوازیں اور بلند ہو گیں -"دفع ہو جاؤ ناکارہ عورت
سونے بھی نہیں دیتی -کس نے کہا تھا مورننگ شو رات کو دیکھو "-شوہر نے بھی
بدلہ چکایا - "تو کیا کرتی جیری گیم کھیل رہا تھا اور آپ موبائل پر نیوز
دیکھ رہے تھے -اتنے شور میں بھلا کیسے سو سکتی تھی "-پڑوسن کی اہ و زاریاں
شروع تھیں -تھوڑی دیر کے بعد اسی شور شرابے میں ایک دم پھر سے وہی سورج
نکلنے سے پہلے والی خاموشی چھا گئی کیونکہ بچے اسکول جا چکے تھے -
پھر سے پردے سیدھے کر کے خاتون خانہ اپنی نیند پوری کریں گی اور اس طرح
اپنی صبح کا آغاز دوپہر سے کریں گی اور رات کا آغاز فجر سے تھوڑا پہلے تو
صبح کہاں گئی - مر گئی! ہاں, صبح مر گئی ! موجودہ دور کی صبح مر گئی ! ( بی
بی کی ڈائری سے
ماخوز )
|