طالبانائزیشن اِک جنگِ مسلسل

بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا

موجودہ دور ترقی، ٹیکنالوجی اور رفتار کا زمانہ ہے، حضرتِ انسان انتہائی برق رفتاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کائنات کے راز افشاں کرنے کے درپے ہیں۔ دوسری جانب انسانیت حیوانیت کا لبادہ اوڑھے ، ظلم وبربریت، بھوک وافلاس اور دہشت کے جہنم میں گرتی جارہی ہے۔ اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ہمیں ہر طرف اونچی اونچی عمارات، نت نئی ایجادات اور مصنوعات بکثرت نظر آئیں گی، وہیں دوسری جانب بھوک سے بلکتے بچے، ٹریفک سگنلز پر بھیک مانگنے والوں کی بھیڑ اور اخبارات میں دہشت و بربریت کی داستانیں ہماری زندگی کا حصہ بن چکی ہیں۔

میری اپنی رائے ہے کہ کسی بھی معاشرے میں بدامنی، دہشت گردی، اور ظلم اور بربریت کا پودا خود سے جڑ نہیں پکڑتا، اس کی نمو کی ذمہ دار ہماری اپنی کوتاہیاں اور غلطیاں ہوتی ہیں جو اسے پنپنے میں مدد فراہم کرتی ہیں اور ایک تناور درخت کی شکل میں ہمارے سامنے لا کھڑا کرتی ہیں۔ اگر ہم اپنی غلطیوں سے سیکھیں اور اپنی ذمہ داریوں سے نظر نہ چرائیں تو ہم ان تمام خباثتوں کو جڑ پکڑنے سے پہلے کاٹ کر پھینک سکتے ہیں۔

پاکستان ایک اسلامی ملک ہے، ہم نے اسلام کے نام پر اس ملک کی بنیاد رکھی لیکن بدقسمتی سے ہم اسلام کے بنیادی رکن رواداری کو مکمل فراموش کر بیٹھے، ہم غیر ملکی قوتوں کے آلہ کار بن کر کئی دہائیوں تک استعمال ہوتے رہے، ان قوتوں نے پاکستان کو ایک ایسی لیبارٹری کی طرح استعمال کیا جس میں تجربات کرنے کے بعد وہ اپنا تجرباتی فضلہ یہیں چھوڑ گئے جو آج تک ہمارے اس ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔

اسلام محبت و آشتی کا دین ہے، رواداری دینِ اسلام کا بنیادی رکن ہے۔ سورہ یونس میں فرمایا گیا ہے

آیت مبارکہ سورہ یونس

اگر تیرا رب چاہتا کہ زمین میں سب مومن ہی ہوں تو بے شک تمام اہلِ زمین ایمان لے آتے۔

اس آیت کریمہ سے یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ اسلام کسی بھی شخص پر اپنے فلسفہ کو مسلط کرنے کی اجازت ہر گز نہیں دیتا، نہ ہی کسی شخص کے عقیدہ کو تبدیل کرنے کی ترغیب اسکی واضح مثال ہمارے نبی کریمؐ،آئمہ کرام کی حیات مقدسہ ہیں۔ ہاں اسلام تبلیغ کی اجازت ضرور دیتا ہے لیکن بغیر زور و زبردستی، خدا جانے ہمارے معاشرے میں اسلام کے ٹھیکیدار کب سے تعینات ہوئے ہیں اور کس نے انہیں حق دیا ہے کہ یہ مسلمان ، کافر ، جنت اور دوزخ کی اسناد تقسیم کرتے پھریں تاریخ اسلام اسکی وضاحت سے قاصر ہے ہاں البتہ تاریخ طالبان اس کی داعی ضرور ہے۔

آخر یہ طالبانائزیشن ہے کیا، جی طالبانائزیشن آسان الفاظ میں عدم برداشت اور اپنی مرضی کسی دوسرے شخص پر مسلط کرنے کا نام ہے ۔یہ اسلام کے بنیادی رکن رواداری کی مکمل نفی ہے۔ یہ کسی ایک مذہب، فرقے، مسلک یا گروہ کی میراث نہیں، یہ ہر اس شخص ، سوچ اور ارادے کا نام ہے جو کسی دوسرے پر اس کی مرضی کے خلاف مسلط کردیا جائے۔

ستم ظریفی کہ لیں یا سازش کہ طالبانائزیشن کو اسلام کے ساتھ نتھی کر کے اسلام کی غلط شبیہ دنیا کے سامنے پیش کی گئی ہے، جبکہ اس کا اسلام سے کوئی لینا دینا نہیں، اسلام امن کا مذہب ہے اور کسی زور زبردستی کا درس نہیں دیتا، اسلام محبت اور اخوت کا مذہب ہے، اسلام کسی کی گردن کاٹنے اورعورتوں، بچوں کے قتل و غارت جیسے قبیح افعال کی اجازت نہیں دیتا۔ اس کے بر عکس اسلام ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل سے تعبیر کرنے والا دین ہے۔

طالبانی سوچ کے حامل افراد ہر قوم، ملک، مذہب اور فرقے میں موجود ہیں، اب آپ اس کو ٹرمپ سے تعبیر کریں یا ملا عمر سے یا پھر خود سے۔ ہم سب ان میں شامل ہیں ہاں کچھ ذرا زیادہ سوچ رکھتے ہیں کچھ کم مگر کہیں نا کہیں یہ سوچ ہم سب میں موجود ہے اور اکثر اپنا جلوہ دکھاتی ہے، یہ وہ جنگِ مسلسل ہے جو ہم ہر روز خود سے لڑتے ہیں

اب سوال یہ ہے کہ اس سوچ کا مقابلہ کیسے کیا جائے اور اس جنگِ مسلسل سے نجات پائی جائے، تاکہ یہ ناسور ہمارے معاشرے سے ہمیشہ کیلیئے دفعان ہو جائے اور اس ذلت سے جان خلاصی ہو۔ میرے خیال میں اس کا آغاز ہمیں کہیں اور سے نہیں خود سے کرنا ہوگا، اپنے آپ سے، اپنے گھر سے مانا کہ یہ آسان کام نہیں خود احتسابی دنیا کا سب سے مشکل کام ہے لیکن آغاز تو کرنا ہے نا پھر انتظار کیوں!

بقول غالب
عمر بھر ہم یونہی غلطی کرتے رہے غالب
دھول چہرے پر تھی اور ہم آئینہ صاف کرتے رہے

Qasim Raza Naqvi
About the Author: Qasim Raza Naqvi Read More Articles by Qasim Raza Naqvi: 42 Articles with 54146 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.