تحریر: ڈاکٹر حامد حسن حامی ، بہاولپور
وہ نہایت خوفناک حادثہ تھا، موٹرسائیکل ٹرک کے نیچے آکر پلیٹ سی بن گئی
تھی۔ سوار کی خوش نصیبی کہ وہ جھٹکا لگتے ہی اچھل کر دور جا گرا تھا۔ بے شک
اسے اچھی خاصی چوٹیں لگی تھیں اور وہ بیہوش بھی ہو گیا تھا۔ لیکن ریسکیو
والوں کو بروقت فون کر دیا گیا تھا اور ان کی مہیا کردہ ابتدائی طبی امداد
سے فوری خطرہ بھی ٹل گیا تھا۔ فون رمضان نے کیا تھا کہ زخمی کی جان بچ جائے
ورنہ کون سا اس سوار نے اسے اجرت دینی تھی۔ اس بے غرض امداد نے ایک جان بچا
لی۔
وزیر کی آمد پر تمام راستے بلاک تھے، دیر تو ہونی ہی تھی۔ وہ ابتدائی طبی
امداد کی بدولت ہی اتنا وقت نکال سکا تھا۔ ڈاکٹرز کہہ رہے تھے۔ والد اور
بھائی آپریشن کے انتظامات میں لگے ہوئے تھے۔ خون کا بندوبست کیا، بازار سے
کچھ ضروری اشیاء لائے، نرسوں اور ڈاکٹروں کے اشاروں کی پیروی کی اور پھر
آپریشن تھیٹر میں رشید کی منتقلی۔ اب وہ بارگاہ خداوندی میں رشید کے لیے
دعاگو تھے۔ بیوی رضیہ اور ماں نوافل پڑھ پڑھ رشید کی زندگی کی دعائیں مانگ
رہی تھیں۔ خدا کے نام لیوا آج عبادت کر رہے تھے۔
حادثہ، ابتدائی طبی امداد اور پھر راستوں کی رکاوٹیں، وہ زندگی کے پندرہ
میں سے نو اسکور کے ساتھ آپریشن تھیٹر میں آیا تھا۔ آپریشن ایسے ہوا کہ دل
کی دھڑکن مدھم، فشار خون بہت کم اور حواس نابود تھے، حالانکہ اس حالت میں
’’بیہوشی‘‘ ممکن نہیں تھی۔ کڑا امتحان تھا بیہوشی والے ڈاکٹر اور سرجن کا۔
سر میں خون جاری تھا جسے روکا نہ جاتا تو موت یقینی تھی لیکن آپریشن کامیاب
ہوا اور مریض زندگی کے 15میں سے 12سکور کے ساتھ وارڈ منتقل ہوگیا۔ سب خوش
کہ مزید 4گھنٹوں بعد وہ ہوش میں تھا۔
رشید کی بلائیں لی جا رہی تھیں، حادثہ کیا تھا، وہ موت کے منہ سے واپس آیا
تھا۔ سر کی اندرونی چوٹ، پھر آپریشن لیکن اب سب ٹھیک تھا۔ ماں، باپ، بھائی
اور بیوی سب نے گھیرا ہوا تھا۔ خوب محبت لٹائی جارہی تھی۔ ڈاکٹر نے چھٹی دی
اور وہ گھر واپس آگئے۔ بھائی اپنے گھر چلا گیا، ماں اپنے گھر اور باپ اپنے
کام پر۔ بیوی بھی شوہر کی تیمارداری کے لیے آئے ہوئے اپنے والدین کی خدمت
میں جت گئی تھی۔ غرض دیوانی ہے لیکن ساتھ ہی کسی کا بھلا ہو جائے تو کیا
برا ہے؟
رمضان نے فون کرنے سے پہلے حادثے کی باتصویر رپوررٹ بھیج کر اپنی روزی کھری
کرلی۔ رشید کے گھر والے رشید کی زندگی کے لیے اپنے خالق کے قریب کیا ہوئے،
پروردگار نے ان کی سن لی۔ بروقت آپریشن کے بعد ڈاکٹر حضرات بھی ٹھیک وقت پر
اپنے گھر روانہ ہوئے۔ اﷲ نے کرم کیا۔ رشید کی صحت یابی کے بعد زندگی پھر
اپنی ڈگر پر رواں دواں ہوگئی۔ غرض دیوانی ہے لیکن ساتھ ہی کسی کا بھلا ہو
جائے تو کیا برا ہے؟
|