بلاشبہ تعلیم ایسا زیور ہے جس کے بغیر انسان کسی
بھی شعبہ زندگی میں آگے نہیں بڑھ سکتا۔آئین پاکستان کی شق 25-A کے مطابق
ریاست پانچ سے سولہ سال تک کی عمر کے بچوں کو مفت اور معیاری تعلیم لازمی
فراہم کرنے کی پابند ہے، اس حوالے سے ہر دور حکومت میں خواہ وہ جمہوری دور
ہو یا آمریت ، تعلیم کو عام کرنے کے بلند و بانگ دعوے کیے گئے، تعلیمی
پالیسیاں بنائی جاتی رہیں، جن میں سے بعض تو منظرعام پر بھی نہ آسکیں،
1947ء سے لے کر آج تک لگ بھگ22 تعلیمی پالیسیوں اور منصوبوں کا اجراء ہوا،
ذرائع تعلیم پر نئے نئے تجربے آزمائے گئے جو کہ آج بھی جاری ہیں۔ لیکن ہم
ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کرپائے کہ ذریعہ تعلیم انگریزی ہو ، سرکاری و مادری
زبان اردو یا کہ علاقائی زبانوں میں تعلیم دی جائے؟ اور جب تک ہم اس بنیادی
مسئلے کو طے نہیں کرتے، ہم قطعاً درست سمت میں آگے نہیں بڑھ سکتے۔اقوام
متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے چالیس فیصد طلبہ اپنی مادری زبان میں
تعلیم حاصل نہیں کررہے جو کہ تعلیم کے حصول میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ سترہ
نومبر 1965ء کو اقوام متحدہ کے تعلیم، سائنس اور ثقافت کے ادارے یونیسکو کی
جنرل کانفرنس کے دوران اعلان کیا تھا کہ ہر سال 8 ستمبر کو خواندگی کا
عالمی دن منایا جائے گا اور پہلی مرتبہ یہ دن 1966ء میں منایا گیا تھا۔ 8
ستمبر کے دن پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم خواندگی منانے کا مقصد
دنیا بھر میں موجود کروڑوں ناخواندہ افراد کو تعلیم کی اہمیت سے روشناس
کروانا ہے، اس دن انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی مختلف تنظیمیں اور
این جی اوز خواندگی کے حوالے سے تقاریب اور ایونٹس منعقد کرتی ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق پاکستان شرح خواندگی کے
لحاظ سے دنیا کے 120 رکن ممالک میں 113 ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان میں تعلیم
کے لیے کام کرنے والی معروف سماجی تنظیم ’’الف اعلان‘‘ کے حالیہ اعداد و
شمار کے مطابق پاکستان میں 10 سال اور اس سے زیادہ عمر کی آبادی میں
خواندگی کا تناسب 58 فیصدہے ۔ شہری علاقوں میں شرح خواندگی 74 فیصد جبکہ
دیہی علاقوں میں 49 فیصد ہے۔ صوبہ پنجاب میں خواندگی کا تناسب 62 فیصد جبکہ
سندھ میں 55 فیصد ، خیبر پختونخوا میں خواندگی کا تناسب 53 فیصد جبکہ
بلوچستان میں 41 فیصد ہے۔پاکستان میں اس وقت پرائمری اسکول جانے کی عمر کے
تقریباً 56 لاکھ طلبہ اسکو ل جانے سے قاصر ہیں ، جبکہ لوئرسیکنڈری اسکول
جانے کی عمر کے تقریباً 55 لاکھ بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔ دوسری جانب
بلوغت کی عمر کو پہنچتے ایک کروڑ سے زائد نوجوان اپر سیکنڈری اسکول جانے سے
محروم ہیں۔ مجموعی طور پر یہ تعداد دو کروڑ کے لگ بھگ بنتی ہے۔پاکستان میں
آبادی کے لحاظ سے اسکول جانے والے طلبہ میں صنفی تفریق بھی بہت زیادہ ہے۔
اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے کی جانب سے کیے گئے سروے کے مطابق پاکستان
کے دیہات میں رہائش پذیر 64 فیصد لڑکے اسکول جاتے ہیں جبکہ تصویر کا دوسری
رخ انتہائی تشویش ناک ہے یعنی دیہاتی لڑکیوں کے اسکول جانے کا تناسب محض 14
فیصد ہے۔ اس طرح پاکستان میں اس وقت 10 سال اور اس سے زیادہ عمر کی آبادی
میں خواندگی کا تناسب 58 فی صد ہے۔ حالیہ برسوں میں دو مرتبہ یہ شرح 60
فیصد تک پہنچی لیکن پھر نیچے آ گئی۔ جو بچے سکول جاتے بھی ہیں، ان کو فراہم
کی جانے والی تعلیم بھی کچھ زیادہ معیاری نہیں ۔48 فیصد سکولوں کی عمارتیں
خطرناک اور خستہ حال ہیں، جن کو فرنیچر، ٹوائلٹس، چار دیواری، پینے کے صاف
پانی اور بجلی کی کمی کا سامنا ہے۔ تعلیم کے میدان میں تازہ ترین صورت حال
یہ ہے کہ ملک بھر میں اس 260,903تعلیمی ادارے سرگرم عمل ہیں جہاں
41,018,384 طلباء وطالبات کو تعلیم دینے کے لئے 1,535,461اساتذہ فرائض
منصبی سرانجام دے رہے ہیں۔ ان تعلیمی اداروں میں 180,846 ادارے پبلک سیکٹر
جبکہ 80,057ادارے پرائیویٹ سیکٹر میں کام کر رہے ہیں، دوسرے لفظوں میں
69فیصد ادارے پبلک سیکٹر جبکہ 31فیصد ادارے پرائیویٹ سیکٹر میں مصروف عمل
ہیں۔ کہیں چاردیواریوں،ٹوائلٹ اور بینچوں کے بغیر سکول ہیں تو کہیں ڈالروں
میں فیسیں لینے والے ائیرکنڈیشنڈسکول۔ ایک غیر سرکاری سروے کے مطابق
پاکستان میں رجسٹرڈ مدرسوں کی تعداد 12 ہزار ہے جبکہ غیر رجسٹرڈ مدرسوں کی
تعداد حیرت انگیز طور پرا س سے کئی فیصد زیادہ ہے۔ ایک محتاط اندازے کے
مطابق مدرسوں میں زیر تعلیم طلبہ کی تعداد 80 لاکھ سے زائد ہے۔
پاکستان جنوبی ایشیا میں تعلیم پر کم سرمایہ خرچ کرنے والا ملک ہے۔حکومت کی
طرف سے اس شعبے میں خاطر خواہ فنڈ مختص نہ کئے جانے کے سبب پاکستان میں
تعلیم کا شعبہ بزنس کی شکل اختیار کر گیا ہے اور گلی گلی میں کوٹھیوں
چوباروں میں تعلیمی ادارے کھل گئے جہاں فیسیں تو بٹوری جاتی ہیں مگر تعلیم
کا نشان تک نہیں ملتا۔ جب کسی بھی دوسرے تجارتی ادارے کی طرح تعلیمی ادارے
کا اولین مطمع نظر بھی زیادہ سے زیادہ منافع کمانا ہو تو وہ طلباء کو گاہک
ہی تصور کرے گا۔ پاکستان میں شرح خوانداگی کا محض 58 فیصد ہونا ملک کی
معاشی ترقی کے حصول کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ بلاشبہ خواندگی پائیدار
ترقی کے لئے انتہائی ضروری ہے اور بنیادی عناصر میں کلیدی اہمیت رکھتی ہے۔
خواندگی ہی انسانوں کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ اقتصادی نمو، سماجی ترقی اور
تحفظ ماحول کے سلسلے میں درست فیصلے کر سکے، خواندگی ایک ایسی بنیاد فراہم
کرتی ہے جس کے سہارے انسان ساری عمر سیکھ سکتا ہے اور ایک خوشحال اور پر
امن معاشرہ تشکیل دے سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ملک کی تعمیر و
ترقی میں تعلیم کے کردا ر کی اہمیت سمجھتے ہوئے جنگی بنیادوں پر کام شروع
کرے اور نصاب کو جدید دور سے ہم آہنگ کرکے تمام بچوں کے لیے کم ازکم میٹرک
تک مفت تعلیم کاحصول یقینی بنائے، کیونکہ پاکستان میں نظام تعلیم کی دیکھ
بھال، نصاب پر تحقیق، نصاب کی تدوین و توثیق، تعلیمی سرمایہ کاری کے فیصلے
وفاقی حکومت کی وزارت تعلیم اور صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ آخر میں
بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا خطاب ملاحظہ ہو، آپ نے 27 دسمبر
1947ء کو کراچی میں پاکستان ایجوکیشن کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ
’’آپ تعلیم اور اچھی تعلیم کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ بیرونی تسلط کے
باعث گزشتہ ایک صدی تک ہمارے لوگوں کی تعلیم پر توجہ نہیں دی گئی۔ حقیقی
اور جلد ترقی کے لئے اس مسئلہ کا دیانتداری سے حل تلاش کرتے ہوئے تعلیمی
پالیسی اور پروگرام کو عوام کے شعور سے ہم آہنگ کرنا ہو گا۔ تعلیم ایسی ہو
جو ہماری تاریخ ، کلچر اور جدید تقاضوں اور دنیا میں ہونے والی ترقی سے میل
کھاتی ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ریاست کا مستقبل عوام کو دی جانے والی
تعلیم پر منحصر ہے ، اور اس طریق پر منحصر ہے کہ ہم کس طرح اپنے بچو ں کو
پاکستان کے اچھے شہری بناتے ہیں‘‘۔ انہو ں نے مزید واضح کیا کہ ’’تعلیم کا
مطلب صرف حصول علم ہی نہیں، ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کی کردار سازی کرنا
ہے۔ ہمارے معاشی جسد میں جان ڈالنے کے لئے سائنس اور ٹیکنیکل تعلیم کی اشد
ضرورت ہے۔ ہمیں سائنس ، معاشیات ، شماریات اور انڈسٹری کی تعلیم حاصل کرنا
ہو گی۔ یاد رہے ہمیں دنیا کے ساتھ چلنا ہے جو اس سمت میں بہت تیزی سے بھا گ
رہی ہے۔ میں تاکید کروں گا کہ ٹیکنیکل اور ووکیشنل تعلیم پر توجہ دی
جائے‘‘۔ |