اوڑھنی ( آٹھویں قسط)۔

تنویر اپنی گہری آواز میں بولا:
میرا نام تنویر الرحمان ہے، میں نے امرتسر کے ایک نواحی گاوں میں ایک بڑے زمیندار کے گھر میں آنکھ کھولی ۔ چونکہ میں اپنے بڑے بھیا جنھیں میں پیار سے آکا بھیا کہتا تھا ان سے دس سال چھوٹا تھا اس لیے سب کی آنکھوں کا تارا تھا۔ میری بے بے یعنی کہ میری والدہ ایک کم پڑھی لکھی مگر دیندار عورت تھیں ۔ میرے باوجی یعنی کہ میرے والد اس وقت کے مڈل پاس تھے جو شاید قابلیت میں آج کل کی ڈگری ہولڈر کے برابر ہوں ۔ہماری کوٹھی لال حویلی کے نام سے علاقے بھر میں مشہور تھی اس کی وجہ یہ تھی کہ پوری کوٹھی لال اینٹوں سے تعمیر کی گئ تھی ۔حویلی میں ایک طرف زنان خانہ تھا اور ایک طرف مردان خانہ تھا۔ بیچ میں وسیع وعریض دالان تھا۔ جس میں ایک طرف مویشیوں کا باڑا، اناج کی کوٹھڑی اور ایک طرف بے بے کا باورچی خانہ تھا۔ مہمان خانہ ہمارے گھر کے ارد گرد پھیلے وسیع وعریض باغ کے ایک کونے پر واقع تھا۔ وہ شرم وحیا کا زمانہ تھا، مردان خانہ اور زنان خانہ علیحدہ ہر گھر میں تھے،اس باعث اخلاقی انحطاط بھی نظر نہیں آتا تھا۔ ہمارے پڑوسی سکھ اور ہندو گھرانوں سے مثالی تعلقات تھے، سب ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے۔ ہندو اور سکھ عورتیں بھی گھونگھٹ نکالے نظر آتی تھیں ۔میں نے تیرہ سال کی عمر میں قرآن پاک نہ صرف حفظ کیا بلکہ ترجمہ اور تفسیر بھی مکمل کرلی ۔میری آمین کی تقریب میں میری نسبت میری چچازاد سکینہ کے ساتھ کردی گئی ۔اسی تقریب میں پہلی بار میرے کانوں میں آکا بھیا اور میرے چچا زاد بھائی سبتین علی کے سیاسی نظریات میرے کانوں میں پڑے، میں نے ان کی قائد اعظم محمد علی جناح سے عقیدت کو غلط سمجھا اور دل ہی دل میں علی گڑھ یونیورسٹی سے متنفر ہوگیا۔ مجھے خوف تھا کہ میرے بھائی غداری کے الزام میں گرفتار ہوکر کہیں پھانسی نہ چڑھا دئے جائیں ۔مجھے اس وقت دو قومی نظریہ غلط لگتا تھا ۔ تنویر ایک دم سے حاضرین کی طرف متوجہ ہوکر بولا:
آپ لوگوں کو دو قومی نظریہ بتا ہے؟
تمام حاضرین محفل ایک دوسرے کے منہ تک رہے تھے ۔تنویر کے اوپر یہ آگاہی ہوئی کہ نئی نسل دو قومی نظریے سے واقفیت ہی نہیں رکھتی ۔علیشاہ بڑی بے صبری سے بولی:
" ددو! یہ دو قومی نظریہ کیا ہے؟
تنویر بے ساختہ بولا:
کبھی تم نے ہنسوں کو کووں کے ساتھ اڑتے دیکھا ہے؟
سب نے نفی میں سر ہلایا ۔ہاشم بے ساختہ بولا:
Birds of flock flies together.
تنویر بولا:
میرے پیارے بچوں! اسی طرح مسلمانوں کا رہن سہن، تمدن ،مذہب ہر چیز ہندووں سے مختلف تھی،ہے اور رہے گی۔ اس بنیاد پر دو قومی نظریہ استوار ہوا تھا۔
تنویر نے اپنا رخ پھر اپنی کہانی کی طرف موڑا ،تنویر بولا :
ہمارے بڑے بھی میرے بھائیوں کی سیاسی وابستگیوں سے خوفزدہ تھے، اس لئے انھوں نے دونوں بھائیوں کی شادی کا فیصلہ کرلیا۔ میرے چچا جان بھی لدھیانہ سے گھر بار بیچ کر ہمارے نزدیک ہی آگئے۔ بھائیوں کو دنوں میں شادی کے بندھن میں باندھنے کا فیصلہ کیا گیا ۔میرے تو خوشی کے مارے پاوں زمین پر ہی نہ ٹکتے تھے۔
مغرب کی اذان سن کر تنویر نے کہا:
باقی کہانی کل سناونگا ۔اب میری نماز کا وقت ہوگیا ہے۔
تمام لڑکے لڑکیاں بڑے ہی بجھے ہوئے دل سے بارہ دری سے اٹھے، کیونکہ وہ مزید کہانی سننا چاہتے تھے ۔ان سب کی آنکھوں کے آگے یہ سوال تھا کیا عقد کا بندھن وجیہہ و شکیل بھائیوں کو اپنے مقصد سے ہٹا سکے گا ؟
اس راز سے پردہ تو اگلی قسط میں ہی اٹھے گا۔
(باقی آئندہ )۔
 

Mona Shehzad
About the Author: Mona Shehzad Read More Articles by Mona Shehzad: 168 Articles with 281061 views I used to write with my maiden name during my student life. After marriage we came to Canada, I got occupied in making and bringing up of my family. .. View More