شہر کا شہر مسلماں ہوا پھرتا ہے

‎“شہر کا شہر مسلماں ہوا پھرتا ہے”
پہلے دن سے ہی ان دونوں کی آپس میں نہیں بنتی
تھی،شاید اس لیئے کہ حمزہ پڑ ھائی کے ساتھ ساتھ شکل کا بھی علی سے بہتر تھا،اس لئے علی کو وہ ایک آنکھ نہ بھاتا تھا۔۔۔۔
ہر سال جب حمزہ امتحان میں زیادہ نمبر لاتا اور اساتذہ کے ساتھ ساتھ دوست حضرات بھی اس کی تعریفوں کے پُل باندھتے تو علی اندر ہی اندر کُڑھ کر رہ جاتا...میں اس چیز کو واضح محسوس کرتا مگر جانتا تھا کی علی اس کو کوئی نقصان نہیں پحنچا سکتا کیونکہ جسمانی لحاظ سے دبلا پتلا ہونے کے ساتھ ساتھ وہ مالی اور معاشی لحاظ سے بھی زیادہ مضبوط نہیں تھا...
پچھلے مہینے کی بات ہی تو ہے جب حمزہ میرے کمرے میں آیا اور “سیرت النبی” کتاب اُٹھا کر لے گیا،کہنے لگا “میڈیکل کی کتابیں پڑھ پڑھ کر دماغ الٹا پلٹا ہو گیا ہے”،کچھ ٹائم کیلئے اپنے پیارے نبی کی سیرت کا مطالعہ کرنا چاہتا ہوں،دو دن گزر گئے نہ اس نے کتاب واپس کی نہ میں نے واپسی کا مطالبہ کیا کہ جانتا تھا کہ کافی لمبی کتاب ہے پڑھنے میں وقت تو لگے گا ہی...
خیر میں کچھ دن کیلئے گھر چلا گیا،میسیج اور کال پر حمزہ سے بات ہوتی رہتی اور اس کے لہجے اور الفاظ سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ کتاب نے اس کے دل پر بہت اثر کیا ہے
دو ہفتے بعد گھر سے واپسی ہوئی،شام میں ہاسٹل کے کمرے میں لمبی تان کر میں سو رہا تھا جب باہر شور شرابا سنا..کھڑکی سے گلی میں نظر دوڑائی تو مسجد کے سامنے رش لگا ہوا دیکھا..تجسس بڑھا تو کمرے سے باہر نکلا اور ہاسٹل کے گیٹ سے باہر قدم نکالتے ہی “فیکے نائی” پر نظر پڑی،رش کے بارے میں دریافت کِیا تو کہنے لگا “کی دسیے ڈاکٹر صاحب،ایک مُنڈے نے رسول(ص) دی شان وِچ گستاخی کیتی آ،سارے مل کے اونوں سبق سکھا رے آ ہُن”
رش کو چیرتا ہوا میں آگے بڑھا تو مسجد کے گارڈ کو دیکھا جس کے ہاتھ میں ایک بڑا سا پتھر پکڑا ہوا تھا،مجھے دیکھ کر میری طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا “آئو ڈاکٹر صاحب تُسی وی ثواب لے لو،آ لو پتھر تے مارو اینو”....
پوچھا کہ لڑکا بیچارا ہے کون اور کیوں مار رہے ہو،جواب سائیڈ پر کھڑے رکشے والے نے اپنا خون آلود ڈنڈا زمین پر رکھتے ہوا دیا کہ “مولوی صاحب آج نماز کے بعد فرما رہے تھے کے ہماری اس کالونی میں ایک “قادیانی فیملی” شفٹ ہوئی ہے،شام کو ہم سب مسلمان لوگ جائیں گے اور اس فیملی کو دھکے دے کر اپنی اس پاک مسلمان کالونی سے نکالیں گے...سب لوگوں نے اپنی ایمان کی حرارت بڑھاتے ہوئے مولوی صاحب کی ہاں میں ہاں ملائی۔۔۔۔۔۔۔جبکہ وہ اپنا ہاسٹل کا لڑکا ہے نا،حمزہ،ڈاکٹر صاحب اس نے مولوی صاحب سے بحث کرنا شروع کردی کہ ایسا کرنا غلط ہے اور کہنے لگا کہ اسلام اس چیز کی اجازت نہیں دیتا..مولوی صاحب سے زبان لڑا رہا تھا جی،وہ تو بھلا ہو علی صاحب کا جنہوں نے فوراً “ختمِ نبوت زندہ باد” کا نعرہ لگایا اور سب نمازیوں نے مل کر اس حمزہ کو سبق سکھا دیا جی...
میں نے ڈوبتے دِل سے اردگرد نظر دوڑائی تو کئی لوگ،جن میں راہگیر بھی شامل تھے،”گستاخ حمزہ” پر پتھروں کے ساتھ ساتھ لعنت ڈال کر اپنے ایمان کو تروتازہ کرتے دکھائی دیے،ایک کونے میں علی کھڑا مسکرا رہا تھا،شاید حمزہ کی بے بسی کو دیکھ کر یا لوگوں کی عقل کے جنازے کی دھوم دیکھ کر یا پھر ایک نہایت آسان طریقے سے حمزہ کے ساتھ اپنی دشمنی نکالنے کی کامیابی پر۔۔۔
اتنے میں رات کی تاریکی چھانے لگی تو لوگوں کا ہجوم بھی چھٹنے لگا کیونکہ “ویک اینڈ” ٹائم تھا اور کچھ لوگوں کو اپنی فیملی کے ساتھ “سنیما” دیکھنے جانا تھا ،کچھ لوگوں کو “نائیٹ پارٹی” کیلئے “سپلائر” سے رابطہ کرنا تھا اور رکشے والے کو اپنے احباب کے ساتھ “اسٹیج ڈرامے” کا نیا شو دیکھنے جانا تھا۔۔۔
کچھ دیر میں پولیس کی گاڑی آئی اور حمزہ کی لاش کو لے کر چلتی بنی کہ “معزز مسلمانوں”کے خلاف کاروائی کر کے وہ بھی گنہگار نہیں بننا چاہتے تھے...حمزہ کی خون میں لت پت لاش اور سینے سے لگائی ہوئی “سیرت النبی” کے کتاب،شاید مجھے یہ کہ رہے تھے اپنا خیال رکھنا،یہاں تمارے سِوا سبھی “عاشقِ رسول” ہیں،اپنی حفاظت کرنا ایسے لوگوں سے کیونکہ یہ دین کے ٹھیکیدار “مصلحت” اور “برداشت” کے نام سے ناواقف ہیں۔۔۔۔۔۔۔

Aadil Mahmood
About the Author: Aadil Mahmood Read More Articles by Aadil Mahmood: 6 Articles with 5742 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.