آزر عرف طیفے کا جسم ٹوٹ رہا تھا، اس کی آنکھوں کے آگے
سرخ، نیلے ،پیلے دھبے ناچ رہے تھے۔وہ اپنے جسم کو اپنے ہی دانتوں سے کاٹ
رہا تھا ۔ اس نے گزشتہ تین دن سے کچھ کھایا نہیں تھا۔اس وقت اس کی آرزو صرف
ہیروئین سے بھری ایک سرنج تھی۔
صبح کے وقت اسکول جاتے معصوم بچوں نے گندے نالے کے کنارے ہیرونچی کی قے میں
لتھڑی ہوئی لاش دریافت کی۔بچوں کے شور مچانے پر لوگ اکٹھے ہوکر کہنے لگے :
"طیفا ہیرونچی آخرکار مر ہی گیا۔"بچے معصومیت سے ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے
یہ ہیرونچی کیا ہوتا ہے؟جلد ہی بلدیہ کے خاکروب پہنچ گئے انھوں نے بڑبڑاتے
ہوئے اپنے منہ پر ڈھاٹے باندھ اور لاش کو میونسپلٹی کے کچرے والے ٹرک میں
ڈالا اور مردہ خانے لے گئے ۔منشیات کے عفریت نے آج پھر ایک گھر کا چراغ
بجھا دیا تھا۔ خدارا اپنے بچوں کو اس علت سے خبر دار کیجئے ۔یہ عفریت
منشیات بے شمار زندگیاں نگل چکا ہے اور بے شمار نگلنے کے لئے بے تاب ہے۔
"دوسری کہانی "
ناز اپنے ڈرائیور شریف کے آگے ہاتھ جوڑ رہی تھی۔وہ تڑپ رہی تھی۔
"شریف خدارا مجھے سوٹا لگوا دو میرا جسم ٹوٹ رہا ہے۔"
شریف خباثت سے مسکرایا اور آنکھ دبا کر بولا :
"مجھے خوش کردے ،میں تجھے خوش کر دونگا "
ناز نے بلاپس وپیش سپر ڈال دی ۔ نشہ ملنے کے بعد جب ناز ہوش میں آئی تو اس
کو احساس ہوا کہ وہ گناہ کی کس دلدل میں غرق ہوچکی ہے۔
آج ناز کی لاش جب اس کے والدین کو اس کے کمرے سے پنکھے سے لٹکی ہوئی ملی تو
وہ سمجھ نہ سکے کہ ان کی محبت اور تربیت میں کیا کمی رہ گئی تھی ۔جو ان کی
بیٹی نے خودکشی کرلی۔ منشیات کے عفریت نے ایک اور گھر کی روشنی گل کردی۔کیا
آپ کے بچے اس عفریت سے محفوظ ہیں؟ |