ایگرو اکانومی یا زرعی معیشت کی بہتری شائد پاکستانی
پالیسی سازوں اور حکمرانوں کی پہلی ترجیح نہیں باوجود اس حقیقت کے کہ
پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اور کل قومی پیداوار میں زراعت
کاحصہ 24%ہے ۔پاکستان کی 68%آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے جن میں سے 45%فیصد
لوگ پیشہ زراعت سے منسلک ہیں ۔ کپاس، گندم، چاول، گنا اور دوسری نقدآور
فصلیں(cash crops)کثیر تعداد میں زرمبادلہ کمانے کا ذریعہ ہیں۔ 1960کی
دہائی میں زراعت 5.1فیصد کے حساب سے growکر رہی تھی جو ہماری ناقص پالیسیوں
اور عدم توجہ کی بنا پر بڑھنے کی بجائے گرتے گرتے 2009-2010میں 2.2فیصد پر
آگئی ۔اس وقت زراعت کتنے فیصد پر growکر رہی ہے پاکستان ادارہ شماریات یہ
بتانے سے قاصر ہے ۔ ایگرو اکانومی صرف کھیتی باڑی کا نام نہیں بلکہ یہ ایک
وسیع اصطلاح ہیں جس میں ڈیری فارمنگ، فش فارمنگ، پولٹری ،لائیو اسٹاک اور
ماحولیات بھی شامل ہیں ۔ آج جس مہنگائی ، ماحولیاتی آلودگی ، پانی کی قلت
اور توانائی کے بحران کاسامنا ہم کر رہے ہیں اسکی بنیادی وجہ ایگرو اکانومی
کو back burnerپر ڈالنا ہے ۔
1996تک پاکستان میں توانائی کا کوئی بحران نہیں تھالیکن پھر ہم نے بغیر
سوچے سمجھے اور یہ جانے کہ انڈسٹری ، فیکٹریاں اورشوگر ملیں چلانے کیلئے
تیل، بجلی اور گیس مناسب مقدا ر میں موجودہے یا نہیں ، ملک کو زراعت سے
صنعت کی راہ پر ڈال دیا اور توانائی کے دستیاب وسائل کو over utilizeکرنا
شروع کر دیا جبکہ نئے وسائل generateکرنے کی طرف دھیان ہی نہیں دیا نتیجہ
رفتہ رفتہ ٹیوب ویل چلانے کیلئے بجلی اور گھر کا چولہا جلانے کیلئے گیس
ناپیدہوتی گئی اور جو انڈسٹریل یونٹس لگائے گئے وہ بند ہوئے سو الگ۔ اب
زراعت زبوحال ہے اور انڈسٹری کو چلانے کیلئے خاطر خواہ توانائی کے وسائل
دستیاب نہیں'نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم ۔نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے ہم '۔
نہ زراعت بچی نہ انڈسٹری چلی ۔
جب ایک چیز کو ٹھیک کرنے کی بار بار کوشش کی جائے اور وہ پھر بھی ٹھیک نہ
ہو تو سمجھ جانا چاہیے کہ یا تو ٹھیک کرنے کا طریقہ کار غلط ہے یا ٹھیک
کرنے والے نا اہل ہیں یا پھر اس چیز میں کوئی ایسی بنیادی خرابی ہے جس کو
ٹھیک کیئے بغیر آگے نہیں بڑھا جا سکتا ہے ۔ پچھلی دو دہائیوں سے معیشت کو
ٹھیک کرنے کی کوشش ہو رہی ہے لیکن یہ ٹھیک ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ،
آخر کیوں؟میں یہ نہیں کہتا کہ ٹھیک کرنے والے نا اہل ہیں یا انکا طریقہ کار
غلط ہے بلکہ میں ا س نقطہ پر فوکس کرتا ہوں کہ پاکستانی معیشت میں ایک جو
بنیادی خرابی پیدا کی گئی تھی اسے ٹھیک کرنے کی کوشش نہیں کی گئی اور اب
بھی نہیں کی جا رہی ۔ وہ بنیادی خرابی ہے زراعت کو نظر انداز کرنا ۔ جیسا
کہ میں نے ابتدا میں بیان کیا کہ پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے
اور ہماری اکانومی زراعت پر baseکرتی ہے ۔ زراعت سے نہ صرف خوراک حاصل ہوتی
ہے بلکہ صنعت کو چلانے کیلئے خام مال بھی یہی سے آتا ہے ۔ زراعت کی اہمیت
کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ شعبہ پاکستان میں خوراک کی
17%سے زائد ضروریات کو پورا کرتا ہے جبکہ پاکستان کی 60فیصد انڈسٹری بھی
خام مال کیلئے زراعت پر ہی انحصار کرتی ہے ۔ جب ایک شعبہ اتنا اہم ہو تو
اسے نظر انداز کرکے معیشت کو ٹھیک کرنے کی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی ۔
گزشتہ سالوں میں بنیادی استعمال اور خورد و نوش کی اشیاء کی قیمتوں میں
200فیصد تک اضافہ ہوا ۔معاشیات کا سادہ سا اصول جو ہر طالبعلم جانتا ہے کہ
جب طلب زیادہ اور رسد کم ہو تو قیمت بڑ ھ جاتی ہے اور جب صورت حال اسکے بر
عکس ہو تو قیمت کم ہو جاتی ہے ۔ جب زرعی شعبے کو نظر انداز کر دیا گیا تو
زیادہ نقصان چھوٹے کسانوں یا جن کے پاس تھوڑی زمین تھی انکا ہوا یہاں تک کہ
وہ اپنے کھانے کیلئے بھی اناج اگانے سے قاصر ہوگئے ۔کوئی ان کی مدد کو نہ
آیا ، بیج ، کھاد ،زرعی ادویات ، فصلوں کیلئے پانی کا حصول انکی پہنچ سے
باہر ہوگیا ۔لاگت اور اخراجات بڑھ گئے تو اناج کے دام بھی اوپر چلے گئے ،
پیداوار جو متاثر ہوئی سو الگ۔ اب قیمتوں میں اضافہ توہونا ہی تھا۔ ملک میں
مہنگائی کا وہ سیلاب آیا جو آج تک تھم نہ سکا ۔ دفتروں میں بیٹھے بابو اور
ارباب اختیار مصنوعی طریقوں سے مہنگائی کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے رہے،
اجناس کے سرکاری دام مقرر کیئے جاتے رہے جن پر کبھی عمل نہ ہوا اور ہوتا
بھی کیسے جب ایک شے کی طلب اور رسد میں فرق ہو،اوپر سے لاگت بھی زیادہ ہو
تو اسکی قیمت کو کنٹرول کرنا حکومتوں کے بس کی بات نہیں ہوتی کیونکہ کسی شے
کی بازاری قیمت کا تعین market forcesکرتی ہیں حکومتیں نہیں ۔البتہ حکومت
سبسڈائز کرکے عوام کو تھوڑا بہت ریلیف دلاسکتی ہے اور یہی پیپلز پارٹی اور
نون لیگ کی سابقہ دونوں حکومتیں کرتی رہیں۔ اشیاء کی قیمتیں تو اپنی رفتار
سے بڑھ رہی تھیں لیکن یہ دونوں حکومتیں سبسڈی دیکر قیمتوں کومستحکم اور
عوام کے غصے کو ٹھنڈا رکھنے کی کوشش کرتی رہیں ۔ کسی نے زرعی اور صنعتی
پیداوار بڑھانے کیلئے کوئی ٹھوس اقدام نہ لیا۔
زرعی اجناس کی کم پیداوار نے ایک طرف عام آدمی کو دووقت کی باعزت روٹی کے
حصول کیلئے ترسنے پر مجبور کیا تو دوسری طرف ملکی صنعتی پیداوار کو بھی بری
طرح متاثر کیا ۔ جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا کہ پاکستان کی 60فیصد صنعت
خام مال کیلئے زراعت پر انحصار کرتی ہے جس میں شوگر، ٹیکسٹائل اور کاٹن
انڈسٹری اہم ہے ، کم زرعی پیداوار ان صنعتوں کیلئے بھی زہر قاتل ثابت ہوئی
۔کم زرعی پیداوار، کم خام مال کی فراہی کا سبب بنی اور اسطرح اس خام مال کے
استعمال سے بننے والی اشیاء کی پیداوار میں کمی واقعی ہوئی نتیجہ ملک کے
اندر ان اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ۔ رہی سہی کسر توانائی کے بحران نے
پوری کر دی ۔ صنعتکاروں کو نہ بروقت اور سستے داموں خال مال دستیاب ہوا اور
نہ ہی صنعت کا پہیہ چالورکھنے کیلئے توانائی کے وسائل مہیا ہوئے نتیجہ ملک
کے بڑے بڑے صنعتی شہروں میں کچھ صنعت ڈھپ ہو گئی اورکچھ ملک سے باہر شفٹ ہو
گئی۔
جب زرعی اور صنعتی پیداوار کم ہوئی تو اسکا اثر امپورٹ ایکسپورٹ پر پڑنا
لازمی تھا ۔ ملکی صنعت اور زراعت دونوں کا بھٹہ گول ہو چکا تھا ۔ پاکستان
کے پاس ایکسپورٹ کرنے کو کچھ تھا ہی نہیں یہاں تک کہ ہم بنیادی ضرورت کی
اشیاء بھی امپورٹ کرنے پر مجبور ہو گئے جس سے امپورٹ بڑھتی گئی اور
ایکسپورٹ نہ ہونے کے برابر ہو گئی ۔ ایکسپورٹ ملک کی آمدن اور امپورٹ
اخراجات میں شمار ہوتے ہیں ۔ ایکسپورٹ بڑھی تو آمدن بڑھی ، امپورٹ بڑھی تو
خرچے بڑھے ۔ادھر ایکسپورٹ تو کچھ تھی ہی نہیں ، امپورٹ ہی امپورٹ تھی ۔ جب
خرچے زیادہ اور آمدن کم ہو گئی تو حکومتوں نے ڈنگ ٹپاؤ پالیسیاں اختیار کر
لیں ، ملک تو آخر چلانا تھا قرض لیکر ہی سہی ۔بس پھر قرض لیکر خرچے پورے
کرنے کا وہ سلسلہ شروع ہوا جو آج تک جاری ہے ۔ قرض لیا جاتا ہے کاروبار
کرنے کیلئے، سرمایہ کاری کرنے کیلئے ، تاکہ اس سے ہونے والی آمد ن سے وہ
قرضہ چکایا جا سکے اور بعد کا منافع ملک کے کام آئے جبکہ ہم قرض لیتے رہے
دو وقت کی روٹی کھانے کیلئے اور غالب کی طرح یہ سمجھتے رہے کہ 'رنگ لائے گی
اک دن فاقہ مستی اپنی ـ'فاقہ مستی تو کیا رنگ لاتی ملک قرضوں کے سمندر میں
ڈوبتا چلا گیا ۔ آج لوگ سوال اٹھاتے ہیں کہ اتنا قرضہ کس لیئے لیا گیا اور
کہاں گیا تو جناب جواب یہ ہے کہ ہم نے یہ قرضہ اپنے کچن کا خرچ پورا کرنے
میں اڑا دیا ۔جو کرپشن کی نظر ہوا سو ہوا، لیکن یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی
آمدنی ہر سال اخراجات سے کم رہی ، ہم قرض لیکر بنیادی ملکی اخراجات پورے
کرتے رہے ، باقی جو بچتا وہ پچھلے قرضوں کی ادائیگی اور حکومتی عیاشیوں پر
خرچ ہوتا رہا ۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ آج بھی سارے معاشی تجزیہ کار، دانشور، ماہر، حکومتی
وزیر اور مشیر سب قرض لینے کی بات کر رہے ہیں ۔وہی ڈنگ ٹپاؤ پالیسی ، ابھی
قرض لیکر ٹائم پاس کرو باقی بعد میں دیکھیں گے ۔ یہ درست ہے کہ پاکستان کو
فوری طور پر کیش کی ضرورت ہے لیکن کیا کسی نے اس ضرورت کا حقیقت پسندانہ
جائزہ اور تجزیہ کیا ہے کہ کیا یہ ضرورت اتنی ہی اشد اور شدید ہے کہ اگر ہم
نے قرض نہ لیا تو ہم دیوالیہ ہو جائیں گے ؟ کسی ملک کیلئے شدید اور اشد
مالی صورت حال وہ ہوتی ہے جہاں وہ دیوالیہ ہونے کے قریب ہو یا پھر ہونے کا
اندیشہ ہو۔ ایسی صورت حال میں کیش کے حصول کیلئے ہاتھ پاؤں مارنا ضروری
ہوتا ہے لیکن اگر ابھی صورت حال اس حد تک خراب نہیں ہے تو پھر قرض نہیں
لینا چاہیے ۔قرض لینے سے وقتی ریلیف تو مل جائے گا لیکن یہ نہیں بھولنا
چاہیے کہ قرض صرف لینا ہی نہیں وآپس بھی کرنا ہوتا ہے ۔ اس کے بجائے اپنی
آمدن بڑھانے کے short termاور long termطریقوں پر غور کرنا چاہے ۔اس ضمن
میں بھی معیشت کے چیمپئین حکومت کو یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ ٹیکس کے دائرہ
کار کو بڑھائیں ، بادشاہ لوگ ہیں کاروبار ڈھپ پڑیں ہیں اور یہ زیادہ سے
زیادہ ٹیکس کی وصولی پر زور دے رہے ہیں ۔پہلے معیشت کا پہیہ تو چلاؤ پھر
ٹیکس بھی وصول کر لینا اور معیشت کا پہیہ اس وقت تک نہیں چل سکتا جب تک
زراعت ٹھیک نہیں ہو گی کیونکہ یہ ملکی معیشت کی بنیادی اساس ہے ۔ یہ نہ
بھولیں کہ پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے ۔ جتنی سرمایہ کاری صنعت
کے شعبے میں کی گئی اس سے آدھی بھی اگر زراعت میں کی جاتی تو یہ شعبہ ملکی
ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتا تھا۔ ترقی قرض لیکر ملک چلانے کا نام نہیں
بلکہ ترقی پیداوارمیں اضافے کا نام ہے ، جب پیداوار زیادہ ہوتی ہے تو اشیاء
کی قیمتیں کم ہوتی ہے ، اشیاء کی کم قیمتیں مطلب کم مہنگائی ، کم مہنگائی
مطلب صارف کی قوت خرید میں اضافہ، صارف کی قوت خرید میں اضافہ مطلب ملکی
کرنسی کی قیمت میں اضافہ ، ملکی کرنسی کی قیمت میں اضافہ یا استحکام مطلب
ادائیگیوں کے توازن میں استحکام، ادائیگیوں کے توازن میں استحکام مطلب کم
بیرونی ادائیگیاں ، کم بیرونی ادائیگیاں مطلب زر مبادلہ کی بچت ۔ معیشت ایک
chainہے جس میں ہرکڑی دوسری سے جڑی ہوتی ہے ایک کڑی الجھ جائے تو ساری کڑیا
ں الجھ جاتی ہیں اور پھر الجھتی ہی جاتی ہیں ، ایسی صورت حال میں معیشت دان
یہ شعر گنگنانے لگتے ہیں کہ 'ہاتھ الجھے ہوئے ریشم میں پھنسا بیٹھے ہیں ،
اب بتا کونسے دھاگے کو جدا کس سے کریں'۔ |