وہ کتنے اچھے دن تھے جب مجھے لکھنے کا جنون طاری ہوا تھا
اور ایک خاص حلقہ میں پسند بھی کیا گیا تھا
یہ اچانک شروع ہوا تھا اور ہوتا ہی چلا گیا تھا ۔ اُس کے میری شخصیت پر اور
طبیعت پر بڑے مثبت اثرات مرتب ہوۓ تھے
اگرچہ کہ اُس نے ایک قسم کے ڈپریشن یا غم سے جنم لیا تھا
کتنے فریب ہم نے محبت میں کھاۓ ہیں
آنسو نکل پڑے ہیں وہ جب یاد آۓ ہیں
لیکن جب لکھنا شروع کیا تو سکون اور خوشی کی کیفیات وارد ہونا شروع ہونے
لگیں ۔ جن باتوں پر پریشان ہوتا تھا وہ معمولی لگنے لگی تھیں اور جن لوگوں
سے ناپسندیدگی کے جزبات اُبھرتے تھے اُن سے محبت محسوس ہونے لگی ۔ اپنے
اندر اعتماد بڑھنے لگا اور میں ہلکا ہو کر اوپر چڑھنے لگا
اُس وقت کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ مجھے کسی معالج سے رجوع کرنا چاہیے
پھر آہستہ آہستہ تحریر کا جنون کچھ کم ہونے لگا اور مجھے اب ایسے معالج کی
ضرورت ہے جو مجھے پھر سے میرا جنون اور میری خوشی مجھے لوٹا دے
بڑے دن بعد ایک ڈاکٹر کا لیکچر سُنا جس نے ایک نئ بات کی کہ ڈپریشن اور
زہنی دباؤ مثبت چیزیں ہیں اگر ایک حد سے بڑھنے نہ پائیں
اکثر شاعری اور تخلیقی صلاحیت کسی غم سے گزرنے کے بعد کسی کو حاصل ہوتے
دیکھی گئ ہے
کچھ کو رات کے آخری پہر اور کچھ کو نیند سے بیدار ہو کر کوئ نیا خیال آتا
ہے اور مائنڈ سائنس کے مطابق جب دماغ تھیٹا فریکوئنسی پر ہو یا سکون میں ہو
کسی کو وہ کیفیت لونگ ڈرائو سفر یا سمندر اور پہاڑی کے نظارے کے وقت اکیلے
میں طاری ہوتی ہے
جیسے نیوٹن کو کسی لیب کے بجاۓ ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر نیا خیال سوجھا
تھا
اصل میں بائں طرف کا شعوری دماغ تو کام کرتا ہی ہے مگر دائں طرف کا لاشعوری
دماغ اُس سے بھی زیادہ طاقتور ہوتا ہے اور حیرت انگیز خیالات کے لانے کا
سبب بنتا ہے
کچھ لوگ قدرتی طور پر غیر معمولی صلاحیت لے کر پیدا ہوتے ہیں اور کچھ محنت
اور توجہ سے کوئ مقام حاصل کرتے ہیں اور کچھ کی تقدیر کسی کی دعا سے پلٹ
جاتی ہے
خود سے چل کر تو نہیں طرز سخن آیا ہے
پاؤں دابے ہیں بزرگوں کے تو فن آیا ہے |