اسلامی تاریخ کی اولو العزم عبقری شخصیت، سرور
دوعالمﷺ کے رفیق، اسلامی خلامت کے تاجدار ثانی، قیصر وکسری کے فاتح، آقا کے
پہریدار، وفا کے علمبرار، امام عدل و حریت، فاتح عرب و عجم خسر نبیﷺ ،داماد
علی سیدنا عمر ابن خطاب یکم محرم الحرام کو شہید کر دیئے گئے تھے۔
سیدنا عمر ابن خطاب رضی اﷲ عنہ واقعہ فیل سے تقریبا ۱۳برس یعنی ۵۸۳ ہجری کو
پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام خطاب تھا اور والدہ کا نام ختمہ بنت ہشام تھا۔
آپ کا سلسلہ نسب نویں پشت سے سرور کائنات احمد مجتبی سے جا ملتا ہے۔ عمر بن
خطاب بن نفیل بن عبدالعزی بن رباح بن عبداﷲ بن عبداﷲ بن قرط بن زراع بن عدی
بن کعب۔۔۔۔الخ
آپ کا نام عمر لقب فاروق اعظم اور کنیت ابو حفص تھی۔ آپ نے عرب ماحول میں
پرورش پائی۔ آپ کا چہرہ مبارک سفید مائل بہ سرخی، رخساروں پر کم گوشت،
مضبوط بدن، قد مبارک دراز، آپ تمام آدمیوں سے اونچے معلوم ہوتے تھے اونٹ
چرانے، سپہ گری، شہسواری اور پہلوانی کے فن میں آپ کو کمال درجے کی مہارت
حاصل تھی۔
آپ کے گھرانے میں سب سے پہلے آپ کے بہن اور بہنوئی دین اسلام میں داخل ہوئے۔
ایک دن رسول اﷲﷺ نے رب العالمین سے دعا کی۔ اے اﷲ! اگر تو چاہتا ہے کہ دین
اسلام کی سربلندی ہو یہ صرف عرب ہی میں نہیں عجم تک پہنچے۔ اسلام کو عزت
اور دوام حاصل ہو تو اے اﷲ !مجھے عمرو اور عمر دونوں میں سے کوئی ایک دے دے۔
اﷲ پاک اپنے حبیب کی دعا کو بھلا کیسے رد فرماتے۔
ادھر آپ نے دعا فرمائی ادھر اﷲ نے دونوں کے دلوں کو جانچا کہ عمرو کیوں
اسلام نہیں لاتا ؟ اور عمر کیوں اس دولت سے بہرور نہیں ہوتا؟ اﷲ نے جب
دونوں کے دلوں کو ٹٹولا تو عمرو ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے اسلام سے دور
تھا جبکہ عمر نا واقفیت کہ وجہ سے۔ اﷲ رب العزت نے نبوت کے چھٹے سال دعائے
رسول بنا کر اسلام کی دولت سے مالا مال فرما دیا۔ اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے
رسول اﷲ کی رفاقت کا اعزاز بخش کر عمر کی فضیلت کو دہر میں عیاں کردیا۔
حضرت عمر بن خطاب کہ شان، رفعت، مقام و مرتبہ، جلالت اور فضیلت کے بارے میں
محسن اعظم شفیع امت حضرت محمد ﷺکے ارشادات ملاحظہ فرمائیں :
سرور کائنات حضرت محمد عربی نے فرمایا: لا ریب اﷲ نے عمر کی زبان و دل پر
حق جاری و ساری فرما دیا۔
حضورﷺ اپنا خوب بیان کرتے ہوئے فرمایا. "میں نے جنت میں سونے کا ایک محل
دیکھا، میں نے پوچھا کس کا محل ہے؟ تو جواب دیا گیا عمر ابن الخطاب کا"
ایک مرتبہ سرور دلبراں حضرت محمد مصطفی نے فرمایا "(اے عمر)جس راستے پر تم
چل رہے ہو گے اس پر تمہیں شیطان چلتا ہوا کبھی نہیں ملے گا۔ وہ مجبور ہوگا
کہ اپنا راستہ بدل کر دوسرا راستہ اختیار کرے"
جب عمر ابن خطاب اسلام کی خلعت سے آراستہ ہوئے تو سرکار مدینہﷺ نے
فرمایا:"بیشک اﷲ تعالی نے عمر کی زبان پر حق کو جاری فرما دیا"(بہیقی)
جس راستے سے عمر گزرتا ہے شیطان اپنا راستہ چھوڑ دیتا ہے۔ (بخاری و مسلم
شریف)
میرے بعد ابوبکر اور عمر کی اقتدا کرنا۔ (مشکوۃ)
میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتا۔(ترمذی)
حضورﷺ ابوبکر و عمر کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر جا رہے تھے۔ آپ نے فرمایا "ہم
تینوں قیامت میں اسی طرح اٹھیں گے۔
ایک مرتبہ حضورﷺ جبل احد پر تشریف لے گئے۔ اچانک پہاڑ میں ایک جنبش پیدا
ہوئی۔ آپ نے فرمایا:. "اے احد۔۔۔۔۔! ٹھہر جا۔۔۔ اس لئے کہ اس وقت تجھ پر
ایک نبی ایک صدیق اور دو شہید کھڑے ہیں۔"
سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کی وفات کے بعدسیدنا عمر ابن خطاب کو امیر
المومنین خلیفتہ المسلمین بنا دیا گیا۔ آپ کا دور سادہ نفسی عاجزی اور
فروتنی کا زندہ و جاوید نمونہ تھا۔ کسی بھی قسم کی رشوت، بے ایمانی،دجل
وفریب، جھوٹ، سفارش اور جھوٹی سفارش سے پاک خلافت دور اسلامی کی تاریخ کا
درخشندہ اور مثالی دور تھا۔ آپ اپنی رعایا کا اتنا خیال کرتے کہ رات کو
مدینے کی گلیوں میں گھومتے اور ان کی خبر گیری کرتے۔ خلیفہ بننے کے بعد
اپنی ذمہ داریوں کی اتنی فکر کرتے کہ خود فرماتے ہیں کہ اگر دریائے فرات کے
پاس کتا بھی پیاسا مرگیا تو عمر سے اس بارے میں سوال ہوگا۔
رعایا کی خبر گیری کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ دوران گشت ایک آدمی کو
جھونپڑی سے باہر بیٹھا ہوا پایا۔ وجہ پوچھنے پر بتایا کہ میری بیوی کو درد
زہ ہے۔ اس کے پاس کوئی عورت نہیں۔ آپ رضی اﷲ عنہ نے جب یہ سنا تو فورا گھر
روانہ ہوئے۔ اہلیہ ام کلثوم بنت علی کو صورت حال بتائی۔ کچھ سامان وغیرہ
لیا اور اہلیہ کے ہمراہ وہاں پہنچے۔ اہلیہ کو اندر بھیج دیا۔جب بچے کی
ولادت ہو گئی تو اہلیہ نے اندر سے آواز دی۔ اے امیرالمومنین۔۔۔!!اپنے بھائی
کو مبارک باد دیجیے۔ تب اس شخص کو معلوم ہوا کہ آدھی رات کو اپنی نیند
قربان کرکے میرا غمگسار بننے والا کوئی اور نہیں یہاں کے خلیفہ ہیں۔اور
خلافت کی ایک اور جھلک تو دیکھیے۔ آج کے حکمران غریب سے حال پوچھنا کیا ان
پر نظر ڈالنا بھی گوارا نہیں کرتے لیکن قربان جاؤں خلیفۃ المسلمین پر کہ
ایک دن عمر رضی اﷲ عنہ منبر پر تشریف فرما ہیں خطبہ دے رہے ہیں۔اتنے میں
مجمع سے ایک شخص کھڑا ہوا۔ اور سیدنا عمر ابن خطاب رضی اﷲ عنہ کو مخاظب
فرمایا اے امیر المومنین۔۔۔۔ !!!یہ جو آپ کے جسم پر کپڑا ہے یہ زیادہ ہے۔
بیت المال سے جو کپڑا ملا وہ کم تھا۔امیر المومنین نے اپنے بیٹا سے فرمایا:
بیٹا ۔۔۔!!بتاؤ تمہارے باپ کے جسم پر جو کپڑا ہے۔ کہاں سے لایا ہے؟ حضرت
عبد اﷲ بن عمر کھڑے ہوئے اور فرمایا۔ میرے والد کو جو کپڑا ملا بہت ہی
تھوڑا تھا۔ میں نے اپنا کپڑا ابا جان کو دے دیا تاکہ وہ پورا لباس
بنواسکیں۔
آپ نے اپنی خلافت میں شجاعت اور بہادری کے ڈنکے بجائے۔تاریخ میں ایسے
کارنامے رقم کئے کہ بڑے بڑے مفکر، خطیب، قلم کار، فلاسفر، مورخ، اور نامور
سکالرز کردار سازی کرنے پر مجبور ہو گئے۔ اور صرف مسلمان ہی نہیں غیر مسلم
بھی آپ کی خلافت پر عش عش کر اٹھے۔آپ نے اپنے دور میں دو بڑی سلطنتوں قیصر
و کسری کو فتح کرلیا۔ عراق و ایران، روم، ترکستان اور دیگر علاقوں میں
اسلامی پرچم لہرایا۔
آپ کے دور میں علاقے فتح ہوئے۔آپ نے ۹۰۰مساجد تعمیر کراوئیں۔ عہد فاروقی سے
لیکر آج تک عمر کے عدل و انصاف کے چرچے چہاردانگ عالم میں پھیلے ہوئے
ہیں۔آپ کی خلافت دیکھ کر غیر مسلم بھی چپ نا رہ سکے۔ ایک غیر مسلم متاثر
ہوکر کہنے لگا کہ اگر عمر دس سال اور خلافت کرتے تو دنیا میں کفر کا نام و
نشان بھی باقی نا رہتا۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ کی خلافت کا دورانیہ دس سال چھ ماہ دس دن پر
محیط تھا۔ آپ نے ۲۲لاکھ مربع میل پر اسلامی پرچم لہرایا۔
اﷲ جل شانہ نے جتنی حسین زندگی عطا فرمائی اتنی عظیم اور شاندار موت سے
ہمکنار فرمایا۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ رب العالمین سے دعا فرمایا کرتے تھے کہ
ترجمہ:"اے اﷲ۔۔!!تیرے راستے میں شہادت چاہتا ہوں اور تیرے حبیب کے شہر میں
موت چاہتا ہوں۔"
اﷲ پاک نے دعا کو قبولیت کا درجہ عطا فرمایا۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اﷲ
عنہ کا غلام فیروز عہد فاروقی کی فتوحات سے سخت نالاں تھااس کا سینہ بغض و
عدوات سے جل رہا تھا اور اس میں انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی۔ وہ اس تلاش میں
تھا کہ کوئی موقع ایسا آئے کہ کسی نا کسی طرح عمر کو نقصان پہنچایا جائے۔
عمر رضی اﷲ عنہ کا معمول تھا کہ وہ نماز فجر کی امامت خود سر انجام دیا
کرتے تھے یہ ۲۴ ذوالحجہ کی ایک صبح تھی جب عمر نبی کے مصلے پر کھڑے نماز
پڑھا رہے تھے کہ وہی غلام ابو لولو فیروز جو زہریلا خنجر چھپائے صف میں
کھڑا تھا۔ موقع ملتے ہی اس نے عمر رضی اﷲ عنہ پر خنجر سے وار کر دیا۔ عمر
شدید زخمی ہو کر گر پڑے اور امامت عبد الرحمن بن عوف رضی اﷲ عنہ کے سپرد
کردی۔ ادھر فیروز بھاگنے کی کوشش میں تھا لیکن صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہ
اجمعین نے صفیں مضبوط کر لیں۔ جب اسے بھاگنے کا موقع نا ملا تو خود اس خنجر
سے اپنی جان لے لی۔
صحابہ کرام نماز سے فارغ ہوئے حضرت عمر ؓنے پوچھا میرا قاتل کون ہے؟ بتایا
ایک کافر آپ رضی اﷲ عنہ نے کہا الحمد اﷲ۔۔۔ آپ کو یقین ہوگیا کہ شہادت کی
دعا قبول ہو چکی ہے۔
آپ نے اپنے لخت جگر کو اماں عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا کی طرف بھیجا کہ جاؤ
اجازت لے کر آؤ کہ عمر آقاﷺ کے پہلو میں دفن ہونا چاہتا ہے۔ اماں عائشہ نے
اجازت دے دی۔ اجازت ملنے کی خبر سن کر آپ نے چند وصیتیں کئیں۔
آپ زیر علاج تھے بالآخر زخموں کی تاب نا لاتے ہوئے یکم محرم الحرام کو آپ
جامِ شہادت نوش کر گئے ۔ وصیت کے مطابق میت کو اماں عائشہ کے حجرے کے
دروازے پر لے گئے۔ دوبارہ اجازت مانگی۔اجازت ملتے ہی آپ کو روضہ رسول کی
طرف لے جایا گیا اور پہلوئے آقا مدنیﷺ میں دفن کر دیا گیا۔
جمالِ منصِف و قاضی میں نورِ روئے عمر
جبینِ عدل پہ اب تک رقم ہے خوئے عمر
پکارا کفرکو جا کر حرم کی چوکھٹ پر
کسی میں دم ہے تو آجائے رو بروئے عمر
نبیؓ کا جو بھی ہوا ہے عمر بھی اسکا ہوا
نبیؓ بھی انکا نہ ہوگا جو ہوں عدوئے عمر
جہاں کو طرزِ عبادت بھی یاد ہے اب تک
عیاں ابھی بھی ہے صائم' ادائے ھوئے عمر
(ملک مبشرصائم علوی)
اﷲ پاک ہم سب کے دلوں کو اصحاب نبی کریم ﷺ کی سچی محبت سے منور فرما کر ان
کی مدحت بیان کرنے کی دولت سے خوب مالا مال فرمائے( آمین ثم آمین)
|