حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ کی پیدائش سے لیکر شہادت عظمیٰ
تک آپ کے فضائل میں بہت سی حدیثیں مو جود ہیں۔ پھر جو دو نوں شہزادوں حضرت
امام حسن وحضرت امام حسین رضی اﷲ عنھما کے فضائل میں احادیث کریمہ کے ذخیرہ
میں موجود ہیں وہ الگ ہیں، جب سے دنیا قائم ہے اس وقت سے لیکر آج کی تاریخ
کا اگر مطالعہ کریں تو بہت سے واقعات سامنے آتے ہیں، لیکن جس طرح کر بلا کی
سر زمین میں حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ کی شہادت اپنے جانثاروں کے ساتھ
ہوئی اس طرح کی مثال پوری تاریخ (History ) میں نہیں ملتی۔آپ کی ولادت سے
لیکر شہادت تک کے واقعات کو پڑھ کرانسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ آپ کے بچپن
کے واقعات بھی بہت ہی پیارے ہیں جن کو احا دیث کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔
اولاد علی اولاد نبی:حدیث پاک میں ہے:اِنَّ ا للّٰہَ عَزَّوَجَلَّ جَعَلَ
ذُرِّیَتہٗ کُلِّ نَبِیٍّ فِیْ صُلْبِہِ وَاِنَّ اللّٰہَ تَعَا لیٰ جَعَلَ
ذُرِّیَتِ فِیْ صُلْبِ عَلِیِّ اِبْنِ اَ بِیْ طَا لِبٍ۔تر جمہ:’’ فر مایا
بیشک اﷲ عزو جل نے ہر نبی کی اولاد ان کی پشت سے پیدا کی اور بیشک اﷲ تبار
ک و تعالیٰ نے میری اولاد(حضرت) علی ابن طالب کی پشت سے پیدا فر مائی۔‘‘(
صواعق محر حقہ ص،154،خطبات کر بلا،ص49)’’ سفا ف ا لرا غبین‘‘ فی
سیرۃالمصطفٰے( ﷺ ) میں ہے، جس کا تر جمہ اس طرح ہے’’ سیدہ فاطمۃ الز ہرا
رضی اﷲ عنہا کی اولاد حضور ﷺ کی اولاد وفرزند کہلاتے ہیں۔تر جمہ:’’ ہر ماں
کی اولاد اپنے عصبہ(فر زند نرینہ) کی طرف منسوب ہوتی ہے، جبکہ فاطمہ کی
اولاد کا عصبہ اور ولی میں ہوں۔‘‘ ایک حدیث میں ہے کہ ہر ماں کی اولاد اپنے
اولاد اپنے آبائی خاندان کی طرف منسوب ہوتی ہے، بجز اولاد فاطمہ کے جن کا
ولی اور عصبہ میں ہوں۔
آپ کی ولادت۔ابن علی(حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ) نبی رحمت ﷺ کے چھوٹے نواسے
اور حضرت علی بن ابی طالب رضی اﷲ عنہ و حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے چھوٹے
بیٹے تھے آپ کی ولا دت مبار کہ5شعبان4ھجری،بمطابق8جنوری626ء کو مدینہ طیبہ
میں ہوئی۔(10محرم 61ھجری بمطابق10اکتوبر680ء کر بلا، عراق میں شہید ہوئے)
حضور ﷺ نے آپ کے کان میں اذان دی منہ میں لعاب دہن ڈالا اور آپ کے لیے دعا
فر مائی پھر ساتویں دن آپ کا نام حسین رکھا، حضرت مفضل سے روایت ہے کہ اﷲ
تعالیٰ نے حسن اور حسین کے ناموں کو حجاب میں رکھا یہاں تک حضور ﷺ نے اپنے
بیٹوں کا نام حسن اور حسین رکھا، کنیت، ابوعبداﷲ ولقب’’سبط رسول‘‘ وریحا نۃ
الرسول ہے حدیث شریف میں ہے آپ ﷺ نے نے فر مایا کہ ہارون علیہ السلام نے
اپنے بیٹوں کا نام شبیر وشبر رکھا اور میں نے اپنے بیٹوں کانام انھیں کے
نام پر حسن اور حسین رکھا(صواعق محرقہ ص 118 ) ایک حدیث میں ہے کہ
اَلْحَسَنُ وَا لْحُسَیْنُ اِسْمَانِ مِنْ اَھْلِ الجَنَّۃِ۔حسن اور حسین
جنتی ناموں میں سے دونام ہیں۔ عرب کے زمانہ جاہلیت میں یہ دو نوں نام نہیں
تھے(صواعق محرقہ،ص118) آپ کا عقیقہ ساتویں دن کیا،حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ
سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے خودامام حسن اور امام حسین رضی اﷲ عنھما کی
طرف سے عقیقے میں ایک ایک دنبہ ذبح کیا۔
حضرت امام حسن و حسین کی پر ورش: آقائے نعمت ﷺ کی گود میں آپ کی پر ورش
ہوئی ظاہر سی بات ہے وہ ہستی جس کو اﷲ نے دنیا کو راہ راست پر لانے کے لیے
رسول بنا کر بھیجا آپ کی نگہداشت میں جو بچہ پلے گا بڑھے گا اس کی تر بیت
کے کیا کہنے۔ علامہ ڈاکٹر اقبال عرض کرتے ہیں۔
نور چشم رحمۃً الِّلْعا لمین ٭ آں امامِ اوَّ لیں وآخریں
بانوئے آں تا جدار ہل اَ تٰی ٭ مرتضٰی مشکل کشا شیر خدا
ما در آں قافلہ سالار عشق ٭ ما در آں مر کزِ پر کار عشق
رحمت عالم ﷺ شہید کربلا امام عالی مقام حضرت حسین رضی اﷲ عنہ سے بہت محبت
فر ماتے،اور آپ ﷺ نے معر کہ عظیم حق وباطل میں فرق کر نے والی جنگ کربلا کے
دن کے لیے حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ کی خود تر بیت فر مائی تھی اور آپ کے
بارے میں صراحۃ فر ماتے تھے کہ میرے اس بیٹے کو میری امت کے اوباش حا کم
شہید کریں گے۔اور کبھی فر ماتے اے ام سلمہ جب یہ مٹی خون میں بدل جائے تو
یقین کر لینا کہ میرا لخت جگر شہید کیا گیا۔( معجم الکبیر عربی) پیغمبر
اسلام ﷺ دونوں بچوں کی پر ورش میں لگے رہتے آپ ہی کے گہوارہ میں آپ دونوں
پر وان چڑھ رہے تھے۔ ایک طرف نبی آ خر الز ماں ﷺ جن کی زندگی کا مقصد ہی
اخلاق انسانی کی تکمیل تھی جیسا کہ حدیث میں ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اﷲ
عنہ سے روایت ہے کہ ، کہا: رسول اﷲ ﷺ تمام انسانوں میں سب سے زیادہ خوبصورت
اخلاق کے مالک تھے۔(مسلم،حدیث 1500) عبداﷲ بن زبیر رضی اﷲ عنہ سے روایت کہ
حکم’’خُذِا لْعَفْوَ) کو اختیار کرو کہ تفسیر کے سلسلے میں روایت ہے کہ وہ
کہتے ہیں :نبی کریم ﷺ کو حکم دیا گیا کہ وہ لو گوں کے بد اخلاقی میں عفو کو
اختیار کریں۔ مسلم،(باب عفو در گزر انتقام نہ لینے کا بیان) حدیث 4787 ( آپ
کے اخلاق کریمانہ کے سایہ میں اور دوسری طرف امیر المومنین علی ابن ابوطالب
جو اپنے عمل سے خدا کی مرضی پر جانثار تھے تیسری طرف فاطمۃالزہرا جو خواتین
کے طبقہ میں پیغمبر اسلام کی دعوت کو عملی طور پر پہنچا نے کے لیے ہی قدرت
کی طرف سے پیدا ہوئی تھیں اس پاک اور نورانی ماحول میں آپ حسین رضی اﷲ عنہ
کی پر ورش ہوئی ، اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فر ماتے ہیں۔
کیا بات رضا اس چمنستان کرم کی ٭ زہرا ہیں کلی جس میں حسین وحسن پھول
نواسوں سے رسول اﷲ ﷺ کی محبت۔حضرت محمد مصطفٰے ﷺ اپنے دونوں نواسوں کے ساتھ
بہت محبت فر ماتے۔ سینہ مبا رک پر بٹھاتے، کا ندھوں پر چڑھا تے اور
مسلمانوں کو تاکید فر ماتے کہ ان سے محبت رکھو۔لیکن چھوٹے نواسے حضرت امام
حسین رضی اﷲ عنہ کے ساتھ آپ کی محبت کا کچھ خاص امتیاز تھا۔آپ ﷺ نماز میں
سجدہ کی حالت میں تھے کہ حسین رضی اﷲ عنہ پشت(پیٹھ) مبارک پر آگئے یہاں تک
کہ(بچہ) امام حسین رضی اﷲ عنہ خود سے بخوشی پشت پر سے اتر گئے توآپ نے سر
سجدے سے اٹھایا۔ نبی کریم ارشاد فر ماتے ہیں اَحَبَّ ا للّٰہُ مَنْ اَحَبَّ
حُسَیْنًا۔ جس نے حسین سے محبت کی اس نے اﷲ تعالیٰ سے محبت کی(مشکوٰۃ،ص571)
اسی لیے حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ سے محبت کرنا حضور ﷺ سے محبت کر ناہے
اور حضور سے محبت کر نا اﷲ تعا لیٰ سے محبت کر نا ہے ( مرقاۃ شرح
مشکوٰۃ،ص05 6)حضرت امام حسین سے آقا ﷺ کی محبت کی بہت سی مثا لیں ہیں اور
حدیثیں ہیں،ایک دلپزیر حدیث مطا لعہ فر مائیں اور اپنے دل کو محبت حسین سے
بھر لیں حضرت ابو ہر یرہ رضی اﷲ عنہ فر ماتے ہیں کہ رسو ل اﷲ ﷺ مسجد میں
تشریف لا ئے اور فر مایا چھوٹا بچہ کہاں ہے؟ حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ
دوڑتے ہوئے آئے اور حضور کی گود میں بیٹھ گئے اور اپنی انگلیاں داڑھی مبارک
میں داخل کر دیں حضور نے ان کا منھ کھو ل کر بوسہ لیا پھر فر ما
یااَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اُحِبُّہٗ فَاَ حِبَّہٗ وَ اَحِبَّ مَنْ
یُّحِبُّہٗ۔تر جمہ: اے اﷲ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فر
ما اور اس سے بھی محبت فرما جو اس سے محبت کرے۔(نو را لا بصارص،114،خطبات
محرم ص،33) نبی کریم ﷺ کی تر بیت کا نتیجہ ہی تھا کہ آپ انتہاہی عابد و
زاہد اور بہت فضیلت کے مالک تھے۔ کثرت سے نماز، روزہ،حج، صدقہ اور دیگر
امور خیر ادا فر ماتے تھے،آپ نے پیدل چل کر 25حج کئے۔اﷲ،اﷲ! نماز کی پابندی
کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ کی شہادت بھی سجدے میں ہوئی آپ
کی چاہت و محبت کا دم بھر نے والوں کو نماز سے بھی محبت ہو نی چاہیے تبھی
سچے حسینی کہلانے کے حق دار ہوں گے ور نہ دعویٰ بے دلیل صحیح نہیں ہوتا۔ آپ
کے محاسن و کمالات احادیث سے لیکر بزر گان دین کی بیاض وتاریخ کی کتا بوں
میں بھرے پڑے ہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ آپ کے بچپن سے لیکر شہادت تک کے
واقعات اپنے بچوں اور نئی نسلوں کو بتائیں تاکہ ان کے دلوں میں ایمانی
حرارت پیدا ہو اور سچ وحق پر چلنے کی تر غیب ملے اﷲ ہمیں شہیدان کر بلا کی
طرح سچ اور حق پر چلنے اور حضرت اما م حسین رضی اﷲ عنہ کی زندگی سے سبق
لینے کی توفیق عطا فر مائے آمین ثم آمین۔ |