یہ محاورہ توزبان زدعام ہے کہ عقل بادام کھانے سے نہیں،
ٹھوکریں کھانے سے آتی ہے۔یہ محاورہ بھی آپ نے سناہوگاکہ سونابھٹی میں تپ
جانے کے بعدہی کندن بنتاہے۔ان دومحاروں کاخلاصہ یہ ہے کہ انسان ہمیشہ تلخ
وشیریں تجربات سے گزرنے کے بعدہی اس قابل ہوتاہے کہ وہ اپنے معاملات،
کرداروافعال اورملنے جلنے میں صحیح طریقہ اوربرتاؤاختیارکرے، اچھے سلیقے
اورطریقے سے کام اورمعاملے کی انجام دہی کوعقل استعمال کرناکہتے ہیں۔ایک
عام انسان جب تجربات کی بھٹی میں جلتاہے توپھرجل جانے کے بعدجوانسان
برآمدہوتاہے، وہ ایک عام انسان نہیں بلکہ ایک عقلمندانسان ہوتاہے جسے لوگ
اپنارہنماگردانتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ تاریخ کے معروف حکیم لقمان سے کسی نے
پوچھاکہ آپ اس قدرعقلمندہیں، آپ نے یہ عقلمندی کہاں سے سیکھی؟حکیم لقمان
کہنے لگے:میں نے یہ عقلمندی بیوقوفوں سے سیکھی ہے۔سوال پوچھنے والابڑاحیران
ہوااورکہنے لگا:یہ کیسے ہوسکتاہے کہ ایک انسان خودبے وقوف ہواوردوسروں میں
عقل بانٹتاپھرے؟حکیم لقمان کہنے لگے:میں ہراس کام سے بچتاہوں جوکام بے وقوف
کرتے ہیں، یوں لوگ مجھے عقلمندکہتے ہیں۔
مدعایہ ہے کہ جولوگ خودتوتجربات سے گزرکرعقل نہیں سیکھتے مگروہ تجربہ
کارلوگوں کی رہنمائی میں چلتے ہیں توایسے لوگ بھی عقل مندہی کہلاتے ہیں
اگرچہ وہ بادام نہ بھی کھائیں۔حدیث رسول ﷺ کے مفہوم کے مطابق بہترین انسان
وہ ہے جودوسروں کی غلطیوں سے سیکھے۔لیکن کچھ لوگ اس قدرڈھیٹ ہوتے ہیں کہ وہ
اس وقت تک نہیں سمجھتے جب تک وہ خودآگ میں ہاتھ نہ ڈالیں۔میراایک دوست ہے
جودورطالب علمی سے ہی اس بات پریقین رکھتاتھاکہ پڑھائی اورمحنت سے زیادہ اس
بات پرزوردیاجائے کہ زیادہ سے زیادہ دوست کیسے بنائے جائیں اورلوگوں سے
تعلقات کیسے استوارکیے جائیں۔ہم ہوسٹل میں رہتے تھے، اس لئے ہمیں جیب خرچ
بھی خوب ملتاتھا، میرے اس دوست کوتوہرہفتے اچھاخاصہ جیب خرچ ملتاتھا، وہ
گھرسے لائے ہوئے سارے پیسے اپنے دوستوں پراس نیت سے خرچ کرتاکہ تعلیم مکمل
کرنے کے بعد میرے دوست میراساتھ دیں گے۔وہ اپنے ہرملنے والے کی شادی
اوردعوتوں پربے دریغ خرچ کرتا۔ اس کاایک ایسادوست بھی تھاجوان تجربات سے
گزرچکاتھا اوراسے ہروقت سمجھاتاکہ یہ لوگ ضرورت پڑنے پرکبھی کام نہیں آتے
بلکہ یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جوہمیں اس چیزکاطعنہ دیتے ہیں کہ تم بے کارقسم کے
انسان ہو جونہ خداکاہوسکتاہے اورنہ ہی صنم کا۔اس لئے ہمیشہ اپنے آپ کواس
قابل بناؤکہ لوگوں کوتمہاری ضرورت ہونہ کہ تمہیں لوگوں کی۔مگراس کی یہ رٹ
تھی کہ وہ آگ میں ہاتھ ڈالنے کے بعدہی یقین کرے گاکہ آگ سچ مچ جلاکرراکھ
بنادیتی ہے۔اورپھرایساہی ہوااس نے آگ میں ہاتھ ڈالااورآج تک زخموں کے مندمل
ہونے کی نہ صرف دعائیں کرتاہے بلکہ لوگوں سے التجائیں بھی کرتاہے۔فراغتِ
تعلیم کے بعداس نے اپنے سب سے عزیزدوستوں(جواس کے نزدیک عزیز تھے ) سے
رابطہ کیاکہ وہ کہیں کام دھنداکرناچاہتاہے مگرسب نے اسے منہ توڑجواب دیا،
یہاں تک کہ ایک دوست نے توصاف صاف کہہ دیاکہ میرے پاس تمہارے لئے کوئی جگہ
نہیں ہے، حالانکہ ایساجواب دینے والایہ وہی دوست تھاجس کے بارے میں اس
کاگمان تھاکہ یہ میری بات کبھی بھی نہیں ٹالے گا۔
انسان کوہمیشہ دوسروں کے تجربات سے فائدہ اٹھاکراپنے آپ کوعقل مندثابت
کرناچاہیے نہ کہ خودتلخ تجربات کی بھینٹ چڑھے۔لازم نہیں کہ انسان ٹھوکریں
کھا کرہی عقل جیساملکہ حاصل کرے بلکہ انسان کودوسروں سے بھی عبرت حاصل
کرے۔انسان کوہرقدم سوچ سمجھ کراوردوسروں سے مشاورت کے بعدہی اٹھاناچاہئے،
خودکوکبھی بھی پھنے خاں نہیں سمجھناچاہیے۔دنیاایسے نادان لوگوں سے بھری پڑی
ہے کہ جن کے سامنے سب کچھ ہوتاہے مگروہ کبھی بھی اس حادثے اورواقعے سے سبق
حاصل نہیں کرتے، بے وقوف لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دنیامیں وہی عقل مندہیں
اوریہ ہرکام تجربے کے بعدکرنے کی کوشش کرتے ہیں، جس کانتیجہ یہ ہوتاہے کہ
وہ نقصان درنقصان اٹھاتے ہیں، ایسے لوگوں کی ایک اوربڑی گندی خصلت یہ ہوتی
ہے کہ وہ اپنے نقصان کے ذمہ داردوسرے لوگوں کوٹھہراتے ہیں ۔
عقل سے عاری لوگوں کی ایک اوربات بتاؤں اگرغصہ نہ کریں تو،چلیں بتاہی
دیتاہوں۔یہ ہمیشہ اس دوست کوبراسمجھیں گے جواسے اچھااوربراسمجھانے کی کوشش
کرتاہے، ایسے لوگوں کے نزدیک بہترین دوست وہ ہوتاہے جوانہیں ہروہ کام کرنے
میں مدددے جوکام یہ کرناچاہتے ہیں اگرچہ وہ ناجائزہی کیوں نہ ہو۔ امیدہے
عقل اورٹھوکروں والی کہاوت کی سمجھ آگئی ہوگی، اگرنہیں آئی توٹھوکریں کھاکے
دیکھ لیں ۔
|