تحریر:دیاخان بلوچ،لاہور
ایسا ہر گز نہیں ہونا چاہیے تھا۔کیوں ہو گیا مجھ سے؟وہ اپنے سر کو تھامے
آئینے کے سامنے کھڑا خود سے ایک ہی سوال کر رہا تھا۔ہر بار جواب وہی
ہوتا،شب و روز کی محنت کا نتیجہ زیرو تھا وہ میڈیکل کے انٹری ٹیسٹ میں فیل
ہو چکا تھا۔والدین کی امیدوں کا چراغ ،ان کی جھوٹی عزت و وقار کو بچاتے
بچاتے وہ تھک گیا تھا،اب ایک ہی راستہ تھا اس کے پاس، فرار کا راستہ۔اس نے
ڈریسنگ ٹیبل کی خفیہ دراز کا لاک کھولا اور گن نکال کر لوڈ کی۔ایک لمحے کے
لیے اس نے سوچا شاید میں غلط کر رہاہوں لیکن اگلے ہی پل وہ سب اس کے ذہن
میں گونج رہا تھا جس کو برداشت نہیں کر سکتا تھااور اس بار اس کا نشانہ خطا
نہیں ہوا تھا۔گولی کی آواز نے پھیلے سکوت کو توڑ دیا ۔کمرے میں خون پھیلتا
جا رہا تھا اور اسے ایسا لگ رہا تھا کہ اب سب امتحان ختم ہوگئے ہیں لیکن
درحقیقت ایسا کبھی نہیں ہوتا۔
زندگی اور موت دینا اﷲ کے اختیارمیں ہے،کوئی بھی شخص اپنی زندگی کو ختم
کرتا ہے تو وہ جان لے کہ وہ ناقابل معافی گناہ کا مرتکب ہوتا ہے۔آج یہ مرض
بہت تیزی سے پھیل رہا ہے ۔ہماری نوجوان نسل اس طرف تیزی سے قدم بڑھا رہی
ہے۔جب بھی کسی ایسے معاملے کی تحقیق کی جاتی ہے تو بہت معمولی سی وجہ سے
سامنے آتی ہے اور دیکھنے اور سننے والا افسوس کرتا رہ جاتا ہے۔کاش !اس سے
پہلے یہ خبر مل جاتی تو ایسا نہ ہوتالیکن اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ
گئیں کھیت۔خودکشی کے حوالے سے جب ایک سروے کیا گیا تو بہت سی آراء ہمارے
سامنے آئیں۔خودکشی کسی بھی مسئلے کا حل نہیں اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے مر
جانے سے آپ کے سارے مسائل ختم ہو جائیں گے تو ایسا ہرگز نہیں ۔
کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ خودکشی مایوسی کی انتہا ہے،جب آپ ہر طرف سے مایوس
ہوں اور کوئی بھی روزن نہ ملتا ہو تب ایک ہی راستہ نظر آتا ہے اور وہ خود
کو ختم کرنے کا۔تنہائی خودکشی کی بہت بڑی وجہ ہے،جب ہم تنہا ہوتے ہیں تو
بہت سی ایسی باتیں سوچتے ہیں جو اکثر ڈپریشن کی طرف لے جاتی ہیں ،جس کا
نتیجہ خودسوزی کی صورت میں نکلتا ہے۔وقت کی کمی،والدین کا بچوں کے ساتھ وقت
نہ گزرانا ان کی ذہنی کیفیت کو نہ سمجھنا۔ان سے دوری رکھنا،پیار و محبت کی
کمی ۔یہ سب نوجوانوں کو خودکشی کی طرف لے جانے والے اسباب ہیں۔ہمیشہ کوشش
کریں کہ کسی کی دل آزاری نہ کریں،کیوں کہ آپ نہیں جانتے کہ آپ کی ایک چھوٹی
سی بات آپ کے کسی بہت پیارے کو کتنی تکلیف دے اور وہ مایوسی کی جانب قدم
بڑھا دے۔
’’اکثر ہم سنتے ہیں بول کہ لب آزاد ہیں تیرے‘‘ لیکن ایسا صرف کہنے کی حد تک
ہے ،خاموشی ایک طویل خاموشی جو آپ کو اندر ہی اندر دیمک کی طرح چاٹ رہی
ہوتی ہے ۔ایک لاوا جو اندر ہی اندر پک رہا ہوتا ہے جب ایک دم پھٹتا ہے تو
اپنے ساتھ بہت سی تباہی لاتا ہے،اور خودسوزی کی وجہ بنتا ہے۔ذرا غور کیا
جائے تو خودکشی کی وجوہات ہماری اپنی پیدا کردہ ہوتی ہیں ،ہمارا معاشرتی
رویہ اس طرف لے جاتا ہے۔ہمیں اپنے آس پاس کی خبر نہیں۔اپنے گردو نواح کی
خبر رکھیں،کیا پتہ کوئی ہمارا منتظر ہو ،جن کے لیے ہم امید کا دیا
ہوں۔زندگی کو آسان بنائیے اپنی بھی اور دوسروں کی بھی،سادگی کو اپنائیے۔
کہیں محبت میں ناکامی اس راستے پہ لے جاتی ہے تو کہیں تنہائی اور
ڈپریشن۔کہیں اداسی اس راہ پہ لے جاتی ہے ۔میرا سوال صرف اتنا سا ہے کہ کیا
اﷲ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ اس لیے دیا کہ وہ خودکو اس
طرح فنا کر دے؟ان مسائل پہ دلبرداشتہ ہو کر اپنی جان لے لے جن کا مناسب حل
نکالا جا سکتا ہے کیو ں کہ ایسا کوئی مسئلہ نہیں جس کا حل نہ ہو۔ بے شک اس
بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کچھ غم یا دکھ ایسے ہوتے ہیں جن کو لفظوں
کے پیرہن میں بیان کرنا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن ان غموں کو بھلا کر امید کی
شمع جلا کر ایک نئی منزل تو تلاش کی جا سکتی ہے نا،اور یہ قابلیت اﷲ نے ہر
انسان کو دی ہے،اس کے پاس دماغ ہے اس کی سوچ کو وسعت دی ہے۔ضروری تو نہیں
کہ ہم صرف تقلید ہی کریں کیوں ناہم سب کے لیے مشعل راہ بن جائیں،ایسے کہ جو
نئے راستوں پہ چلیں اور نئی نئی منزلیں دریافت کرلیں۔ زندگی نعمت ہے اس کی
قدر کریں،ان سے پوچھیں جو نجانے کتنی خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہیں ہر
ڈھلتا سورج ان کو زندگی سے دور کرتا جا رہا ہوتا ہے،تو کیا وہ بھی خودکشی
کر لیں ؟تاکہ اس اذیت سے نجات حاصل کر لیں۔نہیں ،وہ ایسا بالکل نہیں کرتے
۔وجہ یہ کہ وہ اپنے رب کی رضا پہ راضی ہیں۔محبت بانٹیں،پیار بانٹیں۔اس
معاشرے کو تعمیر کرنے والے ہم ہیں،یہی مقصد حیات ہے۔بہادری تو اسی میں ہے
کہ ہر طرح کے مسائل کاحالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے ،اور دیکھنے والے
پہلے تو ہنسیں گے،ڈرائیں گے اور بالآخر حیرت زدہ رہ جائیں گے۔یقین نہیں آتا
تو آزما کر دیکھ لیں ۔
|