“پاگل عشق”
کیا تم سچ میں مجھ سے بہت پیار کرتے ہو؟
“سنبل”اس انداز سے اس سے پوچھتی کہ وہ ہنسے بنا نہ رہ سکتا اور جواب دیتا
“ہر کوئی اپنی جان سے پیار کرتا ہے تو میں کونسا دوسروں سے مختلف ہوں”
جواب سن کر سنبل کو یوں لگتا کہ جیسے دنیا جہاں کی خوشیاں اسے “شاہان” کے
روپ میں مل گئی ہوں اور اسے سمجھ نہ آتی کہ اسے اسکی کس نیکی کے بدلے اتنا
پیار کرنے والا انسان ملا ہے۔۔۔
یونیورسٹی لائف کے چار سال ختم کرنے کے بعد دونوں نے گھروں میں رشتے کی بات
چلائی اور بغیر کسی مخالفت کے دونوں ازدواجی طور پر ایک دوسرے سے منسلک
ہوگئے۔۔۔
شاہان جاب پر جاتا تو سنبل بے صبری سے اسکا انتظار کرتی اور واپسی تک اسکی
راہ تکتی۔۔۔ان کی شادی کو دو سال ہو چکے تھے۔۔۔اولاد کی نعمت سے فی الحال
محروم تھے۔۔۔کئی دنوں سے سنبل محسوس کر رہی تھی کہ شاہان کسی سوچ میں گم
رہتا ہے،اُس رات اس نے باتھ روم کی کھڑکی سے اس کے رونے کی بھی واضح آواز
سنی،پوچھنے پر شاہان نے لاعلمی کا اظہار کیا اور اسے سنبل کا وہم قرار دیا۔۔۔
اکثر سنبل سے پوچھتا کہ اگر میں تم سے بچھڑ جاؤں،تمہیں چھوڑ کر کہیں چلا
جاؤں تو کیا تم میرے بغیر رہ لو گی۔۔۔سنبل کانپ کر رہ جاتی،سردی کی ایک لہر
اسے اپنی ریڑھ کی ہڈی میں چبھتی ہوئی محسوس ہوتی اور وہ بس یہ کہ پاتی کہ
“روح کے بغیر جسم ایک کھوکلی چیز کا نام ہوتا ہے،تمہارے بغیر میرا وہی حال
ہوگا “
اُس دن شاہان رات دیر سے گھر لوٹا تو اس کے ہاتھ میں ایک فائل تھی،استفسار
پر بتایا کہ آفس کا نیا پروجیکٹ ہے اُس پر کام کر رہاہوں۔۔۔
موسم کی تبدیلی کا اثر تھا شاید کہ سنبل کا گھر میں بلکل بھی جی نہ
لگتا،اسے اپنا آپ گھٹتا ہوا محسوس ہوتا،ویسے بھی پہلے کی نسبت وہ بہت کمزور
ہو گئی تھی۔۔آنکھوں کے گرد کالے ہلکے،ہونٹ مرجھائے ہوۓ اور رنگ نہایت پِیلا۔۔۔
شاہان اسکی طرف دیکھتا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آجاتے اور وہ کسی سوچ میں
گم ہوجاتا۔۔۔۔
آج رات باہر بہت تیز بارش ہورہی تھی،شاہان ٹی وی لائونج میں جبکہ وہ کمرے
میں آرام کررہی تھی۔۔اتنے میں اسے شاہان کی دردناک چیخ سنائی دی،گھبرا کر
باہر نکلی تو اس کے جیسے اوسان خطا ہوگئے اور اسے اپنا دل بیٹھتا ہوا محسوس
ہوا۔۔خون کی دو اُلٹیاں کرنے کے بعد شاہان زمین پر مدہوش پڑا تھا اور اسکا
نام پکار رہا تھا۔۔۔وہ بھاگ کر اسکے قریب پہنچی تو شاہان نے اسکا ہاتھ تھام
لیا اور کہنے لگا “مجھے معاف کردینا سنبل،تم مجھ سے پوچھا کرتی تھی کہ میں
گھر دیر سے کیوں آتا ہوں؟”..میں اپنے ڈاکٹر سے مل کر آتا تھا سنبل،مجھے
“پھیپھڑوں” کا کینسر ہے اور بیماری لاعلاج حد تک بڑھ چکی ہے..وہ رو رہا تھا
اور اس کے آنسو سنبل کی گود میں گر رہے تھے...
مجھے معاف کر دینا سنبل،اس کے اس جملے پر وہ چونک سی گئی...جس دن ڈاکٹر
مہروز نے مجھے میرے کینسر کے لاعلاج ہونے کا بتایا،میں بہت ڈر گیا
تھا..اپنے لئیے نہیں بلکہ تمہارے لیے کہ میرے بعد اس ظالم اور خودغرض
معاشرے میں تم کس طرح جی پائو گی..اس دن کے بعد سے میں ہر روز “لو پوٹانسی”
والا زہر لانے لگا اور بہانے بہانے سے تمہاری چائے میں ملادیتا..تمہاری یہ
حالت اس “سلو پوائزننگ” کی وجہ سے ہی ہے..وہ رو رہا تھا،زار قطار رو رہا
تھا،دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا اور سنبل سکتے میں آئی اسے دیکھ رہی
تھی،سنبل کو اپنے دِل کی دھڑکن صاف سنائی دے رہی تھی،اس کا سانس اُکھڑ رہا
تھا...خاموشی کو توڑتے ہوئے اُکھڑی ہوئی سانس کے ساتھ بولی “شاہان تم میرے
لیے سب کچھ ہو،تم ٹھیک کہتے ہو تمہارے بعد جی کر میں بھی کیا کرتی...
مگر ایک بار مجھے اعتماد میں تو لیا ہوتا،مجھے اپنی بیماری کا تو بتایا
ہوتا ،مجھے مہلت تو دی ہوتی کہ ہم دونوں کے پیار کی اس نشانی کے بارے میں
میں کچھ سوچ لیتی!!!
وہ چونک گیا.....ہاں شاہان،میں پیٹ سے ہوں،سوچا تھا ڈاکٹر کے اگلے وِزٹ کے
فوراً بعد تمہیں یہ خوشخبری دوں گی..زندگی نے تھوڑی سی تو مہلت دی ہوتی
کاش!!!
شاہان شاید یہ صدمہ برداشت نا کر سکا تھا کی اپنی بیوی کے ساتھ ساتھ اپنے
بچے کو بھی زہر دے کر وہ انجانے میں کتنا بڑا گناہ کر گیا تھا...
ایک ہچکی کے ساتھ روح اس کے جسم سے پرواز کر گئی تھی....
سنبل کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا چکا تھا،سلو پوائزننگ سے جمع ہوئے
ہوئے اُس زہر نے اثر کرنا شروع کر دیا تھا...تھوڑی دیر میں آخری سانس کو
رخصت کر کے شاہان کے پہلو میں اس نے بھی جان دے دی!!!
باہر بارش تھم چکی تھی...نئی صبح کا سورج تمام پیار کرنے والوں کو یہ سبق
دے رہا تھا کہ پیار ایک ساتھ جینے مرنے کا نام تو ہے ہی،ساتھ میں باہم
اعتماد اور دکھ درد بانٹنے کا نام بھی ہے.....دونوں میں سے ایک چیز کی بھی
کمی ہو تو یہی پیار “سلوپوائزننگ” بن کر ایک دوسرے کی جان لے لیتا ہے!!!! |