جب مجھے ہوش آیا تو میں اقبال سنگھ کے گھر میں اس کے بستر
پر تھا۔ اقبال سنگھ تیزی سے میری طرف بڑھا مگر میں نے نفرت سے منہ پھیر لیا
۔وہ گلوگیر لہجے میں بولا:
ویرے! آج تو وی مکھ پھیر لیتا ۔مینوں سو بابا جی دی میں اتھے نہئیں سا،
ورنہ اقبالا جان دے دیتا، تیرے پریوار تے آنچ نہ آن دیتا "
میں بے اختیار بچوں کی طرح اس کے گلے لگ کر سسک سسک کر رونے لگا ۔اچانک اس
کی بے بے کمرے میں آئی اور بولی ":
" پتر ! میں کڑیاں دا پتا لگا آئی آ، انھاں نوں تیرے باوجی کے دوست لالہ
اجیت اور اس کے بیٹے اٹھا کر لے کر گئے ہیں ۔ تیری بے بے دے ساتھ بھی ۔۔ ۔۔
"
اچانک وہ روتی ہوئی منہ پر اوڑھنی رکھ کر کمرے سے نکل گئی ۔میرے تن بدن میں
جوالہ مکھی ابل رہا تھا ۔ میں نے اقبال سنگھ سے کلہاڑی لی منہ پر کپڑا
باندھا اور ہم دونوں لالہ اجیت کی حویلی کی طرف چل پڑے ۔ ہم دیوار پھلانگ
کر اندر پہنچے اایک کمرے سے چیخوں کی آوازیں آرہی تھیں ۔ میں نے جھری سے
جھانکا تو میری آنکھیں شرم سے جھک گئیں ۔نشے میں بدمست لالہ اور اس کے پانچ
بیٹے میری دونوں بھابھیوں کو بھنبھوڑ رہے تھے ۔سکینہ کو انھوں نے ایک کونے
میں ستون سے باندھا ہوا تھا۔ ۔میں اور اقبال دروازہ کھول کر بھوکے شیر کی
طرح ان پر ٹوٹ پڑے ۔جب مجھے ہوش آیا تو میں بھی انسان سے درندہ بن چکا تھا،
میرے ہاتھوں درندوں کا ہی خون سہی مگر خون ہوچکا تھا ۔میرا یار اقبال سنگھ
میرے ساتھ اس ہولی میں شریک تھا۔ اچانک میری توجہ سکینہ کی طرف گئی جو بے
ہوش ہوچکی تھی۔ میں نے اسے اپنی پشت پر لادا اور شکیلہ اور ثریا بھابھی کی
طرف نظر دوڑائی ۔مگر وہ مجھے نظر نہیں!آئیں، میں اور اقبال سنگھ باہر کی
طرف بھاگے۔ میری شکیلہ بھابھی کنوئیں میں کود چکی تھیں، اور ثریا بھابھی
کنوئیں کی منڈیر پر کھڑی تھیں ۔میں بے اختیار ان کی طرف لپکا مگر میرے ہاتھ
میں صرف ان کی بسنتی خون آلود اوڑھنی آئی ۔میری دونوں بھابھیوں نے اپنی جان
قربان کردی۔ اقبال سنگھ مجھے خفیہ رستوں سے بچتا بچاتا لاہور کے نواحی
علاقے تک چھوڑنے آیا۔ راستے میں ہم نے ایسے ایسے ازیت ناک اور شرمناک مناظر
دیکھے کہ انسانیت اور انسانوں سے اعتبار اٹھ گیا۔ سکینہ ایک لاش کی طرح
میرے ساتھ چلتی رہی ،اسے نہ کھانے کا ہوش تھا نہ پینے کا۔ مگر اس کی اوڑھنی
اس کے سر پر جمی ہوئی تھی ۔جب اقبال سنگھ مجھ سے بچھڑنے لگا تو میرے سینے
سے لگ کر بلک بلک کر رویا اور بولا :
"ویرے ! ہوسکے تو ہمیں معاف کردینا، ریڈ کلف کی یہ لکیر درحقیقت محبتوں ہر
کھینچی گئی لکیر ہے۔ اب شاید سانجھی کبھی بھی کوئی شئے نہیں ہوگی ۔"
اقبال سنگھ واپس شام کے دھندلکے میں کھو گیا۔ میں اور سکینہ خاموشی سے
لاہور آگئے ۔سکینہ لاہور آتو گئی تھی مگر اس کی حالت بہت تیزی سے غیر ہوتی
جارہی تھی، وہ راتوں کو چیخیں مارتی میرے تو سائے سے بھی بدکتی، غم اس کو
موم کی طرح پگھلا رہا تھا۔میں اب سب کو کھونے کے بعد اس کو کھونے کا تصور
نہیں کرسکتا تھا۔ لاہور آنے کے چند دن بعد میں نے سکینہ سے نکاح کرنے کی
خواہش ظاہر کی تو اس نے گھٹی ہوئی آواز میں کہا:
میں تو ایک زندہ لاش ہوں۔ مجھے اپنا کر آپ کو کوئی خوشی نہیں ملے گئی ۔
میں نے جب اس پر زور ڈالا تو وہ صرف اتنا بولی:
میری اوڑھنی ہی سب سے پہلے بے بے ،اماں اور بھابھیوں کے سامنے تار تار کی
گئی تھی۔ آکا بھیا میرے لئے لڑتے لڑتے کٹ مرئے ۔
اتنا کہہ کر وہ اٹھنے لگی:
میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور کہا :
"سکینہ تم میرے لئے پاکیزہ تھی ،ہو اور رہوگئ ۔"
مگر سکینہ شاید یہی راز سنانے کے لیے زندہ تھی، وہ اس رات سوئی تو سوتی ہی
رہ گئی ۔میری چیخیں بھی اس کو جگانے میں ناکام رہیں ۔ اس کے جنازے کے بعد
میں نے ایک گڑھا کھود کر ثریا بھابھی کی بسنتی اوڑھنی بھی اس میں دفن کردی
۔میں روز ریلوے اسٹیشن پر مہاجرین کی مدد کے لئے جاتا ،ایک دن جب ریل گاڑی
پہنچی تو انکشاف ہوا کہ پوری گاڑی لاشوں سے بھری ہوئی تھی اس میں ایک ذی
روح باقی نہیں تھا۔ اگلے کئی روز یہ سلسلہ ایسا ہی چلتا رہا۔ ایک دن ایسی
ہی ایک ریل گاڑی میں مجھے شاہ زیب کی ماں "سکینہ " ملی ،وہ لاشوں کے ڈھیر
میں دبی ہوئی تھی۔مگر مجھے اس کا پاوں ہلتا محسوس ہوا، میری دیکھ بھال اور
علاج و معالجہ کے بعد مہینے بعد وہ بہتر ہوگئی ۔اس کے تن کے زخم بھر گئے
مگر روح کے زخم رس رہے تھے ۔جب میں نے اس کا ہاتھ مانگا تو اس نے مجھے کچھ
بتانے کی کوشش کی مگر اس کو میں نے اپنی سکینہ کی قسم دے دی۔یوں میں سکینہ
کا خاوند بن گیا۔
اس ملک "پاکستان " کے لئے ہم سب نے بے شمار قربانیاں دی ہیں ۔جب میں آج کے
بچوں کو ہندی ثقافت میں رنگتے دیکھتا ہوں تو میری آنکھوں کے آگے وہ بے شمار
بہنیں آجاتی ہیں جن کی عصمتوں کی قربانی سے یہ ملک بنا، وہ بے شمار شہید
یاد آجاتے ہیں جنھوں نے اپنے خون سے اس وطن کو سینچا ۔حاضرین محفل پر رقت
طاری تھی۔ ہر شخص کی آنکھ نم تھی۔ بارہ دری کے باہر کھڑی صوفیہ بھی آج تو
زار زار رو رہی تھی ۔
( باقی آئندہ )☆☆
|