ہر سال ماہ ذوالحجہ میں مسلمان حج کے لئے جاتے ہیں یہ وہ
عبادت ہے جس میں اﷲ ان حاجیوں کے تمام زندگی کے گناہ کو معاف کردیتا ہے جن
کا حج قبول ہوتا ہے ۔گویا ابھی ابھی ماں کے شکم سے پیدا ہوا ہو۔اس حج میں
کعبہ اﷲ کا طواف بھی ہے حجراسود کا بوسہ بھی۔صفا اور مروہ کی سعی بھی ہے
اور عرفات ،منیٰ اور مزدلفہ میں قیام الیل بھی ہے۔شیطان کو کنکریاں یعنی
رجیم بھی کیا جاتا ہے۔اس سارے عمل کو انجام دینا ہی عبادت ہے۔عبادت وہی ہے
جو صرف اور صرف اﷲ تعالیٰ کے لئے کی جائے۔اسی میں سب سے اہم کام یہ بھی ہے
کہ جانور کی قربانی دی جائے۔یہ عمل حج کا رکن ہے یہ سارے حاجیوں کو انجام
دینا ہوتا ہے۔مگر اﷲ تعالیٰ نے یہ سارے مسلمانوں پر واجب کردیا یعنی عید
الاضحٰ میں دس ذوالحجہ کو پوری دنیا کے مسلمان جانور کی قربانی دیتے
ہیں۔اگر ہم زرا غور کریں تو حج کے اعمال میں طواف کرنا جو سنّت انبیاء ہے
پھر حجر اسود کو بوسہ دینا یہ بھی سنّت انبیاء ہے۔پھر صفااور مروہ میں سعی
کرنا یعنی دوڑ لگانا یہ سنّت انبیاء نہیں بلکہ مادر نبی جناب حاجرہ کی سنّت
ہے۔ جو اپنے بچے اسماعیل ؑ شیر خوار کو خانہ کعبہ کے پاس لیٹا کر صفا سے
مروہ اور مروہ سے صفا کیطرف دوڑتی تھیں تاکہ کہیں پانی نظر آجائے اور اﷲ نے
اس نبی جو اسماعیل ؑ تھے شیر خوار تھے بے تابی پیاسی کی و جہ سے ایڑیاں رگڑ
رہے تھے اﷲ نے اسی ایڑی کے نیچے سے پانی جاری کیا جو مسلسل بہہ رہا تھا
یہاں تک کے جناب حجرہ نے اس پانی کو کہا زم زم یعنی ائے بہتے ہوئے پانی رک
جا۔وہ تھم گیا ۔زم زم کے معنی ہیں تھم تھم ۔آج تک وہ پانی جاری ہے اور زم
زم کے نام سے ہے۔ان عبادت کا فلسفہ یہ ہے کے جب اﷲ تعالیٰ کو کسی کا عمل
پسند آجائے اور اسکا تعلق معصوم سے ہو تو اسکو یادگار بنا دیتا ہے اور اسکو
عبادت کا درجہ دیتا ہے اس حج میں سارا عمل جناب حاجرہ ،جناب اسماعیلؑ اور
جناب ابراہیم ؑکا ہے۔جب جناب ابراہیم ؑنے خواب دیکھا کہ وہ اپنے لخت جگر
جناب اسماعیلؑ کو جو تقریباً 11سال کے تھے ذبح کر رہے ہیں تو یہ خواب انہوں
نے جناب اسماعیلؑ کو بیان کیا تو جناب اسماعیلؑ جو خود بھی نبی تھے کہا
بابا آپ اﷲ کے اس حکم کی تعمیل کریں اور مجھے آپ صابرین میں پائیں گے جناب
ابراہیم ؑجناب اسماعیلؑ کو لیکر منیٰ کیطرف جا رہے تھے تو شیطان نے جناب
ابراہیم ؑ کو ورغلانا شروع کیا کہ آپ ایک خواب کو حکم الٰہی سمجھ رہے ہیں
تو جناب ابراہیم ؑ نے اسے کنکر مارا وہ چلا گیا پھر وہ جناب اسماعیل ؑ کو
ورغلانے لگا کہ تمہیں ذبح کرنے جارہے ہیں تو اسماعیل ؑنے بھی اس شیطان کو
پتھر مار کر بھگا دیا۔ پھر وہ جناب حاجرہ کے پاس آیا کہا تم کیسی ماں
ابراہیم ؑاسمائیل کو ذبح کرنے جا رہے ہیں تو جناب حاجرہ نے سوچا ابراہیم ؑ
تو نبی اﷲ رسول اﷲ ہیں ان کا ہر عمل عین حکم الٰہی ہوگا یہ شیطان ہے جو
مجھے ورغلانے آیا ہے اسلئے انہوں نے بھی اسے کنکر مار کر بھگا دیا آج جب
حاجی ارکان حج ادا کرتا ہے تو اسے تین شیطانوں کو کنکریاں مارنی ہوتی ہیں ۔بڑا
،چھوٹا اور منجھلا۔یہ بھی حج کا فریضہ ہے۔حالانکہ وہاں شیطان نہیں ہے بلکہ
ابلیس سے منصوب تین مینار ہیں حجاج اس پر کنکریاں مارتے ہیں۔اس طرح حج کے
ارکان پر غور کریں تو سمجھ میں اجاتا ہے کے اللّٰہ نے خود یہ اصول دیا اگر
اصل یعنی شیطان نہ ہو تو اسکی نیشانی بنا سکتے ہو۔اسی طرح حجر اسود کو بوسہ
دینا اطاعت خدا کا عمل ہے یعنی اﷲ جسکی عزت اور توقیر و عظمت عطا کرے اسکو
منانا لازم ہے چاہے وہ پتھر ہی کیوں نہ ہو۔صفا اور مروہ پر دوڑنا جناب
ہاجرہ کی تاسی ہے جو نہ نبی تھیں نہ معصومہ مگر مادر معصوم تھیں اس پر عمل
کرنا بھی ان کی عظمت اور توقیر کو دل سے ماننا ہے اسی طرح جناب ابراہیم ؑ
نے جب اپنے لخت جگر جناب اسماعیلؑ کو ذبح کرنے کے لئے منیٰ کے میدان میں
لیٹایا اور اپنی انکھ پر پٹی باندھ کر چھری گردن پر پھیری جسکا ہلکا سا
نشان بھی گردن پر اگیا مگر جب ذبح کر کے اپنی پٹی کھولی تو دیکھا اسماعیلؑ
کی جگہ دنبہ ذبح پڑا ہے اور اسماعیل ؑ ایک طرف صحیح و سلامت کھڑے ہیں تو
جناب ابراہیم ؑنے اﷲ سے گڑ گڑا کر مناجات کی پروردگار تو نے میری قربانی کو
کیوں قبول نہ کی تو نداآئی ہم نے اس فدیہ کو عظیم فدیہ میں بدل دیا۔یعنی
ابراہیم ؑ تم نے میرے حکم کی تعمیل میں کوئی کثر نہ چھوڑی مگر میں نے اپنے
دین کی بقا کے لئے اس قربانی کو عظیم قربانی میں بدل دیا ہے۔اور اﷲ تعالیٰ
نے جناب ابراہیم ؑ سے کئی امتحانات لئے جس میں نارِ نمرود میں اکر بیٹھ
جانا اور جناب اسماعیل ؑ کو صرف خواب کے نتیجہ میں ذبح کرنا اور جب جناب
ابراہیم ؑ نے سارے امتحان میں سو فیصد کامیابی حاصل کرلی تو حکم ہوا ـ ’انی
جاعلک للناس اماماً‘ ہم نے تمہیں لوگوں کا امام مقرر کردیا ۔اﷲ نے جب
ابراہیم ؑ کو نبی بنایا رسول بنایا تو کوئی امتحان نہیں لیا مگر جب امام
بنایا تو امتحان لیا کیونکہ نبی مادر شکم میں بھی نبی ہوتا ہے۔جیسا کہ جناب
عیسیٰ ؑ ابن مریم گہوارے میں اپنی گواہی خود دے رہے میں اﷲ کا بندہ ہوں
مجھے اﷲ نے نبی قرار دیا اور مجھے کتاب عطا کی اسلئے نبی معصوم بھی ہوتا ہے
اور علم لدنی لیکرآتا ہے دنیا میں اکر نہیں پڑھتا ۔نبی کا پاک ہونا نبی کا
معصوم ہونا نبی کا ھلم ہونا قرآن سے ثابت ہے۔چونکہ شکم مادر میں بھی نبی
ہوتا ہے یعنی پاک ہوتا ہے تو لازمی ہے وہ شکم بھی پاک ہو۔اسی لئے کسی نبی
کے ماں اور باپ کافر یا مشرک نہیں ہوتے کیونکہ کافر اور مشرک نجس ہوتا ہے
اﷲ اپنے پاک و پاکیزہ نبی کو نجس شکم میں نہیں رکھتا ۔اسی لئے جناب محمد
مصطفیٰﷺ نے فرمایا ہم پاک صلبوں سے پاک رحموں کیطرف سفر کرتے رہے۔تو جب
ابراہیم ؑ کو امامت ملی تو اپنے کہا مِن زریتی مطلب تھا کیا یہ امامت میری
اولاد کو بھی ملے گی تو اﷲ نے فرمایا ان میں جو ظالم ہوں گے انکو نہیں ملے
گی۔اور یہ اصول قرار پایا جو ظالم ہوگا وہ اﷲ کا بنایا ہوا حاکم نہ ہوگا
اور سب سے بڑا ظلم شرک ہے۔جس نے ایک لمحہ کے لئے بھی شرک کیا وہ امامت و
خلافت کے استحقاق سے ہمیشہ کے لئے محروم ہوگیا ۔ہمیں قرآن نے بار بار یہ
توجہ دلائی کہ خوب غور کیا کرو جو کچھ پڑہو ۔یہ قرآن وہ ہے جس میں ہر خشک و
تر ہے۔اسمیں قصص ہوں یا امثال یہ سب دین کے اصولوں کو سمجھانے کے لئے ہیں ۔
اور جتنی حدیثیں حضور اکرم محمد مصطفیٰﷺ نے بیان کی وہ سب اس قرآن کی روشنی
میں ہیں کوئی حدیث اﷲ کے کلام کے مخالف نہیں ہے۔یہ مشہور حدیث ہے حسینؑ منی
وانامن الحسینؑ۔حسینؑ مجھ سے ہے اور میں حسینؑ سے ہوں۔ اسمیں غور کریں تو
یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ کوئی نانا یہ کہے کہ یہ میرا نواسہ مجھ سے ہے
کیونکہ میرے وجود سے بیٹی کا وجود اور بیٹی کے وجود سے میرے نواسہ کا وجود
مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ آپ ؐنے فرمایا ’اور میں اس سے ہوں‘۔یہی وہ
حکیمانہ بات ہے جس کو سمجھنا ضروری ہے۔ جناب اسماعیلؑ جب ذبح کئے جا رہے
تھے جو عالم ارواح میں روح حسینؑ ابن علیؑ نے بلند ہو کر یہ وعدہ کیا جب
کبھی اﷲ کے دین پر مصیبت کا وقت آیا یعنی دین میں ملاوٹ ہوئی جیسے شریعت
ابراہیم ؑاور موسیٰ ؑو عیسیٰ ؑ میں تبدیلی ہوتی رہی اور حقیقی دین نہ رہا
تو اسی طرح ایک وقت آئے گا دین محمدیﷺ شریعت محمدی ﷺ کو بھی منح کیا جائے
گاحلال کو حرام اور حرام کو حلال کیا جائے گا تو اس وقت اس دین کی بقا کے
لئے ایسی ہی قربانی کی ضرورت ہوگی جیسی قربانی جناب اسماعیل ؑ نے دینی
چاہی۔تو جب حسینؑ ابن علیؑ نے وعدہ کر لیا میں قربانی دونگا چاہے مجھے اپنے
ساتھ اپنی آل و اولاد اپنے عزیز و اقارب اپنے اصحاب باوفا کی قربانی دینی
پڑے ۔تواﷲ نے جناب اسماعیلؑ کی جگہ دنبہ بھیج دیا اور اسماعیلؑ بچ گئے۔اور
جناب رسول خدا ﷺ ہوں یا علی ابن ابی طالب کرم اﷲ وجہ ہوں جناب فاطمہ زہرا ؑ
ہوں یا حسن مجتبیٰ ؑہوں یا حسین ؑبن علی مرتضیٰ ؑ ہوں یہ سب جناب ابراہیم ؑکے
صلب سے جناب اسماعیلؑ کے صلب میں منتقل ہوئے تھے۔اگر جناب اسماعیلؑ ذبح
ہوجاتے تو یہ سلسلہ صلب اظہار رک جاتا۔اسی لئے جناب رسول اﷲ ﷺ نے کہا حسین
ؑمنی و انا من الحسین ؑ اور اس حدیث مبارکہ کا یہ بھی مطلب ہے جو کچھ میری
سیرت طیبہ تھی حسینؑ بھی اس سیرت طیبہ کا عملی نمونہ ہے اور جب میں نہ ہوں
تو حسینؑ ابن علیؑ کا ہر عمل میری سیرت کا عمل قرار پائے گا ۔ اسی وجہ سے
امام حسینؑ ابن علیؑ کی اطاعت ہم پر واجب ہے ۔ اطعیواﷲ، اطعیوالرسول ﷺ کے
واولل امر کا حکم ہے قرآن حکیم میں اﷲ کی اطاعت اسکے رسول ﷺ کی اطاعت کے
بعد ان کی اطاعت کرو جنہیں اولل امر قرار دیا۔ہر امام اولل امر ہے ہر زمانے
میں ایک امام ضرور رہا ہے۔اسلئے قرآن میں یہ حکم ہے ’ہم ایک دن سب کو ان کے
امام کے ساتھ بلائیں گے‘۔اُمت اور امام کا چولی اور دامن کا ساتھ ہے بس
خیال یہ رکھنا حقیقی امام وہ ہے جسے ا ﷲ تعالیٰ نے خود منتخب کیا ہو۔کیونکہ
اسکا منتخب کیا ہوا معصوم بھی ہوگا، علم لدنی والا بھی ہوگا، جنت کا مالک
بھی ہوگا۔ اسی بنیاد پر دنیا بھر کے مسلمان واقعہ کربلا کی یاد مناتے ہیں۔
جسطرح جناب اسماعیلؑ ذبح ہونے سے بچ گئے توخوشی منائی جاتی ہے اسی طرح رسول
خد ا ﷺ کے نواسہ حسین ؑابن علیؑ ذبح ہوگئے تو غم منایا جاتا ہے۔ |