بابا منّے کچھ نی کیا۔ بھگوان کے لیے مجھے یہاں سے نکال
بابا۔اپنے اللہ سے بول نا بابا کہ منّے نکالے یہاں سے۔ دادا جی جیسے ہی اسے
ملنے آۓ وہ انہیں دیکھتے ہی شروع ہو گیا
تیں فکر نہ کر پتری۔ میں تھاری ضمانت کی کوشش کر رہیا ہوں۔ تیں آ جے گا
باہر جلدی۔ دادا جی نے اسے تسلی دیتے ہوۓ کہا
ضمانت؟؟ نہ بابا۔ منّے قتل نی کیا بابا۔ میرا کوٸ قصور نی۔ جد منّے کچھ کیا
ای کونی فیر میں ضمانت کیوں کراٶں بابا؟ اِیسے تو ساری دنیا منّے ای قاتل
سمجھے گی۔ لوگ سمجھیں گے منّے قتل کر کے سزا سے بچنے کے واسطے ضمانت کرا
لی۔ نہ بابا تیں میرا کیس لڑ۔ فیر جیت کر لے کے جا منّے۔ وہ ضمانت کے نام
پہ پریشان ہو کر بولا
کیس؟ نہ پتری تیں نی جانتا اِن سیاسی لوگاں نَے۔ یو سب بوہت خود غرض ہوویں
ہیں پتری۔ اپنے مخالف نَے نیوں چٹکیوں میں ملزم سے مجرم ثابت کر دیویں ہیں۔
دادا جی کو اس بات سن کے دھچکا لگا
ملزم سے مجرم تو تیں بھی ثابت کردے گا بابا۔ میری ضمانت کرا کے۔ وہ کچھ
ایسا غلط بھی نہیں کہہ رہا تھا کیونکہ یہی ہوتا آیا ہے ہمیشہ سے کہ جس نے
ضمانت کروالی وہ سب کی نظروں میں مشکوک ہو گیا
سوچ لے پتری۔ کیس لمبا ہو گیا تو تیں رہ لے گی ادھر؟ دادا جی نے آخری بار
اسے پوچھا
سوچ لیا بابا۔ تیں وکیل سے بات کر۔ وہ اتنا کہہ کر مڑنے ہی والا تھا کہ
دادا جی نے آواز دے کر روک لیا
رک پتری۔ یو پکڑ۔ یو دعا ہے۔ ایک دن میں ایک ہزار بار پڑھنا۔ اللہ تیری
مشکل آسان کرے گا تنّے غیب سے مدد دے گا۔ دادا جی نے اسے ایک پرچہ تھماتے
ہوۓ کہا
تیں پڑھا دے بابا۔ میں خود سے کیونکر پڑھ سکوں گا۔ تیں جانتا ہےکہ میں
مسلمان نی۔ اس نے پرچہ واپس تھماتے ہوۓ کہا جسے دادا جی نے تھام کر اسے
پڑھانا شروع کر دیا
حسبنا اللہِ ونعم الوکیل ونعم المولٰی ونعم النصیر۔ دادا جی نے پہلی دو بار
اسے تھوڑی تھوڑی اور تیسری بار پوری پڑھاٸ۔ پڑھنے کے بعد اس نے ہاتھ اٹھاۓ
اور آنکھیں بند کیے دعا مانگنے لگا۔ دادا جی اسے بہت غور سے دیکھ رہے تھے
تیں جا اِب بابا۔ منّے دعا پڑھ لی۔ اس نے چہرے پر ہاتھ پھیر کر کہا
پر پتری یو تو ایک ہزار مرتبہ پڑھنی تھی۔ تنّے تو ٹھیک سے بس ایک بار ای
پڑھی ہے۔ دادا جی نے اسے پھر سے پرچہ تھمانا چاہا
ایک بات تو بتا بابا؟ اس نے پرچہ واپس دادا جی کی ہتھیلی پہ رکھتے ہوۓ کہا
پچھ پتری۔ دادا جی ہمہ تن گوش تھے
کیہہ اللہ بس اس کی دعا سنتا ہے جو اسے گن گن کے یاد کرے؟ وہ آنکھوں میں
آنکھیں ڈال کر سوال کر رہا تھا
نہ پتری۔ یو کِیسی بات کر دی تنّے۔ اللہ اپنے ذکر سے خوش ضرور ہوتا ہے مگر
حساب نہیں رکھتا۔ دادا جی نے بے چین ہو کر جواب دیا انہیں ڈر ہو گیا کہ
کہیں وہ مذہب سے بدگمان ہی نہ ہو جاۓ
تیں خود ای تو بولے تھا بابا کہ اللہ تو بات سنتا ہے اور نیت دیکھتا ہے۔
منےّ تواللہ سے اپنی بات کہہ دی اور میرا دل بولے ہے کہ اللہ نے میری نیت
دیکھ لی اِب سمجھو بات سن لی۔ وہ اپنی بات کہہ کر تسلی سے ایک کونے میں جا
کر بیٹھ گیا
پڑھ لیتا چھوکرے وظیفہ تھا شاید یہ ہی تمہیں بچا جاتا۔ ورنہ تو تو بچنے کا
نہیں۔ ایک کانسٹیبل جو ان دونوں کی باتیں سن رہا تھا دادا جی کے جانے کے
بعد بولا
اس سے پہلے کہ وہ کوٸ جواب دیتا انسپیکٹر صاحب تشریف لے آۓ۔ کانسٹیبل انہیں
سلیوٹ کرتا ہوا ایک طرف کھڑا ہو گیا
بہت اکڑ ہے بھی تیرے میں۔تو تو کسی کی بات ہی نہیں مانتا۔ ویسے تو مجھے اس
بات سے کوٸ غرض نہیں کہ تو کیا کرتا ہے کیا نہیں پر تیری اکڑ دیکھ کر سوچا
تجھے سمجھا ہی دوں۔ دیکھ میں بھی مسلمان ہوں۔ دعا تو دعا ہے ایک بار کیا
اور ایک ہزار بار کیا۔ ہزار بار پڑھ لینے سے تیری شان میں کوٸ گھاٹا نہیں
پڑنے والا۔ انسپیکٹر صاحب نےتھوڑا غصہ دکھایا
اللہ گِن گِن کے یاد کرنے والوں کا دوست نہیں بنتا۔ جو دل سے اسے یاد کریں
ان کا بنتا ہے۔ چاہے وہ صرف ایک بار ہی کیوں نہ یاد کریں کم سے کم ان کے
یاد کرنے میں خالص پن تو ہوتا ہے۔ اسے گنتی سے کوٸ غرض نہیں کیونکہ گنتی
انسان کی خاصیت ہے۔ اسے تو صرف نیت سے غرض ہے کیونکہ یہ صرف اسی کا وصف ہے۔
وہ اپنی بات مکمل کر کے اپنے مخصوص کونے میں جا کر بیٹھ گیا۔ اسے سر جھکا
کر بیٹھے جانے کتنی ہی دیر ہو چکی تھی کہ اچانک تھانے میں ہلچل مچ گٸ۔ کچھ
ہی دیر میں انسپیکٹر صاحب چند لوگوں کو ساتھ لیے تھانے کا وزٹ کرواتے نظر
آۓ۔ وہ ایک نظر انہیں دیکھ کر دوبارہ اسی پوزیشن میں بیٹھ گیا
اور یہ سندیپ ہے میڈم امیشا پاٹیل کو قتل کرنے کی کوشش میں ناکامی پر اندر
آیا ہے۔ انسپیکٹر صاحب سب قیدیوں کا تعارف کرواتے کرواتے اس تک بھی آۓ۔ وہ
ایک کونے میں سر جھکاۓ بیٹھا تھا۔ ایک وہ تھا کہ جس نے ان کے قریب آنے پر
بھی نظر اٹھا کے دیکھنے کی زحمت تک نہ کی اور ایک وہ تھی جس کی اس پر سے
نظر ہی نہ ہٹ رہی تھی۔
ایکسکیوز می۔ وہ اسے مخاطب کر رہی تھی لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوا
میں علیزے سہگل۔
آجکل قیدیوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کر رہی ہوں۔
اپنی ذاتی این جی او چلاتی ہوں۔ وہ ایک بات کہہ کر تھوڑی دیر کو خاموش ہو
جاتی کہ شاید وہ اب ہی کوٸ جواب دے دے لیکن جواب نہ پا کر پھر سے بولنے لگ
جاتی
میں بے گناہ قیدیوں کی رہاٸ کے کے لیے بھی کام کرتی ہوں۔ جب سے اس نے اسے
دیکھا تھا تب سے جانے کیوں اس کا دل کہہ رہا تھا کہ وہ بے گناہ ہے
چھوڑیں میڈم اس سے سر کھپانے کی کوٸ ضرورت نہیں۔ یہ تو سر پھرا سا ہے۔ بڑی
اکڑ ہے اس میں۔یہ نہیں جواب دے گا۔ انسپیکٹر صاحب اسے وہاں سے چلنے کا کہہ
رہے تھے لیکن اس کا دل تھا کہ ایک ہی ضد پہ اڑا تھا
خدا جانے اس کا دل کیوں بے چین ہو رہا تھا کہ وہ ایک بار ہی سہی نظر اٹھا
کے اسے دیکھے تو سہی۔ ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ اس کے دل نے ایسی خواہش کی
تھی۔ وہ بہت دیر تک اس کے نظر اٹھا کر دیکھنے کا انتظار کرتی رہی مگر وہ
اپنی جگہ سے نہ ہلا۔ بالآخر وہ مایوس ہو کر چل واپس مڑ گٸ
|