اوڑھنی(آخری قسط )۔

آج لاہور کے مشہور پروڈکشن ہاوس کے توسط سے "اوڑھنی " نام کا ڈرامہ براڈکاسٹ ہورہا تھا۔ زمانے کے بعد بازاروں میں ہو کا عالم تھا ۔لوگوں کو وہ زمانہ یاد آگیا تھا جب پی ٹی وی کے ڈرامے براڈ کاسٹ ہونے پر سب کام رک جاتے تھے۔ اس ڈرامہ کی خاص بات یہ تھی کہ اس کے سارے کردار عام گھروں کے لوگ تھے۔ علیشاہ، ہاشم ،سویرا اور تنویر بھی اس ڈرامے کے ایکٹرز میں شامل تھے۔
آج جب ڈرامہ آن ائر ہوا تو تنویر کی آنکھیں آنسوؤں سے دھندلا گئیں ۔اس نے ٹی وی لاونج پر نظر دوڑائی ۔اس کی بہو صوفیہ نفیس سے شلوار قمیض میں ملبوس سر پر اوڑھنی اوڑھے ۔انتہائی باوقار لگ رہی تھی ۔شاہ زیب کے چہرے پر زمانے کے بعد طمانیت طاری تھی۔اس کے اردگرد سب لڑکے کرتے شلوار پہنے ہوئے، لڑکیاں اپنے سر آنچل سے ڈھکے ہوئے انتہائی دیدہ زیب لگ رہی تھیں ۔ آپس میں گفتگو دھیمی آواز میں اردو زبان میں ہورہی تھی ۔
ڈرامہ کے اختتام پر صوفیہ اس کے قریب آئی اور ہولے سے بولی:
اباجی ہم مغربی معاشرے اور ہندوستان کے چمکتے دمکتے کلچر سے متاثر ہوکر ایک عجب دوڑ میں بھاگ رہے تھے۔ آپ نے ہمیں اس دوڑ سے نکال کر حقیقت کا آئینہ دکھایا ۔انشاءاللہ ہم لوگ آپ کی قربانیوں کی نہ صرف قدر کرینگے، بلکہ آنے والی نسلوں کو ان قربانیوں سے آگاہ بھی کرینگے۔
شاہ زیب نے طمانیت سے مسکرا کر اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور اس کو سدا سہاگن رہنے کی دعا دی۔
صبح کا اخبار "اوڑھنی " کے بارے میں تبصرے سے بھرا ہوا تھا۔ ہر اخبار اور رسالہ آزادی کے مجاہدین کو خراج تحسین پیش کررہا تھا ۔ہر زبان پر یہ عزم تھا کہ پاکستان میں مسلم ثقافت اور تہذیب و تمدن کو ہی پروان چڑھایا جائے گا۔شاہ زیب اور ہاشم بھاگے بھاگے تنویر کے کمرے میں داخل ہوئے تاکہ اس کو اس کی کامیابی سے آگاہ کریں ۔آج تنویر کے کمرے کے پردے ابھی تک آگے تھے ۔شاہ زیب کو بہت تعجب ہوا کہ آج کیا تنویر نماز فجر کے لئے بھی نہیں اٹھا۔ اس نے بے اختیار ہی تنویر کو ہاتھ لگایا۔ تنویر کا جسم ٹھنڈا تھا ،مگر اس کے لبوں پر ایک دلآویز سی مسکراہٹ تھی۔ آزادی کا مجاہد اپنی کہانی اگلی نسل کو سنا کر سکون سے اگلے جہان جا چکا تھا ۔جہاں دونوں سکینہ اس کا برسوں سے انتظار کرررہی تھیں ۔
تنویر کا جنازہ اس شان سے اٹھا کہ شاید ہی کسی کا اتنا بڑا جنازے کا مجمع دیکھا گیا ہوا۔ آج ہر جوان، بچے ،بوڑھے، مرد و عورت کی آنکھوں میں اشکوں کا دریا تھا۔تنویر کو اس کے بچھڑے ہوئے پیار کے برابر عزت و تکریم سے دفن کردیا گیا ۔
میرا آپ لوگوں سے صرف ایک ہی سوال ہے ۔خدارا دوسری ثقافتوں کو اپنانے کی کوشش میں آپ اپنا اثاثہ بھی کھو دیتے ہیں ۔یہ ملک پاکستان بے شمار گمنام شہیدوں کی لاشوں پر حاصل کیا گیا ہے ۔یہ ملک ہمارا ہے خدارا اس کو سبز بنادیجئے ۔اس کی ثقافت، تہذیب و تمدن، زبان،معاشرت،ماحول،معاشیات ہر چیز کی حفاظت کیجئے ۔للہ جاگ جائیں ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ روز قیامت شہیدوں کا ہاتھ ہمارے دامنوں پر ہو۔
 

Mona Shehzad
About the Author: Mona Shehzad Read More Articles by Mona Shehzad: 168 Articles with 262944 views I used to write with my maiden name during my student life. After marriage we came to Canada, I got occupied in making and bringing up of my family. .. View More