ہمارے پیارے ملک کی طرح آزادکشمیر میں مذہب ‘ سیاست ‘
صحافت ‘ تعلیم ‘ صحت سمیت سب ہی شعبہ جات میں سرمایہ خودنمائی اور شارٹ کٹ
انفرادی مفادات کے رحجان نے ایسا جال بچھایا ہوا ہے جس کے چنگل میں سب بُری
طرح پھنسے ہیں ملک ملت اجتماعیت کا شور مچایا جاتا ہے اور فیصلوں کے وقت
نجی مفادات کے لیے بغیر سجدے کے اپنی زبان و عمل سے پاؤں میں پڑ جاتے ہیں
سوشل میڈیا سمیت گھروں ‘ دکانوں ‘ دفاتر ‘ تھڑوں ‘ہوٹلز پر بیٹھ کر لعن طعن
اور فنے خانی میں کہرام برپا کیا جاتا ہے تحریک کشمیر سمیت ہر ایشو پر
اُٹھنے بیٹھنے کھڑے ہونے اور جملوں لفظوں سے لیکر زرہ زرہ سی بات پر بال کی
کھال اُدھیڑی جاتی ہے جیسے پیغمبروں کے بعد یہی پاک صاف اور مسیحا کے ثانی
ہیں مگر سب ہی شعبہ جات میں ایسے تھر تھلی ڈالتے رویے عملاً نوکری تبادلے
سکیم چیک سمیت ہر وہ کام جو اخلاقیات قانوناً نہیں ہو سکتے اس کے لیے سب
اجتماعیت ‘ اخلاص ‘ انقلابی آواز بھول کر سارا زور لگا دیتے ہیں کشمیر سمیت
ہر اجتماعی معاملے پر باہر نکل کر حصہ ڈالنے کی باری آ جائے ضروری کام یاد
آ جاتے ہیں جن کے باعث نظریاتی ہوں یا مذہبی ہوں سب ہی بدنام ہو چکے ہیں یہ
سماج میں رہتے ہوئے سماجی ناانصافی کا وہ طرز عمل ہے جس کے باعث 8 اکتوبر
2005 کے حالات نے قیامت خیزی کے نظارے دکھائے اور معصوم و نیک شہادتوں کی
نوری برکات سے پہلے سے سو گنا زیادہ تعمیری ترقی کے باب رقم ہوئے مگر قبروں
کی جگہ پر لڑائیوں سے لیکر اجتماعیت کو انفرادی مفادات پر قربان کرنے کے
ناشکری کے طرز عمل نے آج پھر مظفر آبا د کو نئی آزمائش سے دوچار کر دیا ہے
اگر قیامت خیز زلزلے کے بعد پہلے سے بڑھ کر شاندار تعمیرات کا عمل ہو سکتا
ہے تو نیلم جہلم پراجیکٹ کی تعمیر کے آغاز کے ساتھ ہی متبادلہ ماحولیات
پانی ‘ سیوریج سمیت ضروریات کے متعلق منصوبہ جات پر کام شروع کر دیا جاتا
تو آج یہ وقت نہیں آتا جس کے خوف سے شور مچایا جا رہا ہے مگر اس کے ساتھ
حقیقت پسندانہ دلیل حقائق کے ساتھ شعوری بیداری یکجہتی کا فقدان مخلصانہ
کام اور اقدامات کے لیے جدوجہد کے کرداروں کیلئے بھی مسائل کا سبب بنتی جا
رہی ہے جس میں ایسے انفرادی فنے خان جس کے ساتھ چار افراد نہیں چلتے ہیں
اور گند پر بیٹھنے والی مکھی کی طرح ہر مسئلہ پر زخم سمجھ کر نفرت حقارت کے
تیر چلا کر واہ واہ کرا رہے ہیں مگر عمل دلیل حقائق کے سچ کو نقصان پہنچاتے
آ رہے ہیں ماضی میں ایک بڑی شخصیت کو بڑے منصب کے لیے نامزد کر کے آخری
لمحہ میں ان کا نام واپس ہوا تو چالیس پچاس لوگ ان کے گھر جا کر شور مچا کر
واپس پیلس ہوٹل میں جمع گالیاں نکال رہے تھے ان کو کہا باہر نکل کر احتجاج
کرو تو کھیسانی بلی کی طرح کہا ہمیں بڑی شخصیت نے منع کر دیا ہے یعنی صرف
منہ پر بیٹھ کر رونا اور باہر باقی سب کو راضی رکھنے کے لیے بے حسی کا
الزام دوسروں پر ڈال کر سو جاناوطیرہ بن چکا ہے گھر کے سربراہ کو نقصان ہو
تو اس نے اولاد کو گرما گرمی سے منع کرنا ہے ہر اولاد کاکام ہے وہ اپنے
ضمیر کوحرکت میں لائے جس طرح انفرادی معاملے میں شیر بن کر اسلام نظریہ
اُصول قانون سب کچھ بھلا دیا جاتا ہے ‘اجتماعی معاملے میں بھی کاندھے سے
کاندھا ملاتے ہوئے مکھی مچھروں سے ہوشیار ہو کر عوامی جماعتوں قیادت کو
طاقت فراہم کی جائے اور ملک ملت کو طعنے دینے کے بجائے باشعور شہری کی طرح
ایشو پر حق اُصول کی بنیاد پر اپنا نقطہ نظر مہذب انداز میں اتحاد یکجہتی
کی برکت سے منوائیں ووٹ دیکر اگلے شخص کو سارے بوجھ میں دبا دینے کا نام
شعور جرات نہیں ہے یہ اچھی بات ہے وزیراعظم فاروق حیدر نے وزیراعظم معائینہ
و عملدرآمد کمیشن کا چیئرمین زلزلے کے پہلے دِن سے لیکر اب تک خود کو
سرزمین مظفر خان کی خدمت کے لیے وقف رکھنے والے زاہد امین کو بنایا ہے جن
کی جرات ‘ ریاضت ‘ تجربہ ‘ صلاحیتیں اپنی بات کرنے اور کام کرانے کے حوالے
سے مصلحت مجبوری مفاد سے بالاتر ہے گو کہ یہ وقت آزمائش ہے مگر چیئرمین ایم
ڈی اے ملک ایاز ‘ ایڈمنسٹریٹر بلدیہ خواجہ اعظم رسول سمیت شہری اداروں اس
سے متعلق محکموں کے حکام ملکر ایک ٹیم کی طرح درپیش ایشوز کے حل کیلئے ٹاسک
مقرر کر کے کام کریں گے تو انقلاب آنا تو ممکن نہیں تاہم انقلاب کیلئے یعنی
محفوظ خوبصورت چہرے اور خدوخال والا دارالحکومت مظفر آباد کی بنیادیں رکھ
کر آج کے نونہانوں کو جو ان ہونے سے پہلے ماضی سے زیادہ اچھا انتظام یقینی
ہو جائے گا جو یقیناًوزیرتعلیم بیرسٹر افتخار گیلانی بشمول ڈویژن مظفرآباد
سے کابینہ میں شامل وزراء بلخصوص وزیراعظم فاروق حیدر کے اعتماد و اہداف کا
تقاضا ہے۔ان کے لیے آسانیاں اور نیک نامی ہموار کرنے میں شبانہ روز محنت
کرتے ہوئے تمام صلاحیتیں بروئے کار لائی جائیں۔ |